اردو میں تانیثیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-02

اردو میں تانیثیت

feminism-in-urdu

تانیثیت ایک ہمہ جہت تصور و تحریک ہے، جس کا تعلق عصر حاضر کے تقریباً تمام شعبہ حیات وعلوم یعنی ادب تاریخ، تنقید،سائنس وتکنالوجی ، کلچر،سیاست اقتصادیات، سماجیات تعلیم، نصابات اور تحقیقی وفکری اداروں سے ہے۔
آج ہر شعبہ حیات تانیثی ڈسکورس کا کا حصہ بن چکا ہے۔ تانیثیت کا تصور عورتوں کے ذریعہ خود اپنے تشخص کی تلاش ،اپنے وجود کے آزادانہ اظہار اور مرد اساس معاشرے کے تمام تر اقدار و معیار پر سوالیہ نشان لگانے کے ساتھ ساتھ نئے اقدار و معیار کی تشکیل و تعمیر کی جہتوں کو واکرنے سے عبارت ہے۔
تانیثیت کے رجحان کے ابتدائی نقوش مغرب میں ۱۸۵۰ء کے آس پاس ابھرنے شروع ہوئے۔ بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس کے مراکز تھے۔ لیکن ان ابتدائی نقوش کو نمایاں طور پر متشکل ہونے میں کم وبیش ایک صدی کا عرصہ لگا۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک آتے آتے تانیثیت کے تصور نے پوری دنیا میں نہ صرف اپنی مستحکم بنیاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس تصور کی مختلف جہتیں نمایاں ہوکر سامنے آئیں۔ جس کے نتیجے میں آج تانیثیت مختلف النوع دھارنے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔


عصر حاضر کے عالمی ادب میں تانیثیت اور اس سے وابستہ ابغاد اہم ادبی ڈسکورس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ادبی سطح پر تانیثیت کے مختلف دستان وجود میں آچکے ہیں۔ مثلاً مارکسی یا ترقی پسند تانیثیت انتہا پسند تانیثیت ،نفسیاتی تانیثیت جدید،مابغد جدید،ساختیاتی تانیثیت وغیرہ یعنی تانیثیت ایک نئی ادبی و تنقیدی تھیوری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جس کے نہ صرف اپنے ٹولز اور پیمانے ہیں۔ بلکہ یہ متبادل ادبی، لسانی، و ثقافتی تاریخ بھی مرتب کرنے پر مصر ہے۔ اور یہ اصرار اس اعتبار سے خوش آئند ہے۔ کہ اس میں مرد اساس معاشرے کی جگہ انسان اساس معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے امکانات پوشیدہ ہیں۔
آج اردو ادب میں تانیثیت کی نمایاں طور پر سنائی دے رہی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کی خطوں کے اردو ادب میں تانیثی تصورات کو اہمیت حاصل ہورہی ہے۔ خواہ وہ شاعری ہویا افسانوی ادب تانیثی اظہار کی مختلف جہتیں ہر سطح پر ابھر رہی ہے۔ گرچہ یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ کہ ان نئی جہتوں کے تجزیے و تنقید کے اور ارسینوز وضع نہیں ہوسکے ہیں۔
تانیثیت کے بنیادی تصورات دو ہیں۔ اوّل یہ کہ بنی نوع انسان کے دو طبقے ہیں۔ مرد اور عورت ۔مرد بطور طبقہ۔ عورت بطور طبقہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان دو طبقات کے باہمی تعلقات اور آویزش کا مطالعہ Genes یاGender کے اصطلاحی لفظ کے تحت کیا جارہا ہے۔


جنس یا جینڈر کا یہ تصور صنف یعنی sex کے تصور سے مختلف ہے۔ یعنی عورت اور مرد کے درمیان صنفی اختلاف کی بنیاد پر کسی طبقے کو کم تر یا بیشتر نہیں قرار دیا جاسکتا یعنی یہ کتنا غلط ہے کہ عورت بطور صنف نازک مرد کے مقابلے میں کمزور یا کم عقل ہے۔ یہ بھی کہنا ہے کہ بعض خصوصیات مثلاً نازک دلی، رقیق القلبی شرم وحیا، ضد وغیرہ عورتوں میں مرد وں سے زیادہ ہوتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں عورتوں کے بارے میں جو تصورات معاشرے میں رائج ہیں وہ اصلاً اور اُصولاً معاشرہ کے وضع کردہ ہیں۔ حقیقی نہیں۔
ادب میں تانیثی تحریک کے عوامل ماضی میں گزشتہ صدی تک چلے گئے ہیں۔ بالخصوص انسویں صدی جو سائنسی اور تکنیکی اعتبار سے گزشتہ تمام صدیوں پر بھاری تھی۔ اس عمل کو مناسب راہ فراہم کرتی ہے۔ حصول روز گار اور حصول زر میں مسابقت کا دور شروع ہوا۔ خاندانی شہزارہ بندی بکھرنے لگی۔ اور بڑی تیزی کے ساتھ عدم تحفظی اور غیر یقنی کے احساس نے معاشرے کے ہر حصے میں جڑیں پیوست کرلی۔ نتیجہً ایک وسیع پیمانے پر اخلاقی بحران بھی وجود میں آیا۔ جنس کے باعث باہمی رواداری کے بشری اثاثے کو سب سے زیادہ قیمت چکانا پڑی۔


اردو ادب میں تانیثیت کی جھلکیاں کافی عرصے سے نظرآرہی ہے۔ اردو کی اصناف میں چاہے وہ غزل ہویا افسانے یا نظمیں اسکی بازگشت ہمیں سنائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو صحیح معنوں میں اردو ادب میں ۷۰ کے دہائی کے بع فرنیچر فیمی نائن انھوں نے پہلی تانیثی ادب کو اور اس جڑے ہوئے مسائل کو اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ جب امریکہ کے سینٹ نے عورتوں کو حق رائے دہی سے محروم کردیا تھا۔ اس وقت امریکی خواتین میں بغاوت کے آثار نظر آئے۔اور انھوں نے امریکی نظام کے خلاف اور اس سے جڑے ہوئے خواتین کے مسائل کو بلند آہنگی کے ساتھ پیش کیا۔ اور پندرھویں صدی سے عورتوں سے متعلق مسائل کو پیش کیا جانے لگا۔ دوسرا نام Mari Alistotin craft کا آتا ہے۔ انھوں نے ۱۷۰۰ سے ۱۷۶۹ تک اپنی ناولوں میں تانیثی ادب اور اس سے جڑے ہوئے مسائل پیش کئے۔تانیثیت کے بنیادی مضمون میںSimone De Beaviour انھوں نے تانیثیت کی بنیاد رکھی۔وطن عزیز میں تارابائی شندے۱۸۵۰ سے ۱۹۱۰ء تک انھوں نے مراٹھی زبان میں بھارت کے عورتوں کے مسائل کو مراٹھی زبان میں پیش کیا۔
اس کے علاوہ رمابائی راناڈے، ساوتری بھائی پھلے، وغیرہ نے اپنے طور پر بھارت سے جڑے ہوئے مسائل پیش کئے اردو ادب میں عورتوں سے متعلق مسائل کافی دیر سے پہنچے۔کیونکہ اردو میں مسلمان خواتین کے مسائل الگ تھے ان سے جڑی ہوئی سماجی ناہمواری، تنہائی کرب وغیرہ کے مسائل کو بہتر صورت پیش کیاگیا۔تانیثیت دور حاضر کا ایک اہم ترین باب بنتا جارہا ہے۔ خواہ وہ ادب ہو یا انسانی زندگی سے متعلقہ کوئی گوشہ آج ہر جگہ اس کے اثرات رونما ہورہے ہیں خواہ وہ سیاستی ہو، سماجی ہو، تعلیمی ہو یا اخلاقی یا تہذیبی ثقافتی کیوں نہ ہو ہر مقام پر اس کا ثر غالب ہے۔


تانیثیت کا تعلق ایک طرف زندگی تو دوسری طرف ادب سے ہے۔لیکن ہمارے ادب کے بیشتر ناقدین ودانشور و مفکر تانیثیت کے معنی عورتوں کے ذریعہ تخلیق کیا گیا ادب ہوتا ہے۔جوکہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تانیثیت کے معنی عورتوں کے ذریعہ تخلیق کیا گیا ادب ہوتا ہے۔ جوکہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تانیثیت بنیادی طور پر ایک ایسا تصور ہیں جو مردوں کی بالادستی اور ان کے ذریعہ برسوں سے کیا جارہا ہیں عورتوں پر ظلم وجبر کے خلاف اٹھنے والی صدائیں ہیں اس کے برعکس نسوانیت ،اور زنانہ پن کا تعلق عورت کی طبعی حیاتیاتی صفات سے وابستہ ہے یہ عورتوں سے متعلق ایسے صفات ہے جو مرد اور عورت کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔
بعض تانیثی مفسرین اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ نوع انسانی کے ارتقائی عمل میں عورت اور مرد کی فطرت میں مماثلت ملتی ہے۔ لیکن معاشرے میں تکسیریت کے باعث جنسی افتراقات پرورش پانے لگتے ہیں جس کے باعث تشخیص کا بحران پیدا ہوتا ہے۔لیکن تانیثی لبرشن کے پیروکار اس بحران کو تشویش کے بجاے جشن قرار دیتے ہیں۔ جو نسوانی یکسائی کا جشن ہے۔


یہ مدرسہ فکر مشترک (یکساں) انسانی فطرت کو اگر مکمل طور پر رد نہیں کرتا تو بھی اسے بنیادی اہمیت کا حاصل نہیں سمجھتا۔اگر ہم اردو شاعری میں تانیثی فکر کا جائزہ لے تو ہمیں پروین شاکر اور کشور ناہید کے یہاں تو عشق و محبت کا بیان بھی عورت کی جانب سے بے محابا ہے۔ اگرچہ برصغیر میں قدیم تہذیب کے گیتوں اور نغموں میں عورت اس معاملہ میں آزاد تھی مگر اردو کی تہذیب نے اس پر اپنی وہی مرد سوسائٹی کی جارحانہ قدغن لگا رکھی تھی۔پھر اردو شاعری کی جدید عورت سے نہ صرف یہ کہ اس Gender Basis کو توڑ دیا بلکہ اس کے یہاں آب ایک قدم آگے پڑھ کر احتجاجی صورت بھی ابھری ہے۔ اس کی زبان، اظہاریت کے طور طریقے خیالات کی رویں۔ سبب کچھ اس کے اپنے ہوچکے ہیں۔یہ اقدام تانیثیت کی طرف پہلا قدم ہے۔ مگر تنقید میں طبقہ نسواں کی ناقد ابھی تک اپنا کوئی الگ ایسا راستہ نہیں بناپائی جو اسے عالمی تانیثی تحریک سے قریب کرتا۔ابھی اردو تنقید میں، اس طرح کا کوئی نمونہ نہیں ملا جو مغربی تانیثی تنقید کے مقابلے میں رکھا جاسکے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تانیثی تنقید ابھی برصغیر میں اپنے مغربی Counter Part کے تانیثی تنقید کے اصولوں ، فلسفے ،رجحان ، زبان و بیان اور فکر و نظر کے ساتھ شروع ہی نہیں ہوئی۔ ہاں کچھ خواتین نے خالص تنقید میں رفعت ضرور کی ہے۔جن میں ممتاز شریں(معیار) کشور ناہید (کچھ مضامین) ساجدہ زیدی(تلاش بصیرت) زاہدہ زیدی(رموز وفکروفن) وغیرہ خاص ہیں تاہم یہ خواتین تنقید نگار مردوں کے بنائے ہوئے تنقیدی اصولوں اور رویوں ہی کہ مطابق تنقید پیش کررہی ہے۔
مغرب میں تانیثیت نے بڑی جار صورت اختیار کرلی ہے۔ اصول شاعری میں بھی اور اصولو تنقید میں بھی انہوں نے ادب اور شاعری سب کے لئے الگ مینی فیسٹیو بھی تیار کرلیا ہے۔


ایک شاعرہ اپنی ایک نظمDebout le women arise femmes میں اس طرح عورتوں کو انقلابی صورتوں کے لئے تیار کرتی ہے۔

We, Who are without past / without history
Out caste / women lost in the dank
of time / women whose continent is
night / to gather slaves arise /
To break our chains asunder/
Arise! / The days warth for us has come
us has come/ by thousands,
we are here together slaves arise
women, we shall know our power
Women, this must be the hour/ togather
slaves arise / to break our chains
a sunder arise / arise ! /


غرض اردو ادب میں بھی آج تانیثیت نے صحیح معنی میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا آج تانیثی اردو ادب نے عالمی پیمانے پر بھی اپنا لوہا منوالیا ہے۔ غرض اردو ادب میں تانیثیت کی تحریک جس کا آغاز نذیر احمد کی ناول نگاری میں مراۃ العروس سے ہوا تھا۔ آج ادب کے ہر شعبہ میں اس کا اظہار رہا ہے۔ وہ عورت جو اپنی تخلیق کے ساتھ اپنا نام جوڑنا بھی معیوب سمجھتی تھی آ ج وہ کھل کر جذبات کے بے باک اظہار کے ساتھ ادب کے سفر میں آگے بڑھ رہی ہے۔


معاون کتب
تانیثیت اور ادب: انور پاشاہ
تانیثیت اور اردو ادب: ڈاکٹر سیما صغیر
***
Arshiya Jabeen Quazi Makhdoom (Research Scholar)
Dr.B.A.M.Uuniversity, Aurangabad
E-mail : Arshiyaqazi1984[@]gmail.com

Feminism in Urdu. Research Article: Arshiya Jabeen Quazi Makhdoom

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں