شہر مئو کی ممتاز شخصیات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-01

شہر مئو کی ممتاز شخصیات

mau-city

شہر مؤ صنعت اور تعلیم میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمات میں اس شہر نے نمایاں کام کیا۔۔ یہاں کےنامور علماء اور اہل قلم کی دینی و علمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔۔۔۔ شہر مؤ نے کبھی بھی دبستان ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اپنے کارناموں کی تشہیر کرتا پھرا۔ مگر سچ یہی ہے کہ یہاں گھر گھر اُردو زبان کا ہی کا چلن ہے۔‌ اس شہر میں اُردو شعراء اور مصنفین کی بھی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں۔ شاعر حضرات میں فضا ابن فیضی ،فیض اعظمی ،ماہر عبدالحئی ، ڈاکٹر امتیاز ندیم، تابش ریحان، امیر حمزہ اعظمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ علمائے کرام کی بات کی جائے تو مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی رحمہ اللہ ، مولانا مختار احمد ندوی، ڈاکٹر حافظ مقتدی احسن ازہری ، مولانا مظہر اعظمی، مولانا عبداللطیف اثری رحمہ اللہ ، شیخ اسعد اعظمی ، مولانا ابو القاسم عبدالعظیم مدنی وغیرہ ہیں۔


اس کے علاوہ ڈاکٹر عبد العلی ازہری کا بھی تعلق گرچہ مؤ شہر سے ہے مگر انکی عمر کا زیادہ حصہ بیرون ملک گزرا اور انکی تصنیفی کارنامے اردو میں نہ ہوکر عربی اور انگریزی میں ہیں۔ مگر مؤ شہر کو عالمی شہرت عطا کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔


فضا ابن فیضی

خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا


یہ مؤ شہر کی عظیم الشان ہستی ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں انکا اصل نام فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے۔‌
فضا ابن فیضی یکم جولائی 1923 کو ڈومن پورہ حبہ مؤ ناتھ بھنجن پوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مؤ کے مشہور و معروف مدرسہ جامعہ عالیہ عربیہ میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942 میں فراغت حاصل کی۔۔۔ فضا کی پوری تعلیم روایتی طرز پر ہوئی۔ تعلیم کے بعد تجارت میں والد صاحب کا ہاتھ بٹایا۔ فضا صاحب نے شاعری کا آغاز مدرسہ عالیہ کی ابتدائی جماعتوں میں ہی تعلیم کے دوران کردیا تھا۔ انکی پہلی نظم "زمزم" لاہور میں 1940 میں شائع ہوئی۔ فضا کا پہلا شعری مجموعہ سفینہ زرگل1973 میں شائع ہوا۔ غزلیات اور رباعیات پر مشتمل یہ مجموعہ اردو دنیا کے بہترین ناقدین نے سراہا۔۔۔۔
دوسرا شعری مجموعہ "شعلہ6 نیم سوز"(منظومات) 1978 میں منظرِ عام پر آیا۔یہ مجموعہ مختلف قسم کی نظموں پر مشتمل ہے۔ "دریچہ سیم سمن"(غزلیات) 1989 میں شائع ہوا۔ سر شاخ طوبیٰ (حمد و نعت و منظومات،ترانے) فضا کے تخلیقی سفر کے چوتھی منزل تھی۔ جس کو 1990 میں جامع سلفیہ، بنارس نے نہایت اہتمام سے شائع کیا تھا۔ "پس دیوار حرف"(غزلیات) 1991میں شائع ہوا۔ "سبزہ معنی بیگانہ "(غزلیات) 1994 منظرِ عام پہ آیا۔


آپ کی سب سے مختصر نظم پانچ اشعار پر مشتمل گرمی بازار اور طویل نظموں میں اے میری اردو زبان اور گل زمین جیسی نظمیں شامل ہیں۔ فضا ابن فیضی ہیئت اور ساخت کے نت نئے تجربے کرتے تھے انہوں نے اپنی شاعری کیلئے ایک معیار متعین کیا تھا نظم شہرستان ادب وآگہی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔۔۔۔۔
اے زلیخا زاد معنی یوسفتان علوم
اے دیار آگہی اے عجلہ گاہ فکروفن
کارواں نکہت گل ہے تیری موج نسیم
اے میری رعنائی ادراک کے گل گوں چمن
( نظم شہرستان ادب و آگہی)


ابھی تو رستے میں کارواں ہے یقین ابھی تو فقط گماں ہے
حجاب جادہ اٹھے تو دیکھوں یہ گرد منزل بنے تو دیکھوں
نمود منزل ابھی کہاں ہے ابھی تو رستے میں کارواں ہے
نکل پڑا ہوں طلب کی رہ میں مگر وصف کارواں سےآگے
میری ہے منزل یہاں سے آگے
(نظم میری ہے منزل یہاں سے آگے)


فضا صاحب نے جامعہ عالیہ عربیہ کے علاوہ دیگر جامعات کا ترانہ بھی لکھا ہے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس مؤ کے موقع پر جو نظمیں آپ نے لکھی تھیں اسکے درجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں
؀
قرآن کے بلاغت پاروں کی تعمیم ہمارا مسلک ہے
مشکوۃ و بخاری کے فن کی تفہیم ہمارا مسلک ہے
اسلامی عقائد کی سچی تقدیم ہمارا مسلک ہے
چھوٹے نہ تمہارے ہاتھوں سے اسلام کا داماں اے لوگوں


فضا ابن فیضی کے فن پر ابن احمد کا یہ تبصرہ کافی ہے۔۔۔۔۔
فضا ایک ایسے شاعر ہیں جن کے سر پر کسی نا کسی تحریک کا سایہ ہے اور نا ان کے پیچھے کسی حلقے یا گروہ کی بھیڑ۔۔۔ پھر بھی انکے فن میں اپنی توانائیوں کے سہارے اپنی اہمیت کو منوایا ہے وہ فکروفن کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جہاں تک پہونچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔۔۔ ان کی قادرالکلامی، علوفکر، الفاظ کے انتخاب و استعمال پر بے پناہ مہارت، کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ، یہ ایسی باتیں ہیں جو انکی شخصیت اور ذہن کو قابل رشک، وقار اور عظمت عطا کرتی ہیں۔۔۔
مورخہ 17جنوری شام چار بجے اردو کے معروف و مشہور شاعر دیار مؤ کی شان اور۔۔۔
مجھ سے ملنا ہے تو پھر میری کتابیں دیکھنا
ہر ورق پر عکس اپنا چھوڑ کر جاؤنگا میں
یہ شعر کہنے والے شاعر فضا ابن فیضی اس دارفانی سے کوچ کر گئے


ڈاکٹر حافظ عبدالعلی حامد الازہری رحمہ اللہ

نگاہ شوق میں عبدالعلی کا نام عالی ہے
بہت افسوس ہے اب اس باہنر سے بزم خالی ہے
( صلاح الدین مقبول احمد )


فضا ابن فیضی جیسی شخصیت کے علاوہ شہر مؤ میں ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں جن کے جانے کا غم آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا اور جن کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ انہی میں سے ایک عظیم شخصیت ڈاکٹر حافظ عبد العلی حامد الازہری رحمۃ اللہ ہیں ڈاکٹر صاحب اپنے علم و فن اور خُدا داد ذہانت و فطانت کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔۔
ڈاکٹر صاحب مؤ ناتھ بھنجن کے محلہ جمال پورہ میں 1943 میں پیدا ہوئے۔ آپ کےدادا مولانا محمد حامد اور نانا مولانا نعمان اعظمی دونوں سگے بھائی تھے اور اپنے وقت کےبہترین علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ عبدالعلی نے تعلیم کا آغاز مدرسہ عالیہ سے کیا۔فیض عام کی تعلیم کے دوران الہ آباد بورڈ کا امتحان عالم پھر فاضل دینیات کے امتحانات درجہ6 اوّل میں کامیاب کر لیے۔ جامعہ اردو علی گڑھ کے ادیب کا امتحان بھی پاس کیا 1963 میں بیرون ملک سفر کیا۔ جامعہ ازہر مصر کی کلیتہ اصول الدین ، قسم الدعوۃ و لارشاد سے ایم اے میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران 1967 سے1970 تک قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی سے عربی ادب میں ایم اے کیا۔ قاہرہ کی تعلیم کے دوران " ریڈیو اسٹیشن " سے وابستہ ہوکر با قاعدہ اناؤنسر کی ذمےداری ادا کی۔ نائیجیریا میں آپ نے پی ایچ ڈی بھی مکمل کی۔ 1972سے 1984 تک مختلف عہدوں پر بڑے محترم رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ذہانت و فطانت کا یہ عالم تھا کی انہوں نے ماہ رمضان میں 21 دنوں کی قلیل مدت میں قرآن مجید کے پورے تیس پارے نہ صرف یاد کیے بلکہ ہر شب تراویح میں اسکی قرآت بھی کی۔ مرحوم حافظ ہوئے ، عالم بنے ڈاکٹر اور پھر پروفیسر کہلائے۔ لیکن مزاج میں ایسی سادگی اور خاکساری تھی کی ملنے والا حیرت زدہ رہ جاتا۔
10 اکتوبر 2021 کو آپ نے رحلت فرمائی۔ اللہ نے آپکو بےشمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ چونکہ آپ مؤ شہر سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ کا انتقال برطانیہ میں ہوا۔ یوں مؤ شہر کا کوہ نور برطانیہ میں سپرد خاک ہو گیا۔


دبستان مؤ سے ہی تھا مرد حق یہ وابستہ
یہیں سے وا ہوا ہے اسکے علمی شوق کا رستہ

***
زیبا شبیر احمد (مئو، اترپردیش)
ای-میل: raihanahmad9044[@]gmail.com

the notable persons of Mau. Essay: Zeba Shabbir Ahmad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں