اماں لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-03

اماں لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں

amma-ladki-dhoond-rahi-hain

ذیشان کی اماں لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں اور مسلسل کئی برسوں سے ڈھونڈ رہی ہیں۔ اماں بہت سیدھی ہیں اسی لئے ان کی کوئی خاص فرمائش نہیں، پھر بھی لڑکی لمبی ہونی چاہیے اور موٹی تو بالکل بھی نہ ہو، رنگت صاف ہو ، چہرے کے نقوش دلفریب ہوں اور بال ،بال تو ان کے خاندان میں سب کے ریشمی ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے بھی ہوں۔ لڑکی میں نزاکت ہو، چال ہرنی جیسی ہو ، بولی کوئل جیسی ہو، زیادہ خوبصورت نہ سہی پر محفل میں قابل دید تو ہو ہی۔
اماں کے بیٹے کی خواہش ہے کہ اس کی دلہن پرانے زمانے کی مشہور اداکارہ مدھوبالا جیسی دکھتی ہو ،اور ہاں پڑھی لکھی ضرور ہونی چاہیے زیادہ نہیں تو بی اے پاس ہی ہو پر نوکری پیشہ بالکل بھی نہ ہو، اللہ توبہ، اللہ توبہ ان کے خاندان کی بہویں نوکری تھوڑی کرتی ہیں۔


لڑکی سگھڑ ہو، گھرداری جانتی ہو، ہاتھ میں ذائقہ اور کام میں پھرتی ہو ، دس طریقوں سے چائے بنا لیتی ہو، پندرہ طریقوں سے دودھ ابال لیتی ہو، پانی گرم کرنے کا بھی سلیقہ ہو، خالص نمک مرچ کی چٹنی جتنی بار پیسے اتنے ذائقوں کی ہو، کھچڑی بنائے تو بریانی معلوم ہو، سادے چاول شاہی چاول کی طرح بنائے، روٹیاں ایسی ہوں کی منہ میں جاتے ہی گھل جائیں، ہر دال گیارہ گیارہ طریقوں اور ذائقوں سے بنا لیتی ہو، توری کی سبزی تیار کر دے تو اس میں بھنڈی، لوبیا ، آلو کٹہل ہر سبزی کی لذت آ جائے۔
اس کے بنائے گوشت والی ڈشوں کی مہک پورے خاندان میں پھیلی ہوئی ہو ، فضول خرچی تو بالکل نہ کرے۔ چالیس روپے میٹر والا کپڑا منگا کر تین چار جوڑے بنا لے اور زیادہ نہیں تو ایک سال ان سے کام تو چلایا ہی جا سکتا ہے۔ سردیوں میں دلایا گیا ایک شال پانچ سالوں کے لئے کافی ہو جائے۔
باہر کے کھانے اور گھومنے کی بالکل بھی عادی نہ ہو ، گھر کے باقی کاموں میں اتنی تیزی تو بنتی ہی ہے کہ چٹکیوں میں جھاڑو کردے، برتن کپڑے دھو دھلا کر گھر کو اچھے سے ترتیب دے دے۔


اس کے ساتھ ہی لڑکی مہمان نواز اور با شعور ہونی چاہیے اور فرمانبردار بس اتنی سی ہو کہ ادھر آواز لگائی اور ادھر چراغ کے جن کی طرح جی اماں کوئی کام کہتی ہوئی حاضر ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی زبان میں چاشنی ہو ، لہجہ نرم ہو، اتنی دھیرے دھیرے بات کرے بات سننے کے لئے کان منہ میں لگانا پڑے ، نظریں ہمیشہ جھکا کر کھڑی ہو، گھر میں کبھی کوئی بات ہو تو پل بھر میں بھول جائے آج کل کی لڑکیوں کی طرح زبان درازی پر نہ اتر آئے۔
پھر چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے ماں باپ تک پہنچانے والی بہوؤں سے تو اماں کو چڑ ہے، سلائی کڑھائی بھی جانتی ہو، گھر کے پرانے پردوں سے اچھا خاصا شلوار قمیص تیار کر لے۔
ساتھ ہی ان کے بیٹے کی خوب خدمت کرے اس کی ہر آواز پر لبیک کہے، اس کی عزت کرے ،آخر شوہر کی خدمت بیوی کا اولین فریضہ جو ہے۔ اماں کے بیٹے کو بھی خدمت گزار، ہر بات پر جی حضور جی حضور کرنے والی نیک بیوی چاہیے، اب گھر میں لگے آم کے پیڑ سے اس کے لئے امرود توڑ کر تو لا ہی سکتی ہے۔


ویسے اماں چاہتی ہیں کہ لڑکی والوں کا گھر اچھا بنا ہو ، لوگ خاندانی ہوں اور ، بارات کا استقبال تو شاندار بنتا ہی ہے بھئی معاشرے میں ان کی بھی کوئی عزت ہے اگر کسی سے بھی منہ اٹھا کر شادی کر دی تو خاندان والے مذاق بنائیں گے۔ اور بات بھی صحیح ہے ان لوگوں نے تو بڑے بڑے رئیس زادوں کے گھر سے اپنے بیٹوں کی شادیاں کی ہیں اماں تو پھر بھی ان کے مقابلے کچھ نہیں ڈھونڈ رہیں، وہ تو جہیز بھی نہیں مانگتیں بس اتنا کہتی ہیں کہ لڑکی والے اپنی مرضی سے اپنی بیٹی کو جو دے دیں، اب چاہے دو پہیا دیں یا چار پہیا یہ ان کی خود کی مرضی ہے ورنہ انہیں تو ایک کٹوری بھی نہیں چاہیے اور ویسے بھی دینے والے دیں گے تو اپنی بیٹی کو دیں گے اماں کو ان کے دئے جہیز سے کون سا آرام اٹھانا ہے۔ خیر یہ تو اماں کی شرافت ہے، ورنہ آج کل کون ایسی سوچ رکھتا ہے؟


اماں کو تو بس انہیں تھوڑی بہت خصوصیات والی بہو چاہیے۔ پر اماں اور اماں کے لال کی قسمت ہی خراب ہے کہ لڑکی نہ ہوئی جن زادی ہو گئی جو مل ہی نہیں رہی۔
بیچاری اماں پچھلے چھ سالوں میں تیس گھروں کا کھانا کھا چکی ہیں اور درجنوں گھروں میں تو بس ناشتہ کیا ہے، پر لڑکی کہیں سمجھ نہیں آئی۔ اور سمجھ بھی کیسے آتی اپنے پانچ فٹ ہیرے جیسے بیٹے کی شادی کسی راہ چلتی سے تو کر نہیں دیں گی، وہ تو کہو اماں کی کوئی خاص فرمائش ہی نہیں ورنہ لوگ نہ جانے کیا کیا مانگتے ہیں۔ ویسے اماں کے بیٹے کی ابھی عمر ہی کیا ہے، تین دن پہلے ہی تو 38 کا ہوا ہے اب بھلے سال دو سال شادی دیر سے ہو پر وہ ایسے ویسے کے گھر سے کریں گی بھی نہیں، ہاں نہیں تو۔

***
صدف جمال (محمودآباد، بارہ بنکی)
ای-میل: sadafjamal104[@]gmail.com

Amma ladki dhoond rahi hain. Light-Essay by: Sadaf Jamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں