احمد سعید ملیح آبادی - اردو صحافت کے پٹھان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-06-24

احمد سعید ملیح آبادی - اردو صحافت کے پٹھان

ahmad-saeed-maleehabadi-pathan-of-urdu-journalism

احمد سعید ملیح آبادی۔۔ کہتے ہیں کہ نام ہی کافی ہے۔ اردو صحافت کا وقار تھے احمد سعید ملیح آبادی۔ قلم کیا تھا ،کسی کے لیے پیار کی تھپکی،کسی کے لیے چابک تو کسی کے لیے شمشیر۔ تحریر کا دارومدار اس کے موضوع اور صاحب موضوع پر ہوتا تھا ،کس کو کن الفاظ میں مشورہ دینا ہے، کس انداز میں وارننگ دینا ہے اورکیسے اپنی بات کوکسی کے دل و دماغ میں اتارنا ہے،یہ احمد سعید ملیح آبادی سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادارئیے اردو صحافت میں کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کا سب سے موزوں ذریعہ ہوتے تھے۔
میں جو بھی لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں سب سے پہلے ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ صحافت کے پٹھان کا رتبہ ایسا ہے جو ان کی صحافت پر کم سے کم مجھے تو قلم اٹھانے کی اجازت نہی دیتا۔ ان کی صحافت کو بچپن میں سنا،پھر پڑھا جبکہ ایک وقت آیا جب تقریبا پانچ سال تک 'آزاد ہند' میں انہیں آمنے سامنے دیکھا،سمجھا اور محسوس کیا۔
ایک صحافی کی حیثیت سے ان کی خدمات اور کارناموں پر کچھ لکھنا میرے لیے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ میں خود کو اس لائق بھی نہیں مانتا کہ ان کی صحافت کے کسی بھی پہلو پر روشنی ڈالوں یا کوئی رائے ظاہر کرسکوں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کے بجائے صرف ان کی شخصیت پر قلم اٹھانے کی ہمت کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ان کی اس شخصیت کے تعلق سے جسے تقریباً پانچ سال تک بہت قریب سے دیکھا بہت کچھ بیان کرسکتا ہوں اوریہ ایسا تجربہ رہا جو کسی اثاثہ کی مانند ہے۔ نہ صرف باتیں یا یادیں بلکہ کچھ سبق ،کچھ نصیحتیں اور کچھ اشارے ہیں جو آج بھی میرے ذہین میں تازہ ہیں۔


سعید صاحب کا انتقال پچھلے سال اکتوبر 2022ء میں ہوا ،اس کے بعد ان کی صحافت اور شخصیت پر کئی مضامین نظر سے گزرے ،یہی نہیں کولکتہ میں ان کی یاد میں ایک سمینار بھی ہوا۔ وراثت میں ملی صحافت اور آزاد ہند پر الگ الگ ہستیوں کے تاثرات پڑھے۔جس کے بعد میں نے قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔کیونکہ شاید ان کی یادوں اور باتوں کو شئیر کرنا ہی سب سے بہتر خراج عقیدت ہوگا۔
بلا شبہ احمد سعید ملیح آبادی نے اردو صحافت میں اپنے زور قلم سے جو مقام حاصل کیا تھا اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔وہ ایسا دور تھا جب اخبار کے ادارئیے کا درمیانی صفحہ کئی کئی دکانوں اور گھروں میں گھومتا پھرتا تھا۔ کیونکہ اردو صحافت میں جتنے لوگ اخبار خرید کر پڑھتے ہیں اس سے چار گنا مانگ کر پڑھنے کے 'عادی' رہے ہیں۔ اگر سعید صاحب سوشل میڈیا کے دور میں سرگرم صحافت کرتے تو شاید آج ان کی تحریروں کا ایک بڑا خزانہ سوشل میڈیا کی رگوں میں دوڑ رہا ہوتا۔ بہرحال سعید صاحب کو جنہوں نے پڑھا وہ بھی خوش نصیب اور جنہوں نے انہیں دیکھا وہ بھی۔ کیونکہ ایک جانب ان کی تحریریں کسی بھی موضوع پر آپ کی رہنمائی کرتی تھیں تو دوسری جانب ان کے ساتھ ملاقات یا رابطہ آپ کے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔نہ صرف صحافت بلکہ اخلاقیات،ظرف اور سوچ۔


اس معاملہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے کئی سال تک سعید صاحب کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا۔آج اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کیا قد تھا ان کا ،کیا رتبہ تھا اور کیا مقام تھا۔ ایک بڑے انسان میں کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں وہ سعید صاحب کی شخصیت کے روبرو ہوکر محسوس کی جاسکتی تھیں۔
میں نے 'آزاد ہند' میں کئی نازک سیاسی دور دیکھے جو انیسویں صدی کے بڑے واقعات میں سے تھے۔ میں نے راجیو گاندھی کی ہلاکت اور بابری مسجد کی شہادت کی خبریں آزاد ہند کے ٹیلی پرنٹر پر آتی ہوئی دیکھی تھیں۔ شہر کو ویران ہوتے اور آفس میں ٹیلی پرنٹر کی آواز کو ڈروانے انداز میں گونجتے ہوئے سنا۔
ایسے بڑے واقعات کے بعد سعید صاحب کو خبروں پر بات چیت کے ساتھ شور شرابے میں ادارئیے لکھتے ہوئے دیکھا۔ لوگوں سے باتیں کرتے سنا ،کس سے کیا بات کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ،کس طرح نپٹنا ہے۔سب سے اہم ہر بحرانی حالات میں ان کا سکون قابل دید ہوتا تھا۔ کسی قسم کی جلد بازی نہیں اور کوئی گھبراہٹ نہیں۔


سب کے ساتھ

آزاد ہند میں ایک قابل تعریف بات یہ تھی کہ سعید صاحب اپنا کیبن اسی وقت استعمال کرتے تھے جب کوئی مہمان آتا تھا۔ ورنہ وہ ہم سب کے ساتھ ہی بیٹھتے تھے۔ایڈیٹوریل روم میں چار میزیں تھیں جس میں نیوز ایڈیٹر سید منیر نیازی کی ایک مستقل میز تھی جبکہ دیگر پر دن اور رات کو الگ الگ لوگ کام کیا کرتے تھے۔اس کمرے میں ایک جانب اشہر ہاشمی ،امان اللہ محمد اور پروفیسر جاوید نہال کے ساتھ سید منیر نیازی ہوتے تھے۔ جبکہ سجاد نظر اور عالمگیر ثانی بھی ہوتے تھے۔سعید صاحب بھی اسی میں اپنے کام میں مشغول رہا کرتے تھے۔ یہی ایک صحافی کی نشانی ہوتی ہے کہ الگ تھلگ نہیں بیٹھ سکتا۔ان کی شخصیت ایسی تھی کہ دیگر اسٹاف کو ان کی موجودگی سے کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی،بہت آزادانہ ماحول ہوتا تھا۔ ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا تھا۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ سعید صاحب ہیں تو سب کی آواز بند ہو،وہ خود ماحول کو بہت ہلکا پھلکا بنا دیتے تھے۔


میرا آزاد ہند میں پہلا قدم اور۔۔۔

دراصل میں روزانہ ہند میں اسپورٹس رپورٹنگ کرتا تھا لیکن آزاد ہند میں 1989ء سے ترجمہ کا کام شروع کیا تھا۔ بات صرف شوق کی تھی، یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ خاندانی مرض کے سبب اردو صحافت کی دلدل میں کودنے کا جنون تھا۔
اس وقت آزاد ہند میں بڑی بڑی توپیں تھیں۔ اپنی حیثیت تو چوزے کی مانند تھی۔ اس وقت آزاد ہند میں پروفیسر جاوید نہال اسپورٹس کے کرتا دھرتا تھے،جن کو ہم سب پیار سے 'استاد' کہا کرتے تھے۔ جب میں آزاد ہند میں گیا تو 'استاد ' اپنی عمر کے سبب میدان کی رپورٹنگ کے لیے کم جایا کرتے تھے کیونکہ وہ کمزور ہوگئے تھے۔کچھ دنوں کے بعد سعید صاحب نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا اور کہا کہ ایک ذمہ داری دینا چاہتا ہوں مگر معاملہ ذرا نازک ہے کیونکہ اب تم کو اسپورٹس کی رپورٹنگ کرنا ہے لیکن خیال رہے کہ 'استاد' کا دل نہ دکھے۔


پھر انہوں نے پروفیسر جاوید نہال سے اس سلسلے میں بات کی مگر بڑی خوبصورتی کے ساتھ۔ مجھ سے کہا کہ جو بھی رپورٹ بنایا کرو 'استاد' کو دکھا دیا کرو اور پیر کا ضمیمہ بھی ان کے مشورے سے کیا کرو۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک میں پروفیسر جاوید نہال کے سامنے نروس رہا۔ لیکن وہ بھی بڑے دل والے تھے اس لیے انہوں نے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ سعید صاحب کے فیصلے سے ناراض ہیں یا نہیں۔


راجیو گاندھی کی ہلاکت

جب 1991 سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا قتل ہوا تو میں آفس میں ہی تھا،نصف رات سے قبل ٹیلی پرنٹر پر الرٹ آنا شروع ہوا کہ۔۔۔ وی آئی پی کلڈ۔۔۔ کا پیغام آنا شروع ہوا۔ اس وقت میں نے اس کو دیکھا۔ پھر اس میں یہ اضافہ ہوا کہ وی وی آئی پی کلڈ۔۔۔ میں نے منیر نیازی سے کہا کہ کوئی بری خبر آ رہی ہے۔ وہ اپنی کرسی سے اپنے منفرد انداز میں شور کرتے ہوئے اٹھے تو اس وقت تک ٹیلی پرنٹر پر خبر آرہی تھی کہ۔۔۔ راجیو گاندھی کلڈ۔۔۔۔ نیازی صاحب نے دوسرے ہی پل سعید صاحب کو فون ملایا اور بتایا کہ راجیو گاندھی گئے۔ نصف رات کو پورا صفحہ بدلا گیا۔اداریہ لکھا گیا اور پی ٹی آئی سے آنے والی ہر لیڈ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا تھا۔اس واقعہ کے بعد سعید صاحب کو بے حد مایوس دیکھا۔انہوں نے کئی بار کہا کہ۔۔ بہت برا ہوا۔۔ بہت برا ہوا۔۔۔ ایسا لیڈر نہیں ملے گا۔ وہ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بھی بتاتے گئے لیکن اگلے کئی دنوں تک ان کی مایوسی تحریر کے ساتھ چہرے پر عیاں تھی۔


بابری مسجد کا المیہ

جب 1992میں بابری مسجد کو گرایا گیا تو ہم سب نے زندگی میں پہلی بار سناٹا دیکھا یعنی کہ کولکتہ میں کرفیو لگا۔یہ ہم لوگوں کے لیے نیا تجربہ تھا جبکہ ہمارے بزرگوں کے لیے یاد ماضی۔جن کے مطابق ۱۹۶۴ میں کرفیو کی نوبت آئی تھی اس کے بعد کولکتہ میں کرفیو سے کسی کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ میں اور مرحوم عالمگیر ثانی ہر رات کو آفس سے نکل کرسڑکوں پر گشت کرتے تھے۔ایک جنون تھا یا کہیں کہ نئے صحافی کے پھدکنے کا مرض تھا۔ نیازی صاحب کو تو معلوم تھا کہ کرفیو پاس کا کیا استعمال ہورہا ہے مگر وہ کچھ کہتے نہیں تھے کیونکہ اپنی پہچان بھی بگڑے نواب کی تھی۔
لیکن ایک دن سعید صاحب نے پکڑ لیا،بولے کام میں مزہ آرہا ہے یا گھومنے میں ؟ میں نے کہا گھومنے میں۔ وہ خوب ہنسے اور بولے بے باکی تو 'فریدی صاحب' کی طرح ہی ہے۔ پھر کہا کہ رات کو آفس سے نکل کر اسکوٹر پر کہاں جاتے ہو۔ یہ کوئی گھومنے کا موقع نہیں ہے۔ سیدھے گھر جایا کرو۔
دوسرے دن منیر نیازی مرحوم سے انہوں نے کہا کہ نئے نئے صحافی ہیں، یہ رکیں گے نہیں۔ ہوا بھی یہی۔جب میں پارک سرکس کے تلجلا کے فساد زدہ علاقہ میں گیا توانہوں نے کہا کہ یہ حالات ایسے نہیں کہ تم گھومتے پھرو۔ خبریں آرہی ہیں پی ٹی آئی سے۔ مگر ہم بھی نہ سدھرنے کی قسم کھا چکے تھے ،اس لیے گھومتے رہے اور خبریں بنا کر دیتے رہے۔ انہوں نے پھر کہا کہ 'فریدی صاحب' اور تمہاری ممی پریشان ہونگے۔ وہ جانتے تھے کہ میں اکلوتا ہوں شاید اس لیے ان حالات میں رپورڈنگ کے حق میں نہیں تھے۔لیکن پھر میں نے انہیں بتایا کہ گھر سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو پھر اس کے بعد انہوں نے نہیں روکا۔اس دوران میں اور عظمت جمیل صدیقی بھی کرفیو میں گشت کرتے تھے۔سنسان سڑکوں پر خود کو شہنشاہ ہونے کا احساس آج بھی تازہ ہے۔اس کا تجربہ کورونا کے لاک ڈاون میں دہلی میں دوبارہ ہوا۔


جوش نہیں ہوش

میرے ساتھ کئی واقعات ہوئے۔ہر بار سعید صاحب نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف سمجھا دیا بلکہ اس کی باریکی بھی سمجھا دی۔ ایک بار محمڈن اسپورٹنگ کلب کی سیاست میں پھنس گیا۔ یاد رہے کہ کولکتہ کے اردو اخبارات میں اسپورٹس کا ہر پیر کو خصوصی صفحہ شائع ہوتا رہا ہے۔جن میں ایک وقت محمڈن اسپورٹنگ کلب کی کارکردگی سے سیاست تک سب حاوی رہتی تھی۔
اس وقت معاملہ ڈپٹی اسپیکر کلیم الدین شمس اور متنازعہ شخصیت میر محمد عمر کے درمیان تھا۔ میں نے ایک رپورٹ میں کلیم الدین شمس کے خلاف لکھ دیا جوکہ سعید صاحب کے بہت ہی قریبی دوست تھے اور اکثر رات گئے وہ آزاد ہند کے آفس میں آیا کرتے تھے۔
مضمون شائع ہونے کے بعد آفس میں برا ہنگامہ اور سناٹا تھا۔ہمارے نیوز ایڈیٹر سید منیر نیازی نے بہت ڈرایا۔ وہ بولے تم نے تو سعید صاحب کے شمس صاحب کے تعلقات ہی خراب کرا دئیے۔ میری عمر ایسی تھی کہ ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شام کو جب میں آفس گیا تو سعید صاحب نیوز روم میں ہی بیٹھے کام کررہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شاید معاملہ کچھ بگڑے گا مگر وہ دیکھ کر مسکرائے اور بولے۔۔ شہر میں چھا گئے ہو۔۔۔۔ میں تھوڑا چوڑا ہوگیا اور نیازی صاحب حیران۔ پھر وہ اٹھ کر اپنے کیبن میں گئے تو مجھے بلایا۔
بولے۔۔۔ منصور۔ کیا لکھنا ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن کیا نہیں لکھنا یہ سب نہیں جانتے ہیں۔۔۔
میں نے ان کو پورا معاملہ بتایا۔۔۔ وہ سنتے رہے اور بولے کہ صحافت میں اس حکمت کو یاد رکھنا کیونکہ یہ دو چار دنوں کا کھیل نہیں ہے ،زندگی گزارنے کے لیے اس میدان میں کودے ہو۔اس لیے سمجھداری ضروری ہے۔ توازن بنانے پر زور دیا اور ماضی کے کچھ قصے سنا کر ماحول بھی ہلکا پھلکا کردیا۔
بلاشبہ میری تحریر سے کلیم الدین شمس کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات متاثر ہوسکتے تھے لیکن انہوں نے مجھے بھی راہ دکھائی اور نہ جانے کیسے شمس صاحب کو بھی رام کرلیا۔اگر وہ چاہتے تو چیخ پکار کرسکتے تھے،مجھے ہٹا سکتے تھے مگر یہی ان کا بڑپن تھا کہ دونوں جانب معاملات کو درست کردیا۔


سنجے خان سے ملاقات

یہ بھی شاید 1991 کا وقت تھا۔ ہندوستانی ٹی وی پر پہلی بار ٹیپو سلطان کی زندگی پر سیریل بنانے والے ممتاز فلم ساز سنجے خان پروموشن کے سلسلے میں کولکتہ آئے تھے۔ ہوٹل تاج بنگال میں اردو اخبارات کے مدیروں سے ملاقات تھی۔ وہ اس لیے بھی سرخیوں میں تھے کہ ٹیپو سلطان سیریل کی شوٹنگ کے دوران اس کے سیٹ پر خوفناک آتشزدگی میں بری طرح جھلس گئے تھے،خوش قسمتی تھی کہ زندہ بچ گئے تھے۔ اس ملاقات میں احمد سعید ملیح آبادی اور اخبار مشرق کے ایڈیٹر وسیم الحق کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ طویل گفتگو تھی ،میں نے بھی کچھ سوال کئے ، پھر چائے کا دور بھی چلا۔ سنجے خان دو بزرگوں کے ساتھ ایک مجھے دیکھکر کچھ سوچ ہی رہے تھے تو سعید صاحب نے انہیں بتایا کہ ان کے والد کولکتہ کے سب سے بزرگ صحافیوں میں سے ایک ہیں ،یہ ان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ تب سنجے خان کی بے چینی دور ہوئی۔


نائک کے ساتھ کھلنائک

مجھےایک' اعزاز ' ایسا حاصل ہے جو کولکتہ میں شاید ہی کسی کو ملا ہو۔ دراصل سنجے دت کی ممبئی بم دھماکوں کے کیس میں گرفتاری اور رہائی کے بعد جب فلم 'کھلنائک' ریلیز ہوئی تو میں 'پریس شو' کے لیے اورینٹ سنیما پہنچا۔ عام طور پر سنیما ہال کے سامنے بھیڑ ہوتی تھی، لیکن میں نے اورینٹ سنیما کے سامنے سعید صاحب کو کھڑا ہوا دیکھا۔ میں ان کے پاس گیا تو مسکرانے لگے اور کہا کہ مجھے لگ رہا تھا تم ضرور آؤ گے۔ میں انہیں اورینٹ سنیما کے اندر لے گیا کیونکہ پریس والوں کے لیے ڈسٹری بیوٹر کا نمائندہ ہوتا تھا۔ ہم نے کھلنائک ساتھ ساتھ دیکھی۔ وہ لطف اندوز ہوتے رہے اور کہا کہ سنیل دت کے لڑکے نے کام تو بہت اچھا کیا ہے۔ فلم ختم ہونے کے بعد میں ان کے ساتھ ہی واپس آیا،تو وہ سنجے دت کی جیل یاترا پر بات کرتے رہے۔ اس فلم کا ریویو بھی انہوں نے ہی لکھا تھا۔۔


ملاقاتیں دہلی میں

میں 1994 میں دہلی آگیا تھا،اس کے بعد کولکتہ یادوں میں رہ گیا ،کبھی نہ مٹ پانے والی یادیں۔ سعید صاحب سے اس کے بعد بھی ملاقات ہوئیں۔ کبھی کسی کانفرنس میں اور کبھی کسی سمینار میں۔وہ جب بھی ملے ،مسکراتے ہوئے ہی ملے۔ ایک بار میرے والد بھی ایک کانفرنس میں آئے تھے تو اشوکا ہوٹل میں ملاقات رہی۔وہ کسی بات کو بھولتے نہیں تھے۔اکثر کچھ واقعات کا ذکر کردیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ چلو اچھا ہوا تم دہلی آگئے سب بھائی بہن ایک شہر میں آگئے۔


صحافی سے قبل صحافت کی موت

کہتے ہیں کہ صحافی مرتے دم تک صحافت نہیں چھوڑتا ہے لیکن سعید صاحب کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہی تھا کہ انہیں اپنی زندگی میں صحافت کو ترک کرنا پڑ گیا۔ آزاد ہند جیسےاخبار کو فروخت کیا۔کولکتہ کے بجائے ملیح آباد میں منتقل ہوگئے۔یہ سب ایک صحافتی اور سماجی زندگی کا خاتمہ تھا۔ایک ایسے صحافی کے لیے جنہوں نے اپنا بچپن اخبار کے آفس میں گزارا تھا،جن کو صحافت کسی امانت کی مانند ورثہ میں ملی تھی۔ان کے لیے میرے خیال میں یہ حالات ناقابل تصور رہے ہونگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل دور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ جیتے جی صحافت سے دور ہوگئے۔


آج کے دور میں جب صحافت کے نام پر دکانیں کھلی ہیں اس وقت اردو صحافت کا 'کوہ نور' یعنی 'آزاد ہند' نیلام ہوجاتا ہے۔یہ صرف سعید صاحب کا نہیں بلکہ قوم کا المیہ رہا ہوگا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سعید صاحب کا اخبار ان کے ممبر پارلیمنٹ بننے کے بعد نیلام ہوا۔ 2008 میں وہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے تو 2010 میں آزاد ہند نیلام ہوگیا۔میری نظر میں اس کے دو اسباب تھے اول تو وہ خالص صحافی تھے ،کاروباری نہیں تھے،انہیں نئے دور کی 'مارکٹنگ' کے 'آداب' نہیں معلوم تھے۔انہوں نےاس میں کبھی اشتہارات کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے ،جو اشتہارات آجاتے تھے،بس اسی کو قبول کر لیتے تھے۔ ان کی اس ظرف نے بھی کہیں نہ کہیں اخبار کو نئے زمانے کے طریقوں سے الگ کردیا تھا جس کے لیے ہم کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے
دوسرا یہ کہ اردو صحافت میں ان کا کوئی وارث بنا نہ ہی جانشین لیکن انہیں اپنی نئی نسل سے بھی اس قسم کی مدد نہیں ملی جیسی کہ کبھی مولانا رزاق ملیح آبادی کو ان سے ملی ہوگی۔ یقینا اب زمانہ بدل چکا ہے اور اردو صحافت میں بھی وہ کشش یا مستقبل نظر نہیں آرہا ہے شاید اس لیے آزاد ہند اس انجام کو پہنچا۔

بغداد سے مدینہ منورہ تک - سفرنامہ از احمد سعید ملیح آبادی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

آزاد ہند کا بند ہونا اور نیلام ہونا ہم سب کی زندگی کا بھی بہت بڑا صدمہ تھا، میں نے بھی اس درد کو محسوس کیا،جس کے سبب اس کا احساس کرنا مشکل ہے کہ سعید صاحب کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی۔ یقینا یہ پیروں تلے سے زمین کا کھسک جانے کے مترادف ہوگا۔ یہ سعید صاحب کی زندگی کا سب سے سخت دور ہوگا ایک صحافی کے لیے اس سے بڑا صدمہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے وہ زندگی میں ہی صحافت سے محروم ہوجائے۔


قسمت نے نہ دیا ساتھ

ہم سب جانتے ہیں کہ احمد سعید ملیح آبادی نامور صحافی اور ابو الکلام آزاد کے دست راست مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند تھے۔سعید صاحب نےآزاد ہند میں والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد جب وزیر تعلیم ہوئے تو انہوں نے اپنے دیرینہ رفیق کوثقافۃ الہند کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دہلی بلانے کی دعوت دی۔ مولانا عبد الرزاق کے لیے یہ پریشان کن لمحہ تھا ،کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ اس سے آزاد ہند پر اثر پڑے گا۔ جس کے سبب انہوں نے نے اپنا معذرت نامہ لکھ بھیجا کہ ان کے اخبار کا کیا ہوگا۔


مگر مولانا آزاد نے اخبار کو احمد سعید کے حوالے کر دینے کا مشورہ دیا۔یہی نہیں اس کے ساتھ یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ۔۔۔ مچھلی اور بطخ کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، وہ تو بغیر سکھائے تیر نے لگتی ہے۔ جس کے بعد مولانا عبد الرزاق صاحب اخبار سے مطمئن ہو کر دہلی روانہ ہو گئے اور احمد سعید ملیح آبادی نے والد ہی کے طرز پر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ساتھ ہی آزاد ہند کو ایک مقام بخشا مگر اس معاملہ میں سعید صاحب کی قسمت نے ان کے والد کی طرح ساتھ نہ دیا۔


میں اس کی تفصیل نہیں جانتا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔لیکن اتنا جانتا ہوں کہ جو ہوا وہ تکلیف دہ تھا۔ ان کی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں لکھنے کے بارے میں سوچا تو ان کی ہی یہ نصحیت کانوں میں گونج گئی کہ۔۔۔ کیا لکھنا ہے سب جانتے ہیں لیکن کیا نہیں لکھنا یہ جاننا ضروری ہے۔۔
آج سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ آج ملک میں 'پٹھان۔۔۔ پٹھان ' کی گونج ہے لیکن میں نے ایک حقیقی 'پٹھان' کے ساتھ طویل عرصہ گزارا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا لیکن اس میں کہیں جارحیت نہیں تھی،جلال نہیں تھا،تیور نہیں تھے،اکڑ نہیں تھی بلکہ اعتدال تھا،رواداری تھی،اخلاق تھا،ملنساری تھی،خاکساری تھی،خوش مزاجی تھی۔ سادگی تھی اور بھی خوبیاں تھیں جو اس فہرست کو مزید طویل کردیں گی۔شاید اسی لیے داغ کہ گئے کہ۔۔۔۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

***
منصور الدین فریدی
ایڈیٹر : آواز دی وائس ۔ نئی دہلی
ای-میل: faridi[@]awazthevoice.in

منصور الدین فریدی

Ahmad Saeed Maleehabadi, the pathan of Urdu journalism

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں