'انُوکُل اور دیگر کہانیاں' و 'حکایات عالم' : قیصر نذیر خاورؔ کی دو کتابیں
مرحوم قیصر نذیر خاورؔ کے بارے میں ، مجھے اس کے سوا کچھ نہیں پتہ کہ ، وہ ایک بہترین مترجم تھے ، اور کبھی کبھار خود بھی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ فلموں اور آرٹ کا بھی شوق تھا ، اورِ اِن موضوعات پر بھی اُن کے قلم سے مضامین نکلا کرتے تھے۔ مزید ایک بات جو فیس بُک پر ، بالخصوص ' عالمی ادب کے اردو تراجم ' گروپ میں ، اُن کے کمنٹس پڑھ کر پتہ چلی کہ ، وہ بیکار کی باتیں ، بکواس اور بےہودگی قطعی پسند نہیں کرتے تھے ، آسان لفظوں میں یہ کہ مزاج میں قدرے سختی تھی۔
لیکن اس سختی کے باوجود ، فیس بُک پر ، ان کے واقف کاروں کا حلقہ خوب وسیع تھا ، اور اس کی بنیادی وجہ اُن کی ترجمہ کردہ کہانیاں و ناول اور تحریریں تھیں۔ آج مجھے مرحوم کی یاد ، اُن دو کتابوں کی وجہ سے آگئی جو ، کچھ پہلے ہی پڑھی ہیں ، ' انُوکُل اور دیگر کہانیاں ' اور ' حکایاتِ عالم '۔ اِن کتابوں تک میری ، یا کسی بھی ہندوستانی قاری کی ، رسائی ناممکن تھی اگر قاضی زکریا اپنے ادارے ' مَیٹر لنک پبلشرز ، لکھنؤ ' سے انہیں شائع نہ کرتے۔
ہندوستان میں پاکستانی کتابوں کا حصول ایک خواب ہے ، اور سرحد پار بھی شاید یہی صورتِ حال ہے کہ وہاں ، یہاں کی کتابیں نہیں پہنچ پاتی ہیں ، یہ نتیجہ ہے دونوں ملکوں کی گندی سیاست کا۔ خیر سیاست سے ہٹ کر چلیں دونوں کتابوں کی باتیں کریں۔ ' انُوکُل اور دیگر کہانیاں ' ہندوستان کے عالمی سطح کے معروف فلمساز و ہدایت کار ستیہ جِت رے ( یہ مرحوم کا املا ہے ، یہاں اردو والے عموماً جِت نہیں جیت لکھتے ہیں ) کی 18 کہانیوں کے ترجموں کا مجموعہ ہے۔ رے صرف ایک بڑے فلم میکر ہی نہیں تھے ، اعلیٰ پائے کے ادیب ، کہانی کار اور مُصور بھی تھے ، انھوں نے اسکیچ بھی بنائے ہیں ، خاکے بھی ، ڈرائنگ اور پینٹنگ بھی کی ہے ، اور ٹائپو گرافیکل کام بھی کیا ہے جسے ' رے رومن ٹائپ ' کے نام سے جانا جاتا ہے ، اور موسیقی بھی دی ، گانے بھی لکھے ، یعنی ستیہ جِت رے کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ اس کتاب میں قیصر نذیر خاورؔ کا رے کی شخصیت اور فن پر ایک شاندار مضمون ' ستیہ جِت رے : ایک طائرانہ جائزہ ؛ متوازی دنیائیں ' کے عنوان سے شامل ہے۔ مضمون میں رے کی زندگی کے تقریباً ہر گوشہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، مضمون نگار رے کا تعارف کچھ یوں کراتے ہیں:
" ستیہ جِت رے ایک سے زائد متوازی دنیاؤں کے آدمی رہے ہیں لیکن ان پر علم جیومیٹری کا اطلاق نہیں ہوتا ، ان کی یہ دنیائیں کہیں نہ کہیں یوں جاکر مل جاتی ہیں کہ ایک نیبولا سا بن جاتا ہے۔ "
وہ بتاتے ہیں کہ ایک مصور اور آرٹسٹ سے ایک عظیم فلم میکر بننے تک رے کِن مراحل سے گزرے ، اور کیسے ،" 36 چھوٹی بڑی فیچر / دستاویزی فلموں نے ستیہ جِت رے کو عالمی شہرت عطا کی اور اب ان کا شمار دنیا کے عظیم فلمسازوں میں ہوتا ہے۔" قیصر نذیر خاورؔ نے اِس مضمون میں جِس فنکاری سے رے کی فلموں کے فنّی و تکنیکی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو عالمی فلم انڈسٹری اور بڑے فلم میکروں اور فلموں کے بارے میں بڑی معلومات تھی۔ ستیہ جِت رے نے بہت لکھا ، بچوں کے لیے ، بڑوں کے لیے ، خوفناک کہانیاں ، جاسوسی کہانیاں ، سائنس فکشن اور سماجی و تہذیبی مسائل پر مبنی کہانیاں۔
مرحوم قیصر صاحب ان کی کہانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
" ستیہ جِت رے صرف ایک فلمساز ہی نہیں بلکہ وہ ایک عمدہ ادیب ، مصور ، گیت نگار اور موسیقار بھی ہیں تو ان کی تحریروں میں مصوری ، گیت نگاری اور موسیقیت بھی نظر آتی ہے۔ کہانیوں پر ان کے گرافکس اپنی جگہ لیکن الفاظ میں منظر نگاری ایسی جیسے وہ منظر آپ کے سامنے ہو ، موسیقیت ایسی جیسے اسٹیج فلم کے بیک گراؤنڈ میں سُر بکھرے ہوں۔"
وہ ایک کہانی ' بنکو بابو کا دوست ' کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں ، جس پر رے نے اسکرپٹ بھی لکھ رکھی تھی ، وہ اس پر فلم بنانا چاہتے تھے ، لیکن اس " اسکرپٹ ' ایلین' (Alien) سے متاثر ہوکر سٹیون سپیلزبرگ ( معروف فلم میکر ) نے 1982ء میں E.T بنا چکا تھا۔" یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے ؛ کہتے ہیں کہ سٹیون سپیلزبرگ نے اسکرپٹ چوری کر لی تھی ، اور کئی لوگ اِس بات کو جانتے بھی تھے ، لیکن رے نے کبھی بھی سپیلزبرگ پر انگلی نہیں اٹھائی۔ قیصر نذیر خاورؔ کا یہ رے کی ہمہ جہتی پر ایک شاندار مضمون ہے۔
اٹھارہ کہانیوں میں سے پہلی کہانی ' بنکو بابو کا دوست ' ہے۔ اسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ رے کا ذہن کس قدر زرخیز تھا ! یہ سائئنس فکشن ہے ، لیکن گاڑھے سائنسی اصطلاحات سے پاک ، اوراسے اس سادہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تمام ہی کہانیوں کا ترجمہ لاجواب ہے ، اِن ترجموں کو پڑھنے کا لطف اس لیے دوبالا ہوجاتا ہے کہ اِ میں رے کے بنائے ہوئے خاکے اور اسکیچ بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر شامل کر دیے گئے ہیں۔ اس مجموعے کا پیش لفظ مہرافروز کا تحریرکردہ ہے ، وہ لکھتی ہیں:
" ایک دو اردو مصنفین نے ہندوستان میں ان کی ( رے کی ) کہانیوں کو اردو میں پیش کرنے کی سعی کی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ یا تو بنگالی بالکل نہیں جانتے تھے اور ان کی انگریزی بھی اتنی بہتر نہیں تھی کہ وہ ترجمہ کا حق ادا کر سکتے اور ستیہ جیت رے کے خیال کی روح تک پہنچ جاتے۔ قیصر نذیر خاورؔ صاحب کی انگریزی بہت عمدہ ہے ، انہوں نے اردو قالب میں ڈھالتے وقت رے صاحب کی انہی کہانیوں کا انتخاب کیا ، جن کا ترجمہ خود ستیہ جیت رے نے کیا۔۔۔ یہ انتخاب کچھ ایسا ہے کہ رے صاحب کی کہانیوں کا 1962ء تا 1990ء تکا کا سفر سامنے آجاتا ہے یوں ہم اس روح تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں جو خود ستیہ جیت رے کی اپنی کہانیوں میں موجود ہے۔" کتاب کے سرورق پر رے کی پائپ کا شغل کرتی تصویر ہے ، اور صفحہ آخر پر بستر مرگ پر بنایا ہوا اُن کا آخری خاکہ ہے ، ایک درخت کا ، جس کی ٹہنیوں اور پتیوں میں کوئی آٹھ افراد کے چہرے چھپے ہوئے ہیں ، لاجواب خاکہ !"
قیصر نذیر خاورؔ کی دوسری کتاب "حکایاتِ عالم : علم و دانش پر مبنی دنیا بھر کی حکایات سے ایک انتخاب" ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں قیصر صاحب لکھتے ہیں:
" میں نے حکایات کی اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ' صوفی ازم ' چونکہ اپنے زمانے یا اس سے پہلے کے زمانے میں رائج ، مذاہب کا قیدی نہیں ہوتا لہٰذا اِن حکایات کے ماخذ کسی ایک مذہبی عقیدے تک ہی محدود نہ رہیں اور ان میں عشق و محبت ، تزکیہ نفس اور اصلاحِ اعمال کا پیغام ہی سامنے آئے۔"
کتاب میں پانچ مضامین شامل ہیں۔ مہر افروز ( کرناٹک ) کا مضمون ' کوزے میں بند سمندر ' ، طویل ہے ، وہ لکھتی ہیں کہ:
"قیصر نذیر خاورؔ کی یہ کوشش کہ وہ حکایتی ادب کے انبار میں سے انمول رتنوں کی طرح ان سو حکایات کا انتخاب کر سکیں ، جو نہ صرف انسان کے کنفیوژن کو دور کرنے کا سبب بنتی ہوں بلکہ انہیں مشعل بردار بھی بناتی ہوں ، جو راہِ حق کے متلاشی ہیں ، ایک قابلِ ستائش کام ہے۔"
ناصر خان ناصر ( امریکہ ) کا مضمون ' حسنِ معنویت ' کے عنوان سے ہے ، جس میں انہوں نے کتاب میں شامل حکایات پر بات کی ہے۔ اسماء حسن ( ہانگ کانگ ) اپنے مضمون ' فہم و ادراک کے نئے در ' میں لکھتی ہیں:
" بحیثیت مجموعی ، موضوعات اور انتخاب کے لحاظ سے بہت بہترین اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ قارئین سبق آموزی کے ساتھ ساتھ کچھ کہاوتوں کے مزاح سے بھی محظوظ ہوں گے۔"
حمید قیصر ( پاکستان ) کا مضمون 'صوفی سنتوں کی کہاوتیں ؛ ایک خوبصورت انتخاب' اس کتاب میں شامل حکایات کے موضوعات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
حسنین جمال ( پاکستان ) اپنے مضمون ' سچ کا عنصر ' میں لکھتے ہیں:
" سچ کا عنصر جتنا زیادہ ہو ، حکایت کی عمر اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ قیصر نذیر خاورؔ صاحب نے ایسی ہی کچھ حکایات کی عمر بڑھا دی ہے۔"
حکایات دو حصوں میں پیش کی گئی ہیں ، حصہ اول میں ایسوپ ، پنچ تنتر ، جاتک کہانیاں اور خواجہ نصیرالدین کی حکایات ہیں ، اور دوسرے حصے میں مختلف ذرائع سے حاصل حکایات شامل کی گئی ہیں۔ یہ حکایات دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ اس کتاب کا انتساب اِن لفظوں میں ہے:
' والدین کے نام جو میرے پہلے معلم بھی تھے۔'
یہ کتابیں حاصل کرنے کے لیے ویب سائٹ www.matterlinkbooks.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں