کرناٹک میں نفرت کی ہار محبت کی جیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-14

کرناٹک میں نفرت کی ہار محبت کی جیت

karnataka-elections-2023-love-wins-over-hate

کرناٹک میں بی جے پی کا کَس بَل نکل گیا ہے !

لیکن کَس بَل نکلنے کے باوجود ، کہاؤت ' رسّی ' جل گئی مگر ' اینٹھن ' نہیں گئی کے مصداق ، بی جے پی ، رزلٹ آنے سےایک روز قبل ، یعنی جمعہ کے روز ہی سے ، یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ حکومت تو وہی بنائے گی !
خیر منھ چلانے سے کوئی کسی کو کیسے روک سکتا ہے ، یہ منھ بی جے پی کا ہے ، وہ جس قدر چاہے چلائے ، اب اس کی دال کرناٹک میں نہیں گلنے والی ، کیونکہ کانگریس کو ' مکمل اکژیت ' حاصل ہو گئی ہے۔
لیکن بی جے پی کے دعویٰ سے یہ حقیقت تو سامنے آ ہی گئی ہے ، حالانکہ یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی ، کہ وہ بُری شکست کے باوجود کرناٹک میں ' آپریشن کمل ' کا خواب دیکھ رہی ہے ، بلکہ ہو سکتا ہے اس کے لیے کوئی منصوبہ بھی بنا رہی ہو ، حالانکہ کرناٹک میں اس کا جو حشر ہوا ہے ، وہ خرید و فروخت کی بنیاد پر کمارا سوامی کی منتخب حکومت کو گرا کر اپنی حکومت بنانے کا ہی نتیجہ ہے۔
لیکن کہتے ہیں کہ جب بُرے دِن آتے ہیں تو عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے ، کچھ ایسا ہی غیر اخلاقی حرکتوں کے لیے بدنام بی جے پی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔


چلیے پلٹتے ہیں کرناٹک کے اسمبلی نتائج کی طرف۔ کانگریس نے کمال کر دیا !
کمال اس لیے کہ بی جے پی کی زبردست طاقت سے لوہا لے کر ، اس نے جو تاریخی جیت حاصل کی ہے ، وہ آسان نہیں تھی ، کانگریس کو کئی محاذوں پر لڑائی لڑنا پڑی۔ انکم ٹیکس اور ای ڈی نے الیکشن کے دوران ہی کانگریسی لیڈروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا ، الیکشن کمیشن قطعی طور پر جانبداری برت رہا تھا ، بی جے پی کے سو خون معاف تھے لیکن کانگریس کا کوئی ایک بھی ذومعنی جملہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ساری انتظامیہ ایک طرح سے کانگریس کی راہ میں حائل تھی ، اور سارا تنتر بی جے پی کے لیے کام کرتا نظر آ رہا تھا۔
ملک کے وزیراعظم نریندر مودی دس روز کے لیے کرناٹک میں خیمہ زن ہو گئےتھے ، ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے سارے ملک کا دھیان چھوڑ کر ساری توجہ کرناٹک پر مبذول کر دی تھی ، اور بی جے پی کے صدر نڈا بھی کرناٹک کے ہوکر رہ گئے تھے۔
بی جے پی کے مزید چھوٹے بڑے لیڈر ، جن میں مقامی لیڈر بھی شامل تھے ، کرناٹک بھر میں ' پرچار ' کرتے پھر رہے تھے ، گویا یہ کہ بی جے پی نے ساری طاقت کرناٹک میں جھونک دی تھی۔ یہ اسمبلی الیکشن ایک طرح سے 2024ء کے لوک سبھا الیکشن کا سیمی فائنل بھی تھا ، اور پی ایم مودی کے لیے اپنی ساکھ کو مضبوط بنانے ، بلکہ اپنی ناک بچانے کا ایک ' سنہرا موقعہ ' بھی۔


مودی اِن دنوں بہت مضبوط قدموں پر نہیں کھڑے ہوئے ہیں ، اندر ہی اندر اُن کے خلاف ، پارٹی کے اندر اُن کی تانا شاہی کے خلاف ، ایک اضطراب پایا جاتا ہے ، اور ادھر یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اُن کے سامنے ایک چیلنج بن کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ کرناٹک پی ایم مودی کے لیے یہ ثابت کرنے کا ، کہ آج بھی ان کا جادو برقرار ہے ، آج بھی ان کی لہر ہے اور ان کےبغیر بی جے پی کوئی الیکشن جیت نہیں سکتی ہے ، سنہرا موقعہ تھا۔ لیکن یہ موقعہ انہوں نے ، خود اپنی حرکتوں کے سبب کھو دیا ہے۔ بلاشبہ کرناٹک میں بی جے پی کی اِس بُری ہار کا اثر مودی کی سیاست پر پڑے گا ، اور یہ اثر یا اثرات مثبت یقیناً نہیں ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کو کرناٹک کی لڑائی میں جیت کیوں حاصل نہیں ہوئی ؟


اگر ہم بی جے پی کی ، بلکہ پی ایم مودی کی انتخابی مہم پر غور کریں تو ، صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ ، انہوں نے مہم غلط ڈھنگ سے چلائی ، یہ ایک ایسی مہم تھی جو کرناٹک اور کرناٹک والوں کے مسائل سے عاری تھی ، سارا زور ' فرقہ پرستی ' بلکہ ' مسلم دشمنی ' پر تھا اور جن مسائل کو یا جن باتوں کو اٹھایا گیا ، مسئلہ بنایا گیا اور جن باتوں کا پرچار کیا گیا ، ان کا زمینی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ویسے سچ یہ ہے کہ بسوا راج بومئی کی حکومت عصبیت اور فرقہ پرستی کی بنیادوں پر ہی کام کرتی چلی آ رہی تھی ، اسے یہ لگ رہا تھا کہ ' حجاب کامسئلہ ' اس کے لیے اہم ہے ، اسے یقین تھا کہ ٹیپو سلطان کو ' ہندو دشمن ' کہنے سے اسے خوب ووٹ ملیں گے ، اسے یہ لگ رہا تھا کہ اگر مسلمانوں کے لیے ' حلال غذا ' کا حصول مشکل بنا دیا گیا تو سارے ہندو اس کی جھولی میں ہوں گے۔ اور کچھ یہی پی ایم مودی کو بھی لگ رہا تھا۔
مودی اور اُن کے حواریوں نے انتخابی مہم کی شروعات ہی مسلم دشمنی سے کی۔ کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر ایشورپّا نے ابتدا ہی میں یہ بم داغ دیا کہ بی جے پی کو مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے ، اور پی ایم مودی و امیت شاہ نے اس تعلق سے خاموشی برت کر ایشورپّا کی ہاں میں ہاں ملائی۔


بومئی نے مسلمانوں کا چار فیصد ریزرویشن ختم کرکے اسے دو دو فیصد کے حساب سے لنگائتوں اور وؤکالِگائیوں میں تقسیم کر دیا تھا ( اب سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگا دی ہے ) امیت شاہ نے کرناٹک میں پہنچ کر انتخابی مہم میں یہ اعلان کر دیا کہ کرناٹک میں آئندہ سے مسلمانوں کو کوئی ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔
امیت شاہ اسی پر نہیں رُکے انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر کرناٹک میں بی جے پی نہیں جیتی تو فسادات ہوں گے ، یہ گویا ایک طرح سے دھمکی تھی کہ بی جے پی کو یا تو ووٹ دیا دیں یا پھر فسادات جھیلنے کے لیے تیار رہیں۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے پرچار تنتر نے یہ بات پھیلائی کہ ٹیپو سلطان کو انگریزوں نے نہیں شہید کیا تھا بلکہ انہیں مارنے والے وؤکالیگی تھے ، لیکن جس کمیونٹی پر یہ الزام عائد کیا گیا ، اسی کمیونٹی نے سختی کے ساتھ اس کی تردید کر دی ، اور بی جے پی والے اپنا سا منھ لے کر رہ گئے !


کرناٹک کے قدآور کانگریسی لیڈر اور ریاست کے ایک سابق وزیراعلیٰ سدا رمیّا کو لنگائت مخالف ثابت کرنے کے لیے سارا زور بی جے پی نے صَرف کردیا ، مگر لنگائتوں کو اُن سے کاٹ نہیں سکے۔ اسی طرح نِڈا نے کرناٹک کے باشندوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہ وہ مودی کے لیے ووٹ ڈالیں ورنہ مرکزی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ، یہ ایک طرح سے دھمکی تھی کہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تو مرکز کی اسکیموں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
اسمرتی ایرانی ، جو مرکزی وزیر ہیں اور اِن دنوں عازمین حج کو پریشان کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ، کرناٹک پہنچیں تو پرینکا گاندھی کو نماز پڑھتے دیکھنے کا اپنا ' جھوٹ ' بیان کر دیا ، یقین ہے اس بات کو لطیفہ سمجھ کر کرناٹک کے لوگ خوب ہنسے ہوں گے۔


لیکن سب سے خراب معاملہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کا تھا۔ مودی ایک پی ایم کے طور پر نہیں بی جے پی کے ایک پرچارک کے طور پر انتخابی مہم چلا رہے تھے ، یہ ان کا قصور نہیں ہے ، وہ آر ایس ایس کے پرچارک رہے ہیں ، پرچار کرنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ چھوٹنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اور اوپر سے فرقہ پرستی !
اتنا یاد رہے کہ جب مودی کرناٹک میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے تب ملک کئی مسائل سے جوجھ رہا تھا۔ جنترمنتر پر پہلوان ، بشمول خواتین پہلوان ، دھرنے پر بیٹھی تھیں ، ان کا الزام تھا کہ بی جے پی کے ایک ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ نے خاتون پہلوانوں کا جنسی استحصال کیا ہے ، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پی ایم نے ممکن ہے یہ مطالبہ سُنا ہو ، لیکن انھوں نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ، آج بھی پہلوان خواتین جنتر منتر پر بیٹھی ہوئی ہیں ، اسی دوران جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں فوجی جوان شہید کیے جا رہے تھے ، مگر پی ایم کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی تھی ، اور منی پور جل رہاتھا ، مودی جی ! روم کے بادشاہ نیرو کی طرح بانسری بجا رہے تھے۔


منی پور آج بھی سلگ رہا ہے۔ امیت شاہ جو ملک کے وزیرداخلہ ہیں ، منی پور کے حالات سے آنکھیں موندے الیکشن مہم میں مصروف تھے۔ یہ سب اس ملک کے لوگ ، بشمول کرناٹک کے لوگ ، دیکھ رہے تھے ، اور افسوس کر رہے تھے کہ ملک کے وزراعظم کو صرف الیکشن کی پڑی ہے ، ملک کی فکر نہیں ہے۔ مودی کا دس دن کا کرناٹک کا قیام اور روڈ شو بھی انہیں اور بی جے پی کو نہیں بچا سکا ، بلکہ سچ یہ ہے کہ لمبے قیام نے ان کے لیے اور ان کی پارٹی کے لیے بھی دشواریاں پیدا کیں ، لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بھلا کوئی وزیراعظم بھی کیا اتنی لمبی انتخابی مہم میں شرکت کر سکتا ہے !


کرناٹک کے لوگوں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ روڈ شو کے دوران سڑکوں کا جام ہونا بھی مودی کے خلاف گیا ، لوگوں نے کھل کر اس پر تنقید کی تھی۔ اور پھر سب سے زیادہ غضب تو ' جئے بجرنگ بلی ' کے نعرے نے ڈھایا ! کانگریس نے ، ممکن ہے کہ اپنے منشور میں ' بجرنگ دل پر پابندی لگانے ' کے وعدے پر ، ملک گیر احتجاج کے بعد کچھ تشویش محسوس کی ہو ، اسے لگا ہو کہ یہ وعدہ منشور میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا ، لیکن بعض اوقات کوئی اَن چاہا کام بھی فائدہ دے جاتا ہے ، اس وعدے کا بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوا۔


مودی جی ! نہ صرف ' جئے بجرنگ بلی ' کے نعرے لگانے لگے بلکہ یہ تک مشورہ دے دیا کہ:
' ووٹ ڈالنے کے لیے جئے بجرنگ بلی کا نعرہ لگا کر بٹن دبائیں۔'
کرناٹک کے لوگ بجرنگ دل کے عتاب سے گزرے ہیں ، بجرنگ دل ان کی من پسند تنظیم نہیں ہے ، اس لیے مودی کی بات نہ ان پر اثرانداز ہوئی اور نہ ہی انہوں نے اِس نعرے کو کرناٹک کا کوئی مسئلہ سمجھا ، بلکہ الٹے بجرنگ دل سے بجرنگ بلی کو جوڑنا ہنومان جی ! کی توہین سمجھا گیا ، اور الٹی لاٹھی بی جے پی پر ہی چل گئی۔


مودی جی نے فلم ' دی کیرالہ اسٹوری ' کو بھی انتخابی موضوع بنانے کی کوشش کی لیکن یہ فلم بھی بی جے پی کو نہیں بچا سکی۔ کرناٹک والوں نے مودی جی کا اور بی جے پی کا سارا کَس بَل نکال دیا۔ بی جے پی کی یہ ہار فرقہ پرستی کی ہار ہے ، بجرنگ دل کو کلین چٹ دینے کی ہار ہے ، بجرنگ بلی کی توہین کرنے کی ہار ہے اور سارے الیکشن کے دوران کرناٹک کے عوام کے مسائل کو نظرانداز کرنے کی ہار ہے۔ کرپشن کو جائز قرار دے کر 40 فیصد کمیشن پر زبان بند رکھنے کی ہار ہے ، کرناٹک میں ترقی کے کاموں کو نظرانداز کرنے کی ہار ہے۔ یہ ہار بی جے پی اور مودی کی پالیسیوں کی ہے۔


کانگریس نے اپنے پتّے سوجھ بوجھ سے پھینکے ، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ساری توجہ مودی کی ' فالتو باتوں ' کو کرناٹک والوں کے سامنے رکھنے پر مرکوز کی ، اور انہیں بتایا کہ یہ کرناٹک کے مسائل نہیں ہیں۔ اب مودی کے لیے زمین تنگ ہونی شروع ہو گئی ہے ، جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے بزرگ ذمہ دار گلزاراعظمی نے کانگریس کی اِس جیت اور بی جے پی کی ہار پر یہ پیشن گوئی کی ہے کہ مودی کا زوال شروع ہو چکا ہے ، اب بی جے پی کا خاتمہ قریب ہے۔ اللہ کرے ان کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہو۔
یہ نفرت پر محبت کی جیت ہے۔


اور ہاں ، ایک بات اور ، یہ مسکان خان اور اُن بے شمار برقعہ پوش بچیوں کی جیت ہے ، جن کے سروں سے ڈوپٹّے اور برقعے چھیننے کے لیے ، بومئی کی سرکار نے ، جسے مرکز کی مودی سرکار کی پشت پناہی حاصل تھی ، زعفرانی دہشت گردوں کو ، چھوٹ دے دی تھی۔


Love wins over hate in Karnataka Elections 2023

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں