ڈاکٹر دبیر احمد : وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-11

ڈاکٹر دبیر احمد : وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے

dr-dabeer-ahmad

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے


مذکورہ بالا رباعی کے خالق میر ببر علی انیس ہیں اس رباعی کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے جو خاکسار، ملنسار، شفیق، مشفق و مہربان اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں جب کہ بعض لوگ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو منوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن آ ج میں ایک ایسے ہر دل عزیز شخص کا ذکر کر رہی ہوں جس سے ملنے کے بعد ہر کوئی ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے۔
پر نور چہرہ، چوڑی پیشانی، آنکھوں میں ذہانت و ذکاوت کی چمک، چہرے پر ہر وقت ایک دلکش مسکراہٹ جو یاس زدہ لوگوں کو زندگی جینے کا پیغام دیتی ہے، باتوں کا انداز ایسا کہ جیسے اسے کوئی جلدی نہیں ہر لفظ ٹھہر ٹھہر کر اتنی خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ سننے والوں کے دل میں ہر بات اتر جاتی ہے وہ شخص کوئی اور نہیں ڈاکٹر دبیر احمد ہیں جو علمی و ادبی حلقے میں معتبر نظروں سے دیکھے جاتے ہیں جن کا ذکر لوگ فقط زبان سے نہیں بلکہ دل سے بھی کرتے ہیں، اور میری خوش بختی یہ کہ میں ایسے ہر دل عزیز شخص کی شاگردہ رہی ہوں۔ آج جب میں ان کے متعلق کچھ لکھنے بیٹھی ہوں تو اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کس کس گوشے پر روشنی ڈالوں، کیوں کہ زندگی کے ہر کٹھن موڑ پر وہ میرے ساتھ اور میرے پاس کھڑے نظر آئے۔ کبھی باپ بن کر، کبھی بھائی کی صورت اور کبھی استاد کی شکل میں، یعنی:
"وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے"


میں نے ان کی کتابیں اور مضامین کا بھی مطالعہ کیا ہے، بحیثیت استاد میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے آج جب میں ان کے متعلق لکھنے بیٹھی ہوں تو بہت ساری باتیں ذہن میں گڈمڈ ہو رہی ہیں۔ ان کی محبتوں اور شفقتوں کے اتنے سارے واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں کہ سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ کیا لکھوں ، کہاں سے شروع کروں اور کیا چھوڑوں۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا پیکر ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اتنے اوصاف کے مالک ہوتے ہیں کہ ان کی خامیاں ان اوصاف میں کہیں گم ہو جاتی ہیں لہذا میں نے بھی ہر گزرتے وقت کے ساتھ ان میں خوبیاں ہی دیکھی ہیں۔


میں مولانا آزاد کالج کی طالبہ رہ چکی ہوں سر سے پہلے پہل میں کالج میں ہی ملی، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں پہلی بار سر کی کلاس میں داخل ہوئی تھی، تو انہوں نے مجھ سے میرا نام، میرے والد کا نام، پتا اور والد کے کام کے متعلق استفسار کیا تھا اور پھر سر نے مجھ سے ایک مشکل سا لفظ لکھنے کے لیے کہا۔ میں وہ لفظ لکھ کر سر کو دکھانے کے لیے آگے بڑھی تو سر نے کہا:
"دکھانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے تمہارے قلم کی جنبش سے سمجھ لیا کہ تم نے درست لکھا ہے "
سر کی دور بینی کی داد دیتی ہوں جو قلم کی جنبش بھی خوب سمجھتے ہیں۔


ان کا مطالعہ زبردست رہا ہے اس کا اندازہ مجھے کئی بار ہوا۔ واقعہ یوں ہے کہ کالج کے زمانے میں کئی روز کی محنتوں کے بعد میں نے ڈرامے پر ایک مضمون تیار کیا اور استاد مرحوم سید محمد اظہر عالم کو نظر ثانی کرنے کے لیے دیا جو کلاس میں ڈراما پڑھاتے تھے۔ چند روز گزر جانے کے بعد جب میں نے اظہر سر سے اپنا مضمون واپس مانگا تودوسرے دن کا وعدہ کرکے ٹال گئے۔ پھر جب بھی میں ان سے مضمون واپس مانگتی وہ مجھے مختلف بہانوں سے ٹالتے رہے۔ ایک روز میں نے کہا کہ سر اگرآپ اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے مضمون پر نظرثانی نہیں کر سکے ہیں تو مضمون واپس کر دیجیے کیونکہ چند روز کے بعد امتحان ہے، تب سر نے بہت آہستہ سے کہا کہ: "فرزانہ تمہارا نوٹس کہیں گم ہو گیا ہے "
یہ سننا تھا کہ میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ میں نم آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے واپس چلی آئی امتحان نزدیک تھا، جی چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں، تبھی دبیر سر کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی سر نے مجھے اردو ڈپارٹمنٹ میں آنے کے لیے کہا اور پھر اداسی کی وجہ پوچھی تب میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ سر نے کہا کہ تم مضمون مجھے دے دیتی میں دیکھ لیتا۔ تب میں نے نہایت سادگی سے کہا کہ سر آپ تو داستان اور تنقید کے استاد ہیں آپ ڈرامے پر لکھا گیا مضمون کیسے چیک کر سکتے ہیں؟ سر کی مسکراہٹ گہری ہوگئی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹھو اور مضمون کا موضوع بتاؤ۔ میں نے بتایا کہ "ڈراما کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی "۔
اور پھر انہوں نے اسی وقت بغیر کسی کتاب کی مدد کے مضمون ڈکٹیٹ کروا دیا۔ مجھے اپنے سابقہ جملے پر شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔ میں نے کلاس میں بھی کبھی انہیں کتاب لے کر پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا وہ وقت پر جماعت میں داخل ہوتے اور پوچھتے کیا پڑھانا ہے؟ اور پھر ہم جو بھی موضوع کہتے سر اسی وقت اسے اتنی تفصیل کے ساتھ واضح کرتے کہ پھر کسی کو کوئی کتاب کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اس واقعہ کے بعد مجھے جب بھی کسی پرچے میں دشواری ہوتی میں سر کو کہتی اور سر اسی وقت اس موضوع پر گفتگو کرتے اور گفتگو ایسی کہ ذہن کے کسی گوشے میں وہ ساری باتیں محفوظ ہو جاتیں اور امتحانات کے دنوں میں ذہن کے دریچے سے امڈتے ہوئے کاغذ کی زینت بنتی چلی جاتی۔


کالج میں شعبۂ اردو کا کوئی بھی پروگرام ہو اس کی تیاری کی بیشتر (بلکہ تمام کہنا زیادہ بہتر ہوگا)ذمہ داریاں سر ہی نبھاتے وہ چند اسٹوڈنٹس کو لے کر کام شروع کرتے اور پروگرام کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرتے کئی بار تو ایسا بھی ہوتا کہ کالج کا وقت ختم ہوجاتا دیگر اساتذہ مقررہ وقت پر گھر روانہ ہو جاتے لیکن کام باقی رہنے کی وجہ سے سر رات آٹھ، کبھی نو بجے تک کام کرتے رہتے۔ لڑکیوں کو وہ رکنے سے منع کردیتے تھے اور جن لڑکوں کے ساتھ وہ کام کرتے ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کالج میں پریم چند کی حیات و ادبی خدمات پر ایک سیمینار ہونے والا تھا سر کئی روز سے اس کی کامیابی کے لیے سخت محنت کر رہے تھے۔ اس میں کالج کے باہر سے بھی کئی معتبر ادبا اور مہمانان شریک ہونے والے تھے مقررہ دن سیمینار شروع ہوا۔ تمام لوگ تشریف فرما تھے یکے بعد دیگرے سبھی اپنا اپنا مقالہ پیش کر رہے تھے، سر کی بھی باری آئی، ابھی انہوں نے اپنا مقالہ شروع ہی کیا تھا کہ صدر شعبۂ اردو (جو سر کی محنت، صلاحیت اور قابلیت سے شاید خائف رہتے تھے، میں قصدا ًان کا نام لکھنے سے گریز کر رہی ہوں) نے سیمینار کے اصول کے خلاف صاحب مقالہ کو ٹوکتے ہوئے حکمیہ اور تضحیک آمیز لہجے میں کہا کہ:
"محترم گؤ دان کی کہانی سب جانتے ہیں آپ اپنی بات پیش کیجیے"
ان کے طنزیہ لہجے کی کاٹ کو مجلس میں بیشتر لوگوں نے محسوس کیا لیکن کہتے ہیں نا کہ خاموشی سے بہتر کوئی جواب نہیں۔ سر نے بھی اسی فارمولے پر عمل کیا اور انہوں نے مقالہ وہیں پر روک کر مائک پر 'شکریہ' کہا اور بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی سامعین کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی اور صدر شعبۂ اردو کے خلاف ایک ہنگامہ سا ہوگیا اور سبھوں نے یہ تاثر دیا کہ صدر محترم کو اس بات کی بھی تمیز نہیں کہ سیمینار میں کس طرح مقالہ نگار کو کسی بات کی تاکید کی جاتی ہے۔


سر کی بیشتر خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نیکی اس طرح کرتے ہیں کہ ساتھ رہنے والے کو بھی کبھی اس کی خبر نہیں ہوتی۔ یہ تو اسٹوڈنٹس ہی ہوتے ہیں جو جذبات سے مغلوب ہوکر کبھی کبھی یہ راز افشا کر دیتے ہیں کہ سر نے ان کی فیس ادا کر دی ہے یا ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھا رہے ہیں۔ ایک بار میں کالج میں اپنے کلاس روم جا رہی تھی کہ اچانک ایک لڑکی کے منھ سے سر کا نام سن کر ٹھٹھک گئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ لڑکی دوسری لڑکی سے کہہ رہی تھی کہ دبیر سر نے اس کی فیس کی ادائیگی کر دی ہے ، اس روز میری نظروں میں سر کی عزت اور بڑھ گئی۔ یہاں لوگ تھوڑا سا راشن اور ایک کمبل بھی نمائش کے بغیر نہیں دیتے اور ایک سر ہیں جو کبھی غلطی سے بھی ان باتوں کا ذکر اپنی زبان پر نہیں لاتے۔


میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ سر کی شفقتیں طلبا و طالبات سب کے لیے یکساں ہوتی ہیں کوئی بھی طالب علم اگر ان کے پاس مدد کے لیے آتا تو سر اس کی مدد ضرور کرتے۔ ہمارے سینئر بیچ میں بھی ایک طالبعلم تھا جس کا تعلق مضافات سے تھا (میں اس کا نام اور جگہ لکھنے سے گریز کر رہی ہوں کہ میرا مقصد اسے ذلیل کرنا نہیں ہے) وہ سر کے بے حد قریب تھا سر اس پر بے حد بھروسہ کرتے تھے اور حسب حاجت اس کا مالی تعاون بھی کرتے تھے یہ بات سر نے کبھی خود سے نہیں کہی بلکہ وہ طالبعلم خود ہی کبھی مجھ سے اور کبھی دوسرے لوگوں سے اس بات کا ذکر کر دیا کرتا تھا۔ لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ دوسروں کے بہکاوے میں آکر اس نے سر کو غلط سمجھنا اور ان کے خلاف برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور پھر نزدیکیاں دوریوں میں تبدیل ہو گئیں۔ وقت گزرتا گیا وہ نوجوان نوکری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ طالب علم جب پرائمری ٹیچر کے انٹرویو کے لیے پہنچا تو وہاں سر نے اسے دیکھاکوئی دوسرا شخص ہوتا تو شاید اس کے حق میں برا ہوتا لیکن سر کی محبتوں کا کیا کہئے کہ ان کی شفقتیں اس نوجوان کے لیے ماضی کی طرح مہربان ہوگئیں یہ ان کی وسیع القلبی ہی ہے ورنہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اپنے خلاف زہر اگلنے والوں کی کبھی مدد نہیں کرتا لیکن یہ سر تھے جو رقیبوں کا بھی برا چاہنا تو دور برا سوچ بھی نہیں سکتے۔


جب میں تھرڈ ائیر میں تھی تو میرے گھر کے حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے جاب کی سخت ضرورت آن پڑی اور تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ایک دفتر میں اچھی جاب بھی مل گئی لیکن میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھی کہ کالج کا آخری سال ہے اور کلاسز آف کر کے ملازمت کرنے سے امتحان کا نتیجہ خراب ہونے کا خدشہ بھی تھا لیکن اسی وقت سر جیسے میرے لیے فرشتہ بن کر آئے انہوں نے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور مجھے جاب کرنے کا مشورہ اس یقین کے ساتھ دیا کہ تمہاری پڑھائی کا حرج نہیں ہوگا، اور انہوں نے جو وعدہ کیا اسے بخوبی نبھایا بھی۔ میں دفتر میں کام کے دوران روزانہ اپنی عزیز دوست ساجدہ پروین کو کال کر کے تمام کلاسز کے متعلق پوچھ لیتی کہ کس ٹیچر نے کیا پڑھایا ہے اور شام کو جب میں گھر آتی تو سر مجھے خود کال کرتے اور تمام ٹیچرز کے پڑھائے ہوئے سبق کا خلاصہ کال پر ہی کر دیتے۔ اس زمانے میں آؤٹ گوئنگ کال کے چارجز بہت زیادہ ہوا کرتے تھے لیکن سر نے کبھی اس کا خیال نہیں کیا وہ مجھے اتنے ہی سکون سے پڑھاتے جتنا کہ آف لائن کلاس میں۔ یہ ان کی مدد کا ہی نتیجہ تھا کہ میں فرسٹ ڈویژن سے کامیاب ہو پائی۔کالج سے فارغ ہو کر میں نے ایم اے مکمل کیا اور کورس کے دوران مجھے جب جب سر کی رہنمائی یا ان کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی سر نے ہمیشہ خوش آمدید کہا۔


سر سے باتیں اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں اب میں نے انہیں بحیثیت ایک نیک دل انسان کے دیکھنا شروع کیا تو ان کی اور بھی صفات سامنے آئیں 2017 کی بات ہے کالج کا تاریخی مشاعرہ تھا اسی پروگرام میں کامیاب طلبا و طالبات کو انعامات سے بھی نوازا جا رہا تھا ایک طالبہ جس نے کالج میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی مائک پر اپنے تاثرات بیان کر رہی تھی اس نے اپنے رب اوروالدہ کا شکر ادا کرنے کے بعد سر کا شکریہ بھی ادا کیا وہ بے حد جذباتی ہو رہی تھی۔ اس کی آواز میں خوشی اور آنکھوں میں نمی صاف محسوس کی جارہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ سر نے ہر قدم پہ اس کا ساتھ دیا اسے کبھی والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ایک والد کی طرح انہوں نے اس کا خیال رکھا وغیرہ۔ تمام الفاظ گرچہ اس لڑکی کے تھے لیکن احساسات بالکل میرے تھے 2015 میں جب میرے ابو کی وفات ہوئی تو سر بھی ان کے جنازے میں شریک تھے سر مجھے ہمیشہ حوصلہ دیتے اور ایک بڑے بھائی اور والد کی طرح قدم قدم پر میری رہنمائی کرتے اور کبھی شفقت بھری ڈانٹ بھی لگاتے۔


سر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی خوشیاں تو سب کے ساتھ بانٹتے ہیں لیکن غم خود تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ خود غمگین ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی ہمت افزائی کرنا سر کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ 17 نومبر 2018 کا وہ المناک واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب سر ماں کے آنچل اور ان کی ممتا سے محروم ہوئے تھے فجر کے وقت ان کی والدہ کی وفات ہوئی تھی میں بھی دوپہر کو سر کے گھر گئی تھی اور عصر کے وقت واپس آئی تھی۔ میرے بڑے ابو جو ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے ان کی حالت بھی نازک تھی جانکنی کا عالم تھا اور آخر کار اسی شب عشا کے بعد ان کی بھی وفات ہوگئی۔ میں بے حد غمگین تھی ہم دونوں کا غم یکساں تھا بلکہ سر کا دکھ مجھ سے بھی زیادہ تھا کہ انہوں نے ماں جیسی ہستی کو کھویا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر انہیں بڑے ابو کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا لیکن سر کو خبر مل ہی گئی تدفین ہو چکی تھی پھر شام کو سر نے کال کیا، آواز میں شدید کرب اور برسوں کی نقاہت محسوس ہو رہی تھی ان کا غم تازہ تھا لیکن وہ مجھے دلاسہ دئے جا رہے تھے میری ہمت افزائی کر رہے تھے جب کہ میں سر کی ہمت افزائی کے لیے دو بول بھی ادا نہیں کر پائی ان کی جرات و ہمت کو میں دل سے سلام کرتی ہوں۔


2019 کی بات ہے مغرب کے وقت میں نے سر کو کال کیا اور کہا کہ سر میں نے اپنے اسکول کے اسٹوڈنٹس کو ظفر اوگانوی پر پروجیکٹ بنانے کو کہا ہے، لیکن بچوں کے پاس کوئی مضمون نہیں ہے اگر آپ کے پاس ظفر اوگانوی صاحب پر کوئی مضمون ہو تو آپ مجھے وھاٹس ایپ پر سینڈ کر دیجیے گا۔ سر نے کال پر ہی کہا کہ میں بول رہا ہوں تم ابھی لکھو اور پھر سر نے مضمون لکھوانا شروع کیا اور تقریبا 20، 25 منٹ کے بعد جب مضمون مکمل ہوگیا تب میں نے یونہی سر سے پوچھ لیا کہ سر آپ کہاں ہیں؟ اور جواب سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے کہا کہ "میں راستے میں ہوں اور کافی دیر سے کار ڈرائیو کر رہا ہوں" تو یہ ہے سر کی ذہانت و فطانت کا عالم۔ وہ راہ چلتے ہوئے بھی کسی کتب خانے سے کم نہیں ہوتے ہیں۔ تاریخ و سال، حوالہ و قول سب کچھ انہیں ازبر ہوتا ہے۔


اللہ کسی کو اگر عزت و رتبے سے نوازتا ہے تو اکثر لوگ اس رتبے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سر ایسے خوددار طبع اور غیور واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے رتبے کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا مثلا کالج یا مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے کسی پروگرام میں ہوتے ہیں اور انہیں بھوک محسوس ہوتی ہے تو وہ ادارے کے فوڈ پیکٹ کو ہاتھ لگانے کے بجائے کھانے کی چیزیں ہوٹل سے منگوا لیتے ہیں بلکہ لانے والے کو خاص طور پر کہتے ہیں کہ تمہیں جو بھی پسند ہو اپنے لیے بھی لے لینا۔ اردو اکاڈمی کے بک فئیر 2020کا آخری روز تھا پروگرام ختم ہو چکا تھا اور حاجی محمد محسن اسکوائر (مغربی بنگال اردو اکاڈمی سے متصل میدان جہاں ہر سال کتاب میلہ لگتا ہے) اب خالی ہو رہا تھا بک اسٹال والے اپنی کتابیں سمیٹ رہے تھے۔ مجھے بھی گھر جانا تھا سوچا کہ جانے سے قبل سر سے مل لوں ابھی میں ان سے باتیں کر ہی رہی تھی کہ ایک شخص کتابوں کا ایک پیکٹ لیے سر کی جانب آیا اور کہا کہ سر آپ کی کتابیں (شاید سر نے ان کے اسٹال سے چند کتابیں پسند کی تھیں) سر نے کہا کہ پہلے آپ قیمت بتائیں، وہ شخص مسکرانے لگا اور کہا کہ سر میں آپ سے قیمت کیسے لے سکتا ہوں آپ اسے ہماری طرف سے تحفہ سمجھیں۔ لیکن سر بضد ہو گئے کہ آپ جب تک اس کی قیمت نہیں بتائیں گے میں کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا آخر کار اس شخص کو قیمت بتانی پڑی سر نے قیمت ادا کی اور پیکٹ میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سر کے سامنے ہی شوق سے کتابیں دیکھنے لگی۔ سر ایسے فراخ دل کہ میرے بنا کچھ کہے کہنے لگے تمہیں جو بھی کتابیں پسند ہیں رکھ لو۔


گزشتہ سال میری طبیعت کافی خراب ہوگئی تھی ڈاکٹر نے میرے مرض کو بہت سیریس بتایا۔ میری امی ڈاکٹر کے کچھ کہنے سے قبل ہی رونے لگتیں۔ ذہنی طور پر میں بھی بہت پریشان تھی میں خود بھی ڈاکٹر سے کھل کر بات نہیں کر پا رہی تھی ایسے میں مجھے اپنے والد یا ایک بھائی کی کمی شدت سے کھل رہی تھی اور تب میں نے شام کے وقت سر کو کال کیا اور اپنی طبیعت کے متعلق ساری باتیں کہہ دیں۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ فکر مت کرو اور صبح ہی فلاں ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لو۔ میں نے اپائنٹمنٹ لے لیا مقررہ وقت پر سر اپنی اہلیہ کے ساتھ شفا خانہ پہنچے اور پھر ان دونوں نے مجھے ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد دیر تک ڈاکٹر سے بات کی اور پھر کافی دیر تک دونوں مجھے طرح طرح کی تاکید کرتے رہے۔ اس وقت ان کے چہرے پر جو فکر کے آثار تھے وہ صرف ایک استاد کے نہیں تھے بلکہ بڑے بھائی کے تھے ان کے احسانات، محبتوں اور شفقتوں کا کوئی مول ہو ہی نہیں سکتا۔


میں نے بچپن سے "فرشتہ صفت" صرف کتابوں میں پڑھا تھا لیکن سر سے ملنے کے بعد میں نے جانا کہ فرشتہ صفت انسان ایسے ہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں آپ خود میری بات سے اتفاق کریں گے۔ میں نے اس مضمون میں قصدا ًان کی کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا کہ بحیثیت ادیب وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوگ پڑھ چکے ہوں گے اور اپنی رائے قائم کرچکے ہوں گے۔ لہذا سورج کو چراغ دکھانا فضول ہے۔ یہ علم کی ہی روشنی ہے جس نے ان کے ذہن و دل کو منور کیا ہے اور جس کا عکس ان کے چہرے پر بھی نظر آتا ہے۔ ان کی گفتگو سے ان کی تہذیب کا پتا چلتا ہے۔ برسوں پہلے ایک بار میں نے سر کی کسی بات پر کہا تھا کہ "آپ سے عقیدت ہی ایسی ہے" سر نے فورا ًکہا کہ "عقیدت ایمان کا درجہ رکھتی ہے اور کسی انسان سے عقیدت مندی کا اظہار کرنا درست نہیں"لیکن آج برسوں کے بعد میں پھر کہتی ہوں کہ سر سے جو میری عقیدت جڑی ہے وہ ان شاء اللہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔

***
Farzana Parveen
Asst. Teacher, The Quraish Institute, 5/1, Kimber Street, Kolkata - 700017
fparveen150[@]gmail.com

Dr. Dabeer Ahmad, HOD (Urdu) of Maulana Azad College Kolkata. - Essay: Farzana Parveen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں