قابل دید میرے شہر مئو کے نظارے ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-05

قابل دید میرے شہر مئو کے نظارے ہیں

mau-uttar-pradesh-city

مئو کا شمار کسی تاریخی شہر میں نہیں ہے اس لیے یہاں کوئی خاص تاریخی عمارت یا آثار قدیمہ نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ شہر ماضی میں بڑے زمین داروں اور تعلقہ داروں کا شہر رہا ہے بلکہ یہ دست کاروں اور محنت کشوں کا ہی شہر رہا ہے۔ کچھ انصاری برادری میں زمین داری تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ ماضی میں حکمرانوں کی جنگ کے اثرات بھی اس علاقے پر کم پڑے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عسکری معرکہ آرائیاں اس کے دائیں بائیں سے گزرتی رہیں اور یہ بستی صنعت و تجارت اور دعوت و تبلیغ کا کام خاموشی سے انجام دیتی رہی۔


یہ علاقہ بادشاہ شیر شاہ سوری کے دور حکومت میں فوجی چھاؤنی کے طور پر استعمال ہوا۔ ضیاء الدین برنی کی کتاب تاریخ ہند میں مغل اعظم شہنشاہ اکبر کے مئو سے گزرنے کا ذکر ہے۔ شیر شاہ سوری کے جی ٹی روڈ کے لیے دریائے ٹونس پر بنائے گئے پل کی علامتیں اب بھی موجود ہیں۔
کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے مشہور بزرگ سید سالار مسعود غازی کے حکم پر ان کے دو شاگرد ملک محمد طاہر اور ملک محمد قاسم ایک مہم کے طور پر ایک سرکش کی سرکوبی کے لیے اپنے شاگردوں کے ساتھ آئے جہاں تمسا ندی کے کنارے سرکش نٹ نے دریا کے راستے سفر کرنے والوں کو پریشان کررکھا تھا۔ محاذ آرائی کے بعد اس کی سرکوبی ہوئی، علاقہ اس کی شرپسندی سے محفوظ و مامون ہوا تو علاقائی لوگوں نے اپنے محسن کو یہاں آباد ہونے کی ترغیب دی۔ ملک طاہر پورہ اور قاسم پورہ انہیں دو محسنین کے نام نامی کی یادگار ہیں۔


ملک طاہر بابا کا روضہ:
مئو شہر ہنروراں کے تاریخی آثار میں ملک طاہر بابا کا روضہ قدیم ترین ہے۔ یہ قبرستان پر مشتمل علاقہ ہے۔ یہ روضہ آج بھی موجود ہے اور تاریخی اعتبار سے شہر کی سب سے قدیم عمارت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مرکزی گنبد نما عمارت آ س پاس سے چھ فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس بلند عمارت کے سامنے قبروں کا سلسلہ ہے۔ کئی طرف سے قبضے کے باوجودعمارت کا صحن اب بھی کشادہ ہے۔


شاہی جامع مسجد کٹرہ:
جہاں آرا بیگم کی بنوائی ہوئی تاریخی مسجد کو شاہی کٹرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آج بھی اس کے کنارے فوجیوں کے کمرے کے نشانات موجودہیں۔ شاہی جامع مسجد اپنی تعمیر جدید کے بعد نہ صرف شہر بلکہ ضلع کی سب سے کشادہ جامع مسجد ہے جس کی تعمیر میں مقامی مسلمانوں نے جی کھول کر سرمایہ لگایا۔


مئو ناتھ بھنجن میں ان چند قدیم آثار کے علاوہ تاریخ سے وابستہ کوئی عمارت فی الوقت نہیں۔ یہاں جو کچھ موجود ہے ماشاء اللہ وہ آگے بڑھتی زندگی، ترقی کرتے شہر اور ماضی کی ماتم سرائی کے بجائے مستقبل کی طرف باعزت پیش قدمی کا ثبوت ہے۔ مدارس میں حسب گنجائش تعمیرات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نگر پالیکا پریشد کے دفتر کی نئی عمارت اب بہت پختہ اور خوبصورت تعمیر ہوچکی ہے۔ بکول میں کمیونٹی ہال دوسال قبل تعمیر ہوکر سماجی کاموں کے لیے موجود ہے۔ فضا ابن فیضی کے نام سے گیٹ کی تعمیر عمل میں آئی۔ ضلع ہیڈ کواٹر اور تحصیل بن جانے کے بعد کلکٹریٹ کی خوب صورت عمارت کا تحفہ اس نئے ضلع اور مئو کے شہریوں کو حاصل ہوا۔ صدر اسپتال کی تعمیر نو وسیع رقبے میں پرشکوہ عمارت کی شکل میں ہوئی۔ بھارت سنچارنگم لمیٹیڈ کی خوب صورت بلڈنگ بھجوٹی (سول لائن) میں تعمیر ہوگئی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ مئو شہر میں ترقی و تعمیر کا یہ سلسلہ جاری رہے اور عوام مل جل کر شہر کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں۔ آمین


(حوالہ جات: مئو شہر ہنروراں، مصنف :ڈاکٹر شکیل احمد)


***
شفق اسعد (بنارس)
shafaqueasad2000[@]gmail.com
The city of Mau and its heritage buildings. - Essay: Shafaque Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں