لچھمی : بچوں کی کہانی از جیلانی بانو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-06

لچھمی : بچوں کی کہانی از جیلانی بانو

"پپو کو تو لچھمی نے گود لے لیا ہے۔"
"ارے جاؤ پپو تمہاری ماں بلارہی ہے۔"
"اس جانور کے گلے میں رسی باندھ کر اسے بھی گائے کے پاس کھونٹے سے باندھا کرو۔"


سب پپو کو چڑاتے تھے ، مگر پپو میاں پر ان پھپتیوں کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا وہ بڑے انہماک سے لچھمی اور اس کے بچھڑے سے کھیلا کرتے تھے۔
مگر ٹھہرئیے۔۔۔ پہلے پپو سے آپ کا تعارف تو کرادیں یہ ہمارے سب سے چھوٹے بھائی ہیں۔ عمر ہے یہی کوئی تین سال۔ مگر سدا کے روگی اور چڑ چڑیے ہیں اور اس کے ندیدے پن کی تو کچھ نہ پوچھئے۔ حد یہ ہے کہ گائے کا بچھڑا دودھ پیتا ہے تو انہیں بھی بھوک لگ جاتی ہے۔یہ گائے دراصل سنی کے لئے آئی تھی۔ مگر پپو میاں نے اس سے خوب دوستی کی پینگیں بڑھائیں ، اس کا نام لچھمی رکھا، اسے روٹیاں چُرا چرا کر کھلاتے، بچھڑے کے ساتھ تو ان کی خوب گھٹتی تھی۔دونوں پکے دوستوں کی طرح مل جل کر کھیلتے۔
ہمیں لچھمی کے نوکیلے سینگوں سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ کبھی ہم شرارت سے لچھمی کے سینگ پکڑ کر کھینچتے تھے تو وہ سینگ اٹھاکر ہماری طرف دوڑتی تھی۔ اس لئے ہم پپو کو خوب چڑاتے۔ مگر پپو صاحب کو نہ تو بھاگنا آتا تھا نہ ان کے گھونسوں میں اتنی طاقت تھی کہ بدلہ لے سکیں۔
امی بچھڑے کو الگ باندھتی تھیں کہ وہ گائے کا سب دودھ نہ پی لے۔ اس لئے بچھڑا اپنی ماں کے پاس جانے کو اچھلتا تھا اور گائے بھی چلاتی تھی۔ پپو میاں تھوڑی دیر تو موقع کی تلاش میں بیٹھے رہتے تھے پھر سب کی آنکھ بچاکر جھٹ بچھڑے کو کھول دیتے۔ اس بات پر ان کی خوب پٹائی ہوتی تھی اور ہم سب ان کے پٹنے کا تماشہ دیکھ کر ہنسا کرتے تھے۔ ایک دن صبح اٹھ کر پپو نے اطلاع دی۔۔۔۔ "امی، امی بچھڑا ابھی تک سورہا ہے۔"


یہ سن کر سب کو ہنسی آگئی۔"تم جگادونا۔۔۔۔" امی نے کہا۔
"وہ میری بات نہیں سن رہا ہے۔ لچھمی کی بات نہیں سنتا۔"
لچھمی کے چلانے کی آواز سن کر ہم سب آنگن میں آئے تو دیکھا کہ بچھڑا مرا پڑا ہے اور لچھمی اپنی رسی تڑاکر اس کے ارد گرد گھوم رہی ہے بار بار اسے زبان سے چاٹتی۔
یہ سن کر کہ بچھڑا مر گیا ہے پپو میاں کے ساتھ ہم سب بھی رونے لگے تھے۔ لچھمی اب بہت اداس رہنے لگی۔ دودھ بھی سوکھ گیا ، بڑی مرکھنی ہوگئی۔ پپو سے بھی اس نے دوستی کے تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ وہ اب بھی خوشامد میں جاکر اس کے مونہہ میں زبردستی روٹیاں ٹھونستے تھے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ ایک دن اس کی سینگوں میں جھولا جھولنے کی مشق فرمارہے تھے کہ لچھمی نے ایک زور دار پٹخنی دی۔ ٹانگوں کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چوٹ بہت زیادہ آئی ہے اور پپو میاں بخار میں بھننے لگے۔ امی نے لچھمی کو خوب کوسنے دئیے کہ ایک تو پپو اسے اتنا چاہتا ہے اور یہ بے وفا اس کو اتنا مارتی ہے۔ اسی دن سے سزا کے طور پر لچھمی کے چارے میں کمی کردی گئی۔ پپو کا بخار بڑھتا ہی گیا۔ بخار کی شدت میں بھی یہی بڑ بڑائے جاتے کہ میں تو لچھمی کا دودھ پیوں گا۔
مگر لچھمی کا دودھ تھا ہی کہاں!! امی اور ابا سخت پریشان تھے کہ پپو کی ضد کیسے پوری کریں! کئی بار انہیں ک ھانے کے بجائے شاندار دھوکا بھی کھلایا گیا۔ پھر امی نے سوچا کہ لچھمی کو بیچ کر دوسری گائے خرید لیں ، مگر پپو نے اس خبر سے اور رونا شروع کردیا۔


لچھمی اب چپ چاپ آنکھیں بند کئے پڑی رہتی تھی۔ کبھی کبھار اچانک بڑبڑا کر اٹھتی، اور مونہہ اٹھا کر چلانا شروع کردیتی تھی۔ امی کہتی تھیں کہ وہ اپنے بچھڑے کو پکاررہی ہے۔ مگر ہم لوگ پپو سے کہتے۔"جاؤ پپو تمہیں لچھمی بلارہی ہے۔"
یہ سن کو وہ خوش ہوجاتے۔ فوراً آیا کی گود میں چڑھ کر چھپر کے نیچے پہنچ جاتے تھے۔ اور لچھمی بھی انہیں دیکھ کر اپنی اداسی بھول جاتی تھی۔ کبھی ان کا ہاتھ پیار سے چاٹتی تھی کبھی ان کی ٹانگوں سے ا پنا سر رگڑتی۔
لچھمی کے ذرا سے التفات سے پپو میاں کے چہرے پر پھر رونق آگئی۔ بخار بھی کم ہوگیا۔ ہمارے یا ددلانے پر بھی انہیں لچھمی کی وہ پٹخنی یاد نہ آئی۔


ایک دن صبح سب نے دیکھا کہ لچھمی بڑی محبت سے انہیں چاٹ رہی ہے اور پپو میاں بڑے مزے میں ہمک ہمک کر اس کا دودھ پی رہے ہیں۔ امی نے بڑی مسرت سے ابا کو یہ خبر سنائی۔
"ذرا دیکھا لچھمی کو پپو کی کتنی محبت ہے۔ اس کی وجہ سے لچھمی کے تھنوں میں پھر دودھ اتر آیا ہے۔"


ہم سب کا ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ پپو میاں بھی کھسیاکر بھاگنے کی سوچنے لگے۔ مگر لچھمی بالکل اسی طرح انہیں بلانے لگی جیسے وہ اپنے بچھڑے کوبلاتی تھی۔
اس دن سے پپو میں تو جانوروں میں نہ مل سکے۔ مگر امی نے لچھمی کو اپنے گھر کا ایک فرد بنالیا۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ کھلونا نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی 1959ء

Lachhmi, Kids short-story by: Jeelani Bano.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں