کرناٹک الیکشن نتائج : ملک میں جمہوریت کے فروغ کے ضامن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-14

کرناٹک الیکشن نتائج : ملک میں جمہوریت کے فروغ کے ضامن

karnataka-elections-2023-results

ہندوستان ایک اتحاد وسالمیت، محبت و یکجہتی کا ملک ہے۔ یہاں نفرت ، تفرقہ بازی کی کوئی جگہ نہیں، جس کسی نے بھی ملک کی سالمیت ویگانگت اور ملک کے باسیوں کے درمیان نفرت وپھوٹ کی سیاست کی ، دیر سویر یہاں کے باسیوں نے انہیں سبق سکھایا ہے۔ نفرت کی سیاست زیادہ نہیں چلتی، اس کو ایک نہ ایک دن مات کھانی پڑتی ہے اور وہ چاروں خانے چت ہوجاتی ہے ، ملک کے باسیوں کے درمیان محبت مودت، آپسی یکجہتی وسالمیت کی ہی ملک کی ترقی وعروج کی ضامن ہوتی ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات نے یہ صاف کردیاکہ نفرت کی سیات کو پائیداری اور بقا نہیں۔
"پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " یہ انگریزوں کی پالیسی تھی، جس کو بی جے پی حکومت استعمال کرتی ہے ، جس کے نتیجے میں ملک ترقی کے حوالے اصل مسائل پیچھے رہ جاتی ہیں ، ملک کی ترقی سالمیت ٹھپ پڑ جاتی ہے ، مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ، بے روز گاری بے لگام ہوجاتی ہے ، ملک کے عوام دانے دانے کو ترسنے لگتے ہیں۔ حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں، لیکن حکومتوں کے بننے یا بگڑنے کی بنیاد مذہبی منافرت، بھید بھاؤ، تفریق وعداوت اور پھوٹ کی سیاست پر نہیں ہونی چاہئے، بلکہ ملکیت کی سالمیت، اہل وطن کی یکجہتی اوران کی آپسی یگانگت اور قدم سے قدم ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور منسلک رہ کر ایک وطن کی تعمیر وترقی کا خواب صحیح شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔


اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے مختلف طریقے اورہتھکنڈوں سے ریاست کرناٹک کی عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کوشش کی جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی 25/ریلیوں سمیت ، 5/چیف منسٹرس، 16یونین مینسٹرس، 1377/روڈ شوز،3116 ۶ گلی میٹنگس، 1951/پبلک میٹنگس شامل رہے ، اس قدر کڑی محنت کے باوجود نتائج کانگریس کے حق میں آئے اور جنوب کے علاقے سے بی جے پی کا بالکل سرے سے صفایا ہوگیا۔
کانگریس کی طرف سے اچھی بات یہ رہی کہ کانگریس نے مقامی سطح پر بڑی محنت وجستجو کی ، اس الیکشن کو نہایت محنت وجستجو کے ساتھ لڑا، جیتنے کے جذبے اور حوصلہ کے ساتھ میدان میں آئے عوام سے رابطہ قائم کیا، عوام کے مسائل سنے، بی جے پی کی کمی اور کمزوریوں کو خوب اجاگر کیا، اس کی مالی خرد برداور دھاندلیوں کو خوب واضح کیا، چالیس فیصد کمیشن پر سرکاری کاموں کی الاٹ کی بات کو خوب زور وشور سے اٹھایا ، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، کھڑگے سمیت مقامی لیڈران میں سدارامیا، ڈے کے شیو کمار کی کرشمیاتی شخصیتوں اور اجتماعی محنت اور جدوجہد نے آج ملک کی سیکولر پارٹی کانگریس جس کے حوالے سے بی چے پی نے یہ نعرہ عام کیا ہوا تھا کہ "کانگریس مکت بھارت بنادیں گے"۔
فی الحال کانگریس نے جنوب میں"بی جے پی " مکت بھار ت بنادیا ہے ، نتائج کے مطابق کانگریس نے مطلوبہ اکثریت سے زیادہ سیٹیں حاصل کرلی ہیں، چنانچہ 244/سیٹوں والی اسمبلی میں کانگریس کو 135، بی جے پی کو 66، جے ڈی ایس کو 19 اور دیگر امیدواروں کو 4 سیٹیں حاصل ہوئی۔
ویسے بھی مسلسل جیت نے بی جے پی کا پارہ چڑھا دیا تھا، جیت کے نشہ نے مست ہاتھی کے مانند اس کو مدہوش کردیا تھا، من مانی اور تاناہی شاہی حکومت چل رہی تھی، لیکن کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اور کانگریس کی واضح اکثریت کے ساتھ جیت نے جہاں بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے اور مودی جی کی کرشمائی شخصیت اور امیت شاہ کی منصوبہ بندی سمیت بہت سارے مفروضی دعوؤں کو کھوکھلا کردیا، وہی یہ ثابت کردیا کہ ابھی بھی ملک کے باسی نفرت اور تفرقہ بازی اور پھوٹ کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ، ملک کی ترقی وسالمیت اور عوام کی سہولیات اور عوام سے کئے ہوئے دعوؤں کوزمینی سطح ر پر عمل جامہ پہنانے پر ہی ان کو جیت سے دو چار کرتے ہیں اوران ہی کے سر پر جیت کا تاج رکھتے ہیں، زبانی دعوے ، کھوکھلے وعدوں کی پول ایک نہ ایک دن کھل جاتی ہے ، ان کی حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے۔


13/ مئی کو صبح ہی سے یہ پتہ چل چکا تھا کہ کانگریس کو واضح اکثریت ملنے والی ہے، دوپہر تک تصویر واضح ہوگئی، جس کے بعد کرناٹک کانگریس کے سربراہ ڈی کے شیو کمار گھر کی بالکونی میں آئے ، کانگریس کا جھنڈا لہرایا اور کارکنو.ں کے سامنے ہاتھ جوڑے، وہ میڈیا کے درمیان 12بجے کے درمیان پہنچے تو جذباتی ہوگئے ، آنسوؤں پر قابونہ پاسکے ، کہاکہ :
سونیا گاندھی جیل میں ان سے ملنے آئی تھیں، میں نے ان سے جیت کا وعدہ کیا تھا۔
ایک بجے کے قریب بی جے پی نے ہار قبول کرلی، وزیر اعلی بسوراج بومئی نے آگے آکر کہا: نتائج کا تجزیہ کریں گے ، پارٹی لوک سبھا انتخابات میں زبردست واپسی کرے گی، وزیر اعظم نریندر مودی نے شام 5:19 بجے کانگریس کو جیت کی مبارکبادی دی، حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔


راہل گاندھی دوپہر دو بجے دہلی میں میڈیا کے سامنے آئے میڈیا کو 6 دفعہ ہلو کہا اور 2منٹ کا وقت مانگا، پھر بولے : ہم نے نفرت سے نہیں لڑا، کرناٹک نے دکھایا ہے کہ ملک سے محبت ہے ، کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیت پر عوام ، پارٹی کارکنوں اور مقامی لیڈروں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ : اس جیت نے ریاست میں نفرت کا بازار بند کر کے محبت کی دوکان کھول دی ہے۔


کانگریس کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ کانگریس نے 2023کے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں 34سال کے بعد سب سے زیادہ ووٹ شیئر اور سیٹوں سے کامیابی حاصل کی، 1989میں ویرندر پاٹل کے دور حکومت میں جب کانگریس نے 43.76فیصد وو شیئر کے ساتھ 178سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی تو یہ الیکشن "کرناٹک میں کسی بھی پارٹی " کے لئے سب سے بڑی جیت تھی۔
کرناٹک کی اس جیت نے نہ صرف کرناٹک کے لوگوں کے لئے ؛ بلکہ پورے ملک کے لئے جمہوریت کو ایک نئی زندگی اور نئی جہت دی ہے ، الیکشن کمیش آف انڈیا کے اعلان کے مطابق کانگریس کو تقریبا 43%بی جے پی کو 36%، جے ڈی ایس کو 13% اور دیگر کو 8%ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔


بلکہ تجزیہ نگاروں نے بڑے حیران کن نتائج ان انتخابات سے وصول کئے ہیں، جس میں کانگریس کی کامیابی کی اہم وجوہات اور بی جے پی فیاکٹ کی ناکامی کے وجوہات کا بھی جائز ہ لیا ہے ، راہل گاندھی کی "بھارت جوڑو یاترا" نے کانگریس کے اندر ایک جان اور روح پھونک دی تھی ، اس "بھارت جوڑو یاترا" کا کانگریس کی کامیابی پر بڑا اثر پڑا، چنانچہ یہ کہا جارہا ہے کہ "بھارت جوڑو یاترا" جہاں سے گذری ان میں سے 20سیٹوں میں سے 15سیٹوں پر کانگریس کو کامیابی ملی، راہل گاندھی نے اپنی "بھارت جوڑوا یاترا" تمل ناڈو کے کنیا کماری سے کیا تھا اور یہ سفر سری نگر میں ختم ہوا تھا، کانگریس سابق صدر راہل گاندھی نے کرناٹک میں اپنے 21 دنوں کے دوران 511 کلو میٹر کا سفر 30ستمبر 2022سے 19/اکتوبر 2022تک کیا تھااور اپنے سفر کے دروان ریاست کے سات اضلاع سے گذرے تھے اور ان سات اضلاع میں سے 51اسمبلی سیٹیں ہیں، جن میں نیوز پورٹل "اے بی پی" کے مطابق کانگریس نے ان 51میں سے 36سیٹوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔


اسی طرح بی جے پی کی ہار اور شکست میں بھی کچھ حقائق شامل ہیں، کرناٹک انتخابی مہم کے اصل کشش وزیر اعظم نریندمودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ریلیاں تھی، بی جے پی کے اعداد وشمار کے مطابق 9125ریلیاں اور 1377روڈ شو منعقد ہوئے ، انتخابی مہم کے آخری دو ہفتوں کے دوران وزیر اعظم مودی نے 42ریلیاں کیں، جب کہ شاہ بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے 30ریلیوں میں حصہ لیا، جن میں 42 حلقوں میں سے صرف 20بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ، اس طرح وزیر اعظم کی کارکردگی 47 فیصد رہی، پارٹی کی نمبر دو کی شخصیت امیت کا ریکارڈ اور بھی خراب رہا۔
انہوں نے جن علاقوں میں ریلیاں کی وہاں بی جے پی کی برتری کا فیصد صرف 37فیصد رہا، امت شاہ کی 30ریلیوں میں بی جے پی 19 سیٹوں پر ہار گئی، اور صرف 11سیٹوں پر تقریبا جیت سکی، ہندو تو اور نفرت کی سیاست انتخابات کے آخری لمحات تک جاری رہی، وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری لمحے تک نفرت اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے والی سیاست کو جاری رکھا، چنانچہ آخری لمحات میں " بجرنگ بلی" کانعرہ لگایا، اور انہوں نے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ جب دوٹ ڈالنے جائیں تو "جئے بجرنگ بلی" کانعرہ لگاتے ہوئے بٹن دبائیں، انہوں نے کانگریس کے منشور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے بجرنگ بلی کے عقیدت مندیعنی "بجرنگ دل" کو بیانڈکرنے کی بات کہی ہے ، بلکہ آگے بڑھ کر بیلاری میں اپنی تقریروں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نفرت اور تعصب بھری فلم‘ ‘دی کیرالا اسٹوری" جو کہ کرناٹک الیکشن میں جیت کے ایک تریاق کے طور پر ریلیز کی گئی، اس کے حوالے سے مودی جی نے کہا کہ اس فلم نے "لوجہاد" کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے اور اس نے معاشرے میں دہشت گردی کے اثرات کو واضح کیا ہے۔


ان انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کا خوب ساتھ دیا، اس لئے بی جے پی نے صرف مسلمانوں کے خلاف ہندو برادری کوجمع کرنے کے لئے ہندوا ،جئے بجرنگ بلی، حلال وحجاب اور "لوجہاد" اور دی کیرالا اسٹوری کا مدعا اٹھایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان یکجا ہوگئے اسطرح مسلمانوں نے کانگریس کو 88% فیصد، بی جے پی کو 2% ، جے ڈیس ایس کو 8%، اور دیگر کو 2% فیصد وٹ دیئے، جب کہ کُرباکاسٹ کا 63% وٹ کانگریس کو، بی جے پی کو 22% فیصد ، جے ڈی یس کو 10% اور دیگر کو 2%فیصد ووٹ حاصل ہوئے، اس کے علاوہ دیگر ذاتوں میں وکالیگا ذاتی کا کانگریس کو 24%فیصد، بی جے پی کو 25% ، جے ڈی ایس کو 46% اور دیگر کو 5% اور لنگاذات کا کانگریس کو 20%، بی جے پی کو 64% جے ڈی ایس کو 10%فیصد اور دیگر کو 6%فیصد حاصل ہوا۔اس طرح جہاں دیگر ذات اور برداری اور ہندو مذہب کے لوگوں نے کانگریس کا خوب ساتھ دیا، وہی مسلمانوں نے 88%فیصد ووٹ کانگریس کو دیکر اس یک طرفہ جیت دلائی۔


اس سے جہاں یہ تصویر صاف ہوتی ہے مسلمانوں کا آپسی اتحادبڑی طاقت رکھتاہے اور مسلمان ملک میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اپنے اتحاد اور سالمیت اور یکجائی کے ذریعہ کسی بھی بڑی سے بڑی فسطائی طاقت کو شکست سے دو چارکرسکتے ہیں، وہیں پارٹیوں کو اپنے اتحاد کے ذریعہ یہ بات بتلائی کہ انہیں ملک کی سیاست میں اس طرح نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، بہر حال کرناٹک الیکشن میں کانگریس کی جیت سے ملنے والی شاندار کامیابی سے ملک سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے ، البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر، مسلمانوں کے تئیں نفرت کو فروغ دے کر تخت نشیں ہونے کو ضرور ی نہ سمجھا جائے بلکہ بنا کس تفریق مذہب وملت کے ملک کی سالمیت بقا، یکجہتی ، اتحاد واتفاق اور ملک کی تقرقی وعروج کے لئے کام کیا جائے تو پھر ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

***
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Karnataka Assembly Elections 2023 Results Analysis. Column by: Rafiuddin Hanif Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں