کہتا ہے نذیر ایک جہاں جس کو بنارس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-03

کہتا ہے نذیر ایک جہاں جس کو بنارس

banaras-mosques

موج گنگا کی طرح جھوم اٹھی بزم نذیر
زندگی آئی بنارس کا جہاں نام آیا
بنارس کی قدامت پر کسی کو شبہ نہیں۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دنیا کا ایک قدیم شہر ہے۔ ہزاروں سال پرانا یہ وہ شہر ہے جس کے بارے میں ایک انگریز نے لکھا تھا کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالم وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہوگا۔
سورج تو کل عالم پر طلوع ہوتا ہے لیکن صبح بنارس کی الگ شان ہے۔ بنارس کی صبح کو صبح درخشاں بنانے میں یہاں کی ثقافتی اور تہذیبی عمارتوں کا نمایاں ہاتھ ہے۔ بنارس کی تاریخی عمارتوں کی ایک بھر پور سیر کے بعد آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ منہ اندھیرے جب کہ ہندوستان بھر کے گڑھ ، گاؤں اور گھروں میں نیند کا راج ہوتا ہے، بنارس پوری طرح بیدا ہوتا ہے۔ مندروں میں گونجتی گھنٹیوں کے شور، مسجد سے بلند ہوتی مقدس اذانیں، گنگا کی گود سے نکلتے سورج، کشتیوں پر خوبصورت نظاروں کو قید کرتے ہوئے سیلانی، ساتھ میں پرندوں کی سریلی آوازیں، اور گھاٹوں پر آرتی اور مندر کی گھنٹیوں کی آوازیں ایک ایسا مسحور کن نظارہ پیش کرتی ہیں۔ جو ہر آنے والے کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیں۔صبح کے وقت سورج کی کرنیں گنگا کے پانی پر سنہری عکس ڈالتی ہیں تو یہ حسین منظر دیکھنے کے لیے پوری دنیا کے سیاح گھاٹوں کی سیڑھیوں پہ پہونچ جاتے ہیں۔
جانثار اختر نے صبح بنار س کے لیے کہا تھا:
میرے تخیل پر برسا گئی رس
خدا رکھے تجھے صبح بنارس


یہ شہر دریائے گنگا کے وسط میں اور صوبہ اتر پردیش کے مشرق میں گنگا ندی کے کنارے ہلالی شکل میں آباد ہے۔ دریائے گنگا کے کنارے پر آباد شہر بنارس کی اپنی ایک مذہبی، ثقافتی اور ادبی تاریخ ہے۔ شہر کا اپنا رنگ ہے، اپنی کہانیاں ہیں اور اپنی تہذیب ہے۔ ان مذہبی اور تہذیبی رنگوں کے ساتھ یہاں کی عمارتیں بہترین ثقافت کامظہر ہیں۔بنارس کو مندروں کا شہر، ہندوستان کا مذہبی دارالحکومت، بھگوان شیو کی نگری، ادیبوں کی بستی، علم نگری وغیرہ جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ گنگا کے دوسرے کنارے سے یا راج گھاٹ پل سے دیکھیں گے تو اسی سے راج گھاٹ تک گھاٹوں کے کنارے چھوٹے بڑے مندروں کا طویل سلسلہ چلاگیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں، ہر گلی، کوچہ میں، ہر سڑک کے کنارے یا بیچ میں کوئی نہ کوئی مندر موجود ہے۔
مندروں کے اس شہر میں مشاہیر بزرگان دین کے مقبرات،تاریخی مساجد ، عالمی شہرت یافتہ مدارس بھی ہیں۔ بنارس میں مسلمانوں نے چھ سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی ہے، ظاہر ہے ان کی ثقافت اور اسلام کا عکس بھی بنارس میں واضح طور پر موجود ہے۔ یہاں تین سو سے زائد مساجد ہیں ۔ بنارس کی کچھ قدیم اور تاریخی مسجدوں کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔


عیدگاہ لاٹ بھیرو:
۱۸۰۹ء میں بنارس میں ایک بڑا تاریخی ہنگامہ ہوا جو بلوہ لاٹ کے نام سے عوام میں اب بھی مشہور ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ عالمگیر بادشاہ کی قناتی مسجد کے قریب متصل امام باڑہ کلاں ایک پتھر کا ستون قائم تھا۔جس کو لاٹ بھیرو کہتے ہیں۔ مسلمان اس کو دھوپ گھڑی سمجھتے تھے۔ اس کے متصل ہی اذان و جماعت کا انتظام کردیا تھا۔ اور ہندو اس کو متبرک سمجھ کر وہاں پوجا کرتے تھے۔ چنانچہ فریقین میں سخت لڑائی ہوئی۔ آخر مجسٹریٹ نے تصفیہ کرایا۔
لاٹ کے نام سے جو ستون ہے وہ عید گاہ کے بیچ میں قائم ہے اور چاروں طرف مسجد کا صحن ہے۔ یہ پہلے ۴۰ فٹ بلند تھا اور اس پر کتبہ لگا ہوا تھا جیسا کہ بعض انگریز مؤرخین نے اس کی تصدیق کی ہے۔


مسجد دو نیم کنگرہ:
۴۰۵ھ مطابق ۱۰۷۱ء بکرمی میں احمد نیالتگین کے حملے کے بعد بنارس میں مسلمانوں کی نو آبادیاں قائم ہوئیں۔ اسی سنہ میں مسجد دو نیم کنگرہ جو اب عوام میں ڈھائی کنگرہ کے نام سے موسوم ہے تعمیر ہوئی۔ تاریخی نام مسجد دونیم کنگرہ ہے جس سے تعمیر کا سال ۴۰۵ھ نکلتا ہے۔ آج بھی یہ مسجد اپنی پوری عظمت و جلال کے ساتھ قائم ہے اور شہر کی بڑی ممتاز اور سنگیں عمارت ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے لیے ایک دروازہ سنگیں موجود ہے ۔ اور محراب نما ہے جس پر کلمہ کھدا ہوا ہے۔ مسجد کی اندرونی محراب میں بھی آیتیں کھدی ہوئی ہیں۔ مسجد کی بیرونی دیوار میں ایک کتبہ تھا جو اب ضائع ہوچکا ہے۔


گیان واپی مسجد:
سترہویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی تعمیر کردہ عظیم الشان مسجد ہے۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے دشاشومیدھ گھاٹ کے شمال میں للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ یہ انجمن انتظامیہ مسجد کے زیر انتظام ہے۔
اکبر کے دور میں بنارس کی یہ جامع مسجد دین الٰہی کا ایک مرکز بنی ہوئی تھی۔ یہ تو کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا؟ لیکن یہ بات بالکل مسلم ہے کہ جامع مسجد اکبر بادشاہ کے وقت میں تعمیر ہوچکی تھی جس کا ایک تاریخی ثبوت یہ ہے کہ اکبر کے دور حکومت میں بنارس کے ایک مشہور بزرگ اور ولی حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی اس جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ہر جمعہ کو تشریف لاتے تھے۔ ایک مرتبہ خطبے میں خطیب نے اکبر کا نام لیا، حضرت شاہ طیب نے صرف یہ سوچ کر کہ خطبہ میں کافر کا نام لیا گیا ہے، خطیب کو منبر سے اتارنا چاہا لیکن کچھ دوسرے بزرگوں کو آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا .....الخ۔ اس جامع مسجد کی اکبر کے دور میں کیا صورت تھی؟ اس کا پورا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لیکن اوپر کے واقعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکبر کے دور میں یہاں جمعہ کی نماز اور امام و جماعت کا اہتمام تھا۔
گیان باپی نام پڑنے کی وجہ عجیب ہے۔ گیان کے معنی عقل اور باپی کے معنی باؤلی کے ہیں۔ پورا ترجمہ یہ ہوا: عقل کی باؤلی۔ گیان باپی محلہ کا نام ہے اسی مناسبت سے مسجد اسی محلہ کی طرف منسوب ہے۔ گیان باپی نام پڑنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے ہندوؤں کے مہادیوجی گو بچشم بظاہر پتھر ہیں، لیکن اپنے عقل کی زور سے ایک باؤلی میں (جو یہیں کہیں کسی جگہ تھی) چلے گئے پھر واپس نہیں آئے۔ یہ روایت زبانی مشہور ہے۔


عالمگیر مسجد :
اسے بنی مادھو کی درگاہ اور اورنگ زیب مسجد بھی کہاجاتا ہے جو سترہویں صدی میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور سلطنت میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس مسجد کی بنیاد خود بادشاہ وقت اورنگ زیب نے رکھی تھی۔ جس کی مناسبت سے عالمگیری مسجد کہا جانے لگا۔یہ مسجد بنارس کے پنج گنگا گھاٹ پر واقع ہے جو مغلیہ دور کے فن تعمیر کی عمدہ مثال ہے۔گنبد سے دیواروں تک کی گئی عمدہ نقاشی، موٹی دیواریں اور وسیع و عریض صحن دریائے گنگا سے حسین منظر پیش کرتے ہیں۔


مسجد گنج شہیداں:
یہ مسجد امتداد زمانہ سے کھنڈرات کی تہہ میں دب گئی تھی۔ انگریزوں کے دور حکومت میں کاشی اسٹیشن کی تعمیر ہوتے وقت کھنڈرات کی تہہ سے برآمد ہوئی اور لوگوں نے مسجد گنج شہیداں کے نام سے موسوم کردیا کیوں کہ یہاں کثرت سے شہیدوں کی قبریں ہیں۔ اس کی قدامت سے پتہ چلتا ہے کہ ہزار سال سے کم کی نہیں ہوگی۔ پوری مسجد صرف پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ مسجد گنج شہیداں کے پورب میں ایک حوض ہے، اس کے اوپر دیوار میں گولائی نما ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔
بنارس میں متعدد ایسی مساجد ہیں جن کے نام ہر کسی کو حیران کرتے ہیں اور ان ناموں کے پیچھے کئی کہانیاں بھی جڑی ہیں۔ جیسے عاشق معشوق کی مسجد، لنگڑے حافظ کی مسجد (دالمنڈی)، مسجد باگڑ بلی ( مدن پورہ)، نگینہ والی مسجد (ریوڑی تالاب)، الو کی مسجد ، بڑھیا دائی کی مسجدوغیرہ۔ ان میں سے کچھ کا تعارف حسب ذیل ہے:


بابا عاشق معشوق مسجد:
یہ اورنگ آبادروڈ سے کچھ آگے سدھ گری باغ پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک محبت کرنے والے جوڑے نے گنگا ندی میں کود کر جان دے دی اور پھر ان کی یاد میں مزار بنادیے گئے اور مزار کے پیچھے مسجد بھی بنادی گئی جو عاشق معشوق کے نام سے مشہور ہوگئی۔


شکر تالاب کی مسجد:
یہ مسجد سلطان فیروز شاہ کے وقت میں ضیاء الدین حاکم بنارس نے تعمیر کرائی تھی لیکن بعض حصے منہدم ہوجانے کے بعد ازسر نو تعمیر ہوئے۔ یہ شکر تالاب کا نام بھی ایک مستقل وجہ تسمیہ رکھتا ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ رائے سدن والی جاج نگر باغی ہوگیا تھا۔ سلطان فیروز شاہ جاج نگر آئے، رائے سدن خوف سے بھاگا۔ اس کی ایک لڑکی جس کا نام شکر تھا فیروز شاہ نے اپنی حفاظت میں رکھا اور جہاں رائے سدن کا مکان تھا اس کو منہدم کرادیا۔ اور اس جگہ ایک تالاب بنوایا جو لڑکی کے نام سے شکر تالاب مشہور ہے۔ اب تو صرف نام باقی رہ گیا ہے۔
بنارس کے لیے حنیف نقوی کے اس شعر پہ اپنی بات ختم کرتی ہوں:
بلند اتنا ہے کاشی کا تجمل
نہ پہونچے اوج کو اس کے تخیل

***
(معاون کتاب: تاریخِ آثارِ بنارس - از مولانا عبدالسلام نعمانی)
سحر اسعد (بنارس)
saharasad739[@]gmail.com
Culture, Heritage and buildings of Varanasi/Banaras. - Essay: Sahar Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں