بھوک ہڑتال - بچوں کی کہانی از شکیل انوار صدیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-02

بھوک ہڑتال - بچوں کی کہانی از شکیل انوار صدیقی

hunger-strike-kids-urdu-short-story

ہوا یوں کہ پاپا شمو کے لئے سفر سے واپسی پر چاکلیٹ کے کئی ڈبے لائے تھے اور جاوی بے چارے کو ایک چاکلیٹ بھی نہیں ملا تھا۔ شمو الٹا اس کو دکھادکھا کر کھاتی تھی۔
"جاوی بھیا یہ دودھ کے چاکلیٹ بھی کتنے لذیذ ہوتے ہیں بس جی چاہتا ہے کھاتے ہی جاؤ، خدا کی قسم ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ملائی کھالی۔" وہ کہتی۔ جاوی مونہہ بناکر رہ جاتا۔ اٹھتے بیٹھتے شمو اس کو جلاتی رہتی۔ جاوی کو غصہ تو بہت آتا مگر وہ کرتا بھی کیا، شمو ٹھہری امی اور پایا کی سب سے زیادہ چہیتی بس جھلاکر رہ جاتا۔


ایک دن تو شمو نے حد ہی کردی۔ جاوید اسکول سے آکر چائے پینے کے لئے بیٹھا ہی تھا کہ وہ بھی آدھمکی، میز پر ایک طرف امی جاوی کو چائے بناکر دے رہی تھیں اور جاوی نمکین بسکٹ کھارہا تھا۔
"امی میرا خیال ہے یہ نمکین بسکٹ پیٹ خراب کر دیتے ہیں، کیوں بھیا آپ کا کیا خیال ہے ؟"
"تم مت کھاؤ، تم سے کون کہتا ہے ؟"جاوی نے چڑ کر کہا۔
"میں بھلا کھانے بھی کیوں لگی؟ انہیں کھانا تو ایسا ہی ہے جیسے چائے کے ساتھ رات کی باسی روٹی کھالی، ہم تو بھئی دودھ کے چاکلیٹ کھاتے ہیں۔" شمو نے کہا اور چاکلیٹ نکال لئے۔


جاوی تلملا ہی تو گیا۔"امی سمجھا لیجئے ورنہ۔۔۔۔"
"ٹھیک تو ہے یہ نمکین بسکٹ تو بس پیٹ بھراؤ چیز ہیں۔"امی بولیں۔
"ہاں دیکھئے نا امی! بھیا کو تو نہ جانے کیا ہوگیا ہے ، دودھ سے انہیں چڑ ہے۔ کیا پئیں گے؟ چائے! جو رنگ کو کالا کرتی ہے، دماغ میں خشکی پیدا کرتی ہے ، اس پر بھی دعوی ہے کہ ہر سال اول پاس ہوں گے ، جب دماغ ہی خشک ہوجائے تو۔"
"اف۔۔۔۔او۔۔۔"جاوی غصے سے بھنا کر میز سے اٹھ گیا۔
اور یوں اس روز بھوک ہڑتال شروع ہو گئی۔
امی نے لاکھ سر پٹکا۔"بیٹا کھانا کھالے ، کھانا نہیں کھائے گا تو کم زور ہوجائے گا۔"
"نہیں۔۔۔ نہیں، میں نے کہہ دیا میں نہیں کھاؤں گا۔"اس کا ایک ہی جواب تھا۔
باجی نے لاکھ خوشامدیں کیں، جانے کیا کیا واسطے دئے مگر جاوی ٹس سے مس نہ ہوا۔ لیکن شمو اس پر بھی نہ مانی۔ وہ حاوی کو دیکھتے ہی اپنی گڑیا سے باتیں کرنے لگی۔"سنا ڈیزی لوگوں پر لیڈری کا بھوت سوار ہے۔ نعرہ لگاؤ بھوک ہڑتال زندہ باد۔۔۔"


کبھی کہتی"بھئی لوگوں نے اچھا طریقہ نکال لیا ہے۔جہاں کوئی بات منوانی ہوئی، بڑے بڑے لیڈروں کی طرح بھوک ہڑتال شروع کردی۔ چاہے اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ ارے بھائی ذرا سوچو کہ بڑے بڑے لیڈر تو اس لئے بھوک ہڑتال کرتے ہیں کہ وہ غلط قسم کے ٹیکس معاف کراسکیں یا مہنگائی کم کراسکیں۔۔مگر۔۔۔ جاوی بھیا۔۔۔"
"شمو کی بچی!" جاوی کمرے میں سے نکل کر چیختا اور شمو بھاگ جاتی۔
جب اسی طرح دو دن گزر گئے تو امی بڑی فکر مند ہوئیں پایا بھی چھٹی گزار کر چلے گئے تھے ورنہ امید تھی کہ ان کی ڈانٹ کے آگے یہ بھوک ہڑتال زیادہ دن نہ چل سکے گی۔ آخر امی ایک بار پھر کھانا لے کر گئیں۔


"میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔"
"مگر بیٹا کیوں؟"
"بھوک نہیں ہے مجھے۔"
"امی ڈاکٹر کو بلائیے ، بھیا کا پیٹ خراب ہوگیا۔"
"تم چپ رہو، بد تمیز۔"امی نے کھڑکی میں سے جھانکتی ہوئی شمو کو ڈانٹا، اور پیار بھرے لہجے میں جاوی سے کہا۔"ہاں بیٹا کھالو۔۔۔؟"


"میں ایک شرط پر کھاؤں گا۔"شمو کو امی کے ڈانٹ دینے سے جاوی کو یقین ہوگیا تھا کہ اب بات بن جائے گی۔
"کیا؟"
"مجھے بھی شمو سے چاکلیٹ دلوائیے۔" جاوی نے بالکل ننھے بچوں کی طرح ٹھنک کر کہا۔
"مل جائیں گے ، مگر پہلے کھانا تو کھالو۔ دو دن ہوگئے خد اکی پناہ۔۔۔۔"
"نہیں پہلے چاکلیٹ۔"وہ ٹھنکا۔
"میرے بچے چاکلیٹ سے کیا پیٹ بھرے گا، آخر یہ دو دن۔۔۔۔؟"
"اس کی فکر نہ کرو امی، میں رات کو کچن میں سے کھالیاکرتا تھا۔۔۔"
"کیا۔۔۔؟"امی چیخیں ان کو غصہ آگیا۔ "چوری۔۔۔۔ بس نہیں ملتا کھانا، کچھ نہیں ملے گا۔ اب تو کچھ نہیں دوں گی۔ڈھونگی مکار۔۔۔۔۔ امی کھانے کی ٹرے لے کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔


اب یہ بات جاوی ہی کیا تمام گھر جانتا تھا کہ جب امی کو غصہ آتا ہے تو پھر خیریت نہیں۔ اسی لئے وہ پریشان تھا کہ آج رات کو تو کچن میں بھی تالا پڑ ہی جائے گا۔ اب کیا ہوگا؟ آخر اس کو ایک نئی ترکیب سوجھ ہی گئی۔ اس نے سوچا، آج رات کھانا ملنے سے رہا، کیوں نہ چاکلیٹ ہی اڑائے جائیں، اور پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ پھر بھوک ہڑتال کا سوال بھی نہ اٹھے گا۔
لیکن مشکل یہ تھی کہ شمو کی چالاکی دور دور تک مشہور تھی پتہ نہیں اس نے چاکلیٹ کہاں چھپاکر رکھے ہوں، چاکلیٹ کی ٹوہ میں وہ شمو کی خوشامد میں لگ گیا۔
"ارے شمو بہن! تمہارے چاکلیٹ ختم ہوگئے کیا؟"
"ابھی تو ہیں، مگر بھیا تم نے تو بھوک ہڑتال۔۔۔"
"تو کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں تم سے چاکلیٹ مانگ کر کھاؤں گا۔"
"تو پھر معلوم کیوں کررہے تھے؟" شمو نے ہاتھ نچا کر کہا۔
"ارے ناراض کیوں ہوتی ہو ، میں تو صرف معلوم کررہا تھا ، بڑا دکھادکھاکر کھاتی تھیں نا؟ میرا خیال تھا چٹ کر گئی ہوں گی سب۔"
"ارے واہ۔۔۔ کیا سب کو اپنی طرح پیٹو سمجھا ہے ؟ دو ڈبے الماری میں رکھے ہیں ابھی۔"
"یہ لیجئے۔۔۔ باتوں باتوں میں جگہ کا سراغ مل گیا۔


رات کو جب سب سو گئے تو جاوی اپنے کمرے سے نکل کر شمو کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ شمو بے خبر سو رہی تھی، جاوی آہستہ آہستہ الماری کی طرف بڑھا، پھر اس نے الماری کا پٹ کھولا، تب ہی نیند میں بھری ہوئی آواز آئی۔"ارے بھئی چور صاحب ایک چاکلیٹ مجھے بھی دینا، جی چاہ رہا ہے ، اب میں کہاں اٹھتی پھروں گی؟"
جاوی کا ہاتھ وہیں کا وہیں رک گیا۔ کاٹو تو بدن میں خون نہیں، اس نے پلٹ کر دیکھا، کھڑکی میں سے چاندنی آرہی تھی، شمو کا ایک ہاتھ اٹھا ہوا تھا، جیسے وہ چاکلیٹ مانگ رہی ہو۔
جاوی بدحواس ہوکر بھاگا۔


نہ جانے کب وہ سو سکا، صبح کو جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی بس اس کے ہاتھ کے طوطے ہی تو اڑ گئے۔ شمو امی کوبتارہی تھی۔
"کچھ نہ ہوا امی تو بھیا نے رات میرے چاکلیٹ چرانے کی کوشش کی، شام کو کس مزے سے باتوں باتوں میں مجھ سے معلوم کررہے تھے کہ میں نے چاکلیٹ کہاں چھپا رکھے ہیں۔ میں بھی وہ ترکیب کی بس مزہ آگیا۔ میں نے ایک دھاگہ اپنے ہاتھ میں باندھ کر الماری کے کنڈے میں باندھ لیا، جیسے ہی بھیا نے کواڑ کھوالا، ہاتھ ہلتے ہی میرے آنکھ کھل گئی، ورنہ۔۔۔ ورنہ یہ سب چاکلیٹ۔۔۔"
"اچھا یہ حرکت۔۔۔ اٹھ جائے ذرا۔" امی برس پڑیں۔۔۔۔ دس دن تک بھوکا نہ مارا ہو تو میرا نام۔۔۔۔۔"
اور جاوی سوچ رہا تھا کہ اب تو سچ مچ کی، زبردستی کی بھوک ہڑتال ہوکر ہی رہے گی۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ کھلونا نئی دہلی۔ شمارہ: مئی 1965ء

Bhook Hadtaal (hunger strike), Kids short-story by: Shakeel Anwaar Siddiqui.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں