زبان کی شگفتگی سے عاری موجودہ کالم نگاری : سہیل انجم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-23

زبان کی شگفتگی سے عاری موجودہ کالم نگاری : سہیل انجم

urdu-columns

پاکستان کے روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر ماہر لسانیات مرحوم اطہر ہاشمی اخبار کے ضمیمہ فرائڈے اسپیشل کے لیے ایک ہفتہ واری کالم لکھا کرتے تھے جس کا عنوان تھا "خبر لیجے زباں بگڑی"۔ وہ اس میں لسانی عقدہ کشائی کرتے اور الفاظ کے ماخذ، ارتقا اور موجودہ صورت حال اور ان کے غلط یا صحیح استعمال پر علمی انداز میں روشنی ڈالتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری ایک اور ماہر لسانیات احمد حاطب صدیقی (ابو نثر) بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ ان کے کالم کا عنوان ہے "غلطی ہائے مضامین"۔ چونکہ وہ بھی ماہر لسانیات ہیں اور طنز و مزاح کی صلاحیت سے بھی لیس ہیں اس لیے وہ ہر ہفتے لسانی موشگافیاں کرتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں سوالوں کے جواب دیتے یا کسی لسانی مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ انھوں نے دس فروری کے شمارے میں "کس کو کہتے ہیں کالم آرائی" کے زیر عنوان بہت ہی دلچسپ اور کاآمد کالم لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کالم اور مضمون میں کیا فرق ہے اور کیا ہر مضمون کو کالم کہا جا سکتا ہے۔


ان کے اس کالم کی روشنی میں خیال آیا کہ کیا واقعی ہم لوگ جو ہر ہفتے مضامین لکھتے ہیں انھیں کالم کہا جانا چاہیے۔ حالانکہ ہم بھی بڑی ڈھٹائی سے اسے کالم ہی کہتے ہیں اور دوسرے قلمکار بھی اپنے مضامین کو کالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ احمد حاطب صدیقی نے ایک ادبی محفل کے تذکرے کے ضمن میں ادیب و انشاپرداز مجیب الرحمن شامی کے اس فقرے کے جواب میں کہ:
"بھائی ہم تو سبزی فروش ہیں، ابو نثر ڈرائی فروٹ بیچتے ہیں" پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کے تناظر میں لکھا ہے کہ:
کالموں میں سبزی فروشی کا کاروبار تو اب شروع ہوا ہے۔ پہلے میوہ جات ہی بیچے جاتے تھے۔ ابتدا میں کالم نگاری کا مطلب شگفتہ نگاری لیا جاتا تھا۔ فکاہیہ اور مزاحیہ کالم لکھے جاتے تھے۔ ان کالموں میں ادبی چاشنی ہوتی تھی۔ بذلہ سنجی ہوتی تھی۔ چٹکیاں لی جاتی تھیں۔ آجکل ہر قسم کی مضمون نگاری 'کالم نگاری' کہی جانے لگی ہے۔ اب ذاتی خیالات و خرافات کے اظہار کو بھی 'کالم' کہا جاتا ہے۔ گفتگو یا تحریر سے ظاہر ہوجاتاہے کہ کسی شخص کے اندر علم کا ذخیرہ ہے یا جہل کا دور دورہ۔ طبیعت میں لطافت ہے یا کثافت۔ جو شخص اپنی تقریر یا تحریر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر فرد یا معاشرے کے صرف گھناونے واقعات بیان کرتا ہو، کھوج لگا لگا کربرائیوں، خرابیوں اور خباثتوں کا تذکرہ کرتا ہو تو آپ یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ اس شخص کے باطن میں خباثت بھری ہوئی ہے۔ اگر کوئی شخص فرد یا معاشرے میں صرف حسن و خوبی تلاش کرتا ہو، لوگوں کا ذکر عزت و احترام سے کرتا ہو، ان کی غلطیوں، کوتاہیوں اور خامیوں سے صرفِ نظر کرتا ہو تو ایسے شخص کی گفتگو یا تحریر سے اس کی طبعی کیفیت کا اظہار ہوجاتا ہے کہ صاحب تقریر یا تحریر کی طبیعت اور مزاج میں پاکیزگی ہے، نفاست ہے، شرافت ہے، نجابت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں ضروری ہو وہاں بھی برائیوں اور خرابیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے یا ان کی نشان دہی نہ کی جائے۔۔۔ (بہرحال) شگفتہ کالم نگاری کا احیا ہونا چاہیے۔کوئی آپ کو کو مسکراکر دیکھے تو آپ خود بھی مسکرا دیتے ہیں۔ مسکراہٹ سے مسکراہٹ پھیلتی ہے۔ ذہنی تناو، بے چینی اوراضطراب میں کمی آتی ہے۔ کیا ہی مزہ ہو کہ کالم نگارخود مسکرا کر سیاست کار سے کہے کہ 'آپ بھی مسکرائیے'۔


یہ اقتباس اگرچہ پاکستانی اخبارات کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن ہم اس کے آئینے میں ہندوستانی اخبارات کے مضامین اور کالموں کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت نے خودرو پودوں کی مانند کالم نگار پیدا کر دیے ہیں۔ جدھر دیکھیے ادھر کالم نگاروں کی بھیڑ موجود ہے۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا یہ کہتا پھرتا ہے کہ میرا کالم آپ نے پڑھا، میں نے فلاں کی خوب کھنچائی کی ہے۔ جس کو دیکھیے وہ یا تو کسی کی کھنچائی کر رہا ہے یا خوشامد۔ لیکن وہ شگفتگی جو ماضی کے کالموں کی جان ہوا کرتی تھی عنقا ہو گئی ہے۔ آج ایسے کئی نام نہاد کالم نگار ہیں جو صرف اور صرف برائیوں کی کھوج بین میں لگے رہتے ہیں۔ انھیں کسی شخص یا تنظیم میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ ان کی نگاہ ادبدا کر خرابیوں پر جاکر جم جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو دوسروں کی تحریروں میں کیڑے نکالنے میں جو مزا آتا ہے وہ شاید انھیں کسی اور چیز میں نہیں آتا۔ اب تعمیری تنقید کا فقدان ہو گیا ہے۔ تنقید کی جگہ پر تنقیص کا دور دورہ ہے۔ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اگر آپ کسی کی کسی بات سے اختلاف رائے کر دیں تو وہ شخص دشمنی پر اتر آتا ہے۔ ہمارے متقدمین شعرا اور ادیبوں و قلم کاروں میں مباحثے اور مناقشے ہوتے تھے۔ مہینوں چشمکیں چلتی تھیں۔ اپنے اپنے نقطہ نظر کی تائید میں بڑے ادیبوں اور قلمکاروں اور استاد شعرا کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود ان میں دوستی کا جذبہ متاثر نہیں ہوتا۔ وہ مہینوں کی بحث و تکرار کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ خوبیاں ناپید ہو گئی ہیں اور اسی طرح بالخصوص اخبارات میں شائع ہونے والی تحریروں سے شگفتگی غائب گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ غرہ ہے کہ ہم کالم نگار ہیں۔ ہمیں کالم نگار ہی کہا جائے۔ کالم نگار ہوا کرتے تھے چراغ حسن حسرت، عبد المجید سالک، نصر اللہ خاں عزیز، دیوان سنگھ مفتوں، وقار انبالوی، شوکت تھانوی، ابن انشا، احمد جمال پاشا، مشفق خواجہ، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، مجتبیٰ حسین، دلیپ سنگھ، نصرت ظہیر وغیرہ۔ آجکل زبان کا بھی تیا پانچہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو اور بھی بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر تو کھلے عام زبان کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ وہاں انگریزی کی مانند اردو الفاظ کے بھی مخفف بنائے جا رہے ہیں اور بھونڈے انداز میں بنائے جا رہے ہیں۔ واٹس ایپ پر استعمال ہونے والی زبان کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک بار ہم نے ایک شعری نشست کا بینر دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا "اعزازایہ نشست"۔ ہم نے نشست کے منتظم کو میسیج بھیجا کہ اعزازیہ نشست غلط ہے، اعزازی نشست ہونا چاہیے۔ اعزازیہ تو اسے کہتے ہیں جو آپ جیسے شعرا کے کلام بلاغت نظام کے اعتراف میں رقم کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ انھوں نے واٹس ایپ پر جواب دیا کہ یہ بھی صحیح ہے۔ لیکن انھوں نے لفظ صحیح کو "سہی" لکھا تھا۔ ہم نے اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک سینئر پروفیسر کو دکھایا تو انھوں نے اسے دیکھ کر از راہ تفنن کہا کہ جب یہ صحیح ہے تو وہ بھی صحیح ہے۔


ابھی انیس فروری کو لکھنو میں "اردو فاونڈیشن آف انڈیا" اور "نجب النسا میموریل ٹرسٹ" کے زیراہتمام ایک آل انڈیا اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس میں اردو زبان کے حوالے سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر اختر الواسع نے بہت اہم بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مذہبوں کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے زبانوں کو مذہب کی نہیں۔ اس کا احساس کانفرنس میں شرکت کرنے والے اردو داں پروفیسر جانکی پرساد شرما کی موجودگی سے بھی ہوا۔ انھوں نے جس انداز میں اردو کے حوالے سے گفتگو کی اس سے بھی ثابت ہوا کہ زبانوں کو مذہب کی ضرورت نہیں اور یہ کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں۔ لیکن کبھی کبھی زبان اور مذہب کی آمیزش سے عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ احمد حاطب صدیقی نے بھی اپنے تازہ کالم میں اسی پر گفتگو کی ہے۔ یہاں اس کی گنجائش نہیں کہ میں اس کی تلخیص پیش کروں۔ لیکن ان کے مضمون کا آخری حصہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اس سے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:


پاکستان میں رہنے والے ہندو، مسیحی اور سکھ بھائی جب اردو بولتے ہیں تو "اللہ نے چاہا… دعا کیجیے… بھلا کون سی قیامت آگئی؟ ۔۔۔ اور آج مغرب کے بعد آؤں گا" جیسے فقرے ہی نہیں "السلام علیکم، ان شاءاللہ، ماشاءاللہ، شکر الحمدللہ اور خدا حافظ" جیسے کلمات بھی بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں۔ (ہندوستان میں بھی غیر مسلم اردو داں ایسے ہی بولتے ہیں)۔
پھر وہ آگے لکھتے ہیں کہ خدا جانے یہ لطیفہ ہے یا حقیقہ، مگر سنا ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر سیہون شریف سے ہمارے ایک نوجوان ہندو بھائی گنگا اشنان کرنے بھارت پہنچے۔ اشنان گھاٹ پر جا کر لنگر لنگوٹ کسا اور "یاعلی" کا نعرہ لگا کر گنگا جل میں کود گئے۔ وہاں تو ہاہا کار مچ گئی:
"ہائے ہائے مُسلے نے سارا جل بھرشٹ کردیا۔اب پورے پانی کو دھو کر پوتر کرنا پڑے گا"۔
کسی نے کہا: "پہلے مُسلے کو تو باہر نکالو"۔
لڑکے کو پکڑ دھکڑ کر ننگ دھڑنگ باہر نکالا گیا تو سب نے چپتیانا شروع کردیا: "ارے مُسلے! تجھے ہمت کیسے ہوئی کہ مُسلوں کا اشلوک جپ کر گنگا میّا میں کود پڑے؟"
لڑکے نے تھپڑوںکی برسات، بلکہ ہجوم کے "تھپڑاو" سے بچتے ہوئے جھکائی دے دے کر اور چلاّ چلاّ کر فریاد کرنا شروع کردی:
"ایمان سے مُسلا نہیں ہوں۔ قسم سے ہندو ہوں۔ قرآن کی قسم میں ہندو ہوں"۔


***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم

Current column writing and language idiosyncrasies. Article: Suhail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں