عید اور عیدی : ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-24

عید اور عیدی : ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد

eid-aur-eidi

ہائے ہائے کیا زمانہ تھا۔ عید کی شاپنگ کے ساتھ پرس خریدنا فرض عین ہوتا تھا۔ کیونکہ یہ ہماری امپلائمنٹ کا زمانہ ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں ہم سب مالدار ہو جاتے تھے۔ عید سے چھے روز قبل ہی خواب میں عیدی نظر آنے لگتی۔ آرزوؤں اور خواہشات کی باقاعدہ فہرستیں بننے لگتیں۔ پہلے سے اندازے لگائے جاتے کہ کون سے چچا کتنی اور کون سی پھوپھو کتنی عیدی دیں گی۔ انتہائی سنجیدگی سے خفیہ اجلاس منعقد کیے جاتے کہ امی ابو سے عیدی کیسے بچائی جائے گی۔


ایک عید پر ابو نے یہ کہہ کر عیدی رکھ لی تھی کہ آپ تینوں کو سائکل دلائیں گے۔ اب تین بہنیں اور ایک سایکل۔ بھلا زمانہ تھا۔ زیادہ اعتراضات ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے کہ یہ کیا دھاندلی ہے۔ بس سمجھ آیا تو اتنا کہ گولا گنڈا، پیپسی کی پوری بوتل، چوک آئس اور آلو کے چپس سائکل سے زیادہ اہم اشیائے ضرورت ہیں لہذا اب کے ابو کو پیسے نہیں دیں گے۔


اس سے اگلے برس یہ کہہ کر عیدی ہتھیائی گئی کہ تم لوگوں کے لیے کمپیوٹر لائیں گے۔ جب کمپیوٹر کا مطالبہ کیا تو کہا گیا پہلے ٹائپنگ سیکھو۔ اب ہماری منمناہٹ پرزور احتجاج میں بدلی کہ ہم اسکول میں استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے پہلے ٹائپنگ سیکھنے کی ضرورت نہ پڑی۔ مگر وہ ہمارے ابو تھے۔ جو کہتے تھے کہ سات سو نوری سالوں کو سیکنڈز میں بدل کر فزکس کی پرابلم حل کرنے کا کام بغیر کیلولیٹر کے کیا جائے۔ ورنہ تمہاری نالائقی یقینی ہے۔


خیر ! اب ہم بچے نہیں رہے تھے ٹھان لی تھی کہ اس بار ابو کو عیدی نہیں دینا۔ اب الحمدللہ ہمارا پرس بڑا ہے لہذا "ہمارے پاس رکھوا دو۔۔ورنہ کھو جائے گی" والا دھوکہ بھی نہیں چلے گا۔
زیادہ تنگ کیا تو حفصہ سب سے چھوٹی ہے اور ابو کی چمچی بھی۔ اسی کی رکھ لیں ہم اور امیمہ تو ہرگز کسی دام میں نہ آئیں گے۔
انتہائی سنجیدگی اور رنجیدگی سے یہ گفتگو بھی ہوتی ہے کہ اب ہم بڑے ہورہے ہیں پھوپھیوں چچاؤں مامووں اور خالاوں کو اب عیدی بڑھانی چاہیے۔ پھر اس دکھ کا اظہار ہوتا کہ ہمیں عیدی اس لیے کم ملتی ہے کہ ہمارے یہاں ہر پھوپھی چچا کے اتنے سارے سارے بچے ہیں۔ آبادی میں اس بےتحاشہ اضافے کے سبب فی کس آمدنی کس طرح متاثر ہوتی ہے یہ ہم نے اسکول کی محدود تعلیم کے بجائے عید کے حقیقی مسائل سے نبرد آزما ہوتے سیکھ لیا تھا۔


ٹھنڈی آہ بھر کر یاد کیا جاتا کہ فلاں سہیلی کے صرف پانچ دس کزنز ہیں اور ایک آدھ چچا تایا سمندر پار رہتے ہیں اس لیے ان کو تگڑی عیدی ملتی ہے۔ ہمارے تو پچاس سے اوپر کی گنتی میں جاتے ہیں۔ دیکھیے اس طرح مزید معاشی حل بھی سمجھ میں آنے لگے تھے۔
یہ بیک اینڈ فورتھ ڈسکشن عید سے پہلے شروع ہوتا اور عید کے بعد کئی ہفتوں تک جاری رہتا جب تک عیدی کا ایک روپیہ تک باقی رہتا۔


عید کے دوران عیدی سمیٹنے میں کبھی ایک دوسرے کی مدد ہوتی کہ خالہ جان یہ ہماری بہن کو بھی عیدی دے دیں اور کبھی شیطان کا وار چل جاتا اور کوئی ایک بہن امی یا ابو کے کسی دوست یا کسی رشتہ دار کے یہاں آپ کے بغیر جاکر عیدی پا لیتی تو ہنس ہنس کر سڑایا بھی جاتا کہ ہمارے بیس روپے اس لیے زیادہ ہیں کہ ہم چیچو ماموں کے یہاں گئے تھے جب تم سو رہی تھیں۔ دل کیسے غم سے بھر جاتا تھا اب بھی یاد کرتے ہیں تو ٹیس سی اٹھتی تھی۔


اس دوران ہر وقت ڈرامے ہوتے۔ ہر تھوڑی دیر بعد ازسر نو عیدی گنی جاتی۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی رورہا ہوتا کوئی پریشان ہو ہو کر گلی میں بستر کے نیچے یا صوفوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر چیک کررہا ہوتا۔
ہائے میرے پچاس روپے ہیں۔کہاں گر گئے ؟ تم نے تو نہیں لیے۔ ذرا اپنے گن کر دکھاؤ۔
یہ سب مسائل اپنی جگہ مگر ان ایام کی سرخوشی کا بیان اہم ہے۔۔۔۔ اصل عیش کیا ہوتا ہے۔ سچی خوشی کسے کہتے ہیں۔۔عیدی والے بچوں سے پوچھیے۔۔ نصر من اللہ۔۔۔ فتح قریب۔ مال غنیمت، سرشاری سرخوشی کا عالم۔۔


کزنز کے ساتھ ،کبھی چھوٹی خالاوں کے ساتھ گلیوں میں پھر پھر کر چیزیں خرید کر کھائی جارہی ہوتیں۔ جب تک چھوٹے تھے دادی نانی پرانے محلوں میں رہتیں۔ وہاں جاکر کزنز کے ساتھ گلیوں میں گھومنا آسان ہوتا کہ اتنے رش اور ایسی رونق میں امی ابو کا دھیان بھی نہ ہوتا کہ بچے گھر میں ہیں یا کہیں اور۔
بڑے ہوگئے تو مل کر "مہنگی" اشیائے خوردونوش کے لیے برادررز اور کزنز سے پلاننگ اور منت سماجت ہوتی۔ مثلا چوک آئس ، پیپسی کی باقاعدہ لٹر بوٹل، فلاں جگہ کا تکہ ، فلاں جگہ کی حلیم۔۔
ماموں کہتے میں تمہیں وہاں کا لاکر کھلاتا ہوں لاؤ پیسے جمع کریں۔
اس دوران امی ابو کی تنبیہات جاری رہتیں۔ جنہیں دوسرے کان سے نکالا جاتا۔


جب عیدی ذرا سی باقی رہ جاتی تو پھر شوری بیٹھتی کہ اس ختم ہوتے سرمایے کو کس طرح ملٹی پلائی کیا جاسکتا ہے؟ کمیٹی ڈال لیں ؟۔ کچھ کھلونے خرید لیں ؟
یہ حالت شادی کے کچھ عرصے بعد تک باقی رہی۔ طبیعت میں الحمدللہ ہماری ہمیشہ سے فقیرانہ پن اور کنجوسی ہے۔ ادھر کسی نے پیسہ دیا ادھر سوچا کہ جمع کر لیں۔ اب ڈالر میں عیدی ملی۔ حد تو یہ کے کہ ہم سکے بھی جمع کرنے لگے۔ وہی بچوں والی معصوم اور فقیروں والی حسرت زدہ خواہشات۔۔۔ پاکستان جائیں گے تو خرچ کریں گے۔ بہنوں کے لیے رنگین آئی لائنرز کے تحفے لے جائیں گے۔ اب کیا ہر وقت صاحب سے مانگ کر شرمندہ ہوں۔
سکہ سکہ جمع کیا۔ اب ہوا یہ کہ جب پاکستان جانے کا وقت آیا تو مشین میں سکے ڈال کر ڈالر کے بلز نکالنے چاہے۔ کم بخت نے فیس کاٹ لی۔ اور نوے کے بجائے اسی ڈالر دیے۔
ہم وہیں زمیں پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ دونوں ننھے بچے ماں کو روتا دیکھ کر پریشان ہوں اور صاحب ہنسے جائیں،مذاق اڑائے جائیں۔
یہ تو پتہ تھا جویریہ کنجوس ہے۔ مگر ایسی فقیرانہ ذہنیت کا پتہ نہ تھا۔ لو دس ڈالر ہم سے لے لو۔۔
ہم غصے میں دانت کچکچکا کر بولے۔ اگر مشین پورے پیسے دیتی تو اس طرح ہمارے سو ڈالر ہوجاتے۔ اب صرف نوے ہوں گے اور پھر چہکوں پہکوں رونے لگے۔
صاحب اب بھی کہا کرتے ہیں کہ تم کو تو چلنا بولنا تک ہم نے سکھایا۔ اتنی چھوٹی اور فقیر سی آئی تھیں ہمارے پاس۔
ہائے ہائے۔ وہ سہانا مگر معاشی طور پر پریشان کن دور گذر گیا۔
اب دل میں دھواں سا اٹھتا ہے کہ ہمیں کوئی عیدی کو پوچھتا بھی نہیں۔
مگر نہ جانے کیسے ہمارے اندر کا اینٹی ہیرو جاگ گیا ہے۔ ہمارا ان کانشس وہی والدین بن چکا ہے جن کو ہم بچپن میں ظالم اور بے حس سمجھتے تھے۔


بچوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔۔
ابو عیدی دیں۔۔۔ ابو کہتے ہیں۔ یہ ایک پاکستانی بدعت ہے اور اچھا مسلمان بدعت کو ختم کرتا ہے۔
مما عیدی دیں۔۔۔ بیٹا اگر تم وعدہ کرو کہ ساری عیدی ہمیں دو گے تو ہر بچے کو سو ڈالر عیدی دیں گے۔
بچے انگریزی میں کچھ برا بھلا کہتے ہیں۔ صدائے احتجاج بلند کرتے ہون گے۔ ہماری بلا سے۔
ہمارے پاکستانی مذاق ویسے بھی ان کو سمجھ کم آتے ہیں۔ ہم میاں بیوی کوئی مذاق کرکے ایک دوسرے پر گر گر کر ہنستے ہیں اور بچے سپاٹ چہروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا تھا۔
ہم اور مذاق اڑاتے ہیں کہ مغربی نسل کس قدر کم عقل اور بورنگ ہے۔
اور اس گفتگو میں عیدی کی بات ادھر ادھر ہونے لگتی ہے۔۔


خیر خیر۔۔۔ ہماری تحریر پڑھنے والی نوجوان نسل ہمیں خشمگیں نگاہوں سے نہ دیکھے۔ ہم عیدی ضرور دیں گے۔ بس اپنے بلے کی طرح ذرا چھپکلی کو بھگاتے ہیں پھر پکڑتے ہیں پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر پکڑتے ہیں۔ جب ادھ موئی ہوجائے گی تو عیدی بھی دے دیں گے۔
ابھی ذرا بچپن کی محرومیوں کا بدلہ لینے دیں اگرچہ اس کا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ یہ انٹر جنریشنل ٹراما جاری رہے۔ مگر ہمیں کیا ؟


Eid and the Eidi. - Essay: Jawaria Saeed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں