سرخ پرس - بچوں کی کہانی از پروانہ ردولوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-22

سرخ پرس - بچوں کی کہانی از پروانہ ردولوی

red-wallet-kids-short-story-by-parwana-rudaulvi

روضہ گاؤں کے چھوٹے سے اسٹیشن پر وہ ہر روز اسی طرح دیکھاجاتا تھا جس طرح آؤٹر سگنل اور اسٹیشن ماسٹر کو لوگ دیکھتے تھے ۔ صبح کی ٹرین لیٹ ہوسکتی تھی مگر وہ گزشتہ دو سال سے اپنے وقت پر وہاں پہونچ جاتا تھا۔ لوگ اسے بھکاری چھوکرا کہتے تھے۔


مگر اس کا نام راجو تھا۔ اپنی بیمار ماں اور منحنی سی چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی بہن کے لئے راجو بہت بڑا راجہ تھا ۔ اس کا باپ بچپن ہی میں مر گیا تھا ۔ ایک چچا تھا جس نے دوسری شادی کرلی تھی اس لئے اس سے کوئی امداد ملنے کی توقع ہی نہ تھی پڑھا لکھا وہ تھا نہیں اور نہ اسے پڑھنے لکھنے کا موقع ہی ملا تھا ۔ اگر وہ اسکول جاتا تو فیس کہاں سے لاتا ۔ اپنی ماں اور بہن کا پیٹ کیسے بھرتا۔ ان کے لئے کپڑوں کا کیسے انتظام کرتا۔ اور اپنی ضروریات کی وجہ سے وہ بھیک مانگتا تھا ۔ گزشتہ دو سال سے ایک نیکر اور ایک بوسیدہ کرتا پہن کر ننگے سر اور ننگے پیر جیٹھ کی تپتی ہوئی دوپہروں اور جاڑوں کی ٹھٹھری ہوئی صبحوں میں جیسے ہی کوئی ٹرین آکر پلیٹ فارم پر رکتی وہ ہاتھ پھیلاکر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑ جاتا اور اس کے ساتھ ہی زندگی کا کاررواں بھی منزل کی طرف دوڑ رہا تھا۔
راجو تھا تو بھکاری چھوکرا مگرا اس کے خیالات بہت بلند تھے، بھیک مانگنے سے اسے نفرت تھی لیکن مجبوریاںاس کی ترقی کی راہوں میں حائل تھیں۔ وہ اکثر سوچتا’’اگر ایک روپیہ جمع ہوجائے ۔ صرف ایک توپیہ تو وہ لاٹری کا ٹکٹ خریدے گا اور اسے ایک لاکھ روپے مل جائیں گے پھر وہ اپنی ماں کا کسی بڑے ڈاکٹر سے علاج کرائے گا۔ اپنی بہن کو کسی بہت اچھے اسکول میں داخل کردے گا۔ ایک اچھا سا مکان بنوائے گا ایک اسکوٹر خریدے گا۔ اور کتابوں کی ایک بہت بڑی دکان کھولے گا۔ وہ یہیں تک سوچ پاتا کہ شام کی آخری ٹرین گھڑ گھڑاتی ہوئی آجاتی اور اس کے ہاتھ پھیل جاتے ۔۔۔ وہ بھیک مانگ چکنے کے بعد آمدنی کا شمار کرتا اور کبھی دس آنے کبھی بارہ آنے پیسے جمع کرپاتا۔۔۔ ایک روپیہ تو اسے آج تک کبھی ملا ہی نہیں تھا۔ یہی دس بارہ آنے یومیہ کی آمدنی اور اتنے بہت سے اخراجات ۔ کبھی کبھی تو وہ خود کشی کرنے کی ٹھان لیتا مگر دوسریے ہی لمحہ بیمار ماں کا زرد چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا اور وہ خود کشی کا خیال دل سے نکال دیتا۔ روز مرہ کی طرح آج بھی راجو روضہ گاؤں اسٹیشن پر لالٹین کے کھمبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کھڑا تھا ۔ آج وہ بہت اداس تھا ۔ بار بار اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں اور صبح سے اسے ایک پیسہ نہیں ملا تھا جب کہ آج اس کی ماں سخت بیمار تھی اور ’’خیراتی ہسپتال‘‘ کے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر اس کی ماں کے پنسلین کی دو سوئیاں لگ جائیں تو اس کی حالت ٹھیک ہوجائے گی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح آج اسے ڈیڑھ روپیہ مل جائے تاکہ وہ خیراتی ہسپتال کے ڈاکٹر سے بغیر فیس ادا کئے ہوئے اپنی ماں کے دو سوئیاں لگوادے۔ وہ بڑی دیر تک یوں ہی کھڑا رہا۔ پھر دوپہر کی ٹرین آگئی اور وہ ہاتھ پھیلا کر دوڑ پڑا۔


اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ایک سرخ پرس فرسٹ کلاس میں بیٹھی ہوئی ایک خوش پوش عورت کی گود میں مچلتے ہوئے بچے کے ہاتھ سے چھوٹ کر پلیٹ فارم کے نیچے گر پڑا۔
راجو کا جی چاہا کہ وہ لپک کر پلیٹ فارم کے نیچے کود کر وہ پرس اٹھالے اور دوسری طرف سے نکل بھاگے مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ جیسے کسی نے اس کے پیروں کو زمین سے باندھ دیا ہو ۔ اس نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو حاصل کرنے کی کوشش کی اور دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگا کہ کوئی اس پرس کو نہ دیکھنے پائے ۔ کنکھیوں سے اس نے پرس پھینکنے والے بچہ کی طرف دیکھا اور انجن کی سیٹی سن کر اپنی دونوں آنکھیوں بند کرلیں ۔ چھک چھک کرتے ہوئے ٹرین آگے بڑھ گئی ۔اور ٹرین کی رفتار کے ساتھ ہی اس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔۔ ٹرین آوئٹر سگنل کو پار گئی اور اس نے اپنے چاروں طرف کا جائزہ لینے کے بعد پلیٹ فارم سے نیچے چھلانگ لگادی۔ سرخ پرس کو اٹھاکر ا سنے اپنی نیکے کی جیب میں رکھ لیا اور ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھ کر پلیٹ فارم پر چڑھ آیا۔


سرخ پرس کو چھپاتے ہوئے وہ پلیٹ فارم کے باہر آیا، سبز باغ دیکھتا ہوا۔ منصوبوں کے اونچے اونچے محل بناتا ہوا۔ وہ بڑی تیزی کے ساتھ قدم بڑھارہا تھا تاکہ اینٹ کے بھٹہ تک پہونچ کر اکیلے میں پرس کھولے۔ راجو کو یقین تھا کہ پرس مل جانے کے بعد اسے دنیا کی تمام نعمتیں مل گئی ہیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب ماں کی بیماری پر قابو حاصل کرلیاجائے گا۔ اب اس کی بہن رجنی میلے کپڑے نہ پہنے گی۔ اب اس کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔
اینٹ کے بھٹہ پر پہونچ کر وہ کچی اینٹوں کی دیوار کی آڑ میں آگیا اور جیب سے پرس نکال کر دیوانہ وار اسے چاروں طرف سے دیکھنے لگا۔ پرس کو اوپر سے دیکھتے وقت اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور چہرہ پر خوشی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ خوشیوںنے اسے اپنی گود میں لے لیا تھا اور اور اسے نیند سی آنے لگی تھی۔


آنکھیں بند کرلینے کے بعد اس نے پرس کو کھول دیا۔ اس کی انگلیاں نوٹوں کو ٹٹولنے لگیںمگر۔۔۔ گھبراکر اس نے آنکھیں کھول دیں اور آنکھیں کھولتے ہی اس کے منصوبوں کے قلعے گر گئے ۔ اس کی امیدوں کے محل ڈھے گئے ۔ پرس میں ایک نیا پیسہ اور سگریٹ کی پنیوں کے بہت سے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے۔ بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹ پڑے اور وہ سوچنے لگا’’میں اپنی ماں کا علاج نہ کرسکوں گا ۔ میں اپنی بہن کو اسکول نہ بھیج سکوں گا ۔ میں کتابوں کی دکان نہ رکھ سکوں گا۔ میں ہمیشہ بھیک مانگوں گا، ہمیشہ بھیگ مانگ کر زندگی گزاروں گا۔۔۔ ! پھر فوراً ہی وہ زمین پر گر گیا اور اپنے مالک سے گڑ گڑا کر اور بلک بلک کر روتے ہوئے اپنے اس جرم کی معافی مانگنے لگا۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ کھلونا نئی دہلی۔ شمارہ: مارچ 1962ء

Red wallet, Kids short-story by: Parwana Rudaulvi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں