طارق فتح کی موت پر ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-26

طارق فتح کی موت پر ۔۔۔

tarek-fatah-death

طارق فتح کی موت پر کوئی مسلمان کیوں خوش ہوگا !
یہ حیرت بھرا سوال اس لیے ہے ، کہ مسلمانوں پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ طارق فتح کی موت پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ سچ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک ' جعلی اسلامک اسکالر ' کی موت پر سکون کا سانس لیا ہے۔ سکون کا سانس اس لیے ، کہ اس ملک کے مسلم دشمن عناصر ، اس ملک کا گودی میڈیا اور اس ملک کے وہ لبرلز ، جنہیں مذہب کی کھلّی اڑانے میں مزہ آتا ہے ، طارق فتح کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے چلے آ رہے تھے ، اور اس کی ہر بکواس کو ' مقدس صحیفہ ' قرار دینے پر آمادہ رہتے تھے ، اور اس طرح مسلمانوں اور مذہب اسلام کے تعلق سے ، اس ملک کے لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کر کے ، نفرت کی ایک فضا قائم کرنے میں پیش پیش تھے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس ملک میں ' اسلامو فوبیا ' اور مسلمانوں کے خلاف زہریلا ماحول بنانے میں ، اِن سب نے طارق فتح کو بنیاد کا پتھر بنایا تھا۔


کیا کبھی کسی نے آر ایس ایس کی جانب سے کسی بھی مسلمان کی موت پر ' تعزیتی پیغام ' دیکھا ہے ؟ یاکیا کبھی یرقانی لیڈروں کو مارے دکھ کے کسی مسلمان کی موت پر آنسو بہاتے دیکھا ہے ؟ سوشل میڈیا پر جس طرح سے طارق فتح کی موت پر ' اوم شانتی اوم ' کے جاپ لگا کر ، اسے شردھانجلی دی جا رہی ہے ، اس سے خوب انداہ ہوتا ہے ، کہ طارق فتح سنگھ پریوار کے لیے کس قدر اہم تھا۔ سنگھ نے کبھی بھی ، بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھارت کا حقیقی باشندہ نہیں مانا ، اور یہ کہتا آیا ہے ، کہ ان کا قبلہ و کعبہ سعودی عربیہ ہے لہذا وہ کبھی اِس ملک کے وفادار نہیں ہو سکتے ، وہی تنظیم طارق فتح کی موت پر دیکھیں کیسے بین کر رہی ہے !
کیوں ؟
اس لیے کہ طارق فتح نے سارے سنگھیوں کا ، چاہے وہ جس تنظیم ،جماعت یا سیاسی پارٹی سے متعلق ہوں ، اس ملک کی مسلم آبادی کو حاشیے پر پہنچانے میں اور اس ملک کے دائیں بازو کے سیاست دانوں کا سیاسی مفادات حاصل کرنے میں ، ساتھ دیا تھا ، تعاون اور مدد دی تھی۔ سوال اٹھے گا کہ طارق فتح نے ایسا کیا کیا تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت اسے ناپسند کرتی تھی ، اور اس کی موت پر اس نے سکون کا سانس لیا ہے ؟ اس سوال کا جواب کوئی چھپا ہوا نہیں ہے۔


پہلے یہ جان لیں کہ طارق فتح نے 2014ء کے بعد ہندوستان میں ' ہندتو ' کے حامیوں کے لیے وہ کام کیا جس کی ہندووادیوں کو سب سے زیادہ ضرورت تھی ، یعنی مسلمانوں کے خلاف کٹّر وادیوں کا مقدمہ لڑنا۔ اس نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے پروگراموں میں شرکت کی اور مسلمانوں کے خلاف وہی باتیں کہیں جو ہیڈگیوار ، گولوالکر ، سدرشن کہتے چلے آ رہے ہیں ، اور آج کے دنوں میں موہن بھاگوت کہہ رہے ہیں۔
طارق فتح کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسا مسلمان ہے جس کے آبا واجداد ہندو تھے ، اس طرح اس نے اس سنگھی نظریے کو تقویت بخشی کہ اس ملک میں جو بھی مسلمان ہیں ان سب کے پُرکھے ہندو سے مسلمان بنے ہیں ، لہذا انہیں خود کو ہندو کہنا چاہیے۔ اور یہ کہ جو ' گھر واپسی ' کی بات کہی جاتی ہے ، وہ اس لیے غلط نہیں ہے کہ اس ملک میں اسلام باہر سے نہیں آیا ، سب یہیں کے تھے اور ہندو سے مسلمان بن گیے۔ طارق فتح کے اس نظریے نے شرپسندوں کو ' گھر واپسی ' کی تحریک چلانے کا موقع فراہم کیا ، جس کے بد اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ تشدد بھی پھیلا اور ' تبدیلئ مذہب ' کے نام پر مسلمانوں کو جیلوں میں بھی ڈالا گیا اور مسلمانوں کو ، بالخصوص مسلم بچیوں کو ، مرتد بنانے کی ایک مہم شروع کر دی گئی۔


طارق فتح نے ' جہاد ' مخالف جو بیانات دیے ان کے نتیجے میں آج مسلمانوں کے سر پر نہ جانے کتنے طرح کے جہاد مڑھ دیے گیے ہیں ، ان میں سے ایک ' لو جہاد ' ہے۔ اس ' لو جہاد ' کے بہانے اس ملک میں نفرت اور تشدد کا جو بازار گرم کیا گیا ہے ، لوگ اس سے خوب واقف ہیں ، اسی ' لو جہاد ' کے بہانے پورے ملک میں ' ہندو جن آکروش مورچہ ' جگہ جگہ نکالے جا رہے ہیں ، اور مسلمانوں کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا زور و شور سے جاری ہے ، جس کی وجہ سے نفرت میں مزید شدت آ رہی ہے۔
سنگھی مورخ پی این اوک نے کہا تھا کہ ' کعبہ ہندو مندر ہے ' ، طارق فتح نے اس کی حمایت میں بیان دیا تھا ، اس کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب ایک عالمی مذہب ہے ، اس کا اثر ساری دنیا میں تھا ، اور جس طرح ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کا طواف کرتے ہیں ، اسی طرح کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ طارق فتح کا کہنا تھا کہ جس طرح ہندو ' شیو لنگ ' کو چومتے ہیں اسی طرح مسلمان سنگِ اسود کا بوسہ لیتے ہیں ، لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کعبہ ہندو مندر ہے۔
اتنا ہی نہیں جس طرح آج بھاجپائی لیڈر ، انھیں جو ان کی باتوں کی تردید کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے پاکستان چلیں جائیں اسی طرح طارق فتح بھی لوگوں کو ' پاکستانی ' کہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جو اپنے آپ کو سیّد ، رضوی ، نقوی اور صدیقی وغیرہ کہتے ہیں وہ ہندوستانی نہیں ہیں ، غیر ملکی ہیں ، اس طرح اُس نے امیت شاہ کے اُس قانون کو ، جو مسلمانوں کی شہریت کے خلاف ہے ، ہری جھنڈی دکھائی تھی۔


اس کا ایک پروگرام ' فتح کا فتویٰ ' تھا ، جو ' زی ٹی وی ' پر آتا تھا ، اس میں وہ ' اسلامک اسکالر ' کی حیثیت سے شریعت پر حملے کرتا تھا ، مذہبی شخصیات کا مذاق اڑاتا تھا ، صحابہ کرام کی باتوں کو جھٹلاتا تھا ، اور اس پروگرام کے ذریعے یہ پیغام دیتا تھا کہ شریعت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، یہ سب من گھڑنت باتیں ہیں لہذا اس ملک میں شریعت پر پابندی لگا دی جائے۔ گویا یہ کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سنگھی پروپیگنڈا کو ہوا دینے اور اسلام کی غلط تصویر پیش کرکے اس ملک میں مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کے نشانے پر لانے میں طارق فتح استعمال ہوا ، یا استعمال کیا گیا یا جانتے بوجھتے ہوئے خود کو استعمال ہونے دیا ، اسی لیے اب مسلمانوں نے سکون کی سانس لی ہے۔
اور بھلا پھر کوئی ایسا شخص جو ، قرآن پاک اور احادیث پر اور اسلام کی بنادی تعلیمات پر انگلی اٹھائے ، اس سے کسی مسلمان کا کیا لینا دینا ! مسلمانوں پر یہ الزام لگانے والے کہ طارق فتح کی موت پر وہ خوشیاں منا رہے ہیں ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیں کہ انھوں نے اس شخص کے بیانات اور اس کی غلط بیانیوں اور بیجا تاویلات سے ، اس ملک کو کس قدر زہریلا بنا دیا ہے ، اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کیسی نفرت پھیلا دی ہے !


on the death of controversial journalist and author Tarek Fatah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں