ہندوستانی فلم انڈسٹری کے فروغ میں لاہور کا حصہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-28

ہندوستانی فلم انڈسٹری کے فروغ میں لاہور کا حصہ

indian-cinema-lahore-contribution
ملک بھر میں صنعت فلم سازی کو آج جو فروغ اور شہرت حاصل ہے ، اس میں 1947ء سے پہلے کے پنجاب اور خاص طور سے لاہور کا رول نمایاں ہے۔
اگرچہ آج کا پنجاب ملک کے فلمی نقشے پر نمایاں نظر نہیں آتا، مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب بمبئی کی فلمی صنعت لاہور کی تیار کردہ فلموں سے متاثر ہو کر اپنا طریق کار تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ جب لاہور میں تیار شدہ فلموں کی موسیقی نے بمبئی کی فلمی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا، جب موسیقار غلام حیدر کی مرتب کردہ دھنوں کی مقبولیت کے باعث بمبئی کے تمام میوزک ڈائریکٹر نئی روش اپنانے لگے تھے۔ جس سے فلموں اور فلمی سنگیت میں ایک تازگی پیدا ہو گئی تھی۔
ایک دور ایسا بھی تھا جب لاہور کی فلموں "خاندان" اور "خزانچی" نے بمبئی کی فلمی کہانیوں کا نقشہ ہی بدل دیا تھا اور لاہور کے تربیت یافتہ فن کار بمبئی کی فلم انڈسٹری کے ہر شعبے پر چھا گئے تھے۔ آج چار دہائیوں کے بعد (یہ مضمون تقسیم ہند کے چار دہائیوں بعد لکھا گیا) بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری پر اس دور کے پنجاب یا یوں کہئے کہ لاہور کا رنگ خاصا غالب نظر آتا ہے۔

جب بھی بٹوارے سے پہلے کے پنجاب کی فلمی تاریخ لکھی جائے گی ، فلم "لائٹ آف ایشیا" کا نام سرفہرست ہوگا۔ یہ ملک کی پہلی فلم نہ تھی، مگر اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس کا نام ہندوستانی فلم کے طور پر دنیا کے تقریباً ہر ملک تک پہنچ گیا۔ یہ فلم گریٹ ایسٹرن فلم کارپوریشن لمٹیڈ کے جھنڈے تلے بنی تھی۔ یہ کمپنی لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس موتی ساگر، دلّی کے ایک صنعت کار پریم ساگر اور یورپ کے تربیت یافتہ ہمنسورائے نے قائم کی تھی۔ اس کمپنی کا دفتر تو دلّی میں تھا، مگر تمام تر فلم لاہور کے گرد و نواح میں فلمائی گئی تھی۔ اسے ہمنسو رائے نے ڈائریکٹ کیا تھا، سبیتا دیوی ہیروئن تھی۔ کہانی گوتم بدھ سے متعلق تھی اور مشہور انگریزی شاعر میتھو آرنلڈ کی ایک طویل نظم سے لی گئی تھی۔ سیناریو نرنجن پال نے لکھا تھا، جو بنگال کے مشہور دیش بھگت بپن چندر پال کے فرزند تھے۔
1925ء میں اس کی فلم بندی شروع ہوئی اور 1926 میں لندن میں اس کا پریمئر ہوا، جس میں برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد بھی شریک ہوئے۔ بعد میں اس فلم کمپنی نے ایک اور فلم "لو آف اے مغل پرنس" بھی بنائی، جس کی کہانی انار کلی اور سلیم کی داستانِ محبت پر مبنی تھی۔ بعد میں ہمنسو رائے نے بھی اپنی سرگرمیاں بمبئی میں منتقل کر لیں۔

اے۔ آر۔ کاردار (عبدالرشید کاردار) پہلے شخص ہیں جنہوں نے لاہور میں باقاعدہ طور پر فلم اسٹوڈیو بنایا اور فلم کمپنی قائم کی۔ وہیں انہوں نے اپنی پہلی فلم "ہیر رانجھا" ڈائریکٹ کی۔ اس فلم کے پروڈیوسر حکیم رام پرشاد تھے۔ اس فلم میں مرکزی رول رفیق غزنوی اور انوری نے ادا کئے تھے۔ پھر کاردار نے دوسری فلم "راجہ گوپی چند" ڈائریکٹ کی۔ اس میں فلم اسٹار نرگس کی والدہ جدن بائی نے ہیروئن کا رول ادا کیا تھا۔ اس فلم کے پروڈیوسر بھی حکیم رام پرشاد تھے اور دونوں فلمیں پلے آرٹ فوٹو ٹون کے جھنڈے تلے بنائی گئی تھیں۔ ان دونوں فلموں کے بعد حکیم موصوف نے اپنا الگ اسٹوڈیو بنا لیا اور کاردار اپنی فلم کمپنی یونائیٹیڈ پلیئرز کے لئے فلمیں بنانے لگے۔ انہوں نے "بھیدی باز" اور "ڈانسنگ گرل" دو فلمیں بنائیں ان میں خود کاردار اور ایم اسماعیل نے اداکاری کی تھی۔
لاہور میں ہی کاردار نے ایک اور فلم کا بھی آغاز کیا، بلکہ نصف بنا بھی لی ، اس میں بہار اختر نے کام کیا تھا، جو بعد میں کاردار کی بیوی بنی۔ مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی اور ذاتی جھگڑوں اور عدالتی الجھنوں کے باعث نذر آتش کر دی گئی ، پھر کاردار بمبئی آ گئے۔

لاہور میں مسلسل فلم سازی کا پہلا دور دل سکھ پنچولی سے شروع ہوا۔ اس سے قبل کئی چھوٹی چھوٹی فلم کمپنیاں بنیں اور ختم ہو گئیں۔ چند اشخاص نے باقاعدہ فلم کمپنیاں بنائے بغیر بھی ایک دو فلمیں بنائیں، مگر کام یاب نہ رہے۔ آر۔ ایل۔ شوری نے امریکہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد لاہور آ کر چند شارٹ فلمیں بنائیں، مگر تجربے کی حدود سے باہر نہ جا سکے۔ احمد شجاع نے بھی فلم کمپنی بنائی، مگر فلم نہ بنا سکے۔ جے۔ کے۔ مہتہ نے بھی امریکہ سے آ کر چند شارٹ فلمیں بنائیں، مگر ریلیز نہ کر سکے۔ پھر انہوں نے منگت رائے کپور کے اشتراک سے ایک فلم کمپنی قائم کی ، جس نے "ڈاٹر آف ٹوڈے" (آج کل کی لڑکی) نامی فلم تیار کی ، مگر یہ فلم کامیاب نہ ہوئی۔ یہ لوگ لائل پور کے رہنے والے تھے، اس فلم کو بنانے والے فن کار لیکھ راج بھاکڑی، ملک راج بھاکڑی، کلدیپ سہگل وغیرہ بعد میں بمبئی میں بہت مشہور ہوئے، مگر یہ کمپنی ایک ہی فلم بنا کر ختم ہو گئی۔

1928 میں 25 لاکھ روپے کے سرمائے سے پاویز فلم کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔ فلم جرنلسٹ بی۔ آر۔ اوبرائے اس کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ وہ لاہور کے مشہور شومین لالہ نندلال اوبرائے (ریجنٹ، اور کراؤن سنیما کے مالک) کے بیٹے تھے۔ یہ کمپنی لالہ نندلال اوبرائے ، سہائے اور آر۔ ایل۔ شوری نے قائم کی تھی۔ کمپنی طمطراق سے بنی ، مگر باہمی تنازعات کے باعث کوئی فلم نہ بنا سکی ، اور دم توڑ گئی۔
1930ء میں نرنجن پال نے لاہور میں انڈو انٹرنیشنل پکچرز قائم کی، مگر ایک ہی فلم "بینڈٹ بولٹ" (Bandit Bolt) بنا کر کمپنی ختم ہو گئی۔ ان کے علاوہ موہنی فلمز، سوشیلا فلمز، شام لال جیتلی اینڈ کمپنی ، نیو انڈیا مووی ٹون، سلور ٹون ٹاکی، ایشیاٹک مووی ٹون اور راوی ٹاکیز وغیرہ کئی کمپنیاں ظہور میں آئیں، مگر ایک فلم بھی نہ بنا سکیں۔ پنجاب فلم کمپنی ایک فلم "افریقین گرل" بنا کر ختم ہو گئی۔ مسٹر پلے اس کے مالک تھے ، جو بعد میں بمبئی چلے گئے۔ وجے سینے ٹون نے "سیتا سوئمبر" اور "مسٹر 1925ء" دو فلمیں بنائیں اور ختم ہو گئی۔

نیشنل مووی ٹون نے "سورگ کی سیڑھی" بنائی، جس میں خورشید ، ممتاز، امراؤ اور خادم نے کام کیا۔ خورشید بعد میں بہت مشہور ہوئی ، مگر فلم کمپنی ایک فلم بنا کر ہی بند ہو گئی۔ رین بو پکچرز کارپوریشن نے "قزاق کی لڑکی" اور "فقیر کی لڑکی" دو فلمیں بنائیں۔ ان میں بِبو ہیروئن تھی۔ ہندو ماتا سنے ٹون صرف ایک فلم "عشق پنجاب" ہی بنا پائی، اس میں خورشید اور اس دور کے مشہور سنگر بھائی چھبلا مرکزی رول میں تھے۔ یہ فلم پنجابی زبان میں بنی تھی۔

ساؤنڈ پکچرز کارپوریشن نے 'نئی زندگی' بنائی اور اس میں ایم اسماعیل کو پیش کیا، جو بعد میں مشہور آرٹسٹ بنا۔ مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری نے 'حشر فلم کمپنی' بنائی ، جس نے "بھیشم" نامی ایک فلم تیار کی۔ ایلی فینٹا مووی ٹون نے ایک فلم "پوتر نرتکی"بنائی، مگر ریکارڈنگ خراب ہونے کے باعث یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔ یہ فلم پاویز فلم کمپنی والے مسٹر اوبرائے نے بنائی تھی۔ اورنٹیل فلم کمپنی نے دھارمک فلم "پوتر گنگا" بنائی، اس میں نلنی ترکھد اور سریش بابو نے مرکزی رول کئے تھے۔ بعد میں نلنی ترکھد پربھات فلم کمپنی پونا کی چند فلموں میں آئی اور کامیاب ہیروئن بن گئی۔ اس کے بعد اس کمپنی نے ایک اور فلم "وشنو بھگتی" بنائی جس میں اس دور کی ایک مشہور کانگریسی لیڈر اور پنڈت جواہر لال نہرو کی ایک نزدیکی رشتہ دار لاڈو رانی زتشی کی بیٹی شیاما ہیروئن تھی۔ شیاما ان دنوں خود بھی مشہور اسٹوڈنٹ لیڈر تھی، دیگر اداکار تھے، مادھو کالے، ماسٹر بچو، اور امیر بائی، ڈائریکٹر تھے: جی آر سیٹھی۔

ان ہی دنوں آر۔ کے۔ شوری نے پھر فلم کمپنی بنائی، یہ تھی کملا مووی ٹون۔ اس کمپنی نے "ظلمِ کنس" اور "مجنوں 1934" دو فلمیں بنائیں، آخر الذکر فلم میں مجنوں (ہیرولڈ لوئیس) اور امیر جان نے کام کیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کمپنی ہی بعد میں 'شوری پکچرز' بن گئی ، جس نے لاہور میں فلم اسٹوڈیو بھی تعمیر کیا اور 1947ء تک مسلسل فلمیں بناتی رہی۔

پنڈت شیدا ان دنوں سنگیت کی دنیا کی ایک مشہور ہستی تھے۔ انہوں ںے شیدا مووی ٹون قائم کی اور فلم "اچھوت کی لڑکی" بنانے لگے ، مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔ پھر انہوں نے سہگل مووی ٹون سے اشتراک کر لیا اور فلم "پشچاتاپ" بنائی، اس کے رائٹر اور ڈائریکٹر وہ خود ہی تھے۔

ایک اور فلم کمپنی کنول مووی ٹون بڑے بلند ارادوں سے بنی۔ اس نے فلم "کاروان حسن" تیار کی ، جس میں نذیر ، زہرہ بائی، انصاری، شہزادی، محمد ہادی اور ایم اسماعیل اہم اداکار تھے۔ ڈائریکٹر تھے محمد رفیع۔ اس کے بعد کمپنی نے دو اور فلمیں "یتیم" اور "رنگین گناہ"بنائیں۔ یہ فلمیں کسی حد تک پسند بھی کی گئیں مگر کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ منوہر فلم کمپنی نے "نور محل" نامی فلم بنائی، ترلوک سینے ٹون نے"عورت کا دل" اور "نور اسلام " دو فلمیں بنائیں۔ کنہیا لال اگر وال اس کمپنی کے مالک تھے۔ جے راج، مبارک، تارا اورستارہ نے ان فلموں میں کام کیا تھا۔ ایم، آر ساہنی ڈائریکٹر تھے ، مگر یہ کمپنی بھی ختم ہو گئی۔

امرت فلمز نے "آنسوؤں کا سمندر" بنا کر کام ختم کر دیا۔ دلی کی ایک فلم کمپنی امر مووی ٹون نے لاہور جاکر فلم "انتقام" بنائی۔ اس میں نورجہاں، جگدیش، ایم اسماعیل اور پھول کماری نے کام کیا تھا۔ جے کے نندہ ڈائریکٹر تھے، مکالمے اور گانے ڈی این، مدھوک کے تھے۔ مدھوک ان دنوں ریلوے میں ملازم تھے، بعد میں وہ بمبئی چلے گئے۔

یہ 1926ء سے لے کر 1936ء تک کے لاہور کی فلمی روداد تھی۔ ان فلموں کے علاوہ اور بھی چند فلم کمپنیاں بنیں، مگر ختم ہو گئیں۔ کسی نے ایک دو فلمیں بنائیں تو بھی جاری نہ رہ سکیں۔ اس کی وجہ فلم بنانے والوں کا فلم سازی کے فن سے ناواقف ہونا تھا۔ نہ تجربہ، نہ تنظیم۔ جس کسی نے سرمایہ کا انتظام کیا اور فلم بنانے کے لئے میدان میں آ گیا اور سرمایہ ختم ہوتے ہی کھیل ختم ہو گیا۔

ریوا شنکر پنچولی لاہور میں فلم ڈسٹری بیوٹر کے طور پر آئے تھے۔ غیر ملکی فلم کمپنیوں کی فلموں کے علاوہ ہندوستان میں ہونے والی تقریباً ساری فلموں کے حقوق پنجاب، سندھ، فرنٹیر وغیرہ کے لئے ان کی کمپنی ایمپائر ٹاکی ڈسٹری بیوٹرز کے پاس تھے۔ فلموں کے علاوہ امریکہ میں تیار شدہ فلمی مشینری کے ملک بھر کے لئے ایجنٹ تھے۔ ان کے بھائی دل سکھ ایم۔ پنچولی نے فلم سازی کی اسکیم بنائی۔ پنچولی پکچر کا قیام عمل میں آیا اور لاہور کی فلمی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
ہندوستان کی پہلی بولتی فلم"عالم آرا"نے جب گونگی فلموں کو زبان دی تو ملک بھر کے فلم ساز بولنے والی فلمیں کے متعلق سوچنے لگے۔ پنچولی پکچر کا قیام اسی دور میں عمل میں آیا، سارے سرکٹ میں "عالم آرا" بھی پنچولی بھائیوں نے ہی ریلیز کی تھی ، پنچولی پکچرز نے پہلی فلم "گل بکاؤلی" بنائی۔ یہ پنجابی زبان میں تھی۔ اس سے قبل دل سکھ پنچولی دو شارٹ فلمیں بنا چکے تھے۔ ایک تو کراچی میں منعقدہ کانگریس کے سالانہ جلسے کے متعلق تھی، دوسری باڑھ کی تباہ کاریوں کے متعلق۔ یہ فلمیں ایبٹ آباد میں فلمائی گئی تھیں، یہ شارٹ فلمیں انہوں نے ساڑھے سات ہزار روپے میں بمبئی کی ایک کمپنی کے ہاتھ بیچ دی تھی۔ "گل بکاؤلی" کی ہیروئن نورجہاں تھی، جو بعد میں بھائی جان، دوست، انمول گھڑی، زینت، جگنو، وغیرہ بہت سی بے حد کامیاب فلموں کی کامیاب ہیروئن بنی۔

اس کے بعد پنچولی نے پنجابی زبان میں ایک اور فلم "یملا جٹ" بنائی جو بہت کامیاب رہی۔ ان فلموں کے منافع سے انہوں نے 1941ء میں اردو کی فلم "خزانچی" تیار کی۔ یہ فلم اس وقت تک کی تیار کردہ تمام فلموں سے زیادہ مقبول ہوئی اور بہت سراہی گئی۔ یہ پنجاب میں تیار کردہ پہلی فلم ہے جس کی نمایاں مقبولیت اور ہر دل عزیزی نے بمبئی کی صنعت فلم سازی کو متاثر کیا اور وہاں کے فلم ساز اپنی فلم سازی کے طریق کار میں مناسب تبدیلیاں کرنے اور لاہور کے نمونہ پر فلمیں بنانے پر مجبور ہوئے۔ اب سنجیدہ کہانیوں پر مبنی ہلکی پھلکی کہانیاں فلمائی جانے لگیں، جن میں ہنسی مذاق، حسن اور رنگینی، موسیقی اور رقص پیش پیش ہوں۔

"خزانچی" کی موسیقی نے تو بمبئی میں تیار ہونے والی فلموں کا نقشہ ہی بدل دیا۔ "ساون کے نظارے ہیں۔ للا للا لا" والا گانا، جسے فلمی موسیقی میں انقلاب لانے کا فخر حاصل ہے ، اسی فلم کا ہے۔ اس کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی اور پہلی بار فلمی موسیقی کو نئی چیزوں سے روشناس کرایا تھا۔
اب تک فلموں کی موسیقی شدھ شاستریہ دھنوں کی ہی پابند تھی ، غزل، قوالی، کجری اور ٹھمری تک ہی محدود تھی۔ ماسٹر غلام حیدر نے مقبول لوک گیتوں کی موسیقی کی آمیزش سے اسی مدھر دھنیں مرتب کیں کہ بمبئی اور کلکتہ کے فلم ساز بھی اس روش کو اپنانے پر مجبور ہو گئے۔ "تو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے آ جا" اور "میرے لئے جہاں میں چین ہے نہ قرار ہے" اسی فلم کے گیت ہیں اور اب تک سننے میں آتے ہیں۔۔

دوسری جنگ عظیم کا فلم انڈسٹری پر بہت گہرا اثر پڑا۔ 1942ء میں ایک خاص حکم جاری کر کے حکومت نے فلموں کی لمبائی محدود کر دی۔ اس طرح فلم سازوں کے پاس فلم بینوں کو تفریح کا سارا سامان مہیا کرنے کا جو کنویس تھا اس میں کمی آ گئی اور کامیاب فلمیں بنانے کے لیے انہیں زیادہ محنت کرنی پڑی۔ اس دوران پنچولی نے فلم "زمین دار" بنائی، جس کی ہیروئن شانتا آپٹے تھی اور ڈاکٹر ایس۔ ڈی۔ نارنگ ہیرو تھے جو بعد میں بمبئی اور کلکتہ میں فلمیں بناتے رہے۔ انہوں نے "دلی کا ٹھگ" اور "بمبئی کا چور" ایسی کامیاب فلمیں بنائیں۔ پھر پنچولی نے "چودھری "، پونچی، دھمکی، پگڈنڈی اور "شیریں فرہاد" فلمیں بنائیں۔ 'شیریں فرہاد' لاہور میں دل سکھ پنچولی کی تیار کردہ آخری فلم ہے۔ اس کے بعد وہ بمبئی آ گئے ، اور یہاں پہلی فلم آسمان بنائی، اس میں انہوں نے ایک نئے میوزک ڈائرکٹر او۔پی۔نیر کا تعارف کرایا۔

پنچولی پکچرز کے ساتھ شوری پکچرز نے بھی مسلسل فلم سازی جاری رکھی۔ آر۔ ایل۔ شوری اور ان کے بیٹے، آر کے شوری (روپ کشور شوری) فلمیں بناتے رہے۔ کے ڈی شوری آج کل بمبئی میں فلمیں بنا رہے ہیں، وہ آر کے شوری کے بھائی ہیں۔ آر ایل شوری اور آر کے شوری نے لاہور میں پہلی فلم "دلا بھٹی" بنائی۔ اس میں راگنی، کنور، اور مجنوں اداکار تھے ، پھر "نشانی" بنی۔ منگتی، میں ممتاز شانتی اور مجنوں تھے۔ موسیقی ماسٹرگوبند رام کی تھی۔ گانے نورپوری نے لکھے تھے۔
کوئل فلم میں منورما آئی، اس میں ایک اور نوجوان نے بھی کام کیا تھا، جو آج سر بلند فلم ساز اور رائٹر راما نند ساگر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شوری نے ایک اور فلم"شالیمار" بنائی۔ اس میں چندر موہن ، شانتا آپٹے، مینا اور الناصر تھے۔ فلم "نیلا پربت" نے رائٹر اور شاعر عزیز کاشمیری کو انڈسٹری سے روشناس کرایا۔ اس فلم کی موسیقی ونود نے مرتب کی تھی۔ اور سریندر کور نے پلے بیک میں گانے گائے تھے، پھر شوری باپ بیٹے بمبئی چلے گئے اور وہاں اپنی سب سے کامیاب فلم "ایک تھی لڑکی" بنائی۔

پنچولی پکچرز نے فلم سازی کے لئے سرمایہ کس طرح حاصل کیا، اس کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ اندرا مووی ٹون کلکتہ کے لئے کے ڈی مہرہ نے ایک پنجابی فلم "ہیر سیال" ڈائریکٹ کی تھی۔ پنجاب سے اس فلم کے ڈسٹری بیوٹر رائے صاحب چندن مل اندر کمار نے یہ فلم پنچولی کے سنیما گھر پربھات میں ریلیز کی تھی۔ خیال تھا کہ فلم پانچ چار ہفتے ہی چل سکے گی۔ معاہدہ یہ تھا کہ نمائش ختم ہونے کے بعد سنیما گھر والے ڈسٹری بیوٹر کو اس کا حصہ دیں گے۔ مگر فلم بےحد پسند کی گئی ، پربھات سنیما میں 75 ہفتے تک نمائش ہوتی رہی۔ ان دنوں پنچولی کے دل میں خود فلم سازی شروع کرنے کا خیال آیا اور اس پیسے سے انہوں نے پہلے فلم "گل بکاؤلی" بنائی۔ فلم 'ہیر سیال' کی نمائش ختم ہونے سے کافی پہلے گل بکاؤلی مکمل ہو گئی اور اس طرح فلم کمپنی کی جڑیں دوسروں کے پیسے سے مضبوط ہو گئیں۔ اندرا مووی ٹون کلکتہ کے سیٹھ سکھ لال کرمانی کو یہ بات نہیں جچی اور انہوں نے آر۔ ایل۔ شوری کو فلم سازی پر اکسایا اور شوری پکچرز کی فلم "دلا بھٹی" فنانس کی۔

لاہور کی فلمی دنیا میں کئی ایسے اشخاص تھے جو وہاں ابتدائی دور میں تھے مگر بعد میں بمبئی آکر بہت کامیاب ہوئے۔ حسن لال، بھگت رام، ماسٹر امرناتھ (موسیقار) کے میوزیشن تھے اور بعد میں کامیاب میوزک ڈائرکٹر بنے۔ ماسٹر گوبند رام کا بھی کسی حد تک یہی حال ہے۔ منوہر سنگھ صحرائی رائٹر تھے ، انہوں نے "سستی مراد" فلم لکھی جو برکت مہرہ نے ڈائریکٹ کی تھی، موسیقی غلام حیدر کی تھی۔ بلو مہرہ نے ایک فلم "خانہ بدوش" بنائی تھی۔ ڈائریکٹر تھے برکت مہرہ ، اس میں "پران" پہلی بار ویلن کے رول میں آئے، اس سے قبل وہ شریف ہیرو ہوا کرتے تھے۔
برکت مہرہ نے لاہور میں جیل روڈ پر ایک اسٹوڈیو بھی بنایا تھا اور ہری رام سیٹھی نے پنجاب فلم کمپنی قائم کی تھی۔ ولی صاحب اور ناظم پانی پتی لاہور میں ہی فلم لائن میں آگئے تھے۔ مگر شہرت کی بلندیاں انہیں بمبئی میں ملیں۔ یہی حال چیتن کھیڑہ (مہندی لگی میرے ہاتھ، جب جب پھول کھلے) کا ہے۔ یہ لاہور میں ایکسٹرا اداکار تھا۔
کرشن کمار اور عطاء اللہ شاہ نے ایک فلم "بھائی" بنائی ، جو کے۔ ڈی۔ مہرہ نے ڈائریکٹ کی، اس فلم میں ظہور راجہ اور رادھا رانی نے کام کیا تھا، یہ شام سندر میوزک ڈائریکٹر کی پہلی فلم تھی۔

شمشاد لاہور کی نام ور فلمی سنگر تھی۔ غلام حیدر نے "خاندان" وغیرہ جتنی بھی فلموں کی موسیقی مرتب کی ان میں عورتوں کے گانے پلے بیک میں شمشاد نے ہی گائے ، بمبئی آکر یہ نوشاد سے وابستہ ہو گئیں اور ان کی فلموں کے گانے لگیں۔ کے امرناتھ نے بمبئی آکر "گاؤں کی گوری" کی موسیقی دی۔ لچھی رام لاہور میں ہی مشہور ہو گیا تھا ، شوری پکچرز نے "نیلا پربت" میں سریندر کو پلے بیک کے طور پر پیش کیا۔ "چن کتھے گزاری آرات وے" اسی فلم کا گانا ہے۔

امرتسر کے سیٹھ جگن ناتھ مہیشوری نے مہیشوری پکچرز قائم کی۔ ان کے بھائی پدم لال مہیشوری اس کے انچارج تھے۔ اس کمپنی نے پہلی فلم "راوی پار" بنائی جو شنکر مہتہ نے ڈائریکٹ کی تھی، راگنی ہیروئن تھی، مہیشوری نے تین فلمیں اور بھی بنائیں ، پھر بمبئی چلے گئے۔ پنا لال مہیشوری اور رام مہیشوری جو بعد میں کامیاب فلم ساز بنے، ان کے بھائی تھے۔

کئی ہستیاں ایسی بھی ہیں جو لاہور میں تھیں تو فلم لائن میں آنے کی کوشش میں تھیں اور بمبئی آکر فلمی صنعت پر چھا گئیں۔ بی آر چوپڑہ، جے۔ اوم۔ پرکاش، رامانند ساگر، پشوپتی ناتھ رنگین اور دیوان سرداری لال کا فرزند رام دیال ان ہی میں سے ہیں اور اس پنجاب کی یاد دلاتے ہیں جو برسوں پہلے بمبئی کی فلمی دنیا میں خوشگوار انقلاب لانے کا باعث بنا اور جس کے اثرات اب تک دیکھنے میں آتے ہیں۔

***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (جنوری-1988) ، فلم اور ٹی۔وی نمبر۔

Lahore's contribution to the development of the Indian film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں