سید محمد اجمل فرید کی یاد میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-27

سید محمد اجمل فرید کی یاد میں

ajmal-farid-qaumi-tanzeem

روزنامہ قومی تنظیم کے سابق مدیر سیدمحمد اجمل فرید سے میری ملاقات کبھی براہِ راست نہیں ہوئی۔مگر جب تک میرا قیام ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں رہا ،روزانہ اُن سے بالواسطہ میری ملاقاتیں کثیر الاشاعت روزمانہ قومی تنظیم کے طفیل ہوتی رہیں۔
اپنی زندگی میں صرف ایک بارمجھے سید محمد اجمل فرید کی براہِ راست تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ مونگیر میں روزنامہ قومی تنظیم کے علاقائی دفتر کے افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے سیدمحمد اجمل فرید مونگیر آئے تھا۔ یہ تقریب 14ستمبر2006ءکو مولانامحمدولی رحمانی صدارت میں منعقدکی گئی تھی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیدمحمد اجمل فرید نے کہا تھا کہ قومی تنظیم محض تجارت نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد اُردو اور ملت کے کاز کا تحفظ اور قومی مفادات کی بہی خواہی ہے۔ یہ ایسا مقصد ہے جس کی پاسداری یہ اخبار شروع سے کررہا ہے۔


جب کہ مولانامحمدولی رحمانی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا تھاکہ ' روزنامہ قومی تنظیم مسلمانوں اور اُردو والوں کا ترجمان اور ان کے جذبات کا عکاس اخبار ہے۔جس نے ہراہم موقع پر اپنی بے باک اور بے لاگ صحافت سے نہ صرف خبروں کی عمدہ ترسیل کی بلکہ قوم کی رہنمائی بھی کی ہے۔آج یہ اخبار مسلمانوں کی ضرورت بن گیا ہے۔'(روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ ، 15ستمبر2006ئ،صفحہ اوّل)
جہاں تک مجھے یاد ہے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد مجھے سیدمحمد اجمل فرید سے ملنے یا ان کی تقریر سننے کاموقع ملا۔بس ایک ہی ملاقات پوری زندگی کے لیے میری زندگی میں ایک 'یادگارملاقات 'بن گئی۔


روزمانہ قومی تنظیم میرے مطالعہ میں پہلی مرتبہ1996ءمیں آیا۔ اس کے بعد جب تک میراقیام مونگیر میں رہا۔قومی تنظیم تقریباً ہر روز میری نظروں سے گزرتارہا۔اپنی زندگی کا تقریباً10سال میں نے مسلسل روزنامہ قومی تنظیم کی خبروں پر اعتماد کرتے ہوئے گزاراہے۔ شاید قارئین کو یقین نہ آئے فرصت کے اوقات میں،میں قومی تنظیم میں شائع شدہ اشتہارات کا بھی مطالعہ کرلیاکرتاتھا۔
میں نے اپنی زندگی میں سیدمحمد اجمل فرید کی ادارت میں قومی تنظیم کی مقبولیت کو براہِ راست رونما ہوتے دیکھا۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ دیگراُردو اخبارات بھی مونگیر شہر میں آیا کرتے تھے لیکن عوام و خواص میں جواعتماد رونامہ قومی تنظیم کو حاصل تھاوہ شاید کسی دوسرے اُردو اخبارات کو حاصل نہ تھا۔ میں خود اپنی ابتدائی عمر میں اس اخبار میں اپنے مضمون اور اپنے مراسلات کی اشاعت کا انتظار بہت شدت سے کیا کرتاتھا۔میں نے بعد کی زندگی میں بے شمار ملکی اور غیرملکی اُردو اخبارات کا مطالعہ کیا۔مگرمیر ے خیال میں قارئین کرام کی ذوق کے اعتبار سے قومی تنظیم نے جو مواد فراہم کیا ،اس کی روایت دیگراُردو اخبارات میں مجھے نہیں ملی۔


آج بھی میں ،جب کبھی سال دوسال بعد بہار کی سرزمین پر قدم رکھتا ہوں توسب سے پہلے قومی تنظیم اخبار تلاش کرکے اس کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔
یہ بڑا عجیب اتفاق یا حسن اتفاق ہے کہ میری تحریری زندگی کاآغازروزنامہ قومی تنظیم کے ہفتہ وار کالم یوتھ فیچر (youth feature)میںشائع شدہ ایک مضمون سے ہوا، جس زمانے میں میرا مضمون شائع ہوا تھا۔اس زمانے میں یوتھ فیچرکالم کے انچارج مولاناامام الحسن قاسمی ہواکرتے تھے۔ میرا یہ مضمون روزنامہ قومی تنظیم میں14مئی2002ءکوشائع ہوا تھا۔اس کے بعد میںنے باضابطہ لکھنا شروع کیا۔ میرے کثیر مضامین اور مقالے اور افسانے روزنامہ قومی تنظیم میں شائع ہوتے رہے۔ اور تواور6مئی2007ءکو روزنامہ قومی تنظیم کے سنڈے ایڈیشن میں میرا ایک تعارفی خاکہ(انٹرویو) بھی شائع ہوا تھا۔مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہورہی ہے کہ میری ادبی زندگی کی ابتداقومی تنظیم کے صفحات سے شروع ہوئی۔


اس کے بعد سے ہی میں نے باضابطہ ادبی دنیا میں اپنا قدم رکھا اور اپنے ناتواں قلم سے کئی کتابیں یعنی حیاتِ رحمانی،اوراقِ حیات، حیاتِ ولی،حیاتِ غامدی،مولانا وحید الدین خاں: اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں،ادھورے خواب(افسانوی مجموعہ)وغیرہ علمی دنیا کو دے سکا۔
قومی تنظیم نے نئی نسل کے نوجوان قلم کاروں کو اپنی فطرت کے اظہار کے لیے ایک موقع دیا،جس سے یقینی طورپر سینکڑوں مبتدی قلم کاروں کو اپنی قلمی صلاحیت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا موقع ملا۔
22دسمبر2012ءکی شام کوبہار کے ممتاز سیاست داں برادرم ارشدعباس آزادنے میری ملاقات روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ سید محمداشرف فرید سے کروائی تو میں نے سید محمداشرف فرید کے سامنے کھلے دل سے اس با ت کا اعتراف کیا کہ میری تحریری زندگی کوجلابخشنے میں روزنامہ قومی تنظیم کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔میرایہ بیان24 دسمبر2012ءکوروزنامہ قومی تنظیم میں شائع ہوا،جس کی سہ سرخی اخبار نے حسب ذیل لگائی تھی :
روزنامہ قومی تنظیم نوجوان قلم کاروں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے :شاہ عمران حسن


موجودہ وقت میں یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ روزنامہ قومی تنظیم بہار کا سب سے مقبول اور کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ روزنامہ قومی تنظیم نے اپنے قارئین کے ذوق کا پورا لحاظ رکھا۔ اس نے ہر ذوق کے لوگوں کے مواد فراہم کیا۔ کسی نے کسی اعتبارسے سب کو اپنی اپنی پسند کی چیزیں اس میں ملنے لگیں۔کھیلاڑیوں کے لیے جہاں اسپورٹس ایڈیشن مختص کیا تو شعروادب کے لیے کالم' زبان وادب' کا سلسلہ جاری کیا۔ مذہبیات میں کالم' اسلامیات 'رکھا گیا تو' یومِ اطفال' اور ' خواتین ایڈیشن' بھی وغیرہ کالموں نے اس اخبار کی افادیت اور مقبولیت میں چار چاند لگادیا۔


میرے کام کرنے کا میدان اصل میدان تحقیق و تاریخ ہے۔اس لیے یہاں میں روزنامہ قومی تنظیم کے وجود و بقاءکا اجمالی پس منظر بھی بیان کرنا ضروری سمجھتاہوں۔روزنامہ قومی تنظیم لہریا سرائے(دربھنگہ،بہار)سے1964ءمیں جاری ہوا۔ اس کو سید محمدعمرفرید (وفات:28نومبر1997ئ) نے شروع کیاتھا۔ تین سالوں تک یہ اخبارلہریاسرائے دربھنگہ سے شائع ہوتا رہا۔اس کے بعد1967ءمیںاس کو صوبائی سطح پر عام کرنے کے لیے سید محمدعمرفرید نے ریاست بہارکے درالحکومت 'پٹنہ'میں منتقل کردیا۔اس کاصدر دفتر پٹنہ کا مشہور محلہ ہے 'سبزی باغ' ہے۔میںاخبارکے دفتر میں اپنی زندگی میں بس ایک بارجاسکاہوں۔
ابتداً قومی تنظیم کو بہت حوصلہ شکن تجربات سے گزرنا پڑا۔ اس کی تعداد اشاعت بھی ابتداً کم تھی۔ اس درمیان کئی اردواخبارات مثلاً سنگم اور ایثار وغیرہ بہار پٹنہ سے شائع ہوئے اور بند ہوگئے ،جس نے قومی تنظیم کی اشاعت کو بڑی حدتک متاثر کیا۔


ہندوستان کے مشہور عالم دین مولانامحمدولی رحمانی نے بھی اپنی ادارت میں 1984ءمیں روزنامہ ایثار نکالاجو کافی مقبول ہوا۔ اور مولانانے اسی اخبار کے ذریعہ اُردو داں حلقوں کو بہار میں پہلی مرتبہ آفسیٹ پریس سے روشناس کرایا۔ ایثار کے بند ہونے کے بعد قومی تنظیم کو اپنی وسعت بڑھانے کا ایک بہترین موقع ملا۔ اس نے اپنی طباعت کے ساتھ ساتھ مضامین کا بھی معیار بلند کیا اور خطہ بہار کے ہر حصہ میں اسے پہنچانے کا عزم بنایا۔ جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی ملی۔
سید محمد عمرفرید ایک صاحب ِ بصیرت شخصیت تھے۔اُنھوںنے اپنے بچوں کو مل جل کام کرنے کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ جس سے روزنامہ قومی تنظیم کو اپنی وسعت کو مضبوط کرنے میں بہت زیادہ کامیابی ملی۔اس کے مالکان نے خاندانی معاملات کو کارباری معاملات سے بالکل الگ رکھا ،جس کی وجہ سے روزنامہ قومی تنظیم داخلی انتشار سے بچارہا۔ سید محمدعمرفرید نے اپنے بڑے صاحبزادے سید محمداشرف فرید کو روزنامہ قومی تنظیم کا مدیر اعلیٰ بنایا تودوسرے صاحبزادے کو سید محمداجمل فرید کو مدیر ومالک نامزد کیاجب کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو سید محمدفاروق فرید کو منیجنگ ایڈیٹر پر فائزکیا۔تینوں صاحبزادوں کی ذمہ داریاں انھوں نے الگ الگ کردیں جس سے کام کرنے میں بڑی آسانی ہوئی۔جس طرح آزادی ہند میں 'علی برادران' نے اپنی ایک مضبوط پہنچان بنائی تھی اسی طرح قومی تنظیم کے وجود کو استحکام بخشنے میں 'فرید برادران'کاز بردست اتحاد موجزن رہا ہے۔


1959ءمیں سید محمداجمل فرید کی پیدائش لہریاسرائے (دربھنگہ ،بہار) میں ہوئی تھی۔اپنی عمر کی تیسری دہائی یعنی 1986ءمیں انھیں قومی تنظیم کا مدیر ومالک بنایاگیااور انھوںنے مسلسل 30برسوں روزنامہ قومی تنظیم کی بے داغ ادارت کی۔یہ بڑاحسن اتفاق ہے کہ اسی سال سے یعنی1986ءسے روزنامہ قومی تنظیم آفسیٹ سے شائع ہوناشروع ہوا۔ سید محمداجمل فرید نے اخبارکی نوک پلک درست کرنے میں اپنی اہم ذمہ داری نبھائی۔ اس درمیان بہت سے مراحل آئے اور گزرگئے۔ان کے والد سید عمر فرید کا بھی انتقال ہوا۔مگر سب بھائیوں نے مل جل کرملی کام کرنے کا والدصاحب کا فیصلہ برقراررکھا اور اخبار کی ساکھ پرکسی قسم کی آنچ نہ آنے دی۔اسی سال میں پیدا ہوا۔


سنہ1999ءمیں سید محمد اجمل فرید نے قومی تنظیم پبلی کیشن پرائیویٹ لمیٹڈ(Qaumi Tanzeem Publication Pvt.Ltd) قائم کرکے اس اخبار کو ایک کمپنی کی شکل دی۔بہار کی تقسیم (15نومبر2000ئ) کے بعد ایک نئی ریاست 'جھارکھنڈ'وجودمیں آئی اور رانچی کو اس نئی ریاست کی راجدھانی بنادیاگیا۔ نئی ریاست اور نئی راجدھانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قومی تنظیم کا جھارکھنڈ ایڈیشن 16اپریل2004 ءسے رانچی سے شائع ہونا شروع ہوا۔
سنہ2005ءمیںسید محمداجمل فرید نے اخبار کی اشاعت کے لیے اخبارکا اپنا پریس قائم کیا او18جنوری2006 ءسے اخبار کی اشاعت اپنے پریس سے ہونے لگی۔ 23جنوری2006 ءوہ تاریخی دن تھا جب کہ روزنامہ قومی تنظیم دورِ قدیم سے نکل کر دورجدید میں داخل ہوا۔ یعنی اسی دن سے روزنامہ قومی تنظیم رنگین کاغذ پر شائع ہونے لگا۔پہلی دفعہ رنگین اخبار دیکھ کر مجھے بھی بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کیوں کہ اس کی اشاعت کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ دیگر زبانوں کے مقابلے میں ہماری مادری زبان میں اُردو کے اخبار کی اشاعت رنگین کاغذپر شائع ہونا شروع ہورہی تھی۔اس سے خوش آئند بات اور کیا ہوسکتی تھی۔


15جولائی2015ءکومجھے بہارکانگریس پارٹی کے ترجمان برادرم ارشد عباس آزاد (پٹنہ)کے فیس بک پروفائل سے سید محمداجمل فرید کے انتقال کی خبر ملی تھی۔روزنامہ قومی تنظیم سے گہری وابستگی کی وجہ سے یہ خبر میرے لیے ایک انتہائی اہم خبر تھی۔مجھے قومی تنظیم کے حوالے سے بہت سی باتیں یاد آنے لگی جس کو میں نے قارئین کرام کے روبرو پیش کرنا مناسب سمجھا۔
مولاناانیس الرحمٰن قاسمی (ناظم امارت شرعیہ )نے انجمن اسلامیہ ہال کے وسیع احاطے میں نماز جنازہ16جولائی2015 ءکو پڑھائی۔رمضان کی مصروفیات کے باوجود کثیر تعداد میں لوگوں نے جنازہ کی نماز میں شرکت اور انھیں شاہ گنج(پٹنہ)کے قبرستان میں اپنے والد کی قبر کی پہلو میں دفن کیاگیا۔ایک شخص جو پوری زندگی اپنے والد کافرماں بردار تھا اپنی زندگی کے بعد بھی والد کے پہلو میں جاکر لیٹ گیا۔


ایک تاریخ محض57 سال میں ختم ہوگئی ،مگر اس کو خدانے کام کرنے کا جو بھی موقع عنایت کیا تھااور جو بھی ذمہ داریاں دی تھیں ،اس کو اس نے پورا کرنے کی حتی المکان کو شش کی اور اس میں وہ بڑی حدتک کامیاب بھی ہوا۔یہی سب سے بڑا سبق ہے جو ہمیں سیدمحمداجمل فرید کی زندگی میں ملتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں سید محمداجمل فرید کو ان کے کام کے سبب زبردست عظمت و مقبولیت ملی۔شاید یہی سبب ہے کہ ان کی وفات کو کئی ماہ گزرنے کے بعد ان پر لکھنے کا اور بولنے کاسلسلہ جاری ہے گویا ان کی زندگی علامہ اقبال کی زبان کی عملی مصداق بن گئی:
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

***
شاہ عمران حسن، پلاٹ نمبر 22، اے بلاک، خسرہ نمبر 824، مکی مسجد کالونی، نالہ روڈ، سریتا وِہار، نئی دہلی - 110076

E-mail: sihasan83[@]gmail.com
Mobile: +91-9810862382

شاہ عمران حسن

Muslim Personal Law Board president Rabey Hasani Nadwi, a historic figure. By: Shah Imran Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں