نامہ نگار - سماج کا ایک باشعور اور ذمہ دار شہری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-07

نامہ نگار - سماج کا ایک باشعور اور ذمہ دار شہری

newspaper Correspondent
اخبار کا بیشتر حصہ خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اخباری دفتر کو کئی ایک ذرائع سے خبریں موصول ہوتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی خبریں زیادہ تر خبر رساں ادارے ہی فراہم کرتے ہیں اور یہ خبریں سب اخباروں کو بھیجی جاتی ہیں۔ اگر اخبار صرف خبر رساں اداروں کی بھیجی گئی خبروں کو شائع کرے تو اخباروں میں یکسانیت پیدا ہوجائے گی حالانکہ ہر اخبار اپنی ضروریات اور پالیسی کا لحاظ رکھتے ہوئے خبروں کو شائع کرتا ہے۔ اس کے باوجود اخباروں کی انفرادیت باقی نہیں رہے گی۔ اس لئے اخبار اپنے خاص وسائل سے زیادہ سے زیادہ خبریں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وسائل اخبار کے اپنے عملے کے ارکان ہوتے ہیں انہیں رپورٹر یا نامہ نگار کہا جاتا ہے۔
جس شہر سے اخبار شائع ہوتا ہے اس شہر اور اس کے گردونواح کی خبروں کو جمع کرنے کا کام رپورٹر کرتا ہے۔ نئی اور تازہ خبریں جمع کرنے کا یہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ رپورٹر تازہ واقعات کی معروضی رپورٹنگ کرکے مستقبل کی تاریخ کو مرتب کرنے کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں انہیں معاشرے کی آنکھ اور کان کہا جاتا ہے۔ رپورٹر کا اپنا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے وہ جس موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر شہر بڑا ہو تو مختلف علاقوں کے الگ الگ رپورٹر ہوتے ہیں۔ ہر رپورٹر کا اپنا علاقہ بیٹ (Beat) کہلاتا ہے۔ ان تمام رپورٹروں کی نگرانی چیف رپور ٹر یا بیورو چیف کرتا ہے۔ بڑے اخبارات میں رپورٹر کا موضوعی بیٹ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی رپورٹر سیاسی رپورٹنگ کیلئے مختص ہے تو وہ صرف کانگریس پارٹی یا بی جے پی یا کسی علاقائی پارٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرے گا اور متعلقہ سیاسی پارٹی اور ان کے کارکنوں پر گہری نظر رکھے گا اور ذرا سی اندرونی ہلچل کو بھی خبر کا جامہ پہنائے گا اس طرح سے جس شہر سے اخبار جاری ہوتا ہے وہاں پر کئی ایک رپورٹر کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے اپنے بیٹ یا علاقے کی ہر طرح کی خبریں جمع کرنا اس علاقے کے رپورٹر کا فریضہ ہوتا ہے۔ کبھی کہیں غیرمعمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اخبار ایک سے زائد رپورٹر کو واقعے کی رپورٹنگ کیلئے بھیجتے ہیں۔

نامہ نگار اور رپورٹر دراصل دونوں ایک ہیں۔ فرق صرف اتنا ہیکہ رپورٹر اس شہر میں خبریں حاصل کرتے ہیں جہاں سے اخبار شائع ہوتا ہے ہو اور دیگر مقامات سے رپورٹنگ کا کام نامہ نگار انجام دیتے ہیں۔ انہیں Correspondent کہا جاتا ہے۔ ایک ضلع میں کئی ایک نامہ نگار ہوتے ہیں جو اپنے مقامات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان سب کا نگران ضلعی نامہ نگار Dist-Correspondent ہوتا ہے۔ نامہ نگار اہم خبریں تار یا ٹیلی فون کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور نسبتاً کم اہم خبریں بذریعہ ڈاک بھیجی جاتی ہیں۔ بعض نامہ نگار ہمہ وقتی ہوتے ہیں اور بعض جزوقتی جب کہ بعض مقامات پر ایک ہی شخص کئی ایک اخباروں کا نامہ نگار ہوتا ہے۔ عام طور پر ضلعی نامہ نگاروں کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ بعض حضرات کو صرف ڈاک خرچ ہی ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ اضلاع کے نامہ نگار مکمل وقت نامہ نگاری کیلئے نہیں دے سکتے تبھی تو اضلاع کی بہت سی خبریں شائع ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ مقامی زبان جیسے تلگو اخبارات کا اضلاع میں کافی اثر و رسوخ رہتا ہے اس لئے تلگو اخبارات کی رپورٹنگ کا نٹ ورک کافی مستحکم ہے۔

نامہ نگاری ایک مشکل فن ہے جو کتابوں اور کلاس روم سے بھی سیکھی جاسکتی ہے لیکن اس کا اصل مدرسہ "عملی میدان" ہے۔ نامہ نگار خبریں سونگھتا ہے۔ چھوتا ہے اور خبر کو دیکھا ہے اور چکھتا بھی ہے۔ چودھری رحم علی ہاشمی نامہ نگار کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔
"وہ حالات زمانہ کی رفتار کو وسیع ترین معنوں میں مشاہدہ کرتا ہے اور بقیہ حصہ دنیا کے فائدے کیلئے اس کی تصویر الفاظ میں کھینچ دیتا ہے"۔

خبریں حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ نامہ نگار ہے جو اخبار کیلئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بیشتر اخبارات بلکہ خبر رساں ایجنسیاں بھی اپنے اپنے رپورٹر یا نامہ نگاروں کے ذریعے خبریں حاصل کرتے ہیں۔ شافع قدوائی رپورٹر یا نامہ نگار کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
"رپورٹر معاشرہ کا ایک باشعور اور باریک بین مشاہد ہوتا ہے جس کا مقصد خبریں جمع کرنا اور انہیں معروضیت دیانتداری اور غیرجانبداری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے"۔

سائنسی ایجادات سے صحافت کے معیار میں بہت کچھ اضافہ ہوا ہے اور اخبارات اپنے حسن میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ کریں لیکن نامہ نگار کے بغیر اخبار کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جائے گا جب تک واقعات ہیں تو پھر اظہار کیلئے لفظ ہیں اور لفظوں کا استعمال ایک فن ہے کسی واقعہ کو لفظی پیراہن عطا کرکے ہی اسے خبر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف نامہ نگار ہی انجام دے سکتے ہیں۔ نامہ نگاری ایک نہایت ذمہ دارانہ پیشہ ہے، جس میں تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیں وقت ضرورت استعمال ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو کئی قربانیوں کا طلبگار ہے۔ یہ پھولوں کا بستر نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔ قلم چلانے کا فن دیکھنے میں تو آسان نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ مشقت اور بھرپور جدوجہد کا غماز ہے۔

صحافت ایک مقدس اور معزز پیشہ ہے۔ سماج میں صحافی کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ اس لئے نہ صرف مطبوعہ صحافت سے وابستہ افراد خود کو جرنلسٹ کہتے ہیں بلکہ ریڈیو سے وابستہ لوگ ریڈیو جرنلسٹ اور ٹی وی سے وابستہ کارکن خود کو ٹی وی جرنلسٹ کہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج میں لفظ جرنلسٹ ایک معزز اور پیشہ اشراف کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

اخبارات نہ صرف سماج کا آئینہ ہوتے ہیں بلکہ بہتر سماج کی تشکیل و تعمیر میں غیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ سماج اور اخبارات میں بہتر تال میل پیدا کرنے میں نامہ نگار کا اہم رول ہوتا ہے جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ لوگ سب سے پہلے نامہ نگار یا رپورٹر کو اس کی اطلاع دیتے ہیں وہ پولیس سے زیادہ نامہ نگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جس سے نامہ نگار کی سماجی پوزیشن واضح ہوجاتی ہے۔ سماج میں تغیر اور تبدیلی کی ذمہ داری صحافت پر عائد ہوتی ہے۔ نامہ نگار سماج کا نہ صرف نمائندہ ہوتا ہے بلکہ جواب دہ نقاد بھی ہوتا ہے۔ وہ سماج کا باریک بین مشاہد ہوتا ہے۔ سماج کی بہتری اور رہنمائی کیلئے وہ ہر ایک سے آگے رہتا ہے۔
موجودہ سماج میں نامہ نگار کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ وہ سماجی واقعات کو اخبار کی زینت بناتا ہے بلکہ آج کا نامہ نگار غیرمعمولی معلومات رکھتا ہے۔ خصوصاً حکومت کی مختلف پالیسیوں کا شارح بھی ہوتا ہے وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے سماج کے کتنے افراد مستفید ہورہے ہیں۔ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے سیاسی لیڈر یا درمیانی لوگ کس طرح رشوت کا بازار گرم کررہے ہیں۔ پولیس اور عوام کے درمیان کس طرح کا ربط ہیں کہیں پولیس کسی عام آدمی کو ظلم و ستم کا نشانہ تو نہیں بنارہی ہے۔ مختلف سماجی مسائل جیسے جہیز، بیروزگار، نوجوانوں کی بے راہ روی، تعلیمی اداروں کا استحصال ضعیف افراد اور خواتین کے مسائل کا وہ نہ صرف جائزہ لیتا ہے بلکہ اس کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے ان مسائل کے حل کیلے متعلقہ محکموں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے چونکہ کوئی مسئلہ جب اخبار کے صفحات کی زینت بنتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ مذکورہ مسئلہ پر رائے عامہ ہموار ہونے لگتی ہے اور لوگ باشعور ہونے لگتے ہیں۔

صحافت ایک انتہائی دلکش ذریعہ روزگار ہے۔ نامہ نگار نہ صرف وقائع نگار ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے دور کے تاریخ نویس ہوتے ہیں بہترین نامہ نگار وہ ہے جو ہم عصر سیاسی اور اقتصادی حالات اور تغیرات پر نظر رکھتا ہو جو سماج کو اخبار کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہو۔
موجودہ سماج میں نامہ نگار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ کوئی سیاسی جلسہ ہو کہ ادبی محفل، کوئی سماجی تقریب ہو کہ تہوار یا عید ملاپ پروگرام کسی کی شادی کی محفل ہو کہ ماتمی مجلس، نامہ نگار کی حاضری سے لوگوں کیلئے نہ صرف خوشی بلکہ ہمت افزائی کا موجب ہوگا۔ مختلف تقریبات میں نامہ نگار بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے انہیں ایسے مقام پر بٹھایا جاتا ہے جہاں سے وہ اسٹیج اور ناظرین دونوں پر نظر رکھ سکتا ہے وہ سب کچھ دیکھتا ہے، سنتا ہے محسوس کرتا ہے اور قلم چلاتا ہے اس کی یہی ادا سب کو بھاتی ہے لیکن اس سماج میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو نامہ نگار کو دیکھ کر چونک جاتے ہیں اور ڈروخوف کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ دراصل سماج دشمن ہوتے ہیں ناجائز کاروبار کرتے ہیں۔ عوام کو دھوکہ دینے کے پروگرام بناتے ہیں نامہ نگار ان تمام افراد کی قلعی کھول دیتا ہے اور قارئین کو باشعور کرتا ہے کہ ان سماج دشمن عناصر اور دھوکہ باز افراد کی باتوں میں نہ آئیں ورنہ نقصان سے دورچار ہوں گے۔ غرض نامہ نگار سماج کی بہتر تشکیل و تعمیر میں غیرمعمولی کردار ادا کرتا ہے۔

نامہ نگار، معاشرہ کا ایک ذمہ دار اور باشعور فرد ہوتا ہے وہ سماج کا انتہائی قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھتا ہے وہ صرف وقائع نگار ہی نہیں ہوتا بلکہ واقعات پر اپنی رائے بھی رکھتا ہے۔ وہ واقعہ کے پوشیدہ نکات کو باہر لاتا ہے اور اس کے محرکات کا پتہ چلاتا ہے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ نامہ نگار کی ذمہ داریاں صبر آزما ہوتی ہیں وہ معمولی سے معمولی واقعہ کا بھی نوٹس لیتا ہے اور اس کی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے اگر سماج اخلاقی پستی کا شکار ہورہا ہے تو اس کی کچھ حد تک ذمہ داری نامہ نگار پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ نامہ نگار اپنے اخبار کے توسط سے رائے عامہ کو ہموار کرسکتا ہے وہ قارئین کو بھلے برے کی تمیز سکھا سکتا ہے۔ ان میں مثبت خیالات اور نیک رجحانات کو پروان چڑھانے میں معاونت کرسکتا ہے۔ سید اقبال قادری نے اپنی تصنیف رہبر اخبار نویسی میں نامہ نگار کے مختلف انداز کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ حقائق کا ایک وسیع سمندر ہے، جس میں سے نامہ نگار کو روزانہ چند اہم بوندیں کشید کرکے پیش کرنی ہوتی ہے نامہ نگار کبھی شکار ہے تو کبھی شکاری، کبھی وہ حددرجہ فراست سے کام لیتا ہے تو کبھی اپنا مطلب نکالنے کیلئے بھولے پن کا بھی اظہار کرتا ہے۔ وہ دوستوں کا ودست ہوتا ہے اور دشمنوں سے بھی دوستی کا ہی رویہ برتتا ہے کیونکہ دشمنی اور عدم تعاون سے نامہ نگار کی ذمہ داریوں کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالات کے اعتبار سے وہ چھوٹے موٹے سماجی اصولوں کی خلاف ورزی کرکے بھی اطلاعات اکٹھی کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے جس طریقے سے بھی ممکن ہو اطلاعات حاصل ہوں اور وہ ان معلومات کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی دیر نہیں کرتا نامہ نگار کا فرض صرف خبریں جمع کرنے کا ہی نہیں ہے بلکہ وہ خبر سے یا واقعہ سے سماج کو ہونے والے فائدے یا نقصان سے بھی آگاہ کرے واقعہ کا تجزیہ کرے اور اسکے اصل محرکات کا پتہ چلائے تاکہ مستقبل قریب میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔

نامہ نگار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ سماج کا نقاد ہے اور سماج میں ہر مذہب اور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں۔ ان تمام میں یگانگت پیدا کرنا نامہ نگار کا اہم فریضہ ہے۔ ایسے واقعات کا تدارک کرے جس سے معاشرے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ غیرمصدقہ واقعات اور افواہوں کو نہ صرف تردید کرے بلکہ حق اور سچ کی تبلیغ کرے نامہ نگار کا تعلق خواہ کسی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ اسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ اخبار سب کی ملکیت ہوتا ہے ہر زبان، مذہب اور طبقہ کے لوگ پڑھتے ہیں اس لئے متنازعہ موضوعات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرے۔ غیراہم واقعہ کو غیرضروری طور پر اہم نہ بنائے وہ حتی المقدور کوشش کرے کہ تمام طبقات میں میل ملاپ برقرار رہے۔
ایسے محکمے جس کا راست تعلق عوام سے ہوتا ہے۔ مثلاً بجلی، پانی، راشن، مارکٹ جہاں پر مختلف طریقوں سے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ نامہ نگار پر لازم ہے کہ وہ ان محکموں پر نظر رکھے نشیلی اشیاء اور جسم فروشی کے کاروبار بھی مختلف محلوں میں چوری چھپے بھی کئے جارہے ہیں، جس سے نوجوان نسل دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو ملازمت کے بہانے جسم فروشی کا کاروبار کرایا جارہا ہے۔ ان حالات میں نامہ نگار کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ ان غیراخلاقی کاروبار کا قلع قمع کرنے کیلئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے اور نوجوانوں کو ذہنی تربیت کرے تاکہ وہ کسی قسم کے استحصال کا شکار نہ ہوں کئی ایسے مواقع بھی نامہ نگار کی زندگی آتے ہیں جہاں نامہ نگار کو رشوت بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو یہیں پر ختم کردے کچھ نامہ نگار چند پیسوں کے لئے اپنے مقدس پیشے کو داغدار بھی بنادیتے ہیں بہرحال رپورٹر یا نامہ نگار پر لازم ہے کہ وہ معاشرے اور سماج کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے اپنے آپ کو وقف کردے۔

ابتداء میں خبروں کی اشاعت کا آغاز جاسوسی اور خبروں کی خفیہ فراہمی سے ہوا جس کے نظام کار کی تفصیل منوسمرتی اور کوٹلیہ کے اردھ شاستری سے ملتی ہے۔ چندر گپت موریا کے زمانے میں تین مختلف اور آزاد ذرائع سے خبریں حاصل کی جاتی تھیں اگر ان میں واقعاتی مطابقت نظر آتی تو ٹھیک ہے ورنہ وزیراعظم خود معاملہ کی تہہ تک پہنچتا تھا اور جس جاسوس اور نامہ نگار کے بیان میں غلطی دیکھتا اسے شدید سزائیں دیتا تھا جس کی وجہ سے خفیہ جاسوس یا نامہ نگار بالکل صحیح صحیح خبریں حکومت تک پہنچاتے تھے۔
اشوک کے زمانے میں نامہ نگاروں کو "پلسانی" کہا جاتا تھا یہ لوگ خبروں کے حصول کیلئے فاحشہ عورتوں کی مدد لیتے تھے یعنی فاحشہ عورتیں بھی رپورٹر کے فرائض نبھاتے تھے۔ یہ عورتیں عشوہ طرازی سے کام لے کر اپنے عاشق کے منہ سے راز اگلوالیتی تھیں اور انہیں پلسانی سے خاصی رقم حاصل ہوتی تھی۔ پلسانی ایک خفیہ رسم الخط میں خبریں لکھتے تھے اور تربیت یافتہ کبوتروں کے ذریعے سے انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے۔

ایران میں بادشاہ، وزیر اور امراء نے ایسے لوگ مقرر کر رکھے تھے جو ملک کے حالات قلمبند کرتے تھے۔ بیرونی نامہ نگاروں کی خبریں ترتیب دیتے تھے اور ان کی صحت کی جانچ پڑتال کے بعد ساری خبروں کو باقاعدگی سے یکجا کرتے تھے۔ ایسی خبروں کو مرتب کرنے والے "اخبار نویس" کہلاتے تھے۔
تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں خبر نویسی کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا لیکن امیر معاویہ نے ڈاک کا آغاز کیا تھا جسے البرید کہا جاتا تھا۔ مختلف صوبوں اور مقامات پر البرید کی چوکیاں مقرر تھیں ان کا مقصد سرکاری خط و کتابت کی ترسیل اور خبروں کی فراہمی ہوا کرتا تھا۔ پوسٹ ماسٹر یعنی صاحب البرید کا یہ فرض بھی تھا کہ وہ اپنے علاقے کے تمام واقعات سے خلیفہ کو باخبر رکھے۔ آگے چل کر صاحب البرید جاسوسی نظام کے اعلیٰ افسر کا کام بھی کرتے تھے۔
ہندوستان میں ڈاک کا نظام غزنوی خاندان کے حکمرانوں نے جاری کیا۔ بلبن نے تمام جاگیروں، بڑے شہروں اور دوردراز کے قصبوں میں وقائع نگار یا برید مقرر کئے اور یہ خیال رکھا کہ کسی برید کو خبریں حاصل کرنے کیلئے اتنا بڑا علاقہ (موجودہ Beat) نہ دیا جائے کہ وہ پوری معلومات حاصل کرنے سے عاجز ہو امراء اور حکام وقائع نگاروں سے بہت ڈرتے تھے۔ اس لئے کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ کسی معصوم شخص کو ضرور پہنچائیں اس طرح سے بلبن کے زمانے میں بھی نامہ نگاروں کو وہی اہمیت حاصل تھی جو آج کل ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بادشاہ اپنی سلطنت کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کیلئے اپنے ملک کے مختلف حصوں میں جاسوس چھوڑ رکھے تھے۔ ان کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ آیا عوام میں کہیں بغاوت یا انقلاب کے آثار تو نہیں کہیں کوئی حاکم ظلم تو نہیں کررہا ہے کہیں عوام پریشان یا مختلف امراض میں تو مبتلاء نہیں ہے؟ نیز ان جاسوسوں کا یہ کام بھی تھا کہ وہ وہاں پر ہونے والی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سی بڑی بات سے بادشاہ کو مطلع کریں۔ الغرض یہ جاسوس رعایا کے درمیان رہ کر پل پل کی خبریں بادشاہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ صرف بادشاہ ہی نہیں بڑے بڑے بیوپاری بھی اپنے اپنے مخبروں کو مختلف علاقوں میں پھیلائے رکھتے تھے تاکہ بازاروں کے بھاؤ اور دوسری متعلقہ خبریں اپنے مالکوں بھیجتے رہیں۔ غلط خبر یا خبر میں توڑمروڑ کرنے پر وقائع نگار کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

مغل دور میں وقائع نگار نے کافی ترقی کی۔ مغل حکمرانوں کو چار ذرائع سے خبریں موصول ہوتی تھیں۔ وقائع نگار، سوانح نگار، خفیہ نویس اور ہرکارے، مورخ صحافت ڈاکٹر عبدالسلام خورشید مغل دور کی نامہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغلوں کے زمانے میں ایک تو قلعہ معلیٰ کے وقائع نگار ہوتے تھے جو دربار کی ساری روداد کا روزنامچہ مرتب کرتے تھے اور دربار کا چھوٹا چھوٹا واقعہ بھی اس روزنامہ کا حصہ بنتا تھا۔
خبروں کی فراہمی کیلئے ایک الگ محکمہ شہنشاہ کی زیرنگرانی قائم تھا۔ شہنشاہ صوبائی اور اضلاعی اخبار نویس خود مقرر کرتا تھا اور ان کی برطرفی اور تبدیلی براہ راست شہنشاہ کی طرف سے ہوتی تھی۔ بعض اخبارات سربہ مہر لفافوں میں آتے تھے ان اخبارات میں شاہی فوجی مہمات کی اطلاع کے علاوہ سیاسی، معاشرتی، معاشی، تجارتی اور زرعی خبریں درج ہوتی تھیں۔ اخبارات عوام کے لئے اس لحاظ سے بے حد مفید رہتے تھے کہ سلطنت کے طول و عرض میں ناانصافی، بدنظمی، رشوت ستانی اور حاکموں، امیروں اور سرداروں کی ظالمانہ حرکتوں کی ساری اطلاعات بادشاہ کے گوش گذار ہوجائیں اور وہ فوراً ان کی روک تھام میں مصروف ہوجاتا اس طرح نامہ نگار سماجی ناانصافیوں کو دور کرنے میں مدد دیتا جو آج بھی مطبوعہ صحافت کا اہم فریضہ ہے۔
ابتدائی دور کے نامہ نگاروں کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کافی مستحکم تھی۔ ان کی تنخواہوں کا علم تو نہیں ہے لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے بہت سے اخبار نویس بے پناہ سیاسی قوت کے مالک تھے بعض کو بادشاہ کی طرف سے تحائف اور خلعتیں عطا ہوتی تھیں۔ یعنی وقائع نگاروں اور اخبار نویسوں کو سلطنت کے معاشرتی اور معاشی نظام میں نمایاں مقام حاصل تھا۔

وقائع نگاروں کی دی ہوئی خبریں صداقت پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ نامہ نگاروں کی معاشرتی حیثیت اور صوبائی حاکموں سے کامل آزادی واقعات کی صحت کی ضامن تھی جو اطلاعات مہیا کی جاتی تھیں ان کا موازنہ خفیہ نویسوں اور جاسوسوں کی دی ہوئی اطلاعات سے کیا جاتا تھا ۔ اس لئے شاید ہی کسی اخبار نویس کو جرأت ہوتی کہ وہ غلط خبریں مہیا کرتا اگر موازنے سے اطلاعات میں فرق نظر آتا تو تحقیقات کی جاتی تھی کہ کس شخص نے جھوٹ لکھا ہے اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن لوگوں نے غیرصحیح یا جھوٹ موٹ کے واقعات قلمبند کئے انہیں شدید سزائیں دی گئیں اور بعض اخبار نویسوں کو تو تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہیکہ اورنگ زیب کے زمانے میں اکثر وقائع نگار رشوت لے کر خبروں کو توڑمروڑ لیتے تھے۔ یہ الزام غلط ہے کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ عالم گیر وقائع نگار کے تقرر، ترقی، تبدیلی اور برطرفی میں کسی شہزادے کی سفارش بھی نہیں سنتا تھا البتہ عالمگیر کے زوال کے بعد اخباری تنظیم کا شہزادہ بکھر گیا نامہ نگار بے انصافیوں اور ظلم و ستم کی مثالوں کو حکام تک پہنچانے سے گریز کرنے لگے وہ رشوت بھی لینے لگے اور عوام کے استحصال کرنے والے گروہ کا پرد ہ چاک کرنے کے بجائے خود اس گروہ میں شامل ہوگئے اور رشوت کا بازار گرم ہوگیا اور اخباری سرگرمیاں بے مقصد ہوکر رہ گئیں۔ غرض ابتداء ہی سے نامہ نگاروں کا رجحان ہندوستان میں رہا ہے بلکہ منظم طریقے سے نامہ نگاری کے کاز کو آگے بڑھایا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ صحافی پیدا ہوتا ہے بنایا نہیں جاتا لیکن تعلیم و تربیت و محنت و مشقت اور ذوق و شوق سے صحافی بنا جاسکتا ہے۔ نامہ نگار کیلئے بھی یہی شرائط ہیں اس کیلئے لازم ہے کہ وہ صحافتی میلان رکھتا ہو۔ نامہ نگاری کا مشغلہ دلچسپ بھی ہے اور دقت طلب بھی۔ اس کی دلچسپی کی وجہ سے اس کی دشواریاں اکثر نظرانداز کردی جاتی ہیں آج کل نوجوانوں کو نامہ نگاری کا اتنا شوق ہے کہ کسی اور کام کی جانب اتنا میلان نظر نہیں آتا ان کا خیال ہے کہ شہرت و عزت حاصل کرنے کا سب سے زیادہ 'سب سے آسان اور سب سے کم خرچ ذریعہ نامہ نگاری ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ذوق و شوق، مزاج، طبعیت، مطالعہ اور محنت کے بغیر کوئی بھی شخص صحافی نہیں بن سکتا۔ ماہرین صحافت نے نامہ نگار کیلئے کچھ خوبیاں مختص کی گئی ہیں گوکہ یہ اوصاف ہر نامہ نگار میں اچانک پیدا نہیں ہوتے لیکن مستقل مزاجی سے اکتساب کے ذریعہ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ایک اخبار میں نو آموز نامہ نگار کو ایک اہم شادی کی رپورٹ لانے کا کام سونپا گیا۔ وہ نامہ نگار شادی میں تو شریک کرکے آ گیا اخبار کیلئے اس نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ کافی انتظار کے بعد جب متعلقہ مدیر نے شادی کی مطلوبہ رپورٹ کے سلسلہ میں دریافت کیا تو س نوآموز نے بڑے بھولے پن سے کہا : میں کیا رپورٹ دیتا ؟ وہاں دلہن بھی تھی، قاضی بھی تھا، براتی بھی کثیر تعداد میں موجود تھے، مگر دولہا ہی تشریف نہیں لایا۔ نہ شادی ہوئی اور نہ رپورٹ لکھی جاسکی۔ سارے براتی لوٹ گئے اور میں بھی واپس چلا آیا۔
اس نامہ نگار کے بھولے پن کی داد دیجئے اس نے اپنی ناتجربہ کاری سے ایک اہم اور سنسنی خیز خبر کا ستیاناس کردیا۔ دولہا کا غائب ہوجانا کس قدر دلچسپ اور تحیرآمیز واقعہ ہے جو یقیناً اخبار کے قارئین کے لئے باعث کشش ہوسکتا تھا لیکن نامہ نگار نے خبر کو پہچاننے میں غلطی کی۔ کہا جاتا ہے کہ نامہ نگار کے ہاں چھٹی حس ہوتی ہے جسے حس خبر یا شامہ خبر بھی کہا جاتا ہے۔ Nose For News ایک ایسی امتیازی حس ہے جس سے نامہ نگار واقعہ کا خبری پہلو محسوس کرتا ہے اور جمع کردہ خبروں میں سے اہم خبر کا بھی انتخاب کرسکتا ہے۔ یہ خصوصیت عام آدمی میں نہیں ہوتی۔ نامہ نگار نہ صرف خبریں دیکھتا اور سنتا ہے بلکہ واقعات کو سونگھ کر خبریں ڈھونڈھ نکالتا ہے جس نامہ نگار میں شامہ خبر زیادہ ہوگی وہ صحافتی میدان میں اتنا ہی کامیاب ہوگا۔

تجسس نامہ نگاری کا اہم زینہ ہے جب تک وہ تلاش و جستجو نہیں کرے گا اس وقت اسے اہم اور دلچسپ خبریں حاصل نہیں ہوں گی۔ اسے ہر معاملے کی کھوج لگانے سے دلچسپی ہو تجسس اور تفتیش سے وہ ہر طرح کے راز سے پردہ اٹھا سکتا ہے آج کل ٹی وی نامہ نگار کھوج اور تفتیش کے معاملے دیگر میڈیا سے کہیں زیادہ آگے ہیں مختلف اسکنڈلس کا پردہ فاش صرف اور صرف نامہ نگار کی جستجو اور کھوج کی بدولت ہی ہوا ہے۔ نامہ نگار کو ہم عصر اخبارات، جرائد اور تحقیقی رسائل کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی خبروں اور دیگر اطلاعاتی پروگراموں سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔

کہا جاتا ہے کہ علم ایک خزانہ ہے اور اس کی کنجی سوال ہے نامہ نگار میں خبر کی پہچان کے علاوہ سوال کرنے کی اہلیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ سوال کرنا ایک فن ہے یہ ہر کس و ناکس کو نہیں آتا۔ سوال ایسا ہو کہ جواب دینے والا نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دینے پر مجبور ہوجائے۔ سوال مختصرہو۔ واضح ہو۔ کسی کی تضحیک پوشیدہ نہ ہو جس سے سوال کیا جارہا ہو اس پر طنزنہ ہو ورنہ وہ جواب دینے سے گریز کرے گا۔ سوال موضوع سے متعلق ہونا چاہئے۔ غیرضروری سوالات سے گریز کرنا چاہئے وہی نامہ نگار زیادہ سے زیادہ مواد حاصل کرسکتا ہے جو سوال کرنے کے فن سے واقف ہو۔ تاکہ وہ لوگوں سے ملاقات کرکے کچھ نہ کچھ حالات، تفصیلات اور نظریات جمع کر ے۔ نامہ نگار گوشہ نشین یا تنہای پسند نہیں ہوسکتا۔ حجاب، سردمہری، کشیدگی، کم گوئی سے احتراز ضروری ہے بلکہ وہ دلیر، گرم جوش، ملنسار، بیدار اور خوشگوار حد تک باتونی ہونا بہتر ہے۔ بات چیت کے ذریعہ خبریں اہم شخصیات کی زبان سے باہر آتی ہیں۔
نظریاتی اور اصولی اعتبار سے خبروں میں معروضیت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔نامہ نگار واقعے کو پوری غیر جانبداری کے ساتھ ذاتی تاثرات احساسات سے الگ رہ کر اور اظہار رائے کے بغیر بیان کرے۔ قارئین یا سامعین کے ساتھ انصاف بھی اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ خبریں اصل صورت میں ان تک پہنچیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں۔
"خبر سے میری مراد یہ ہیکہ آپ جب ازراہ کر م کسی واقعے سے مجھے مطلع کریں تو بس واقعے سے متعلق ردعمل مجھ تک منتقل کرنے کی کوشش نہ فرمائیں اور نہ یہ سعی کریں کہ واقعہ میرے احساسات و جذبات کو ایک خاص انداز میں برانگیخت کرے مطلب یہ ہے کہ خبر کو اپنی واقعی حالت میں مجھ تک پہنچنے دیں نیز خبر ایک نہایت مقدس شئے ہے۔ یہ ایک امانت ہے جو آپ کے ہاتھوں میں دی گئی ہے خبر کی حرمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی مجرد حیثیت کو قائم رکھا جائے تاکہ جذبات اسے ملوث نہ کرسکیں۔"

چونکہ نامہ نگار بھی معاشرے کا ایک رکن ہوتا ہے اس کے اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خبروں میں سوفیصد معروضیت کو برقرار رکھ سکے؟ خبروں کی صداقت اور ان کی معروضیت کا لحاظ رکھنا نامہ نگار کیلئے لازم ہے وہ اس بات کی کوشش کرے کہ صداقت پر مبنی خبر مکمل معروضیت کے ساتھ خبریں پیش کرے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ہر صداقت پر مبنی خبر اخبار کی زینت بن سکتی ہے۔
جرائم کی خبریں صحیح ہونے کی بناء پر من و عن بیان نہیں کی جا سکتیں۔ بہت سی صحیح باتیں بھی ہوسکتی ہیں جن سے معاشرے میں تشدد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ قانون شکنی کے رجحان کو فروغ ملتا ہے۔ فرقہ وارانہ اور علاقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہو۔ ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اس قسم کی خبروں کی تحریر و ترسیل میں نامہ نگار کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے کہ :
"دروغ مصلحت آمیز بہ ازراستی یعنی فتنہ و فساد پیدا کرنے والی سچائی سے مصلحت آمیز جھوٹ بہتر ہے۔
لیکن آج کل ٹی وی چینل کے نامہ نگار اس معاملے میں کوئی احتیاط نہیں برتتے۔ شاہد کپور اور کرینہ کپور کا بوسہ بہت دیر تک اور بار بار دکھایا جاتا ہے کیونکہ ایک صداقت ہے مگر اس صداقت سے اخلاق عامہ پر کس قدر برا اثر پڑتا ہے انہیں اس سے کوئی بحث نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف نامہ نگار ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک سماجی کارکن بھی ہوتا ہے۔ بہتر معاشرے کی تشکیل میں ممدومعاون ہوتا ہے۔ اس لئے ایسی صداقتوں سے گریز کرنے میں ہی سماجی بہتری ہے۔

نامہ نگار کیلئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ خبر کو توڑمروڑ کر پیش کرے۔ اس سے نہ صرف صداقت مجروح ہوتی ہے بلکہ نامہ نگار کی بددیانتی کا بھی اظہار ہوتا ہے امریکہ کے مشہور صحافی Joseph Pulitzer نے یہاں تک کہا کہ خبر کی درستی ایسی ہی اہم ہے جیسے کسی دوشیزہ کیلئے اس کی عصمت یعنی کسی بھی خبر کی ایک آبرو ہوتی ہے۔ اسے ٹھیس نہیں لگنی چاہئے کسی خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا گویا کسی باعصمت دوشیزہ کی آبروریزی یا عصمت دری کرنے کے مترادف ہے۔
خبریں صداقت پر مبنی ہوں اور ان کی پیشکش معروضیت کے ساتھ ہو تو نہ صرف اخبار کی اہمیت میں اضافہ ہوگا بلکہ سماج میں اخبار کے نامہ نگار بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔

صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے حق گوئی، بے باکی، مظلوم عوام کے حذبات اور احساسات کی پیامبر ہوتی ہے۔ حقوق انسانی کی بقاء اور پاسبانی کیلئے دنیا کی ہر بڑی طاقت سے ٹکرا جانا کبھی حکومت تو کبھی دشمن عناصرکے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن جانا اور وقت آنے پر تختہ دار پر چڑھ کر اپنے پیشہ کے تقدس کی لاج رکھنا ایک زندہ ضمیر صحافی کیلئے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔ نامہ نگار کو آئے دن سخت حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ اسے اپنی جان کے بھی لالے پڑجاتے ہیں مگر حق گوئی سے وہ منہ نہیں موڑ سکتا کیونکہ حق گوئی اور بے باکی نامہ نگار کی فطرت میں شامل رہتی ہے۔ وہ باہمت، دلیر اور مستقل مزاج ہو۔ قوت برداشت کے ساتھ وہ ہر ذمہ داری کو استقلال کے ساتھ نبھانے کا عادی ہو۔ بعض پیچیدہ معاملات کی تفتیش میں کبھی کبھی نامہ نگار پولیس اور خفیہ محکموں کے ذہین ترین افسران سے بھی آگے نکل جاتے ہیں متعدد واقعات ایسے ہیں جس میں پولیس سے پہلے اخباری نامہ نگاروں نے پراسرار معاملات کا راز افشاء کیا ہے۔

سیاسی لیڈر، حاکم وقت، صنعتکار اور اثر ورسوخ رکھنے والوں سے نامہ نگار کبھی مرعوب نہییں ہوسکتا۔ جس دن نامہ نگار دولت مند طبقہ اور ذی اثر افراد سے مرعوب ہوگا۔ اسی دن سے صحافت اپنی اہمیت اور افادیت کھودے گی عوام کا صحافیوں پر بھروسہ اور یقین ختم ہوجائے گا۔ نامہ نگار کو بے باک، بے خوف، نڈر، باہمت، حوصلہ مند اور دوراندیش ہونا چاہئے۔ اسے اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ قلم کا بادشاہ ہے اور اس کی طاقت ناقابل گرفت ہے محض صحافی کی بے باکی اور بے خوفی سے متاثر ہوکر نیپولن نے کہا تھا :
"میں سو فوجی دستوں کے مقابلے میں ایک اخبار سے زیادہ ڈرتا ہوں"۔

نامہ نگار کو متوازن اور بہترین شخصیت کا حامل ہونا چاہئے اس کا رکھ رکھاؤ، سلیقہ، نرم خو اور سلجھے ہوا ذہن نامہ نگار کے علم و مرتبہ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ تیز، چالاک اور حاضر جواب ہو، سماجی آداب سے واقف ہو وہ ہر طرح سے خلیق ہو، خوش وضع اور خوش طبع ہو، وہ چڑچڑا، گستاخ زبان اور ہٹ دھرم نہ ہو لوگ اس سے ملنے کے خواہشمند ہوں ایک صاف اور پرسکون ذہن صحافت کے پیشہ میں بہت مدد دیتا ہے کیونکہ ذہن صاف ہو تو مسائل واضح ہوتے ہیں اور ان کا ابلاغ آسان ہوجاتا ہے۔ نامہ نگار کی زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں بھی آتی ہیں ۔ بعض اوقات کام تیزی اور پھرتی سے کرنا پڑتا ہے حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں ایسے میں نامہ نگار کے اعصاب مضبوط ہوں اور محض اپنے سکون اور سلجھے ہوئے ذہن کی مدد سے وہ تمام مشکلات پر قابو پاسکتا ہے۔ وہ تحمل و بردباری سے کام لے جذباتی ہونے کے بجائے صبر سے کام لے۔ دوراندیشی اور موقع شناسی نامہ نگار کے کئی ایک کام نکال سکتے ہیں۔ غرض اس کی شخصیت قابل اعتبار، صاف ستھری اور پروقار ہو۔

نامہ نگار کو فن نامہ نگاری سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ نامہ نگار کو مختلف ذرائع سے خبروں کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے، جن میں پریس ریلیز، پریس کانفرنس، ہاسپٹل و مردہ خانہ، ریلوے اور بس اسٹیشن، ہوائی اڈے، فائر بریگیڈ، پریس کلب، سرکاری دفاتر، سیاسی پارٹیوں کے دفاتر، بازار، محکمہ اطلاعات، پولیس اسٹیشن، یونیورسٹی یا کالج کیمپس کھیل کود وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نامہ نگار جتنا محنتی اور تلاش و تحقیق کا عادی ہوگا وہ دوسروں سے کہیں زیادہ دلچسپ اور انوکھی خبریں حاصل کر پائے گا۔ خبروں کے حصول کے بعد خبروں کے تحریر کے مرحلہ میں بھی اسے طاق ہونا چاہئے ابتدائیہ نگاری کے فن سے واقف ہو اور خبر کے متن کے جو مختلف مروجہ طریقے ہیں ان پر کمال حاصل ہو۔ خبر کے موضوع اور اہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے طریق تحریر کا انتخاب کرنا چاہئے۔ غرض صرف واقعات کی کھوج ہی نامہ نگار کا فرض نہیں ہے بلکہ کوئی بھی واقعہ اسی وقت خبر کا درجہ اختیار کرتا ہے جب تک نامہ نگار اس واقعے کو ضبط تحریر میں نہ لائے۔

نامہ نگار کا مطالعہ وسیع ہونا چاہئے۔ مختلف موضوعات پر اسے عبور حاصل ہو قانون، آئین، شہریت، سماجیت، اقتصادیات، سائنس، قانون سازی، صنعت و حرفت، کھیل کود، سیاحت اور ادب پر اچھی خاصی نظر رکھتا ہوں کیونکہ کسی بھی معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر درست نتائج نکالنے کیلئے خصوصی علمی استعداد ہی ممد و معاون ہوتے ہیں۔ امریکی روزنامہ نیویارک سن کے مشہور مدیر چارلس اے ڈانا نے کہا تھا کہ
"نامہ نگار ہر فن میں طاق ہو، اس میں یہ معلوم کرنے کی امتیازی قوت ہوکہ وکیل کی سی دلیل قانونی ہے یا نہیں۔ نامہ نگار کی تعلیم عمدہ ہی نہیں بلکہ بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ ہو اسے کئی باتوں کا صحیح علم ہو کسی بھی معاملہ پر اسے جتنا زیادہ عبور حاصل رہے گا اتنا ہی بہتر ہوگا۔ صحافت میں جاہل اور احمق کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جو شخص اپنا مافی الضمیر سلیس اور سادہ زبان میں پیش کرسکے اور جو لکھنے کیلئے موڈ کا انتظار نہ کرے وہ صحافی یا نامہ نگار بن سکتا ہے۔ صحافت کے میدان میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خبری مواد کو ضبط تحریر میں لانا ہوتا ہے آج کی مسابقتی صحافت نے وقت کی اہمیت میں اور اضافہ کردیا ہے۔ خبروں کی تحریر جامع اور پراثر بنانے کیلئے بہترین انداز نگارش ہو۔ زبان سادہ اور سلیس ہو۔ مختصر جملے اور عام فہم انداز بیان سے ترسیل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ۔ نامہ نگار کو زیادہ سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل ہو۔ مختلف زبانوں کے مزاج اور مخصوص اصطلاحات سے وہ واقف ہو تحریر میں کوئی قواعد کی غلطیاں نہ ہوں کبھی کبھی رموز و واقاف کا صحیح استعمال نہ ہونے پر خبر کی صحت اور صداقت بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ خبر کی افہام و تفہیم میں دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ نامہ نگار میں ترجمہ کرنے کی بھی اہلیت ہونی چاہئے۔

اخبار نویس کی پہلی منزل خبر نویسی ہے جسے رپورٹنگ کہا جاتا ہے خبر نویس کو رپورٹر، نامہ نگار، وقائع نگار جیسے نام دیئے گئے ہیں نامہ نگار کے اپنے ذمہ داریوں اور علاقے کے اعتبار سے مختلف روپ ہوتے ہیں جن کا مختصراً تعارف ذیل میں دیا جارہا ہے۔
ہر اخبار اپنے رپورٹر رکھتا ہے جن کو اسٹاف رپورٹر کہتے ہیں یہ رپورٹر صرف اپنے ہی اخبار کیلئے خبریں بھیجتا ہے۔ اخبار جس جگہ سے شائع ہوتا ہے وہاں کی خبریں قرب مکانی کے باعث زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ شہر میں کئی کئی رپورٹر ہوتے ہیں جن کا دائرہ عمل (Beat) الگ الگ ہوتا ہے اپنے علاقے کے ہر قسم کے واقعات کی رپورٹنگ ان کے ذمہ ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک رپورٹر تمام موضوعات پر رپورٹنگ نہیں کرسکتا گوکہ تمام موضوعات پر اس کی نظر رہتی ہے لیکن وقت مقررہ میں تمام موضوعات کی رپورٹنگ خوش سلیقے سے نہیں کی جاسکتی اس لئے بڑے اخبارات مختلف موضوعات پر رپورٹروں کا تقرر کرتے ہیں تاکہ رپورٹر کے مخصوص میدان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرسکیں۔
اخباری دفتر میں کئی ایک رپورٹر مامور ہوتے ہیں ان تمام کی نگرانی چیف رپورٹر یا بیورو چیف کرتا ہے یہ مختلف خبریں یا رپورٹ طلب کرنے کیلئے مختلف رپورٹروں کو مامور کرتا ہے۔ موصولہ رپورٹنگ پر نظرثانی کرتا ہے تاکہ خبریں زیادہ مربوط اور دلچسپ ہوجائیں وہ طرز تحریر، واقعات کی پیشکشی اور ابتدائیہ نگاری میں مشورے دیتا ہے نئے رپورٹر کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔

جرائم کی خبریں جمع کرنے کیلئے جو رپورٹر مقرر ہوتے ہیں انہیں کرائم رپورٹر کہا جاتا ہے۔ عموماً مرد حضرات ہی یہ رپورٹنگ کیا کرتے تھے لیکن آج کل خواتین بھی جرائم کی خبر نویسی کیلئے متعین کی جارہی ہیں ایک جوکھم بھرا میدان ہے جہاں غنڈوں، شرپسندوں غیرسماجی عناصر، فسادیوں، چور اچکوں اور قاتلوں سے ہی سابقہ پڑتا ہے۔ اس لئے کرائم رپورٹر کو نہایت بے خوف و بے باک ہوکر کام کرنا پڑتا ہے۔ کرائم رپورٹر کو محکمہ پولیس، فوجداری عدالتوں کی کارگذاری اور انتظامی ڈھانچے سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔ اس میں اتنی جرأت اور اہلیت ہوکہ وہ کسی بھی سطح کے پولیس افسر سے ملاقات کرکے کسی بھی جرم کی ملنے اولی تفصیلات دریافت کرسکے۔ وکیلوں اور فوجداری عدالتوں کے ہر سطح کے افسر سے شناسائی رکھے۔ مختلف جرائم کی پاداش میں سزاؤں کے لئے باضابطہ قوانین اور تعزیرات ہند یا انڈین پینل کوڈ سے کماحقہ واقف ہو۔
کرائم رپورٹر کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جرائم کی خبریں شائع کرنے کا مقصد جرائم کی روک تھام کرنا ہے۔ قارئین کو مجرموں کے ہتھکنڈوں سے واقف کروانا ہے کچھ اخبارات جرائم کی خبروں کو مرچ مسالہ لگا کر بیان کرتے ہیں۔ ایسے اخبار زرد صحافت کے دائرے میں آتے ہیں۔ نامہ نگار کی انداز نگارش سے یہ ظاہر ہوکہ وہ جرائم سے نفرت کرتا ہے کہ نہ جرائم میں لذت محسوس کرتا ہے ذراسی لاپرواہی اور کوتاہی سے قارئین کو الٹا نقصان ہوسکتا ہے۔ اغواء، زنا بالجبر اور قتل و غارتگری کی رپورٹنگ احتیاط سے کریں تاکہ سماج خصوصاً نوجوانوں پر غلط اثرات مرتب نہ ہوں۔

اردو اخبارات میں کھیل کود کی خبریں کم ہی ہوتی ہیں، انگریزی اخبارات میں کھیل کود کے ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ اسپورٹس رپورٹر تمام مشہور کھیلوں سے واقف ہونا چاہئے ۔کھیلوں کی تاریخ اور کھیل سے وابستہ مختلف کپ اور ٹرافیوں سے آگاہی اسپورٹس رپورٹنگ میں معاون ثابت ہوگی۔ اسپورٹس رپورٹنگ بظاہر آسان ہوتی ہے مگر درحقیقت یہ دشوار اور محنت طلب لیکن دلچسپ مشغلہ ہے۔ رپورٹر اپنی خبریں پس منظر کی وضاحت کے ساتھ کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بھی موضوع بحث بناتا ہے اور ہارجیت کے اسباب کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتا ہے"میچ فکسنگ" آج کل مشہور اصطلاح ہے اس پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسپورٹس رپورٹنگ سے متعلق سید اقبال قادری اپنی تصنیف رہبر اخبار نویسی میں لکھتے ہیں۔
"اسپورٹس نامہ نگار ہلکے پھلکے الفاظ کا بڑی فراخدلی سے استعمال کرسکتا ہے۔ مروجہ استعارے 'کنائے' مجازی عبارتیں اور تشبیہات بھی نامہ نگار کثرت سے استعمال کرسکتا ہے۔ تمثیل نگاری سے بھی وہ اپنی رپورٹ کو زوردار اور پرلطف بنا سکتا ہے۔ ماضی کے حوالوں سے وہ تقابلی معلومات درج کرسکتا ہے۔"

سائنسی ایجادات و انکشافات کی رپورٹنگ کرنے والا نامہ نگار سائنسی نامہ نگار کہلاتا ہے۔ وہ سائنس کے کوئی ایک شعبہ کا ماہر ہوتا ہے اور دیگر شعبہ جات پر گہری نظر رکھتا ہے۔ سائنسی نامہ نگار میں سائنسی خبروں کی سمجھ بوجھ، سائنسی خبروں کی تفصیلات کا حصول اور وضاحت و تشریح کے ساتھ خبر لکھنے میں مہارت کا ہونا ضروری ہے۔ سائنس کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں اور سائنسی علوم کے جدید ترین ادب کا جب تک گہرا مطالعہ نہ ہو تو سائنسی رپورٹنگ کرنا مشکل ہے۔ یہ رپورٹ عام زبان میں ہونی چاہئے نہ کہ سائنسی اور تکنیکی زبان میں ہو۔ سائنسی رپورٹنگ کا اہم مقصد عوام کو سائنسی ایجادات و انکشافات سے واقف کروانا ہے تاکہ انہیں قوم و ملت کی ترقی کا اندازہ ہو اور بچوں میں سائنٹفک رجحان فروغ دینے میں بھی سائنسی رپورٹنگ ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔
موجودہ سماج میں معاشیات اور اقتصادیات کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اقتصادیات اور تجارت پر نہ صرف اخبارات شائع ہورہے ہیں بلکہ ہفتہ وار اور ماہنامے بھی جاری ہورہے ہیں۔ اردو اخبارات میں ایک آدھ صفحہ اقتصادیات کیلئے مخصوص کیا جارہا ہے لیکن اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ بہرحال اقتصادی نامہ نگار کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی تجارت، شیر بازار پر رکھنا ہوگا مختلف کمپنیوں کے بھاؤ، اقتصادی نشیب فراز مختلف کمپنیوں کا عروج و زوال غرض سب کچھ اقتصادی نامہ نگار کے مشاہدے اور مطالعے میں ہونا چاہئے تاکہ قارئین کو اقتصادی طور پر ہونے والی تبدیلی اور فائدے و نقصانات کا قبل از وقت علم ہوسکے۔
رپورٹر صرف خبریں ہی ارسال نہیں نہیں کرتا بلکہ ان واقعات کا پس منظر، وجوہات اور تفصیلات کے ساتھ جامع رپورٹنگ کرتا ہے ایسے مخصوص موقعوں پر اخبار مقام واقعہ پر اپنا نمائندہ خصوصی بھیجتا ہے جو جامع رپورٹنگ تیار کرتا ہے جسے Special Correspondont بھی کا جاتا ہے۔ یہ عموماً تجربہ کار، باشعور، دوراندیش اور باریک بین صحافی ہوتا ہے جو واقعہ کی صرف ظاہری سطح کی بیان پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا ے صحافت میں سب سے شاندار اور دل خوش کن کام نمائندہ خصوصی کا ہوتا ہے۔ کوئی بہت بڑا سیاسی واقعہ، قومی سانحہ، انتخابات، کسی اہم شخصیت کی گرفتاری، کسی محکمے، ادارے یا شعبے میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات وغیرہ کے سبھی امور کی وقائع نگاری نمائندہ خصوصی کے ذمہ ہوتی ہے۔
ضلعی نامہ نگار کے تحت کئی ایک نامہ نگار ہوتے ہیں جو متعلقہ ضلع کے مختلف مقامات پر مامور ہوتے ہیں ۔اردو اخبارات میں اضلاعی نامہ نگاروں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جو اسٹاف رپورٹر کو حاصل ہے جس کی وجہ سے بہت سے نامہ نگار جزوقتی طور پر نامہ نگاری کرتے ہیں۔ بعض نامہ نگاروں کو تو صرف ڈاک خرچ ہی دیا جاتا ہے جبکہ علاقائی صحافت میں ضلعی نامہ نگاروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر ضلع کا ایک علحدہ ایڈیشن ہوتا ہے۔ ضلع بھر کی ہر چھوٹی بڑی خبر اس ایڈیشن کی زینت بنتی ہے۔ اردو اخباروں پر بھی لازم ہے کہ وہ ضلعی نامہ نگاروں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اور انہیں معقول مشاہرہ دیا جائے تاکہ وہ ہمہ وقتی رپورٹنگ کرسکیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی 70 فیصد سے زائد آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ تلگو روزنامہ ایناڈو محض اضلاعی ایڈیشن کی بنیاد پر سرکولیشن کے اعتبار سے ہندوستان میں علاقائی صحافت کا سب سے بڑا روزنامہ بن گیا ہے۔

سیاسی وقائع نگار بھی نامہ نگاروں کی ایک قسم ہے۔ سیاسی وقائع نگاری کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور یہ بہت مہارت چاہتی ہے۔ اس میدان میں تجربہ کار جہاں دیدہ، سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہ سیاسی لیڈروں کے داؤ پیچ سے واقف اور اخباری زبان کی باریکیوں پر عبور رکھنے والے صحافی ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ مختلف الخیال سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ایک ایسا توازن پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے اخبار نویس سب کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ خبر سونگھنے کی جتنی اہلیت وقائع نگاری کی اس صنف میں درکار ہے صحافت کی کسی اور شاخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سیاسی وقائع نگار اپنے ملک کی سیاست کے ماضی اور حال سے بخوبی آشنا ہو اس کی اپنی شخصیت پرکشش ہو۔ فن گفتگو کا ماہر ہو۔ حفظ مراتب سے واقف ہو۔ واقعات و رجحانات کی ترجمانی اور تاویل میں دسترس رکھتا ہو۔ چہرہ شناس ہو، جری ہو، صبر کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہو اور اسے اپنے اعصاب پر پورا قابو ہو۔

سیاسی وقائع نگاری کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ اس میں کئی شعبے ہیں اور اعلیٰ پائے کے اخبار ہر شعبے کیلئے الگ الگ وقائع نگار مقرر کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کسی بھی قانون ساز ادارے کی کارروائی قلمبند کرنے والے کو پارلیمانی نامہ نگار کہا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے تجربہ کار نامہ نگاروں کو مقرر کیا جاتا ہے۔ اردو نامہ نگاروں کا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ پارلیمانی طریق کار، قواعد اور روایات کا مطالعہ کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ قانون ساز کا کام کیسے ہوتا ہے۔ بحث کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ پارلیمانی اور غیرپارلیمانی زبان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پارلیمانی طریقہ کار کی اصطلاحات سے بخوبی واقف ہونا ضروری ہے۔ ارکان کی چہرہ شناسی ضروری ہے ورنہ صحیح رپورٹنگ نہیں ہوگی۔
پارلیمانی خاکہ نگار ایوان کی فضاء کا خاکہ کھینچتا ہے جب کہ نامہ نگار قانون ساز ادارے کی کارروائی قلمبند کرتا ہے۔ پارلیمانی خاکے کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہے۔ اس میں ایسے ارکان کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو کبھی تقریر نہیں کرتے یا یا بحث کے وقت سوئے رہتے ہیں یا وہ ارکان جو کارروائی کے دوران اخبار پڑھتے ہیں ایسے ارکان جو پارلیمانی طریق کار سے بالکل واقف نہیں لیکن ہر مرحلے پر مداخلت کرتے ہیں۔ طویل طویل تقریریں کرتے ہیں۔ کارروائی کے دوران دلچسپ بحث، کہاوتیں لطائف غرض کسی بھی موضوع پر خاکہ لکھا جاسکتا ہے۔ Mansfield کا کہنا ہے کہ اس فن میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی اسٹیج پر جو کردار موجود ہوں خاکہ نویس ان کی شخصیتوں، زندگی کے مختلف پہلوؤں، کمزوریوں، مشغلوں اور ان کے محبوب موضوعات سے آگاہ ہو خاکے کا اسلوب طنز و مزاح سے بھرپور ہو تو خاکہ دلچسپ ہوجائے گا۔
لابی (Lobby) ایوان سے ملحق اس ہال کو کہتے ہیں جہاں ایوان کے ارکان باہم تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اپنے ملاقاتیوں سے بات چیت کرتے ہیں اور چائے نوشی بھی کرتے ہیں۔ لابی نامہ نگار اس اخبار نویس کو کہتے ہیں جو اسپیکر کی اجازت سے خبریں جمع کرنے کیلئے ایوان کی لابی میں آتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام معزز شخصیتوں سے خوشگوار تعلقات قائم رکھے۔ اسے سیاسیات کا گہرا درک ہو اس کا ایک ہاتھ ایک طرف سیاست دانوں کی نبض پر ہوتا ہے اور دوسری طرف قارئین کی نبض پر۔ اسی لئے لابی نامہ نگار سیاسی معاملات پر مستند رائے دے سکتا ہے۔
سفارتی نامہ نگار، سفیروں، سفارتی، قونصلوں، ہائی کمشنروں، تجارتی کمشنروں اور دوسرے ڈپلومیٹک نمائندوں سے رابطہ رکھتا ہے جب کوئی غیرملکی وفود آئیں توان کے ارکان اور اخباری مشیروں سے مل کر ممکنہ معلومات حاصل کرتا ہے اس قسم کی نامہ نگاری میں محنت زیادہ ہوتی ہے لیکن یافت کم ہوتی ہے کیونکہ سفارتی گفتگو عام طور پر خفیہ رہتی ہے۔ سفارتی نامہ نگاری کی ذمہ داری سینئر صحافیوں کو سونپی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک نہایت نازک کام ہے۔

غیرملکی نامہ نگار ایک غیرسرکاری سفیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جس سے اس کا ملک بدنام ہو، یہ عہدہ بڑی ذمہ داری اور سوجھ بوجھ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس کی رپورٹنگ ہر دو ملکوں کے باہمی تعلقات کا انحصار ہوتا ہے۔
جس ملک میں غیرملکی نامہ نگار بھیجا جاتا ہے وہ اس ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے گہری واقفیت حاصل کرے وہاں کی تہذیب و تمدن، معیار زندگی، عام اقدار، رویوں اور رجحانات سے آشنا ہو اور اس ملک کی زبان و ادب پر قادر ہو اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں وہ اپنے ملک کے مفاد کو ترجیح دے اس لئے معمر، تجربہ کار، تعلیم یافتہ، مذہب اور نامی گرامی صحافیوں کو ہی غیرممالک بھیجا جاتا ہے۔ برطانوی صحافی غیرملکی نامہ نگاروں کو یہ مشورہ دیتے ہیں۔
"سچ بولنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ بعض اوقات سچائی گالی سے زیادہ مجروح کن اور زہریلی ثابت ہوتی ہے۔ داخلی امور میں آپ ووٹوں سے کھیلتے ہیں لیکن امورخارجہ میں زندگیوں سے کھیلنے کی نوبت آ سکتی ہے ۔آپ کا ایک ایک لفظ قوموں کے درمیان دوستی یا دشمنی پیدا کرسکتا ہے۔ امورخارجہ کے بارے میں لکھتے وقت غیرمعمولی احتیاط سے کام لیجئے۔"

مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ نام نگار کے اور بھی کچھ روپ ہوتے ہیں جو عموماً بڑے اخبارات میں مامور ہوتے ہیں جیسے صنعتی نامہ نگار، تجارتی نامہ نگار، لیبر نامہ نگار، تعلیمی نامہ نگار، دینی نامہ نگار، زرعی نامہ نگار، قانونی نامہ نگار، مالیاتی نامہ نگار، تکنیکی نامہ نگار، فیشن نامہ نگار، آٹو موبائیل نامہ نگار، ماحولیاتی نامہ نگار، موسیقی نامہ نگار تھیٹر نامہ نگار، کانکنی نامہ نگار، شپنگ نامہ نگار وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

Newspaper Correspondent - a conscious and responsible citizen of the society. Article: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں