سپریم کورٹ ، نامرد حکومتیں اور رام نومی کا تشدد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-02

سپریم کورٹ ، نامرد حکومتیں اور رام نومی کا تشدد

supreme-court-impotent-governments-ram-navami-violence

سپریم کورٹ کا کہا سچ ثابت ہو گیا !

اس ملک کی حکومتیں ،' نامرد ' ہیں۔ جب حکومتیں نامرد ہیں تو انتظامیہ میں کہاں سے ' مردانگی ' آ سکتی ہے ، وہ کہاں سے ہمت کر سکتی ہے کہ ، فرقہ پرستوں کے خلاف کارروائی کرے !
اسی لیے اب تک ، رام نومی کے دوران مسجدوں کے سامنے شرانگیزی کرنے والوں کے خلاف ، تلواریں لہرانے والوں کے خلاف ، مسجدوں پر پتھراؤ کرنے اور رام نومی کے جلوس میں بلڈوزر لے کر چلنے والوں کے خلاف ، کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی ہے ، ہاں دکھانے کے لیے ہمیشہ کی طرح معاملات درج کر لیے گیے ہیں۔
' نامردی ' کا ایک اور ثبوت اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ ، شرانگیزی کے لیے مسلمانوں کے نام ایف آئی آر میں بھر دیے گئے ہیں۔ مطلب لوگوں کو یہ منوانا ہے کہ ، شرانگیز جلوسی نہیں مسلمان ہی تھے۔ کسی مسلمان کا شرپسند ہونا ناممکن نہیں ہے ، لیکن جب مسجدوں کے سامنے اور عین افطار کے وقت ، ایک خاص انداز میں ، ایک منظم ڈھنگ اور مربوط طریقے سے ، جلوس نکالے اور روکے جائیں اور جب ' سابق ' بھاجپائی ٹی راجہ جیسے لوگ ، مسجدوں کی جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر ، گالیاں دیں ، قتلِ عام کی دھمکیاں دیں ، تو یہ ناممکن ہے کہ وہ قصوروار نہ ہوں۔


ملاڈ میں رام نومی کا جلوس نکال کر فساد بھڑکانے کی جو کوشش کی گئی تھی ، اس کی ایف آئی آر ایک ' عجوبہ ' ہے ، کہ اس میں قصوروار صرف مسلمان ہی ہیں۔ اس بار رام نومی پر جو ' تشدد ' ہوا اس کا ایک خاص پیٹرن تھا ، ایک خاص انداز تھا۔ ایک ساتھ ، ایک ہی وقت پر ، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، عین افطار کے وقت ، جب روزہ دار افطار کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں ، یہ جلوس مسجدوں کے سامنے لے جائے گئے ، ڈھول باجے زور و شور سے بجائے گیے ، ' جئے شری رام ' کے نعرے لگائے گیے اور اس کے ساتھ گالیوں کا سلسلہ چلا ، تو تو میں میں ہوئی تو پتھراؤ بھی ہوا ، اور پھر آگ زنی شروع کر دی گئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی ہدایت کار نے خاص طور پر ہدایت دی ہو کہ کب ، کہاں ،کیا اور کیسے کرنا ہے !


سوال ہے کہ اس بار رام نومی کے جلوس میں زیادہ شرانگیزی کیوں دیکھنے کو ملی ، اور کیوں شرانگیز ہر طرح کے قدغن سے محفوظ رہے ، پولیس کیوں خاموش تماشائی بنی رہی ، ان ریاستوں میں بھی جہاں بی جے پی کی حکومتیں نہیں ہیں ، جیسے کہ مغربی بنگال ؟
مذکورہ سوالوں کے جواب کوئی مشکل نہیں ہیں۔ اس بار بی جے پی کو اپوزیشن نے ایک ڈھلوان زمین پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ، اس طرح کہ گوتم اڈانی پر لگے گھوٹالے اور گھپلے کے الزامات کا رخ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف موڑ دیا ہے۔ اور منظر نامہ یوں بنایا جا رہا ہے ، جیسے کہ اڈانی پر جو الزام لگ رہا ہے ، وہ حقیقتاً مودی پر الزام ہے۔ پہلی بار مودی پر بدعنوانی کا الزام لگا ہے ، وہ بھی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کے ذریعے۔
اتنا ہی نہیں کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کا : 'مودی کا اڈانی سے کیا رشتہ ہے ؟' یہ سوال بھی ملک بھر میں گونجنے لگا ہے۔
راہل گاندھی نے ملک سے جمہوری قدروں کے خاتمے کی بات کی ہے ، بی جے پی پر اس کا الزام لگایا ہے اور اس حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کیا ہے۔ اور وہ راہل گاندھی جنہیں کل تک ' پپو ' کہا جاتا تھا ، آج بی جے پی کے لیے اتنے بڑے خطرے کے روپ میں سامنے آئے ہیں کہ برسرِ اقتدار پارٹی ان کی زباں بندی کے لیے وہ کر گزری ہے جس کی کوئی امید نہیں کی جا رہی تھی ، یعنی پارلیمنٹ کی رکنیت کا خاتمہ۔
اب راہل کی ختم ہوئی ممبری بھی بی جے پی کے سامنے ایک مسئلہ بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ اور ادھر مہاراشٹر میں تو بی جے پی اور ایکناتھ شندھے کی شیو سینا کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہوا ہے ، اور جس طرح سے ادھو ٹھاکرے اور آدتیہ ٹھاکرے کو ذلیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، اس سے عام مہاراشٹرین ناراض ہیں۔ ناراضگی ریاست میں ہوئے الگ الگ الیکشنوں میں ، ادھو ٹھاکرے کی جیت کی شکل میں سامنے آئی ہے ، ریاستی اسمبلی ، یوں لگ رہا ہے کہ ، آئندہ کے الیکشن میں ان کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔


مہاراشٹر بی جے پی کے لیے زیادہ ، اور شندھے کے اس سے کم ، چیلنج بن گیا ہے ، اس چیلنج کا سامنا آسان نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ فضا قائم کرنے کے لیے مہاراشٹر میں باقاعدہ ' ہندو جن آکروش ' کے نام سے جلوس نکالے جا رہے ہیں ، جن میں ' لو جہاد ' ' لینڈ جہاد ' اور ' تبدیلئ مذہب ' کے بہانے مسلم فرقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے باوجود کہ ہیٹ اسپیچ نہ دینے کی شرط پر جلوس نکالنے دیے جائیں ، مہاراشٹر کی انتظامیہ ، پولیس ، معاملے تو درج کر رہی ہے ، مگر کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔
ٹی راجہ ، چوہانکے ، کاجل ہندوستانی اور ایسے ہی بہت سے نفرت کے تاجر مہاراشٹر میں آتے ہیں اور آزادی کے ساتھ شر پھیلاتے ہیں ، اس کے نتیجہ میں ایک حافظ قرآن کو بری طرح پیٹا جاتا ہے پھر اس کی داڑھی کاٹ لی جاتی ہے۔ ایکناتھ شندھے اور دیویندر فڈنویس کی ، اپنے سیاسی مستقبل سے سہمی ہوئی سرکار ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے یا یہ کہہ لیں کہ شرپسندی اور شرپسندوں کی پست پناہی کر رہی ہے۔


ملک بھر میں مودی سرکار کی پالیسیوں ، معاشی ناکامیوں ، بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف ایک ابال ہے ، کسان ناراض ہیں ، نوجوان ناراض ہیں اور ملک کا متوسط طبقہ ناراض ہے۔ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی نیّا ڈول رہی ہے ، بی جےپی کے کئی لیڈروں پر بشمول وزیراعلیٰ بومئی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں ، عوام ناخوش ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جن سے باہر نکلنے کے لیے اور حکومت برقرار رکھنے کے لیے ، بی جے پی کے سامنے ایک ہی راستہ ہے ، فرقہ پرستی کو ہوا دینا۔ اسی لیے رام نومی کے جلوسوں میں شرانگیزی بڑھی ہے۔


مہاراشٹر میں اس بار پوری کوشش تھی کہ فساد ہو جائے۔ جلگاؤں میں تشدد ہوا ، اورنگ آباد میں تشدد ہوا ، وہ بھی دو دن اور وہاں کے حالات ہنوز کشیدہ ہیں۔ جو خبریں سامنے آئی ہیں اور جو ویڈیو سامنے آئے ہیں ، وہ ثبوت بن سکتے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ تشدد کیسے شروع ہوا اور کس نے شروع کیا ؟ مسجد کے سامنے آگ لگاؤ آگ لگاؤ کے اکساؤ نعرے سنے جا سکتے ہیں۔ اورنگ آباد کا مسئلہ اس لیے بھی پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کا نام بدل کر سنبھاجی نگر رکھ دیا گیا ہے ، جس کی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی جا رہی ہے۔


ادھر مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو سبق سکھانا ہے ، اس لیے وہاں مسلسل کوشش ہے کہ حالات بےقابو رہیں۔ کیا مطلب ہے رام نومی کے جلوس میں بلڈوزر لے کر چلنے کا ! گجرات میں مسجد پر مسلسل پتھراؤ کی ویڈیو وائرل ہے۔ الزام ہے کہ گجرات میں جلوسی گھروں میں گھسے اور توڑ پھوڑ کی نیز عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی ، ان کے کپڑے پھاڑے۔ ہریانہ میں مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا ، بہار اور جھارکھنڈ میں مسجدوں کی بے حرمتی کی اور تشدد پھیلایا۔


یہ جو مذہب کے نام پر تشدد پھیلایا جا رہا ہے ، اسے دیکھتے ہوئے ہی سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان ، جسٹس کے ایم جوسف اور جسٹس ناگ رتھنا کی بنچ نے کہا تھا کہ:
' مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ جس روز ختم ہوا ،اس روز یہ سب رک جائے گا ' ، یعنی سارا تشدد ختم ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ نے بہت واضح لفظوں میں کہا تھا کہ یہ حکومتیں ' نامرد ' ہیں کہ یہ تشدد نہیں روک پاتیں ، نفرت بھری تقریریں کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر پاتیں اور نہ ہی ہیٹ اسپیچ روک پاتی ہیں۔


گزشتہ مہینہ یعنی 30/ مارچ کو سپریم کورٹ نے کئی تلخ و ترش باتیں کی تھیں ، حکومتوں کو جھنجوڑا تھا ، لیکن لگتا ہے کہ کسی نے کوئی سبق نہیں لیا ، اور رام نومی تشدد کی چپیٹ میں آگیا۔ کیا اب وقت نہیں ہے کہ سپریم کورٹ اقدام بھی کرے ؟ کیا پولیس سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ ، آخر وہ خاموش تماشائی کیوں بنی رہی ؟ کیا انتظامیہ سے سوال نہیں کیا جانا چاہیے کہ حفاظتی انتظامات ناقص کیوں تھے ؟ یقیناً یہ سوال کرنے اب ضروری ہیں ، حالانکہ ان سوالوں کا ایک جواب تو سامنے ہی ہے ، حکومتیں ، پولیس اور انتظامیہ نے ، بالخصوص بی جے پی کی حکومتوں نے ، آنکھیں بند کر لی تھیں ،کیونکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ، تشدد روکنا نہیں چاہتی تھیں۔
اور رہی غیر بھاجپائی حکومتیں ، تو وہ سوتی رہیں ، ان کی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ پولیس کو واضح احکامات نہیں تھے کہ تشدد کی صورت میں کیا کرنا ہے ، حالانکہ ان غیر بھاجپائی حکومتوں کو خوب پتہ ہے کہ رام نومی پر تشدد ہوتا ہے۔ لیکن شاید وہ بھی بی جے پی کی حکومتوں کی طرح تشدد کو اپنے لیے بھلا سمجھتے ہوں ، بھلے مسلم اقلیت تباہ و برباد ہو جائے !


Supreme Court, Impotent Governments and Ram Navami Violence

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں