یہ میرا شہر دل آرا - مئوناتھ بھنجن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-31

یہ میرا شہر دل آرا - مئوناتھ بھنجن

maunath-bhanjan

مئو شہر دریائے ٹونس کے دکھنی کنارے پر بسا ہے۔ یہ شہر علمی، تاریخی، تجارتی اور یکجہتی تمام صفات کا حامل ہے۔ مئو شہر 1988ء سے پہلے اعظم گڑھ ضلع کا حصہ اور محمدآباد گوہنہ تحصیل سے وابستہ تھا۔ صوبائی سرکار نے 19/ نومبر 1998ء کو ایک الگ ضلع کے طور پر مئو کو قائم کیا۔


مئو کی تہذیب گنگا جمنی ہے جہاں ہندو اور مسلمان کے تہوار برابر سطح پر منائے جاتے ہیں۔ سناتن دھرم کی تقریبات اہم مندروں میں منعقد ہوتی ہیں۔ دسہرہ کے موقع پہ شہر اور نواحی علاقوں میں درجنوں جگہوں پر درگا پوجا کے پنڈال بنائے جاتے ہیں۔ مئی کے مہینے میں اندھیری رات کی مناسبت سے منگل کے روز غازی میاں کا میلہ لگتا ہے جسے عوامی زبان میں صحبت کہا جاتا ہے۔
عاشورہ کے موقع پر تعزیہ چوک پر تعزیے رکھے جاتے ہیں۔ بنکروں میں جن کی اکثریت دیوبندی اور اہل حدیث مسلک پر مشتمل ہے عیدین کا خوب اہتمام ہوتا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی کی خوشیاں منانے سے بھی زیادہ اہتمام رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور قربانی کے جانوروں کے پالنے کا ہوتا ہے۔ جو لوگ قربانی کی غرض سے درمیان سال میں بکرا نہیں خریدتے وہ بھی بقرعید سے ہفتہ عشرہ پہلے جانور کی خریداری کر لیتے ہیں۔ قربانی کا گوشت عزیز و اقارب اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اللہ کا کرم ہے کہ مئو کے بنکروں میں روزہ کا اہتمام بہت ہے بہت کم تعداد چوری چھپے روزہ ترک کرتی ہے۔ رمضان المبارک میں دن کے اوقات میں بازار میں کھانے کی دکانیں بند رہتی ہیں۔ رمضان آتے ہی گھروں میں عبادت، تلاوت اور نماز کی پابندی کا پاکیزہ اور نورانی ماحول چھا جاتا ہے۔ گھروں میں ٹی۔وی بند ہو جاتے ہیں۔ سحری کے وقت ابھی بھی ڈفلی کے ذریعے جگانے کا رواج ہے۔ لیکن دوسرے شہروں کی طرح سحری کے وقت ٹولیاں بناکر نعت خوانی کا رواج بالکل نہیں ہے۔
بنکروں کی کثیر تعداد جو رات کے وقت پاور لوم پر کام کرتی ہے سحری کے وقت لوم بند کر کے سحری کھا لیتی ہے۔ رمضان میں افطارکے بعد سے لے کر نصف شب تک عید کی خریداری کے لیے مرد و زن کا ہجوم قابل دید ہوتا ہے۔ علماء و خطباء کے متواتر متنبہ کرنے کے باوجود ایسے ہجوموں میں خواتین کی حصہ داری میں برابر اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جو ایک قابل تشویش پہلو ہے۔ رمضان کی مناسبت سے جزوقتی شیرینی کی دکانیں دیر رات تک لوگوں کا منہ میٹھا کراتی رہتی ہیں۔ صدر چوک سے روضہ تک کا منظر جامع مسجد دہلی کی یاد دلاتا ہے۔
عیدین کے موقع پر مئو میں تقریباً ایک ہفتہ تک تہوار کی گہماگہمی رہتی ہے۔ عید کے چھٹے دن سے پہلے کسی کے گھر سے پاورلوم کی آواز نہیں آ سکتی۔ عید کے دن سے تیسرے دن تک مئو کا مشہور میلہ کھیری باغ کا میلہ لگتا ہے۔ تینوں دن تک کھیری باغ اور آس پاس کی گلیوں میں خوب رونق ہوتی ہے۔ عیدین کے موقع پر بچے آپس میں چندہ کرکے اپنی گلی محلے میں جھنڈی لگا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔


مئو کی مشہور ڈش انگشتی ہے۔ مئو جاڑے اور انگشتی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یوں تو مئو میں انگشتی ہر موسم میں بن جاتی ہے لیکن جاڑوں کی یخ بستہ راتوں میں انگشتی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ موسم سرما کی چھٹیوں میں جب سارا خاندان اکٹھا ہوتا ہے تو ٹھنڈی راتوں میں گھر کی چھتوں پر بیٹھ کر انگشتی بنانے کا مزہ صرف اہل مئو جانتے ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ سرد رات میں کوئلے سے نکلتی سرخ آگ کے پاس بیٹھنا، سب کا مل جل کر انگیٹھی توڑنا یہ سب بہت دلفریب منظر ہوتا ہے۔ اس ڈش میں بہت اپنائیت ہے جو خاندان کے لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔


شہر میں کھیل کے کئی میدان ہیں۔ آزاد گراؤنڈ ڈومن پورہ، فری انڈیا گراؤنڈ جہانگیر آباد، مئو اسپورٹنگ گراؤنڈ حیدرنگر وغیرہ۔ بچے فٹ بال اور کرکٹ دلچسپی سے کھیلتے ہیں۔ شہر کی ثقافتی زندگی میں رنگ بھرنے اور خاص طور پر بچوں کو ان کے بچپن کے یادگار تحفے کے طور پر ہر محلے میں مداری والے بائسکوپ والے آتے تھے۔ مگر ٹی۔وی اور موبائل نے ان سے ان کا روزگار چھین لیا ہے۔


ملک کی تقسیم کے اثرات سے مئو اور اطراف کے علاقے محفوظ رہے۔ دستکاروں اور بنکروں کے اہم قصبات اور مواضعات میں مسلم لیگ بے اثر رہی تھی اس لیے بھی تقسیم کے نتیجہ میں نقل مکانی سے یہاں کے باشندے محفوظ رہے۔ ملک کی آزادی کے اثرات بہرحال زیادہ نمایاں رہے۔ عصری تعلیم کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ہی جمہوریت کے قیام کی بدولت شخصی آزادی کو فروغ ملا۔
بڑی اور بااختیار برادریاں جہاں آزادی سے قبل دستکاروں اور بے اختیاروں پر اپنی دھونس جمائے رہتی تھیں ان کا فکری اور سماجی غلبہ کمزور ہوا۔ دستکار بنکر اپنے علاقوں میں زیادہ آزادی کے ساتھ اپنے کام دھندے میں لگے رہے اور ترقی کرتے رہے۔ بہت سی بنکر بستیوں کی بہ نسبت یہاں کا بنکر زیادہ فن کار، ہنر مند اور ایجاد پسندرہا ہے۔ جس کامیابی اور اعتماد کے ساتھ یہاں کی ساڑی سازی میں جکاٹ کی تکنیک کو اپنے قابو میں کیا گیا دوسری جگہوں کے بنکر اس کے مقابلے میں پیچھے ہ گئے۔


اسی طرح دوسرے شہروں کی بہ نسبت یہاں لوم پر مردوں کی طرح عورتیں بھی کام کرتی ہیں۔ پوری رات جگاڑ لوم کی آواز سے آبادی گونجتی رہتی ہے ، اکثر گلی اور گھر آنگن روشن رہتے ہیں۔ پارچہ بافی صنعت کی کشش، کام دھندے کے بہتر امکان اور شہری سہولیات کے باعث دور نزدیک کے گاؤں دیہات سے بہت سے مسلم کنبے نقل مکانی کرکے دھیرے دھیرے مئوناتھ بھنجن میں آباد ہوتے گئے۔
پارچہ بافی سے وابستگی کی وجہ سے مقامی رشتوں کو ترجیح دی جاتی ہے کہ جو بھی لڑکی آئے گی یا جائے گی وہ اپنے ہی ماحول اور کام دھندے میں ہوگی۔ عموماً رشتوں کا تعین باہمی تعلقات اور شناسائی کے ذریعے ہوتا ہے۔


ہر گاؤں، قصبہ اور شہر کی طرح مئو کا رسم و رواج بھی دوسری جگہوں سے کئی معنوں میں بہت کچھ مماثلت کے باوجود بڑی حد تک مختلف بھی ہے۔ دوسرے مقامات کی بہ نسبت یہاں شادی کی تقریب سادگی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے۔ بہت سی رسومات جو دوسرے شہروں میں ضروری سمجھی جاتی ہیں مئو بہت حد تک ان سے محفوظ ہے اگرچہ اب یہاں بھی بعض متمول حضرات شادیوں کو مہنگی بناتے جا رہے ہیں جو خوش آئند نہیں۔ بارات کا رواج ماضی میں بھی کم تھا اور آج بھی کم ہے۔
مئو میں شادی کی تقریب بارات کے ذریعے انجام پائے یا بغیر بارات کے، لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں ہوتا۔ حالاں کہ لڑکی والے اپنی بساط کے مطابق بیٹی کو مکمل جہیز دیتے ہیں۔ جیسے جیسے تعلیم کا فروغ ہورہا ہے شادی کی عمر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اب عموماً تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی بچوں کی شادی بیاہ کی بات کی جاتی ہے۔ ولیمہ اور شادی کی تقریب مئو کے معاشرے میں اجتماعی تعاون کی عمدہ مثال ہوتی ہے۔ شادی کا اہتمام بڑے پیمانے پر ہو یا مختصر پیمانے پر، پڑوس ، محلہ اور عزیز رشتہ دار تقریب کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ عموماً ولیمہ دوپہر میں ہوتا ہے مگر اک روز پہلے شام سے ہی تقریب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جسے رت جگا کہتے ہیں۔ رت جگا کی شروعات رات کے کھانے سے ہوتی ہے جو دال چاول پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگلی صبح کا ناشتہ گوشت اور روٹی کا ہوتا ہے۔ دوپہر میں ولیمہ اور اجتماعی دعوت ہوتی ہے جو نان گوشت اور چاول پر مشتمل ہوتی ہے۔


یہ مئو کی خاص اور عمدہ بات ہے کہ یہاں دوسرے شہروں کی بہ نسبت تقریب چاہے دولت مند طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہو یا یا سفید پوش کی یہاں کے لوگ تقاریب میں ون ڈش پر اکتفا کرتے ہیں۔ مئو میں شادی گھر اور ہوٹل کی بہ نسبت اکثر شادیاں گھروں میں ہی ہوتی ہیں۔ اگر اپنا گھر کشادہ ہے تو ولیمہ کا انتظام وہیں پر کیا جاتا ہے ورنہ کسی پڑوسی کے مکان میں تقریب انجام پا جاتی ہے۔
بیٹا یا بیٹی جب دستار فضیلت سے سرفراز ہوتے ہیں تو اس موقع پر بھی بہت سے لوگ تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ زیادہ اہتمام لڑکیوں کو ردائے فضیلت عطا ہونے کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ رواج ان والدین کے لیے بوجھ بن جاتا ہے جن کی آمدنی محدود اور مالی حالت اچھی نہیں ہوتی۔ لیکن اپنی فاضلہ بیٹی کو خفت اورہمجولیوں میں شرمندگی سے بچانے کے لیے مجبوراً انہیں بھی اس نئی رسم کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔


مئوناتھ بھنجن میں مسلم خواتین میں بے پردگی کا کوئی تصور نہیں۔ لاکھوں کی شہری آبادی میں گنتی کی چند عورتیں ہوں گی جو بے نقاب ہوں گی۔ بنکر مسلمان خواتین میں نقاب کا استعمال تقریباً 98 فیصد ہے۔ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں مردانہ اور زنانہ الگ انتظام ہوتا ہے۔
مئو کا عام پہناوا کرتا لنگی،اور ٹوپی ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اب پینٹ شرٹ کا استعمال کرتی ہے۔ کرتا پاجامہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ خواتین میں ساڑی کا استعمال ماضی کی بہ نسبت کم ہو رہا ہے زیر تعلیم بچیاں اور گھریلو خواتین شلوار جمپر زیادہ استعمال کرتی ہیں۔


مئو اپنی صنعت و حرفت اور دستکاری و فن کاری کے ساتھ ساتھ علم و ہنر اور زبان و ادب میں بھی ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف جہاں اس خطے کے بنکروں نے صنعت و کپڑا سازی میں گل بوٹے سجائے ہیں تو دوسری طرف انہی ہاتھوں نے جب قلم پکڑے تو لوح و قرطاس پر ادب عالی کی شان دار مثالیں بھی فراہم کی ہیں۔


تعلیمی لحاظ سے مئو کا درجہ بہت بہتر ہے۔ یہاں کی شرح تعلیم 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 75.16 ہے جو قومی شرح تعلیم سے زیادہ ہے۔ اس کو یہاں تک پہنچانے میں مدرسوں کا نمایاں ہاتھ ہے۔ مدارس کے ذریعے اس شہر کو ایک مدت سے تشنگان علوم دینیہ کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔ مئو کے اہم مدارس میں مجموعی طور پر ہزاروں طلبہ و طالبات دوسرے شہروں اور صوبوں سے آکر علم دین حاصل کرتے ہیں۔ان میں ایسے طلبہ بھی ہوتے ہیں جن کی مادری زبان بنگالی، آسامی وغیرہ ہوتی ہے مگر یہاں زیرتعلیم رہ کر وہ اردو ذریعہ تعلیم سے علم دین حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اردو کی ترویج و ترقی میں یہاں کے مدارس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عصری تعلیم کی صورتحال بھی تسلی بخش ہے۔


یہ مئو کی سرزمیں یہ علم و عرفاں کا دیار
چپہ چپہ گوشہ گوشہ ذرہ ذرہ مشکبار
یہ مدارس جابجا یہ کلیات و جامعات
فضل حق لطف الٰہی رحمت پروردگار
حشر تک قائم رہیں یہ درس گاہیں اے ظفر
جس سے حاصل ہے مئو کو عز و شان و افتخار

شہر مئوناتھ بھنجن کا اردو زبان و ادب سے رشتہ بڑا مضبوط و مستحکم ہے۔ اس خطے نے اردو زبان کو بہت سارے صاحب قلم، ادبا و شعرا عطا کیے ہیں جن کی بے لوث مساعی اور مخلصانہ مجہودات کے سبب اس شہر میں اردو زبان و ادب کا پرچم بلند ہے اور اس کی شعاع پاش کرنیں دنیائے اردو کو منور کیے ہوئے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جلسے جلوس، کانفرنسیں اور مشاعروں کا اہتمام بھی ہوتا رہا۔
سجاد ظہیر اور دیگر ادیبوں و شاعروں کی آمد نے اس شہر کی ادبی فضا کو رونق اور جلا بخشی ہے ۔اردو زبان کی بقا اور تحفظ کے لیے متعدد انجمنیں بزم ادب، شان ادب، بزم تعمیر اردو قائم کی گئیں۔ شاعروں اور نثر نگاروں کی بہ نسبت اہل علم کی تصانیف اور علمی و مذہبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے اگرچہ ان کی تصانیف کا تعلق اور موضوع علم دین اوراس سے متعلق دوسرے اہم موضوعات ہیں مگر اردو میں ان کی کتابوں کی اشاعت سے اس دیار کی اردو کی نشو نما میں حصہ داری اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اہالیان مئو اخبارات و رسائل سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ شہر کی اکثر دوکانوں، لائبریریوں اور گھروں میں آپ کو اردو کے مختلف اخبارات و رسائل بآسانی مل جائیں گے۔ اردو اخبارات کی جس طرح یہاں کھپت ہوتی ہے وہ بھی خوش آئند ہے۔


ضلع کے بیشتر علاقوں میں مئو کی مقامی بولی کا چلن ہے۔ بولیاں صدیوں میں چلن میں آتی ہیں، جہاں یہ بولی جاتی ہیں وہاں کے لوگوں کے مافی الضمیر کی ادائیگی کا اہم وسیلہ ہوتی ہیں۔ مئو کی مقامی بول چال کی زبان کا اپنا انداز اور لہجہ ہے۔ دوسری جگہوں کے لوگوں کو یہ لہجہ شاید انوکھا لگے مگر ہر اہل زبان کو اپنی زبان پیاری لگتی ہے۔ اور مئو کی ایک باشندہ ہونے کے ناطے مجھے بھی اپنے زبان سے پیار ہے۔ بیشتر گھروں میں یہی بول چال رائج ہے۔ تعلیم کے فروغ کی بدولت اب گھروں میں مقامی بول چال کے ساتھ اردو بول چال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر مقامی بولی کا چلن اس قدر وسیع پیمانے پر ہے کہ مدارس اور اسکولوں میں تھوڑی سی نرمی ہوجائے تو مقامی بچے اور بچیاں اپنی گھریلو زبان بولنے سے نہیں چوکتے۔


الغرض مئو شہر صنعت پارچہ بافی کے لیے صدیوں سے مشہور یہ شہر تعلیم کے فروغ، تجارت کی ترقی،تہذیب کی حفاظت میں بھی اپنی نئی شناخت قائم کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مئو کو یوں ہی شاد و آباد رکھے۔

حوالہ جات :
مئو: شہرہنروراں ، مصنف:ڈاکٹر شکیل احمد
اردو زبان اور مئوناتھ بھنجن، طارق اسعد (روزنامہ وارث اودھ)
قابل دید میرے شہر کے نظارے ہیں: عبدالرحمن محمد یحیی
***
سحر اسعد (بنارس)
saharasad739[@]gmail.com
Maunath Bhanjan, the city of Uttar Pradesh. - Essay: Sahar Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں