یہ اردو زبان ہماری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-08

یہ اردو زبان ہماری

آزادی کے بعد ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں سب سے زیادہ اردو تعصب کا شکار ہوئی اور اردو کو ایک آنکھ سے دیکھا جانے لگا۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں سگی اولاد کی تو بڑی محبت وشفقت سے پرورش کی جاتی ہےلیکن سوتیلی اولاد کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کچھ ایسا ہی رویہ اردو کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ اس طرح اردو نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔
ایک طرف وہ قوم جس نے دنیا کو چکبست، گلزار اور پریم چند جیسے نایاب گوہر دئیے، اس نے اردو سے ایک الگ ہی بیر رکھ لی تو دوسری طرف اردو والوں نے بھی اس زبان کا حق ادا نہیں کیا۔ اس طرح ہماری مادری زبان پڑھے لکھے طبقے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی۔ ہم اردو کو بھول کر دوسری زبانوں کے سہارے جینے لگے، کسی غیر ملکی زبان کی چاہت اور کشش نے ہمیں اپنی زبان سے بیگانہ کر دیا اور ہم ہماری تہذیب سے دور ہوتے چلے گئے۔


ہماری نئی نسل تو اپنی زبان سے اس قدر لاتعلق ہو گئی کہ شاید ہی کوئی قوم اپنی زبان سے ہوئی ہو۔ ہم نے شادی اور سادی کے فرق کو مٹا دیا، عزت کو عججت کہہ کر عزت کی مٹی پلید کر دی۔ سین شین ، زے، ذال ،اور جیم سب کو ایک کر دیا۔ آج ہم اردو املا اور تلفظ تو دور، اردو لکھنا پڑھنا تو درکنار، الف سے جیم تک کے ہجے کا سفر طے کرنے سے قاصر ہیں۔
جہاں دوسری قومیں اپنی اپنی زبانوں کے فروغ کے لیے ہمیشہ سے گامزن رہیں، وہیں ہم نے اردو کو کتابوں میں بند کر کے رکھ دیا اور اس طرح ہم اپنی ہی تہذیب کا قلعہ اپنے ہی ہاتھوں سے مسمار کرنے پر اتر آئے اور ہماری پہچان ہمارے ہاتھوں ہی پامال ہونے لگی۔
اردو کی مثال اس پرانے گھر جیسی ہوکر رہ گئی جس میں رہنے والوں نےعرصہ پہلے اس میں تالا ڈال دیا ہو؛ یہاں تک اس گھر کے ساز و سامان، میز، کرسی اور فانوس دھول سے دب کر گرد و غبار سے اَٹ ہو گئے ہوں اور گھر پر پڑے تالے نے اپنا رنگ بھی بدل لیا ہو؛


جب کہ اردو تو اس عطر کی مانند ہے جو باغیچے میں موجود مختلف رنگ و بو کے پھول کے عرق کو نچوڑ کربنائی گئی ہوجس کی خوشبو فضا کو معطر کر کے اس میں سانس لینے والوں کو مدہوش کر دیتی ہو۔ اردو تو سمندر کے بیش قیمت موتیوں کی خوبصورت لڑی کی طرح ہے جو نیلم ،عقیق، روبی، ہیرا ،زمرد اور پکھراج جیسے انمول پتھروں کی روشنی کو ایک جگہ سمیٹ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ قوسِ قزح کے سات رنگوں کا مجموعہ اردو ہے۔ اردو، جھرنے سے گرنے والے شفاف پانی کی طرح ہے، اردو کی مثال سرخ گلاب کے گجروں کی سی ہے ،اردو مالا میں پروئے بیلے کی طرح ہے، ،اردو سرخاب کا پر ہے جسے قدرت نےبڑی نزاکت سے سنوارا ہے۔ اردو، وہ آئینہ ہے جسے دیکھ کر حسن سجتا سنورتا ہے۔ اردو ، وہ سہرا ہے جو دلہے کے سر پر بڑے ارمانوں سے سجتا ہے۔ اردو، وہ شے ہے جس پر ماں نے اپنے پاک ہاتھوں سے محبت کے رنگ چڑھائے ہیں، بے چین دل کو راحت بخشنے والی شربت اردو ہے۔ اردو، چودھویں کے چاند کی وہ وہ روشنی ہے جس کے اجالے میں اہل ادب لفظوں کے موتی پروتے ہیں۔
اردو ستاروں کے جھرمٹ سے نکلنے والا دلکش نظارہ ہے،اردو وہ شمع ہے جس کے ہم پروانے ہیں، اردو شام کی شفق ہے،اردو مثل زعفران ہے، ،اردو باد صبا ہے ،اردو عشق کی وہ کیفیت ہے جس کا اسیر ہر محبت کرنے والا دل ہے۔ اردو وہ سحر ہے جس میںایک بار آجانے والا نہ نکل سکتا ہے نہ نکلنا چاہتا ہے۔


اردو امیر خسرو کی وہ درسگاہ ہے جس میں آنے کے لیے غالب نے بھی جوتے اتارے تھے، اردو وہ مکتب ہے جس میں آکر کوئی میر بن گیا تو کوئی داغ کہلایا۔ اردو ، کبھی بہادر شاہ ظفر کے شاہی دربار کی زینت رہی تو کبھی ان کے اکیلے پن کی ساتھی رہی۔ اقبالؔ کا اقبال بلند ہوا تو اردو سے، ذوقؔ کا مذاق سنورا تو اردو سے۔ خمارؔ کا خمار اترا تو اردو سے۔ فیضؔ کا فیض پہنچا تو اردو سے۔ پروین شاکر کے لفظوں کی مہک پھیلی تو اردو سے۔ ادا جعفری کے کلام کی خوشبو بکھری تو اردو سے، جونؔ کا دیوانہ پن لوگوں کر سر چڑھ کے بولا تو اردو سے۔ دلی کے درو دیوار اردو اردو بولتے ہیں تو لکھنو کی شام کی رنگینی کا باعث اردو ہے۔ حیدرآباد کی شرافت اردو کی مرہون منت ہے تو لاہور کی پہچان اور کراچی کی ضیافت کا دم خم اردو سے ہے۔ اردو بولنے والا پرانے کرتے اور پھٹے جوتوں میں بھی اہل محفل کی جان ہے۔ اردو وہ شجر ہے جس کا ثمر ادب، جس کی شاخیں شرافت، جس کی بنیاد محبت ہے اور جس پر باادب پرندوں کا بسیرا ہے۔ اردو بولی جائے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں ، اردو سنی جائے تو کانوں میں رس گھلتا ہے، اردو پڑھی جائے تو قلب مطمئن ہوتا ہے۔


اردو وہ بستی ہے جس میں رہنے والوں کی آنکھوں میں چمک ہے، چہرے پر پاکیزگی اور کردار میں وقار ہے، ماحول میں خوشبو ہے۔ رشتوں میں احترام اور دلوں میں الفت ہے، اردو کے سر پر اہل جنت کی زبان کا سایہ ہے، اردو کی ہمشیرہ فارسی، ہندی اور سنسکرت ہے۔
اردو امن اور بھائی چارے کی زبان ہے، اردو خوشگوار فضا ہے، جیسی چاند سے چکور کو چاہت ہے ویسی ہی ہندوستانی تہذیب کے دلدادگان کو اردو سے محبت ہے، اردو کسی ضعیف العمر خاتون کے سرمے کی طرح ہے جو اس کی کمزور آنکھوں کو طاقت دیتا ہے، ہماری تہذیب کی بقا اردو ہے، اردو زبان ہی نہیں؛ بلکہ ہماری پہچان ہے، اردو دل کی زبان ہے، اردو سے ضیا ہے، اردو ہمارا معیار ہے، اردو ایک کشش ہےجس کی طرف سب کھنچے چلے آتے ہیں۔


اردو سے نفرت کرنے والوں کی مثال اس کاوں کاوں کی سی ہے جو اپنی آواز کو بلبل کی چہچہاہٹ سے، اپنے رزق کو ہنس کے رزق سے، اپنی چال کو مور کی چال سے اور اپنی نظرکو عقاب کی نظر سے بہتر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے اور آج جب اردو خستہ حالی کے دور سے گزر رہی ہے تو ہر محب اردو پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان کی بقا اور تحفظ کے لئے اقدام کریں۔ اردو کے فروغ کے لیے آگے آئیں۔ مادری زبان کی قدر و قیمت نوجوان نسل کو بتائیں؛ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم پیوندِ خاک اور ہماری زبان تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جائے گی اور ان اوراق کو پلٹنے والا بھی کوئی موجود نہ ہوگا۔

***
صدف جمال (محمودآباد، بارہ بنکی)
ای-میل: sadafjamal104[@]gmail.com

Our Urdu language. Essay by: Sadaf Jamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں