کچھ 'محمود ایاز اور سوغات' کے بارے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-06

کچھ 'محمود ایاز اور سوغات' کے بارے میں

mahmood-ayaz-and-saughaat

بعض رسائل کا نام سنتے ہی ان رسائل کے مدیران کے نام یکلخت ذہن میں آتے ہیں اور یہ مدیران ان رسائل کی پہچان بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر محمد طفیل اور نقوش، مولانا صلاح الدین اور ادبی دنیا، شاہد احمد دہلوی اور ساقی، مرزا ادیب اور ادب لطیف، احمد ندیم قاسمی اور فنون، گوپال متل اور تحریک، اعجاز صدیقی اور شاعر، سلیمان اریب اور صبا، شمس الرحمٰن فاروقی اور شبِ خون یا اعظم راہی اور پیکر۔ اسی طرح "سوغات" کا نام سنتے ہی محمود ایاز کا نام اس سے ملحق ہو جاتا ہے۔ تجارتی نقطۂ نظر کے بجائے خالص ادبی نقطۂ نظر کو اپنانا اور مصلحت وقت کو روا نہ رکھتے ہوئے ادبی درباروں کی خوشنودی کو ٹھکرانا ،یہ وہ کارنامہ ہے جس کی مثال محمود ایاز کے بارے میں بلا جھجک دی جا سکتی ہے۔
29 مارچ 1997ء کو بنگلور میں محمود ایاز کا انتقال ہو گیا اور اس طرح اردو دنیا ایک منفرد ادیب و شاعر، ایک رجحان ساز مدیر اور ایک بے ریا صحافی سے محروم ہو گئی۔ محمود ایاز یوں تو کئی حیثییتوں سے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن ان کی اہم شناخت سہ ماہی "سوغات" کے مدیر کی حیثیت سے نمایاں ہوئی جس کے وہ مدیر بھی تھے، مالک بھی تھے اور ناشر بھی ۔ تین دہائیوں تک "سوغات" نے کئی دور دیکھے۔ 1962ء میں سوغات کا نظم نمبر شائع ہوا جسے آج بھی جدید نظم نگاروں کے نمائندہ انتخاب کی حیثیت سے نقطۂ آغاز بھی مانا جاتا ہے اور نقطۂ عروج بھی۔


ہر چند کہ محمود ایاز ادب کے انتہا پسند دور میں متوازن اور معتدل رویہ کے مقابل ایک نئے رجحان کی صورت گری میں مصروف رہے تاہم ان کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے" سوغات" کے ذریعہ عملاً سنہ 60ء اور سنہ 70ء کی دہائی میں جمود کے وجود کا مضحکہ اڑایا۔ ترقی پسند تحریک سے ہٹ کر ان کا میلان لاہور کے"حلقہ اربابِ ذوق" کی طرف زیادہ رہا۔ چنانچہ میرا جی جس طرح"اس نظم میں" کے عنوان سے نظموں کا تجزیاتی مطالعہ حلقہ کی نشستوں میں پیش کرتے تھے ، اس سلسلہ کو محمود ایاز نے اس طرح جاری رکھا کہ مختلف نظموں پر شعرأ کے نام مخفی رکھ کر تبصرے لکھوائے اور"سوغات" میں شائع کئے اور اس طرح ایک غیر جذباتی تنقیدی رویہ اپنایا۔ غزل کے مقابل نظم کو فروغ دینے کا سہرا اگرچیکہ ترقی پسند تحریک کی دین ہے لیکن محمود ایاز نے بحیثیت مدیر اس صنف کو اعتبار بخشا۔


محمود ایاز نے بڑے اہم اور بے باک ادارئیے لکھے جن میں انہوں نے نہ صرف تخلیقات کا معروضی جائیزہ لیا بلکہ تخلیق کاروں کو اہم مشورے بھی دئیے۔ ان کی باریک بین نظریں اد ب کے ان گوشوں کا بھی احاطہ کرلیتی تھیں جن پر امتدادِ زمانہ کے باعث تاریک پردے پڑے تھے۔ کئی ادیب و شاعر "سوغات" کے ذریعہ متعارف ہوئے، اپنی ایک پہچان بنائی جب کہ بعض رسائل ان کی تخلیقات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ محمود ایاز کا جب بھی کسی تنقید نگار سے اختلاف ہوا وہ بلا کم و کاست اپنے اختلافی روئیے کو واضح کردیتے۔ کسی لاگ لپیٹ کو روا نہیں رکھا۔ یہی صفت ان کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی۔ انہوں نے اپنے اداریوں میں اس میکانکی کتابی اور مدرسانہ تنقید کی ہمیشہ مذمت کی جس کے علمبردارادب میں ٹھیراؤ اور جمود کا واویلا مچایا کرتے ۔ مقبول عام ادب(POPULAR LITERATURE)کے علی الرغم "خالص ادب" کی ترویح و اشاعت محمود ایاز کے مدنظر رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ خالص ادب کے دلدادہ دن بدن تعداد میں کم ہوتے جارہے ہیں۔ مقبول عام ادب اور خالص ادب ،دو ایسے متوازی خطوط ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ پہلی قسم کا ادب اجتماعی لاشعور کی سطح پر پسند کیا جاتا ہے اور دوسری قسم کا ادب انفرادی ذوق کی سطح پر،محمود ایاز نے کبھی اس معاملے میں سمجھوتہ نہیں کیا۔


سوغات، جتنے بھی ادوار سے گذرا ہے، ہر ایک اہم ادبی ضرورت کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ کسی اہم شاعر یا ادیب کے بارے میں خصوصی مطالعہ کے عنوان سے گوشے مختص کرنا "سوغات"کی نمایاں خصوصیات رہی تاکہ اجمالی طور پر اس شاعر یا ادیب کے فن کا کماحقہ محاکمہ ہو سکے اور قارئین اس کے فن کے لطیف گوشوں سے محظوظ ہو سکیں۔ پچھلے ادوار میں راجندر سنگھ بیدی کے فن اور دور آخر میں اختر الایمان کی خودنوشت کی اشاعت اس کی چند مثالیں ہیں۔
کوئی ضروری نہیں کہ ایک اچھا مدیر، ایک اچھا تخلیق کار بھی ہو لیکن ایک اچھے مدیر کے اندر ایک فنکار اور ادب کا پاریکھ پوشیدہ ضرور رہتا ہے۔ چاہے اس کے اندر کا فنکار ابھر کر سامنے نہ آئے لیکن ادب کو پرکھنے کی تمیز اس کے محاسن اور معائب کا تجزیہ کرنے کی سوجھ بوجھ اس کے اندر موجود رہتی ہے۔ محمود ایاز ایسے ہی مدیروں میں سے تھے۔ ویسے بحیثیت شاعر بھی ان کا مقام متعین ہے۔


"سوغات "کے شمارے اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں اور اس میں شامل بیشتر تحریریں کڑے سے کڑے ادبی انتخاب میں جگہ پانے کی اہل اور زند رہنے والی ہیں۔ محمود ایاز اپنی ناقدانہ بصیرت، مدیرانہ بردباری اور خاموشی کے ساتھ"نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا"کے مصداق بے لوث ادبی خدمات کرتے رہنے کی بنأ پر اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔


سہ ماہی"سوغات"اسم بامسمٰی ہونے کے لحاظ سے خزینہ ادب میں ایک گراں قدر"سوغات" بن کر آنے والی نسلوں کو فیض پہنچاتا رہے گا۔ محمود ایاز نے ہندوستان اور پاکستان کے قلم کاروں کو ایک ساتھ اور یکساں اہمیت کے ساتھ "سوغات" میں جگہ دے کر اس بات کا بھی ثبوت دیا کہ ادب کا رشتہ ملکوں کی سرحد سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس بنأ پرمحمود ایاز کو "ہندوستان کا ادبی سفیر"کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

***
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش

Mahmood Ayaz and his magazine Saughaat. Essay: Raoof Khalish

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں