اثبات شمارہ:37 - اردو والے کیوں متن میں نہیں اترتے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-09

اثبات شمارہ:37 - اردو والے کیوں متن میں نہیں اترتے

مجھے یہ اعتراف کرنے دیں ، کہ اردو میں تنقید ، عموماً شخصیت پرستی کے اثرات سے نکلے الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے اور دوستی اور چاپلوسی کے گرد گھومتی ہے۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو دوستی نبھانے کا حق اسی طرح ہے جیسے کہ ' آزادئ تحریر و آزادئ اظہار رائے ' کا حق ، لیکن اس کا ایک بڑا نقص ، تنقید کرتے ہوئے ، متن کے اندر نہ اُترنا اور معنی کو سطح پر تلاش کرنا ہے۔ اور یہ کوئی معمولی نقص نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اشعر نجمی کے باوقار ادبی پرچے ' اثبات -37 ' کے گوشہ ' ہندوستانی ادب کا اردو سفیر خالد جاوید ' کے تمام مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کہی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ میرے دماغ میں مذکورہ بات گوشہ کے تمام مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد آئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو قدرے تفصیل سے پیش کروں ، یہ وضاحت ضروری ہے ، کہ میری یہ بات اردو کے کُل نقادوں کے بارے میں نہیں ہے ، استثنات ہیں۔
خالد جاوید پر جو گوشے نکالے گیے ہیں یا اُن پر جو مضامین اردو میں شائع ہوئے ہیں ، ان میں سے اکثر میں ، دو باتیں پائی جاتی ہیں ، ایک تو یہ کہ بہت سے مضامین ' اکیڈمک ' نوعیت کے ہیں ، شاید اس لیے کہ ان مضامین کے لکھنے والوں میں زیادہ تر یا تو کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں ، پڑھاتے ہیں ، اس لیے ذہن کا سانچا تدریسی انداز میں ڈھل گیا ہے ، اس سے باہر آنا ممکن نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اکیڈمک مضامین کی ضرورت نہیں ہے ، بالکل ہے ، لیکن یہ مضامین عام طور پر نظریات سے بحث کرتے ہیں ، اور متن کو اپنے نظریے کے مطابق پیش کرنے کے لیے ، اس میں سے وہ معنیٰ بھی نکال لیتے ہیں ، جو اس میں نہیں ہوتے۔ اور اُن کے مضامین ، جو اگر کہیں پڑھاتے نہیں ہیں تو بھی لکھتے ہوئے کسی ' اکیڈیمیشین ' کی اتباع کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں ، اور فطری طور پر جیسا لکھ سکتے تھے ، ویسا لکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ، کہ متن کو ظاہری سطح پر دیکھ کر اس کی تشریح یا تجزیہ کر دیتے ہیں ، متن کے اندر نہ جھانکتے ہیں اور نہ ہی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو متن میں جھانکنے پر آمادہ کریں۔ ایک قسم اور ہے ' جانبدارانہ '، یہ دونوں سمتوں میں ہوتی ہے۔ جب میں نے اس گوشہ میں ہندی اور انگریزی کے ادیبوں اور نقادوں ، یا آسان زبان میں کہہ لیں ، لکھنے والوں کے مضامین پڑھے ، تو مجھ پر خالد جاوید کے فکشن کی وہ پرتیں کھلیں ، جو اردو والوں کے مضامین پڑھتے ہوئے نہیں کھل سکی تھیں۔ لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے اس شمارہ کے ' اداریہ ' پر ، جس کا عنوان ہے ' انعام کا آلام : نادیدہ قاری کے نام چھٹا خط ' بات کر لی جائے۔


اشعر نجمی کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ انھوں نے خالد جاوید پر اپنے حق کو محفوظ کر لیا ہے ، اور ہر معاملے میں وہ ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ تاثر مجھے لگتا ہے کہ درست نہیں ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ خالد جاوید کو پسند کرتے ہیں بلکہ پسندیدگی میں شدت رکھتے ہیں ، لیکن یہ پسند ان کی فکشن نگاری کے حوالے سے ہے۔ میں اپنی مثال دوں ، مجھے ابن صفی بہت پسند ہیں ، ان کی تحریروں کو اگر ، کوئی میرے سامنے ناپسند کرتا ہے ، تو میں ان کی تحریر کے دفاع میں اتر آتا ہوں۔ پسند اور ناپسند کی اپنی وجوہ ہوتی ہیں ، اشعر نجمی کا ماننا ہے کہ خالد جاوید عصر حاضر کے سب سے بڑے فکشن نگار ہیں ، اور کیوں ہیں وہ اس کی وجہ بھی بتاتے ہیں ، ممکن ہے ان کی بات ہر کسی کو درست نہ لگتی ہو ، یہ ان کا حق ہے ، لیکن اس کی کاٹ کا سب سے بہتر طریقہ اشعر نجمی کی دلیلوں کو تحریری شکل میں رد کرنا ہے ، نہ کہ یہ کہنا کہ اشعر نے خالد جاوید کے دفاع کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ' اداریہ ' میں اشعر نجمی نے ، ان اعتراضات کا ، جو خالد جاوید کو ، ان کے ناول ' نعمت خانہ ' کے انگریزی ترجمے The Paradise Of Food پر جے بی سی ایوارڈ ملنے کے بعد کیے گیے ہیں ، جواب دیا ہے۔ اعتراضات دو طرح کے ہیں ؛ کہ یہ انعام خالد جاوید کو نہیں باراں فاروقی کے ترجمے کو ملا ہے ، اور یہ کہ ایک اردو ادیب کو ایوارڈ ملنے پر اتنا شور کیوں ! ان اعتراضات کے جواب دینے سے قبل اشعر نجمی نے ادبی ایوارڈوں کی سیاست پر بات کی ہے ، اور یہ اعلان کیا ہے کہ " ایوارڈ واپسی کو میں ایک ڈھونگ سمجھتا ہوں۔" وہ اس حوالے سے اردو کے اس حلقے کی بات بھی کرتے ہیں جو ان کے بقول: " احساسِ کمتری کا مارا ہوا ہے۔" اور ایوارڈ دینے والے اداروں کے مقاصد کی بات کرتے ہیں کہ ان کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں جو ایوارڈ دیتے ہوئے سامنے رکھے جاتے ہیں ، اور رہی شور کی بات ، تو وہ اس کی وجہ ، اس ایوارڈ کا دوسرے ایوارڈوں سے منفرد ہونا بتاتے ہیں۔ جہاں تک بات ترجمہ کو ایوارڈ ملنے کی ہے ، تو یہ ایک لغو بات ہے ، اشعر نجمی کی دلیل اس بات کو مزید لغو بنا دیتی ہے ، وہ لکھتے ہیں:
" کچھ ننھے منے ادیبوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ انعام ' نعمت خانہ ' کو یعنی خالد جاوید کو نہیں بلکہ باراں فاروقی کے ترجمے کو ملا ہے۔ ظاہر ہے اس فقرے سے جو دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے ، وہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ آگ کہاں لگی ہے۔ ان ننھے منے ادیبوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ خالد کے ناول کو ' ترجمہ ایوارڈ ' نہیں ملا ہے ، ترجمے کے لیے علیحدہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ اور اگر واقعی یہ ترجمہ کا انعام تھا تو پھر اسے گیتانجلی شری کے ناول ' ریت سمادھی ' کی مترجم ڈیزی راک ویل کو ملنا تھا چونکہ وہ اس لسٹ میں سب سے زیادہ تجربہ کار اور اس انعام کی سب سے بڑی دعویدار تھیں۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ترجمہ کبھی تخلیق سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا چونکہ کسی خراب کتاب کا اچھا ترجمہ اسے اعلیٰ نہیں بنا سکتا۔ گالی کا ترجمہ گالی ہی ہوگا ، مترجم اسے منقبت نہیں بنا سکتا۔۔۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ ہم جو بین الاقوامی ادیبوں کے ناول پڑھتے رہتے ہیں ، کیا واقعی ان کی اصل زبان میں پڑھتے ہیں یا ان کے انگریزی ترجموں کو پڑھتے ہیں۔ مثلاً کافکا ، گبرئیل گارسیا مارکیز ، ہاروکی موراکامی ، میلان کنڈیرا اور روس کے تمام ادیبوں کو ... تو کیا ہم نے ان کے ناولوں کو جرمن ، ہسپانوی ، جاپانی ، فرانسیسی اور روسی زبان میں پڑھا ہے ؟ لیکن اگر ان کے ناولوں کے انگریزی ترجمے پڑھے ہیں تو پھر ہمیں باراں فاروقی کے ساتھ ساتھ ان انگریزی مترجمین کی جھولی میں ان تمام ثقہ ادیبوں کی عظمتوں کو بھی ڈال دینا چاہیے لیکن افسوس ہمیں تو ان ادیبوں کے بے شمار مترجمین کے نام تک یاد نہیں ہوں گے بلکہ اس کے برخلاف ہم ان ترجمہ شدہ ناولوں کی بےمثال تخلیقی عظمت کا مکمل کریڈٹ صرف ان ادیبوں ہی کو دیتے ہیں۔ تو پھر خالد جاوید کے معاملے میں یہ دوغلا رویہ کیوں ؟ کیا صرف اس لیے نہیں کہ کچھ لوگوں کے ' حؒلق سے ' نیچے خالد جاوید اب بھی نہیں اتر پا رہے ہیں ؟ "
' اداریہ ' کے یہ سوال صرف سوال نہیں ایک چیلنج ہیں ، دیکھیے کس طرف سے جواب آتا ہے۔


اب آتے ہیں مضامین کی طرف : ہندی کے معروف ادیب اُدین باجپئی کا مضمون ' اندھیروں کی تابانی ' کے عنوان سے ہے کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ خالد کے " ناولوں کے جملوں کی تابانی میں ، ہمیں اپنے دل اور دنیا کے اُن اندھیروں کی توسیع صاف نظر آنے لگتی ہے جو ہمیں ہر طرف سے ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ مگر اس تابانی میں ہمارے اندھیرے علاقے ہمیں ڈراتے نہیں ، وہ ہمیں خود کو دیکھنے سمجھنے اور اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کی جانب موڑ دیتے ہیں۔"
یہ ایک مختصر مضمون ہے ، لیکن اس میں اُدین باجپئی نے خالد کے اب تک کے چاروں ناولوں پر بات کی ہے ، وہ لکھتے ہیں:
" قارئین صاد کریں گے کہ خالد کے کسی بھی ناول میں محسوسات یا ذہنی کیفیات کا اتنا بار یک بیان ہوتا ہے کہ ہم اسے پڑھ کر ششدر رہ جاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ جیسے ہمارے سامنے کوئی لرزتا ہوا اندر جال بُنا جارہا ہو۔ ضروری نہیں کہ صفحات پر بُنے جا رہے محسوسات یا ذہنی کیفیات دلکش ہی ہوں ، اگر وہ کراہت آمیز بھی ہیں تو خالد انھیں پوری شدت سے دھاگہ دھاگہ بُنتے چلے جاتے ہیں اور ان کے بے شمار پہلو خود بہ خود نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے خالد کے ناولوں کو پڑھتے وقت یہ احساس مسلسل ہوتا رہتا ہے کہ ہر جذبہ بے شمار جذبوں کے ملنے سے بنتا ہے۔ نفرت میں محبت کے دھاگے تیرتے ہیں اور محبت میں کراہت چھپی بیٹھی ہوتی ہے۔ ' ناٹیہ شاستر ' میں یہ مانا گیا ہے کہ ہر بھاؤ ( حرکت) کے کئی ابلاغی تاثرات ہوتے ہیں جو حرکت ( بھاؤ ) کے مختلف پہلوؤں کو لگ الگ رنگ دیتے ہیں۔"


چونکہ یہ تبصرہ طویل ہوتا جا رہا ہے ، اس لیے میں اپنی مذکورہ بات کے لیے اُدین باجپئی کے مضمون سے مزید کوئی اقتباس پیش کرنے کے بجائے ، تین دوسرے مضامین پر بات کروں گا۔ دو مضامین انگریزی سے ترجمہ کیے گیے ہیں۔ ' بچوں سے ہوشیار ! ' فیضان مقیم کا وقیع مضمون ہے ، اسے صابر نے بڑی ہی مہارت سے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ اس میں ، مضمون نگار نے ناول ' نعمت خانہ ' کا تجزیہ ، ایک خاتون اسکالر کیرن جے رینر ، کے ' نظریۂ اطفالِ بد ' ( Concept Of Evil Children) کے بیانیے سے متعلق معروضات کی روشنی میں کیا ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مذکورہ " بیانیے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ استدلال قائم کیا گیا ہے کہ بچپن کی ضمیر سے تہی عمر میں سرزد ہونے والا قتل جیسا سنگین جرم بلوغت کی عمر میں ضمیر کی تعمیر کے سبب مرکزی کردار کے وجود پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔" اس بیانیے کے حوالے سے فیضان مقیم بتاتے ہیں کہ ' طفلِ بد ' کی ہر قِسم ، اس سوال کے مخصوص ردعمل سے نکلتی ہےکہ برائی آتی کہاں سے ہے ؟ ' طفلِ بد ' کی ایک قسم ' معجزاتی بچہ ' ہے۔ ناول کا بنیادی کردار گڈو ' طفلِ بد ' کی اسی قِسم سے ہے۔ مضمون نگار کے مطابق:
" یہ خاندان اور معاشرے میں پائی جانے والی بدسلوکی کے نفسیاتی اثرات کا ایک جز ہے جس کے حوالے سے اس مضمون میں برائیوں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔"
اور یہ ' کوشش ' ایک طویل مضمون میں ڈھل گئی ہے۔ مضمون نگار برائیوں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے ، آخر میں لکھتے ہیں:
" رینر کے اس دعوے کہ ' اطفالِ بد کے بیانیے بنیادی طور پر ایک انسانیت پسندانہ صنف ہے جو واضح کرتی ہے کہ ہر برائی کا کوئی ماخذ ہوتا ہے اس لیے اس کا کوئی حل بھی ضرور ہوتا ہے '، سے اتفاق کرتے ہوئے اس مضمون میں دکھایا گیا ہے کہ گڈو کے قاتلانہ جرم کی جڑیں ناسازگار خاندان اور معاشرے میں ہیں جہاں پائی جانے والی برائیاں ایک فرد کی زندگی کو تاحیات صدمات اور شناخت کے بحران سے وجودی طور پر بھر دیتی ہیں۔ گڈو اپنی اپیل تحریر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے واقعات نہ صرف نمائش پر رکھتا ہے بلکہ اپنے ضمیر کے سامنے آزمائش پر بھی رکھتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ گڈو کے لیے ' حافظے کا یہ پھندا ، پھانسی کا پھندا ہے۔' ( نعمت خانہ، ص 345 )۔ خالد جاوید نے گڈو کے صدموں سے دو چار بچپن کے تجربات ، جذبانی اُلجھنیں اور گڈو کی زندگی کی رفتار پر ان کے اثرات کی عکاسی کرتے ہوئے بچپن کی نہایت نازک اور پیچیدہ تصویر پیش کی ہے۔"
رینر کے بیانیے کی روشنی میں ' نعمت خانہ ' کو سمجھنے کی یہ کوشش نقاد کے فکری کینوس کو بھی واضح کرتی ہے ، اور اپنے موضوع پر خالد جاوید کی گرفت کو بھی۔ اور اسے پڑھ کر ناول کی کئی اَن کُھلی پرتیں بھی واضح ہو جاتی ہیں۔


انگریزی کے ایک دوسرے اسکالر محمد عفان کے مضمون کا عنوان ہے ' ایک وبا کی استعارہ سازی اور دنیا کی آئینہ داری ' ، حسنین عاقب نے انگریزی سے اس کا بہت خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ اس مضمون میں ناول ' ایک خنجر پانی میں ' کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے۔ مضمون میں وبا کے حوالے سے کئی ناولوں کا ذِکر ہے ، اردو کے دو ناولوں ' افسانہ نادر جہاں ' ( فخر النسا نادر ) اور ' توبتہ النصوح ' ( ڈپٹی نذیر احمد ) کا بھی ذِکر کیا گیا ہے ، لیکن مضمون نگار کا یہ ماننا ہے کہ اِن ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ:
" خالد جاوید کے ناول ' ایک خنجر پانی میں ' لکھے جانے تک اردو ادب میں وبائی امراض کی نمائندگی کی عقلی اور جدید نوعیت کس حد تک مفقود تھی۔"
پھر وہ اس ناول کا ' سچائی اور پوسٹ ٹروتھ کا تصور ' ، ' بیورو کریسی اور وبائی امراض ' ، ' مابعد جدیدیت اور اصناف کی ہائبرڈائزیشن ' ، ' خواتین ، نسائیت اور وبائی امراض ' اور ' ملٹریزم ، فوجی طور طریقے اور وبا کے دوران حکمراں ' کے عناوین سے تجزیہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
" یہ اپنے اس ڈسکورس کا تعارف کراتی ہے جہاں سچائی کو فینتاسی میں مضبوطی سے لپیٹا جاتا ہے تاکہ قارئین اسے خود میں جذب کر کے دوسروں تک پہنچاسکیں۔ ناول میں ملٹری کنٹرولڈ ایریا اس وبا کی اصل ہے اور اس حقیقت کو چھپانے کے لیے ایک عام آدمی جو سچائی تک پہنچ جاتا ہے اسے ماردیا جاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کس طرح ملٹرزم پورے ملک میں سانپ کی طرح گھومتی پھرتی ہے۔ اس کے راستے میں جو بھی آتا ہے ، وہ اسے ڈس لیتی ہے۔ اور اس کی سب سے برُی بات یہ ہے کہ اس ملٹرزم کو اب میڈیا کی حمایت حاصل ہے۔ میڈیا نے نہ صرف اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے بلکہ اسے تقریبا خدائی طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھلے ہی ہمیں اس کا احساس نہ ہو لیکن ہر قدم پر ملٹرزم جھوٹ کے حصے کو سچ میں تبدیل کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے لیے ٹھیک ہو سکتا ہے جہاں انسانیت پرستی کے بجائے قوم پرستی اولین ترجیح ہے۔ خالد جاوید باریک بینی سے اس طاقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ جانتے ہیں کہ اردو ادب کی کوئی اور کتاب ان طاقتوں کا سراغ نہیں لگا رہی ، خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان میں۔"


مذکورہ دو تنقیدی یا تجزیاتی مضامین کے بعد ہندی کے ایک ادیب دشینت سری نیت کے مضمون ' وجود کی بھول بھلیّاں میں بھٹکتا افسنہ نگار ' کی یہ سطریں پیش ہیں:
"خالد کی کہانیوں پر آپ ' کام چلاؤ ' طریقے سے نہیں لکھ سکتے ، ان کی کہانیوں کی تخلیق ہی ایسی ہے کہ آپ کی بےایمانی گرفت میں آجائے گی ، اگرچہ ایمانداری سے لکھنا بذات خود ایک چیلنج بھی ہے۔ نقادوں کی فکری کوتاہی ، خودآرائی اور ' منصو بند ستائش ' کے اس دور میں اس بات کے خطرے رہتے ہیں کہ بیشتر لوگ تخلیق کاروں اور تخلیقات کے بارے میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ، جو پڑھے جانے سے پہلے زیادہ محتاط اور حساس ہونے کا تقاضہ کرتے ہیں۔" یہ مضمون ہمیں ' ایمانداری ' سے لکھنے کا درس دیتا ہے ، کیا ہم اسے سنیں گے ؟ ایک بات مزید ، یہ تمام مضامین متن کے اندر اتر کر بیرونی عناصر کی موجودگی کا مدلل جواز پیش کرتے ہیں۔ اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ خالد جاوید کو ' ہندوستانی ادب میں اردو کا سفیر ' کیوں کہا جائے یا مانا جائے۔
بس ، یہ تبصرہ اور تعارف یہیں تک ، حالانکہ اس شمارے پر مزید لکھا جا سکتا ہے ، خالد کے ناول کے کئی تبصروں اور ان کے فکشن کے حوالے سے ان کی شخصیت پر مضامین ، دو انٹرویو اور بالخصوص خالد جاوید کی ' ڈائری کے چند اوراق ' پر ، کہ اس کی ہر سطر سے کوئی کہانی یا کوئی ناول جھانکتا نظر آتا ہے ، اور گوشہ سے ہٹ کر پرچے کے دیگر مواد پر ، لیکن پھر کبھی۔


اس شمارے کو موبائل نمبر 9372247833 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ شمارہ تین بڑے ادیبوں کے نام ہے جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ، منیب الرحمٰن ، شموئل احمد اور امجداسلام امجد ، اللہ اِن کی مغفرت فرمائے ، آمین۔


Esbaat:37, Special issue on Khalid Jawed, winner of India's riches JCB prize for literature 2022, a review by Shakeel Rasheed, mumbai Urdu news.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں