اپنے خوبصورت باغات اور دیگر فنون لطیفہ میں ایک الگ پہچان رکھنے والا شہر لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیرالثقافتی شہر رہا ہے یہ شہر ہندی اور اردو ادب کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں میں زیادہ تر اردو ہی رائج ہے اور یہاں کا لکھنوی انداز پورے جہان میں مشہور ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی تہذیب و ثقافت کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ یہ شہر شعر و ادب کی ترقی اور نشونما میں پیش پیش رہا۔۔۔۔ اس شہر کو نوابوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں درحقیقت یہ نوابوں کا ہی شہر رہا ہےلکھنؤ میں اودھ کے نوابوں نے راج کیا اور گیارہ نوابوں نے اس شہر کو ایسی ترقی دی کہ اس شہر کو ساری دنیا میں شہرت مل گئی یہاں کے لوگ رہن سہن اور کھان- پان کے معاملے میں بہت نفاست پسند اور خوش خوراک ہیں اور شعر و ادب کے بھی دل دادہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی داغ بیل نواب آصف الدولہ کے زمانے میں پڑی۔۔۔۔ باغات اور فنون لطیفہ کے علاوہ لکھنؤ شہر مختلف قسم کے پکوانوں کے کے لئے مشہور ہے جس میں ٹنڈے کباب، موتی پلاؤ۔ کلفی، نہاری کلچے، رومالی روٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسکے علاوہ پان بھی لکھنؤ کے لوگوں کے لئے ایک لازمی جز ہے۔
کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ کی نشوونما میں کئی نوابوں کی کوششیں اور جدوجہد شامل ہے اکبر کے عہد میں شیخ عبدالرحیم جونپوری نے جو کہ اودھ کا صوبہ دار تھا یہاں کی عمارتوں میں ردوبدل کروا کر اپنی پانچ بیویوں کے لئے پنچ محل تعمیر کراوایا جو بعد میں مچھی بھون کے نام سے موسوم ہوا۔۔۔۔ اور اسکے علاوہ اورنگزیب اجودھیا سے ہوتا ہوا جب لکھنؤ آیا تو اس نے لچھن ٹیلہ پر ایک مسجد تعمیر کرائی جو ٹیلے والے مسجد کے نام سے اب بھی جانی جاتی ہے۔۔۔۔
لکھنؤ شہر کئی تاریخی عمارتوں کے لئے بھی مشہور ہے جس میں
بڑا امام باڑہ ، چھوٹا امام باڑہ رومی دروازہ وغیرہ قابل ذکر ہیں اسکے علاوہ سیاحت کے لئے آنے والوں کے لئے کئی پارک امبیڈکر پارک، لوہیا پارک اور جینیشور مشرا پارک وغیرہ اور چڑیا گھر بھی اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
پچھلے کچھ سالوں میں میرا بھی دو بار لکھنؤ جانا ہوا جس کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں جب ہم نے لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں اور جگہوں کی سیر کی اور انکی تاریخ کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔۔۔۔
جس وقت بڑے امام باڑے میں پہونچے سورج سوا نیزے پر تھا۔ بلا کی گرمی اور حبس تھا۔ ہم پسینے سے شرابور اور گرمی سے بے حال تھے مگر اس عمارت کو دیکھنے کی لگن ایسی تھی کہ کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہاں پہنچنے پر اندر جانے سے پہلے ہمیں اپنے جوتے اور چپل وغیرہ باہر ہی اتارنے پڑے کیونکہ اسے اندر پہن کر جانے کی اجازت بالکل نہیں ہے۔۔۔۔ خیر۔ ہم نے نے اپنے جوتے باہر ہی اتارے اور اندر کی جانب بڑھ گئے۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑا تھا سیاح تو سیاح مقامی لوگ بھی وہاں کافی تعداد میں تھے۔۔۔
بڑا امام باڑہ۔
بڑا امام باڑہ لکھنؤ کی ایک بہت مشہور تاریخی عمارت ہے جو کہ ایک شاندار ڈیزائن اور بہترین کاریگری سے تیار کی گئی ہے جسے نواب آصف الدولہ نے 1784 میں تعمیر کروایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 1784 میں اس شہر کا ہر امیر و غریب قحط سالی کا شکار ہوا تو نواب آصف الدولہ نے اس نازک موقع پر لوگوں کو روزگار دینے کے لئے اور پیغمبر اسلام کے مظلوم نواسے حضرت امام حسین کی مثالی یادگار قائم رکھنے کے لئے بڑا امام باڑہ کی بنیاد رکھی۔ اگر آپ لکھنؤ کی سرزمین پر ہیں اور آپ نے اس عمارت کی زیارت نہیں کی تو آپ واقعی خسارے میں ہیں۔۔۔ یہاں موجود ایک ایک شئے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اس عمارت کا پورا ڈھانچہ غیر روایتی چیزوں سے بنایا گیا ہے۔ آپ تصور کرئیے کہ ایک بلند و بالا عمارت جس میں لوہے کی کسی سلاخ کا استعمال نا کیا گیا ہو وہ کس قدر حیرت انگیز کاریگری ہے۔ اس امام باڑے کو ہندوستان کے آثار قدیمہ اور لکھنؤ کا سب سے بڑا امام باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔ اس امام باڑے کی کئی حصے ہیں جس میں بھول بھلیاں اور باؤلی بھی شامل ہے۔۔۔۔
بھول بھلیاں۔۔۔
بھول بھلیاں بھی بڑے امام باڑے کا ہی ایک جزء ہے۔ یہ ایک خاص طرح کی عمارت ہے جس میں ایک جیسے کئی دروازے ہیں۔ جس میں اگر کوئی شخص چلا جائے تو بہ آسانی نکلنا مشکل ہو۔جیسا کہ لفظ بھول بھلیاں سے ہی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اسمیں اکیلے جاکر کھونے کا خدشہ ہے اسلئے سارے لوگ گائیڈ کو ساتھ لئے چل رہے تھے جو ہمیں گھما نے کے ساتھ ساتھ عمارت کی تاریخ کے بارے میں بھی بتا رہا تھا۔۔۔۔ بنا گائیڈ کے اس عمارت کے راز کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ چلتے چلتے ہم ایک ایسے برآمدے تک پہنچے تو تقریباً تاریک تھا جہاں کی تاریکی اور اندھیرے سے مجھے خوف محسوس ہوا مگر جی کڑا کئے دیکھنے کی دھن میں چلتی رہی۔۔۔ اس تاریک برآمدے میں پہنچ کر گائیڈ نے بتایا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں کیونکہ اگر ہم اس برآمدے میں کھڑے ہو کر کوئی بات یا سرگوشی کرتے ہیں تو وہ سرگوشی ہمیں برآمدے کے دوسرے کونے تک سنائی دیگی (ہے نا حیرت انگیز) اس طرح گائیڈ نے ماچس جلائی تو اسکی آواز بھی پورے حال میں گونجتی محسوس ہوئی۔۔۔ یوں ہم نے پوری عمارت کی بہت اچھے سے سیر کی۔۔۔۔ دیکھنے میں ایک جیسے دکھنے والے دروازے اور راستے عقل کو حیران کر دینے کے لئے کافی تھے
باؤلی (کنواں) ۔۔۔۔
یہ بڑے امام باڑے کے مشرقی جانب واقع ہے یہ ایک قدیم کنواں ہے جسے نواب آصف الدولہ نے رعایا کے لئے تعمیر کرایا تھا۔ ویسے تو یہ باؤلی پانچ منزلہ تھی مگر فی الوقت تین منزل ہی دکھائی دیتی ہے۔
اس کے علاوہ لکھنؤ شہر اور بہت سی تاریخی عمارتوں، پارکوں، اور دیگر بہت ساری چیزوں کے لئے مشہور ہے۔۔۔۔
زیبا شبیر احمد (مئو، اترپردیش)
ای-میل: raihanahmad9044[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں