کچھ باتیں گول کنڈہ قلعہ کی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-29

کچھ باتیں گول کنڈہ قلعہ کی

golconda-fort-hyderabad

گول کنڈہ قلعہ کہنے اور دیکھنے کو تو محض ایک دیواروں کا بھنڈار ہے، پر جب ہم اس کی تاریخ دیکھیں تو یہ کسی گوہرے نایاب سے کم نہیں ہے۔ گول کنڈہ قلعہ 900 سال کے بعد بھی اپنی اسی شان و شوکت کے ساتھ آسمانوں سے باتیں کرتا ہے۔ اس قلعے نے کئی سلطنتوں کو اجڑتے اور بستے دیکھا ہے۔ کئی راجہ اور مہاراجاؤں نے اس کی آڑ میں پناہ لی تو کئیوں کو اس نے سہارا دیا اور اپنی امان میں رکھا۔
یہ قلعہ کاکتیا سلطنت کے زوال کا شاہد ہے اور بہمنی سلطنت کے عروج کا گواہ، اس نے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی خودمختاری دیکھی اور جمشید قلی قطب شاہ کی عیاری بھی۔ قلعے گول کنڈہ یتیم محمد قلی قطب شاہ کے بچپن کا نگہبان رہا تو سلطان محمد قلی قطب شاہ کا حامی۔


گول کنڈہ پانچ حکومتوں کا پاسدار رہا ہے۔ کاکتیا سلطنت نے اس قلعے کی بنیاد رکھی، بہمنی سلطنت نے اسے اپنی حکومت کا حصہ بنایا، قطب شاہی خاندان نے اسی قلعے میں اپنی بادشاہی کی بنیاد رکھی، مغلوں نے اس پر اپنا قبضہ جمایا اور نظاموں کے دور میں یہ قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوتا گیا۔
قلعے گول کنڈہ کئیوں کی وفاداری کے کارنامے اور کئیوں کی مکاری کے قصے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
وفاداری ایسی کی بادشاہ کے مر جانے کے بعد بھی بادشاہ سے کیے ہوئے عہد کے ساتھ بندھے رہے اور مکاروں کی دغابازی ایسی کہ زندگی بھر آستین کے سانپ بنے رہے اور وقت آنے پر ساتھ چھوڑ گئے۔
قلعے گول کنڈہ محض ایک قلعہ نہیں ہے یہ ایک جیتا جاگتا پیکر ہے جو اپنے پاس آنے والوں کو حکمراں کی کہانیاں سناتا ہے، اس کی آہنی دیواریں مضبوط رہنے کا اور گردش زمانہ کے سامنے ڈٹے رہنے کا پیغام دیتی ہیں۔
قلعے گول کنڈہ اپنے اندر بہت ساری خصوصیات رکھتا ہے جو اس پر غور کرنے والوں ہی کو نظر آتی ہیں اور خصوصیت بھی ایسی کی جدید دور کا یہ ترقی یافتہ انسان بھی اس کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہے۔


یہ ہے قلعہ گولکنڈہ۔۔۔۔۔۔
گول کنڈہ جس کو تاریخ میں گولاکنڈہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان کے ریاست تلنگانہ کے شہر حیدر آباد میں واقع ہے۔ جو کہ قطب شاہی سلطنت کا پایہ تخت بنا، اسے 1143ء میں کاکتیا سلطنت کے راجہ نے تعمیر کروایا تھا۔
کاکتیا سلطنت کے زوال کے بعد بہمنی سلطنت نے گول کنڈہ پر اپنا قبضہ جمایا۔ جب بہمنی سلطنت کا سورج غروب ہونے لگا تو گول کنڈہ کے گورنر سلطان قلی قطب شاہ نے اپنے راجہ ہونے کا اعلان کردیا اور گول کنڈہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔
گول کنڈہ قلعہ 3 قطب شاہی بادشاہوں کے دور سے گزر کر اپنی تکمیل کو پہنچا۔ پورا گول کنڈہ قلعہ 3 کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ جس کا صرف ایک صدر دروازہ ہے اور اس دروازے کی اوپری سطح تو لوہے کی بنی ہوئی ہے پر اندر ساگوان کی لکڑی سے بنا ہوا دروازہ ہے۔
اس دروازے کے سامنے ہی ایک دیوار بنائی گئی ہے تاکہ ہاتھیوں کے ذریعے دروازے کو توڑنے کی سازش ناکام رہے۔


صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب دو منزلہ عمارت نظر آئے گی وہ آرمی بلڈنگ ہے، جس کو اسلحہ کھانا کہا جاتا ہے۔ جہاں پر سپاہیوں کے ہتھیار اور گولہ بارود رکھے جاتے تھے۔ اس پورے بلڈنگ میں 150 کمرے ہیں جس میں صرف جنگی ساز و سامان رکھے جاتے تھے۔
گول کنڈہ کا نگینہ باغ اس وقت بہت مشہور تھا جہاں پر ہیرو کا تجارت ہوتا تھا۔ گول کنڈہ کو ہیروں کے کاروبار کے لیے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کوہ نور ہیرا بھی گول کنڈہ کا ہی دین ہے اس کے علاوہ نظام، جیکب اور دریائے نور وغیرہ گول کنڈہ ہی میں متعارف ہوئے۔
صدر دروازے کے دائیں جانب کی تہخانے نما عمارت میں جب کسی بادشاہ کا انتقال ہوتا تو یہاں غسل دیا جاتا تھا اور یہاں ایک سرنگ بھی بنی ہوئی ہے، جو کہ سیدھے 7 Tomb تک گئی ہوئی ہے۔ اسی سرنگ سے جنازے کو لے جایا جاتا تھا اور دوسرے بادشاہ کے تقرر کے بعد ہی بادشاہ کے انتقال کی خبر دی جاتی تھی۔
آرمی بلڈنگ کے پیچھے جو بلڈنگ ہے، وہ بھاگمتی پیلیس ہے۔ بھاگمتی ایک رقاصہ تھی، یہیں پر وہ رہتی تھی، قطب شاہی خاندان کے چوتھے بادشاہ قلی قطب شاہ بھاگمتی کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے، پھر انہوں نے اس سے شادی کر لی۔ اس عمارت میں بنے اسٹیج نما جگہ پر رقص ہوتا تھا اور سب درباری بادشاہ اور رانی یہاں بیٹھ کر رقص دیکھتے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔


اس قلعے کی اہم خصوصیت میں سے واٹر سپلائی کا نظام تھا۔ قلعے کے نیچے کے حصے میں تین حوض بنے ہوئے ہیں اور ان حوضوں کا پانی اوپر تک جاتا تھا۔ دیواروں کے اندر بنی چونے کے پائپ کے ذریعے بغیر کسی موٹر کنکشن کے اور اس پائپ سسٹم میں گرم پانی اور ٹھنڈے پانی کا الگ الگ سسٹم تھا۔
سب سے زیادہ چوکانے والی بات یہ ہے کہ اس قلعے کی تعمیر اوپر سے ہوئی تھی یعنی کی کنٹریکشن کا کام اوپر سے ہوتا ہوا نیچے تک پہنچا۔


قلعے میں ایک دو مینار مسجد ہے جو ابراہیم قطب شاہ نے بنوائی تھی۔ اسی کے نقشے کو دیکھ کر ابراہیم قطب شاہ کے بیٹے محمد قلی قطب شاہ نے چار مینار بنوایا تھا۔
اس کے علاوہ قلعے میں Echo system بھی ہے، قلعے کی ایک عمارت میں بڑا سا Judgment hall ہوا کرتا تھا جہاں بادشاہ بیٹھ کر حق و باطل کا انصاف کرتا تھا۔ مزید قلعے کے اندر کئی سارے گیسٹ روم بھی بنے ہوئے تھے۔
ان تمام عمارتوں کو اب بھی قلعے گول کنڈہ جاکر دیکھا و پہچانا جا سکتا ہے لیکن تاریخی مطالعہ کے بعد کیونکہ اکثر و بیشتر عمارتیں ٹوٹنے کی وجہ سے پہچان میں باآسانی سے نہیں آرہی ہیں۔

***
عبد المقیت، اسکالر شعبہ ترسیل عامہ و صحافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

Email: abdulmuqeet001999[@]gmail.com


the Golconda fort of Hyderabad - Essay: Abdul Muqeet

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں