چار مینار ہم حیدرآبادیوں کے لیے اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا تاج محل آگرہ کے لیے یا ایفل ٹاور اہلیان پیرس کے لیے۔ یہ چار سو سالہ قدیم عمارت ہماری تہذیبی ورثہ اور تعمیرات کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس لیے اس کو اگر ہم شہر حیدرآباد کا دل کہیں تو غلط نہ ہو گا۔
ہم بھی بحیثیت حیدرآبادی چار مینار کے مداح ہیں اور بحیثیت خاتون اسے خریداری کا مرکز قرار دینے میں ہمیں کوئی مضائقہ نہیں۔
ہم اس تہذیبی عمارت کے اتنے بڑے عاشق ہیں کہ اس کے خواب ہمیں اکثر آتے رہتے ہیں اور چارمینار ہمارے خواب میں اکثر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ اس رات بھی چار مینار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے خواب میں جلوہ نما تھا اور ہم اس خوب صورت عمارت کے دیدہ زیب جلوؤں کو دیکھ کر محو حیرت تھے۔
"تم؟ یہاں کیوں آئے ہو؟" یہ ہمارا پہلا سوال تھا چار مینار سے۔
" جب تم ہر دوسرے دن میرے یہاں آ سکتی ہو تو میں کیوں نہیں آ سکتا۔ " وہ بڑے کروفر سے بولا۔
"اچھا۔ اب آ گئے ہو تو اپنا تعارف بھی کروا دو۔ " ہم نے لگے ہاتھوں اپنا بھی مسئلہ حل کرنا چاہا۔
" کیوں؟ "
" کچھ نہیں، دراصل ہمیں ایک تحریری مقابلے کے لیے تم پر مطلب چار مینار پر اپنا مضمون بھیجنا ہے، اس لیے ۔۔۔ "
" اوہ ہو۔ تو پھر سن لو۔ کیا یاد کروگی۔ " وہ یوں گویا ہوا۔
" مجھے چار سو سال پہلے قطب شاہی خاندان کے پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے موسی ندی کے کنارے تعمیر کر وایا تھا۔ میرے تعمیری کام کی شروعات1591 کے لگ بھگ شروع ہوئی تھی۔ ایک وبائی مرض ہیضہ کے باعث ہزاروں افراد ہلاک ہونے کی وجہ سےسلطان نے دعا کی تھی کہ ایک مسجد بنائیں گے اور جب شہر سے ہیضہ ختم ہو گیا تو سلطان نے مجھے یعنی چارمینار کو بنایا جس کی بالائی منزل پر مسجد ہے۔ میری یہ تعمیر چار مینار پر قائم ہے اس لیے اسے چار مینار کا نام دیا گیا ہے یہاں سے سارے شہر کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔" کہتے کہتے چارمینار لمحہ بھر کو رکا۔
"اب اپنے فن تعمیر کے متعلق بھی بتا دیتے تو۔۔۔" ہم نے قلم سنبھال لیا تھا۔
"مجھے حیدرآباد میں مقیم ایک ایرانی انجینیر مومن آستارواڈی نے ڈیزائن کیا تھا میری عمارت چونا پتھر گرانائیٹ ، پولو برائزڈ ماربل اور مارٹر سے بنائی گئی ہے۔ میری تعمیر میں انڈو اسلامک تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔" اس نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور پھر سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔
" میں مربع شکل کا ڈھانچہ ہوں جو ہر طرف 20 میٹر لمبا ہے۔ میں چار عظیم الشان محرابیں اور چار کونوں پر بنایا گیا ہوں جو مجھے ایک خاص شکل دیتے ہیں۔ میرا ہر مینار چار منزلہ اور 56 میٹر اونچا ہے۔ میرے اوپری حصہ پر گنبد نما ساخت ہے اور میری کل 149 سیڑھیاں ہیں۔"
اپنے بارے میں بتانے کا اس کا انداز بڑا دلچسپ لگا۔
" اور۔۔۔؟" ہم نے مزید کہنے کے لیے اسے شہ دلائی۔
"میری پہلی منزل پر پہنچ کر یہاں سے شہر اور قریب کے بازار کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ میری دوسری منزل پر ایک مسجد ہے جسے اب بند کر دیا گیا ہے۔ میری مغربی سمت ایک بڑا بازار ہے جسے لاڑ بازار یا چوڑی بازار کہا جاتا ہے اس بازار کو حیدرآباد میں مر کزیت بھی حاصل ہے۔ میرے جنوب میں مکہ مسجد ہے۔اور میرے شمال میں چار محرابیں سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھیں جو چار کمانوں کے نام سے مشہور ہیں۔۔ ان محرابوں کے مرکز میں ایک چشمہ ہے جسے گلزار حوض کہا جاتا ہے۔" وہ کچھ دیر رکا تھا پھر اس نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھایا۔
"آثار قدیمہ کے تحت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں میرا نام درج ہے اور مجھے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹس کی عارضی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔"
اس نے آخر میں فخر سے کہا تھا۔
"اوہ اچھا۔ چار مینار سے لگے مندر کا ذکر نہیں کیا تم نے۔ "
"میں اس مندر کا ذکر کیوں کروں جس کا وجود میرے قیام سے لے کر آج سے ساٹھ سال پہلے تک تھا ہی نہیں۔۔ اور اب اس کو خصوصی طور پر مجھ سے جوڑا جاتا ہے۔ جو کہ سراسر دھاندلی ہے۔ " اب اس کا لہجہ غم و غصہ میں بھرا تھا۔
"اوہ۔ اور کچھ۔۔۔" ہم نے مزید کچھ کہنے کے لیے اسے اکسایا۔
" آج کل ہر ہفتہ میرے دامن میں ایک شام منعقد کی جا رہی ہے جس میں لوگ تفریح کی غرض سے آ رہے ہیں اور مختلف قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غرض میرے دامن سے جڑے لوگوں کا روزگار مجھ سے جڑا ہے۔ میری وجہ سے کئی گھروں کا روزگار چل رہا ہے، یہ خصوصیت کیا کم ہے۔"
"حیدرآباد کی پہچان ہے تو مجھ سے
حیدرآبادیوں کی جان ہے تو مجھ میں"
اس نے بڑے فخر سے کہا تھا۔
"چارمینار تم ایک عظیم سلطان کا عظیم کارنامہ ہو۔ ہمیں تم پر بلاشبہ فخر ہے۔"
ہم نے چار مینار کو سلام کیا اور نیند سے جاگ گئے۔ کیونکہ ہمیں اپنا مضمون بھی ارسال کرنا تھا۔
سدرہ فردوس (حیدرآباد)
nfismailismail[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں