ایک سنگھی گائیڈ سے انگریز سیاح کی مڈبھیڑ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-04-12

ایک سنگھی گائیڈ سے انگریز سیاح کی مڈبھیڑ

india-tourism

یہ سنہ 2050 کا واقعہ ہے۔ ایک انگریز ہندوستان گھومنے آتا ہے۔ وہ جب 'امرت کال انتر راشٹریہ ہوائی اڈہ'، جس کا نام پہلے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تھا، پر اترتا ہے تو اس کی ملاقات ایک الگ قسم کے بھارت سے ہوتی ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ ایئر پورٹ کے باہر بہت سے لوگ بھگوا کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ انھیں دیکھ کر اس نے سوچا کہ ایئرپورٹ پر قلیوں کا کیا کام، انھیں تو ریلوے اسٹیشن پر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ قلی نہیں ٹورسٹ گائیڈ ہیں۔ اس کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو سرتاپا بھگوا پوش ہے اور بڑے لچھے دار انداز میں مگر ٹھیٹھ ہندی میں بھارت کے تاریخی مقامات کے نام گنا گنا کر ان کی تاریخ بیان کر رہا ہے۔ اس نے اس کو اپنا گائیڈ بنا لیا۔


گائیڈ نے اس سے کہا کہ ہم تمھیں بھارت کا بھرمن کرائیں گے اور سبھی ایتہاسک استھلوں سے ملوائیں گے۔ انگریز نے کہا:
'ہم سب سے پہلے لال قلعہ دیکھنا چاہتا ہے'۔
گائیڈ نے کہا کہ لال قلعہ نام کا کوئی بھَون دلی میں نہیں ہے۔ ہاں امرت قلعہ ضرور ہے۔ ہم تم کو وہیں لیے چلتے ہیں۔ وہ جب انگریز کو لے کر تاریخی لال قلعہ کے وسیع میدان میں پہنچا تو انگریز نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے البم پر غور کرتے ہوئے جس میں ہندوستان کے تاریخی مقامات کی تصاویر تھیں، کہا کہ:
'یہی تو لال قلعہ ہے اور تم ہم کو کوئی اور نام بتا رہا'۔
گائیڈ نے کہا کہ دیش دروہی لوگ اس کو لال قلعہ اور دیش بھکت لوگ امرت قلعہ کہتے ہیں۔ اب انگریز نے اسے قطب مینار کی تصویر دکھائی اور کہا 'ہم اسے دیکھنا چاہتا ہے قطب مینار کو'۔
گائیڈ نے کہا یہ قطب مینار نہیں گورَو استمبھ ہے۔ پہلے اس کے پرانگن میں بہت سے مندر تھے جنھیں آکرمن کاریوں نے توڑ دیا تھا۔ جب بھارت میں ایک دیش بھکت سرکار آئی تو اس نے ان مندروں کا جیروندھار کیا۔
'کیا کیا؟'
'ان کا دوبارہ نرمان کیا یعنی دوبارہ بنوایا۔'


انگریز جب قطب مینار پہنچا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہاں کا منظر اس کے خیالوں سے بالکل مختلف نکلا۔ اب اس نے ہمایوں کا مقبرہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ گائیڈ اسے ہمایوں کے مقبرے پر لے گیا۔ اس نے کہا اس کا نام ہمایوں کا مقبرہ نہیں بلکہ 'شیاما پرساد مکھرجی پریٹک استھل' ہے۔ اس طرح اس نے انگریز کو دلی کے بیشتر تاریخی مقامات دکھائے اور ان کی تاریخ کے ساتھ ان کے نئے نام بھی بتائے۔ انگریز مطمئن نہیں ہوا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس نے تو تاریح کی کتابوں میں ان مقامات کے بارے میں جو کچھ پڑھا تھا یہ گائیڈ تو اس سے الگ ہسٹری بتا رہا ہے۔


بہرحال اس نے گائیڈ کو تاج محل کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا 'ہم یہ دیکھنا چاہتا ہے تاج محل۔ ہم کو آگرہ لے چلو'۔ گائیڈ نے کہا:
یہ تاج محل نہیں تیجو مہالے ہے اور یہ آگرہ میں نہیں اگراون میں ہے۔
'جہاں بھی ہے ہم کو وہاں لے چلو'۔
وہ انگریز کو تاج محل دکھانے کے لیے آگرہ لے گیا۔ جب وہ تاج محل کے وسیع سبزہ زار پر پہنچا تو وہاں جگہ جگہ تخت بچھے ہوئے تھے جن پر پنڈت نما لوگ بیٹھے سیاحوں سے پوجا کرا رہے تھے۔ اسے بھی زبردستی ایک تخت پر بٹھا دیا گیا۔ پنڈت نے اس سے پوجا کرائی۔ پوجا مکمل ہونے کے بعد اس نے کہا ججمان دکشنا دیجیے۔
'کیا دیجیے؟'
'دکشنا، دکشنا'۔ گائیڈ نے رہنمائی کی۔ 'سر، اس کو پوجا کرانے کی فیس دیجیے'۔
جب اس نے فیس ادا کر دی تو پنڈت نے کہا اب آپ تیجو مہالے کے درشن کر سکتے ہیں۔ وہ بہت کبیدہ خاطر ہوا۔ گائیڈ لچھے دار انداز میں شروع ہو گیا اور تاج محل کی تاریخ بتانے لگا۔ اس کی تاریخ شناسی پر انگریز دنگ تھا۔ گائیڈ نے جو کچھ بتایا اس کا تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ذکر نہیں۔ وہ بالکل نئی تاریخ تھی۔


سیاح نے پھر فتح پور سیکری کا بلند دروازہ دیکھا۔ گائیڈ نے بتایا اس کا نام 'گولوالکر دوار' ہے۔ انگریز عہد مغلیہ کی جس عمارت کو دیکھنے کی خواہش کرتا گائیڈ اسے ضرور دکھاتا۔ لیکن وہ اس عمارت کی کوئی اور تاریخ اور کوئی اور نام بتاتا۔ انگریز سوچ رہا تھا کہ وہ تو انڈیا گھومنے آیا تھا۔ وہ انڈیا جسے اس نے 1947 میں نہرو، گاندھی، آزاد اور پٹیل کے حوالے کیا تھا۔ لیکن اسے وہ انڈیا کہیں نظر نہیں آیا۔
اس نے کہا:
'اچھا اب ہم جے این یو دیکھنا چاہتا ہے'۔


گائیڈ اسے جے این یو لے گیا جہاں دھوتی پوش اسٹوڈنٹس درختوں کی چھاؤں میں کتابیں پڑھ رہے تھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ اس کا نام 'آتم نربھر وشو ودیالیہ' ہے۔ یہاں کے ودیارتھی اور گرو سب آتم نربھر ہیں۔ یہاں کا سلیبس بھی آتم نربھر ہے۔ سارے سلیبس کو ملا کر ایک اکھنڈ سلیبس بنا دیا گیا ہے۔ سارے ودیارتھی ایک ہی پاٹھیہ کرم پڑھتے ہیں۔
سیاح نے پوچھا: 'اس پاٹھیہ کرم میں کیا پڑھایا جاتا ہے'؟
گائیڈ نے کہا کہ سب کو دیش بھکتوں کا لکھا ہوا اتہاس پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں بھارت ورش کی ہزاروں ورشوں کی ہندو گورَو گاتھا ہے۔ اس نے کچھ اور تعلیمی ادارے دکھائے جہاں کی عمارتیں اسلامی فن تعمیر کا نمونہ پیش کر رہی تھیں۔ لیکن وہاں بھی وہی منظر نظر آیا جو اس نے جے این یو میں دیکھا تھا۔
انگریز نے کہا 'عمارت بتا رہی ہے کہ یہ تو اسلامی مدرسے ہیں'۔
گائیڈ نے کہا کہ یہ پہلے وہی تھے لیکن اب انھیں ودیالیہ بنا دیا گیا ہے۔


'اچھا یہ بتاؤ کہ یہ ساری تبدیلیاں کس کے دور میں ہوئیں'؟
گائیڈ نے بتایا بھارت میں ایک سچا دیش بھکت شاسک آیا تھا جو ہندو ہردے سمراٹ تھا۔ یہ ساری ویوستھا اسی کے یُگ میں ہوئی ہے۔
اب انگریز سے نہیں رہا گیا۔ اس نے گائیڈ سے کہا:
'تمھیں معلوم ہے نا کہ ہم نے تم لوگوں پر بہت دنوں تک راج کیا ہے۔ تم ہم کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ یہ جو بدلاؤ ہوا وہ ہوا، لیکن تم مغل عمارتوں کی غلط سلط تاریخ بتا کر ہمیں بھٹکا رہا ہے۔ ہم کو سب معلوم ہے۔ یہاں آنے سے پہلے ہم نے ہسٹری کی کتابیں پڑھی تھیں۔ لیکن تم جو ہسٹری بتا رہا وہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا'۔


گائیڈ نے کہا آپ جس ہسٹری کی بات کر رہے ہیں وہ غلط ہسٹری تھی۔ ہم جو اتہاس بتا رہے ہیں وہی صحیح اتہاس ہے۔ آپ کی ہسٹری آپ لوگوں کی لکھی ہوئی تھی ہم جو ہسٹری بتا رہے ہیں وہ ہماری لکھی ہوئی ہے۔
انگریز نے جواباً کہا:
'صرف ہم نے نہیں بہت سے انڈینس نے بھی یہاں کی ہسٹری لکھی ہے جسے پورے ورلڈ میں رکگنائز کیا جاتا ہے'۔
گائیڈ نے پھر اصرار کیا کہ وہ صحیح اتہاس نہیں تھا۔ آپ لوگوں کی طرح بھارت کے وامپنتھی اتہاس کاروں نے بھی جھوٹا اتہاس لکھ کر ہم کو گمراہ کیا تھا۔ اب اتہاس کی غلطیاں ٹھیک کر دی گئی ہیں۔
انگریز نے اس گائیڈ سے کئی سوالات کر ڈالے۔ اس نے عہد مغلیہ کی متعدد عمارتوں کے نام لیے اور ان کے معماروں کے بارے میں پوچھا۔ لیکن گائیڈ، جس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا، ان سوالوں کے جواب میں یہی کہتا رہا کہ ہمیں نہیں معلوم۔ اس بارے میں ہمیں اسکولوں میں کچھ نہیں پڑھایا گیا۔
انگریز نے کہا:
'ہم نے 1947 میں تمھیں جو انڈیا دیا تھا اس کو تم نے تباہ کر دیا۔ ہم نے تو تمھیں آزادی دی تھی لیکن تم نے کیا کیا'؟
اب گائیڈ کو غصہ آگیا۔ اس نے کہا تم نے ہمیں آزادی نہیں دی تھی، بھیک دی تھی۔ آزادی تو 2014 میں ملی ہے۔ اب انگریز کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے کہا:
'تم نے ہمیں جو جھوٹی تاریخ بتائی وہ تم نے کہاں سے پڑھی'۔
گائیڈ نے کہا کہ ہم نے واٹس ایپ وشو ودیالیہ سے اتہاس میں شودھ کیا ہے جسے تم لوگ ریسرچ کہتے ہو۔


اب انگریز سے بالکل نہیں رہا گیا۔ وہ اسے چھوڑ کر کسی ایسے گائیڈ کی تلاش میں نکل پڑا جو اسے وہ انڈیا دکھا سکے جو وہ 1947 میں چھوڑ کر گیا تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلنے لگا کہ اچانک اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کناٹ پلیس کے اس ہوٹل سے باہر نکل آیا جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا۔
اس نے دیکھا کہ دلی تو وہی ہے جو پہلے تھی۔ وہ مطمئن ہو گیا کہ انڈیا بھی ویسا ہی ہوگا جیسا اسے ہونا چاہیے۔ اسے بدلنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ یہاں کے عوام کی اکثریت اس 'نیو انڈیا' کی حامی نہیں ہے۔ٖ


***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم

An encounter between an English tourist and a Sanghi guide. Article: Suhail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں