جمہوریت کو خطرہ ، پارلیمنٹ گونگی ! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-19

جمہوریت کو خطرہ ، پارلیمنٹ گونگی !

threat-to-democracy-parliament-is-muted

اب تک تو پی ایم نریندر مودی ہی ' میوٹ ' تھے ، لیکن اب پارلیمنٹ بھی ' میوٹ ' ہونے لگی ہے !
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ' زباں بندی ' کا کھیل اب اقتدار کے ایوانوں میں بھی کھیلا جانے لگا ہے ، اور یہ کھیل بی جے پی کھیل رہی ہے۔ ویسے اِن دنوں ہندوستانی سیاست میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، اسے دیکھ کر یہ تو کہنا ہی پڑے گا کہ راہل گاندھی نے پی ایم مودی کو اُن کے اپنے ہی کھیل میں چِت کر دیا ہے ! اور اس طرح سے چِت کیا ہے کہ راہل گاندھی کو ' پپّو ' ٹھہرانے کے لیے ، بی جے پی نے جو کروڑہا روپیے خرچ کیے ہیں ، وہ پانی میں چلے گیے ہیں۔ پانی میں اس معنیٰ میں کہ راہل گاندھی نے خود ہی پی ایم مودی اور ان کے وزراء کو ' پپّو ' بنا دیا ہے۔
کیسے ؟ اس طرح کہ راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا جو نعرہ لگایا جا رہا ہے ، وہ اُلٹا پڑ گیا ہے۔ کیوں کہ جواب میں کانگریس ، اپنی ساتھی سیاسی پارٹیوں سمیت ، پی ایم مودی سے معافی کےمطالبہ پر اَڑ گئی ہے۔ اڈانی معاملہ میں جوئنٹ پارلیمانی کمیٹی ( جے پی سی ) کے قیام کا مطالبہ تو پہلے ہی سے مرکزی حکومت کے سر پر لٹک رہا ہے۔


راہل گاندھی نے لندن میں کیمبرج یونیورسٹی اور برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے ، یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت میں جمہوریت خطرے میں ہے ، اور جو آئینی ادارے ہیں ان پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بولنے نہیں دیا جاتا ، مائک ' میوٹ ' ( Mute ) کر دیے جاتے ہیں۔
بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے یہ بھی کہا تھا کہ یوروپ اور امریکہ کو بھارت میں جمہوریت کی بدتر ہوتی صورتِ حال پر توجہ دینی ہوگی ، کیونکہ بھارت میں جمہوریت کے خاتمہ کے اثرات اِن پر بھی مرتب ہوں گے۔


راہل گاندھی نے برطانیہ کی اپنی تقریروں میں اڈانی معاملہ پر پی ایم مودی کی چپّی ، عدلیہ پر دباؤ بنانے کی کوششوں ، ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ اپوزیشن کو ڈرانے کی کارروائیوں کا اور آر ایس ایس کے فاششت ہونے کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ یہ بھارت کا ااندرونی معاملہ ہے ، اسے ' ہم لوگ ' دیکھ لیں گے ، یا اس سے ' ہم لوگ ' خود نمٹ لیں گے۔
یہ وہ پس منظر ہے جو راہل گاندھی کے خلاف بی جے پی کی ' معافی مانگو مہم ' کا سبب بنا ہے۔ بی جے پی اور مودی سرکار کا یہ کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے بیرون ملک میں ہندوستان کی ' توہین ' کی ہے ، اسے بدنام کیا ہے ، اس لیے راہل گاندھی دیش سے معافی مانگیں۔ لیکن اس 'معافی مانگو مہم' کی بنیادی وجہ آر ایس ایس پر حملہ اور اڈانی معاملہ کا ذکر ہے۔ راہل گاندھی نے برطانیہ میں کھل کر سنگھ کو فاششت کہا ، جو ظاہر ہے کہ سنگھیوں کے لیے ، جن میں بھاجپائی بھی شامل ہیں ، ناقابلِ قبول بات ہے۔
اسی طرح انہوں نے یہ کہہ کر کہ اڈانی معاملہ پر مودی حکومت نہ بحث کرانے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی انکوائری کرانے کے لیے ، مودی سرکار کی ' جمہوری اقدار ' کی نا قدری کو اجاگر کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بی جے پی اور مرکزی حکومت کے حلق سے اترنے والی بات نہیں ہے ، لہذٰا یہ ' معافی مانگو مہم ' ایک طرح سے آر ایس ایس کی جان بچانے کی بھی کوشش ہے اور اڈانی معاملہ کو پارلیمینٹ میں ' گونجنے ' سے بچانے کی بھی۔
اس کے لیے طریقۂ کار راہل گاندھی پر حملے کا اپنایا گیا ہے ، اور اس کے لیے ان کی لندن کی تقریروں کے چند حصوں کو ' بھارت کی توہین ' بتاکر ' معافی مانگو مہم ' شروع کی گئی ہے۔ لیکن راہل گاندھی کو نشانہ بنانے سے پہلے پی ایم مودی یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خود بیرون ممالک میں جاکر ایسی باتیں بول چکے ہیں ، جو اپوزیشن کی نظر میں ' بھارت کی توہین ' والی ہیں ، لہٰذا ان کا کھیل پلٹ کر ان کے ہی آڑے آ گیا ہے ، اور خود اُن سے معافی کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔


پی ایم مودی کی بیرون ممالک کی کئی تقریروں کے حصے اں دنوں سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہے ہیں جِن میں انہیں کہتے سُنا جا سکتا ہے کہ:
' لوگ کہتے تھے پچھلے جنم میں کیا پاپ کیا کہ ہندوستان میں پیدا ہوئے '
یا یہ کہ
' بھارت میں اب تک لوگ اندھیرے میں رہتے تھے '
یا یہ کہ
' اس ملک میں اس حکومت میں رکھا ہی کیا ہے؟'
کانگریس اور اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ اگر لندن میں جاکر ملک کی جمہوریت کی صحیح تصویر دکھانا ' توہین ' اور ' قوم دشمنی ' ہے تو پی ایم مودی کے مذکورہ جملے بھی ' ملک کی توہین ' ہیں۔


اس بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی نے ایک پی ایم کی حیثیت سے یہ باتیں کہی ہیں ، جبکہ راہل گاندھی محض رکن پارلیمینٹ ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مودی سے قبل کسی بھی پی ایم نے ، بشمول بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی ، بیرون ممالک میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کبھی اپنی زبانوں پر ایسے جملے نہیں آنے دیے ، جو ملک کی توہین کے مترادف ہوں یا جن سے ملک کی توہین کا کوئی پہلو نکل سکے۔


اس سارے معاملے میں اڈانی مرکزی کردار بن گئے ہیں۔ راہل گاندھی کے اڈانی پر حملے ، اور پارلیمینٹ ہی کے اندر پی ایم مودی سے دریافت کیے گیے سوالوں نے بی جے پی کو بھی ، مودی کو بھی اور ان کی حکومت کو بھی مشکلات میں لا ڈالا ہے۔ اب تک پی ایم مودی نے راہل گاندھی کے سوالوں کے جواب نہیں دیے ہیں ، بلکہ پارلیمینٹ میں ان کی زبان سے ایک بار بھی گوتم اڈانی کا نام نہیں نکلا ہے۔ اپوزیشن کی مانگ ہے کہ اڈانی معاملہ پر جے پی سی بنائی جائے۔ اس کے لیے حکومت تیار نہیں ہے ، اسی لیے پارلیمینٹ میں مودی اڈانی بھائی بھائی کے نعرے گونج رہے ہیں اور مودی سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ان کا اڈانی سے ایسا کیا رشتہ ہے کہ وہ ان کی جانچ کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اڈانی پی ایم مودی اور ان کی حکومت کے لیے اور بی جے پی کے لیے بھی گلے کی ہڈی بنتے جا رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر اڈانی سے پی ایم مودی کا کوئی رشتہ نہیں ہے تو وہ ' میوٹ ' کیوں ہیں؟ زبان کیوں بند رکھی ہے ، کچھ بولتے کیوں نہیں ہیں ؟ اس سوال میں ہی جواب چھپا ہے کہ پی ایم مودی اس لیے اڈانی کی جانچ نہیں کروا رہے ہیں کہ ان کا اڈانی سے رشتہ ہے۔ اور اگر جے پی سی کی جانچ ہوئی تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے۔
اسی لیے پارلیمینٹ میں ، لندن دورے کی تقریروں کے تعلق سے راہل گاندھی کو پارلیمینٹ میں بولنے کا موقعہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ بلکہ جب یہ نعرے لگتے ہیں کہ ' راہل کو بولنے دو ، راہل کو بولنے دو ' تو پارلیمینٹ ہی ' میوٹ ' ہو جاتی ہے ، گونگی بن جاتی ہے۔ اس سے راہل کی یہ بات ، جو انہوں نے لندن میں کہی تھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اپوزیشن کے مائک ' میوٹ ' کر دیے جاتے ہیں ، اور یہ جمہوریت کے لیے خطرے کی بات ہے۔


Threat to democracy, Parliament is muted

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں