حیدرآباد - ایک شہر ہزار داستان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-20

حیدرآباد - ایک شہر ہزار داستان

hyderabad-history-culture-traditions

شہر حیدرآباد اور اس سے وابستہ کچھ خوبصورت باتیں پیش خدمت ہیں۔
شہر حیدرآباد ایک ایسا شہر جو عشق کی خاطر وجود میں آیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے عشق کی داستان اس شہر سے جڑی ہے۔ اس داستان میں کتنی حقیقت ہے اس سے قطع نظر اس کے وجود پر نظر ڈالیں تو یہ شہر تو محبت اور محبت کرنے والوں کا شہر ہے۔ ایسا شہر جو محبت کے نام پر بنا ہو، وہ محبت سے خالی کیسے ہو سکتا تھا۔ جس کی بنیاد ہی محبت پر رکھی گئی تھی، ایسے شہر نے تو بسنا ہی تھا، پھلنا پھولنا ہی تھا۔
اگر اس شہر کی بنیاد محبت تھی تو اس کی بنیاد مملکت دکن کی قطب شاہی سلطنت کے پانچویں فرمان روا محمد قلی قطب شاہ نے 1591ء میں رکھی تھی اور یہ دعا کی تھی کہ:
میرے شہر کو لوگوں سے معمور کر
اور یہ دعا اس شہر کو یوں راس آئی کہ اس شہر میں جو آ گیا وہ یہیں بس گیا۔ اس شہر کی محبت اسے کہیں اور جانے کے قابل نہیں چھوڑا۔


2/ جون 2014ء کو ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جس نئی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اسی نئی ریاست تلنگانہ کا دارلحکومت حیدرآباد ہے۔ جس کی کل آبادی تقریباً دس (10) ملین ہے اور یہ شہر ملک کا چھٹا سب سے بڑا میٹرو پالیٹن شہر ہے۔ سطح مرتفع دکن موسی ندی کےکنارے بسا یہ شہرِ فرخندہ بنیاد جسے "موتیوں کا شہر" بھی کہا جاتا ہے، متعدد تالابوں سے بھرا پڑا ہے۔ جس میں حسین ساگر بھی ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ تالاب شہر کی تاسیس سے بھی کئی سال پرانا ہے۔


حیدرآباد شہر کی تاریخی عمارتیں

شہرِ حیدرآباد کی تاریخی و تفریحی عمارتوں کا جب ذکر کیا جائے تو چار مینار ،گولکنڈہ ، مکہ مسجد ، سالار جنگ میوزیم، فلک نما پیلیس ، سات گنبد، کنگ کوٹھی، چومحلہ پیلیس ، سالار جنگ میوزیم ،برلا مندر ، رامو جی فلم سٹی جیسی عمارتوں کے بغیر کوئی بھی ذکر ادھورا ہی رہے گا۔ یہ تمام عمارتیں آج بھی حیدآباد شہر کی پہچان ہیں۔ اور شہر کی عظمت رفتہ کی گواہ ہیں۔ اسی شہر میں نہرو زوالو جیکل پارک بھی ہے جہاں بچے بڑے یکساں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں ہر سال یکم جنوری تا پندرہ فروری کل ہند صنعتی نمائش بھی رکھی جاتی ہے جس میں ملک و بیرون ملک کے تاجرین اپنے اپنے اسٹالز لگاتے ہیں جس سے ان کے کاروبار میں فائدہ ہوتا ہے۔


حیدرآباد شہر کا فروغ اردو میں کردار

اس شہر نے آغاز سے ہی اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ جیسی اہم ترین لغت حیدرآباد میں ہی لکھی گئی۔ اردو کا سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہی تھا جس نے ہی حیدرآباد شہر کی بنیاد رکھی۔


حیدرآباد شہر اور میر عثمان علی خان

اگر حیدرآباد شہر کا ذکر کریں اور آخری بادشاہ نواب میر عثمان علی خان کا ذکر نہ ہو تو یہ کہانی ادھوری رہ جائے گی۔ میر عثمان علی خان دنیا کے امیر ترین شخص تھے جن کی دولت کا تخمینہ تقریباً 250 ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔ میر عثمان علی خان نے ہی حرمین شریف میں پانی اور بجلی کے انتظام کا شرف حاصل کیا اور حیدرآبادی شہریوں کے لیے دونوں مقدس مقامات پر زائرین کی خاطر رباط قائم‌ کیے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے مدارس کی سرپرستی ، علما کی خبر گیری ، ماہرین فن کی کفالت، اردو ادیبوں و شاعروں کی حوصلہ افزائی میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہے۔
جدید اسپتالوں کی تعمیر اور تعلیمی اداروں کے قیام جیسے رفاہی کاموں میں میر عثمان علی خان ہمیشہ سب سے آگے رہے۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ کی داغ بیل بھی ان ہی کے دور میں ڈالی گئی، جو کہ ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے۔ جامعہ عثمانیہ، جامعہ نظامیہ جیسی شاندار تعلیمی درس گاہیں ان ہی کے دور میں قائم ہوئیں۔ نواب میر عثمان علی نے دار الترجمہ قائم کر کے تقریباً ہر فن کی چار سو سے زائد کتب کا ترجمہ کروایا۔ حیدرآباد ہی میں وہ عظیم ا لشان اردو یونیورسٹی عثمانیہ یونیورسٹی بھی ہے جہاں انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کا ذریعہ اردو زبان تھا۔
میر عثمان علی خان کے ہی دور میں حیدرآباد شہر میں خود کی کاغذ سازی، پارچہ بانی، شکر سازی، سمینٹ کے کارخانے اور گھریلو صنعتیں سب موجود تھیں۔ حیدرآباد ریاست کی اپنی کرنسی، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، ہوائی اڈے، ریلوے لائینیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال سب اپنے موجود تھے۔


حیدرآباد شہر کی تہذیب و ثقافت

حیدرآباد شہر کی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت ہے۔ یہاں دکنی زبان بولی جاتی ہے۔ جو سننے میں کچھ لوگوں یا گروہوں کو مضحکہ خیز محسوس ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس زبان میں نہیں کے بجائے نکو کہا جاتا ہے اور ہاں کو ہاؤ اور پھر ہر لفظ کے ساتھ "اچ" لگا کر بولنا بھی عام ہے۔ لیکن بہرحال اس زبان کی اپنی علیحدہ مٹھاس ہے۔
یہاں کے پکوان عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں جس میں سرفہرست بریانی ہے۔ پھر حلیم ہے جو رمضان میں میسر ہوتی ہے۔ بکرے کے گوشت سے بنائی گئی اس حلیم کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔ نہاری، تندوری چکن، مٹن مسالہ، مرچیوں کا سالن، بگھارے بیگن، کھٹی دال، دَم کا قیمہ، دالچہ، بگھارا کھانا وغیرہ تو روزمرہ کے پکوان ہوتے ہیں۔ شہر حیدرآباد کے ذائقہ دار پکوان پر ہر کسی کی زبان چٹخارے لیتی نظر آتی ہے۔ یہ شہر متنوع پکوان اور مہمان نوازی کے لیے بھی بےحد مشہور ہے۔
اس شہر کی گنگا جمنی تہذیب بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے نظام ہندو اور مسلمان کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کرتے تھے۔ اور آج بھی حیدرآباد اپنی سیکولر تہذیب کی وجہ سے سارے ملک میں اپنا مقام بنایا ہوا ہے۔


پولیس ایکشن ۔۔۔ حیدرآباد شہر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب

جب پندرہ اگست 1947 کے دن ہندوستان کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی تو حیدرآباد ریاست کو ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن پھر ‌آگے چل کر اسی خود مختاری کو چیلنج کرتے ہوئے انڈین یونین کے سربراہوں نے 17/18 ستمبر 1948 کو "آپریشن پولو " کے کوڈ نام سے ہندوستان کی بری و فضائی فوج کے ذریعے چاروں طرف سے ریاست پر حملہ کر دیا اور یوں خود مختار مملکت کو ختم کر کے اس ریاست کو ہندوستان میں ضم کرنے کیلئے ریاستی دہشت گردی کی فضا قائم کی گئی۔ جس کے دوران لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ہزاروں خواتین کی عصمت دری کا سانحہ پیش آیا، سینکڑوں عبادت گاہوں کی بےحرمتی کی گئی۔ یوں فوجی ایکشن کے نام پر، غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً دس لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کیا گیا تھا جس کے لیے تاریخ آج بھی پُرنم ہے۔


آج کا حیدرآباد

حیدرآباد شہر جو دہلی کے زوال کے بعد برصغیر میں مسلم ثقافت کا سب سے بڑا مرکز اور مسلمانوں کی آماجگاہ تھا، مگر پولیس ایکشن کی وجہ سے اس پر مضر اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے باوجود حیدرآباد شہر نے اپنے آپ کو دوبارہ کھڑا کیا اور ایک زندہ قوم بن کر برصغیر کے نقشہ پر دوبارہ ابھرا۔ کئی سائنسدان ، اعلی قابلیت رکھنے والے انجینیرز ، آرکیٹکٹ ، اداکار ، شاعر ، ادیب، کھلاڑی اور ہر میدان میں اعلیٰ پایہ کے فنکار اس شہر سے نمودار ہوئے جنہوں نے چہار دانگ عالم میں حیدرآباد کا نام روشن کیا۔ اس شہر میں آج تک بھی پیار و محبت، جراءت و ہمت کے جذبات موجزن ہیں اور مذہبی و اخلاقی روایات کے پاس دار لوگ موجود ہیں۔ جو حیدرآباد شہر کے ہیرے موتی کی طرح ہیں۔


حیدرآباد شہر کی یہ داستان ایسی داستان ہے جس میں محبت ہے، عشق ہے، اپنے ملک سے وفاداری کا جذبہ ہے، اعلی اخلاق و اعلیٰ کردار ہیں۔ خلوص و محبت سے گندھا یہ شہر اپنی عظمت کا گویا منہ بولتا ثبوت ہے۔

***
سدرہ فردوس (حیدرآباد)
nfismailismail[@]gmail.com
A review on history and culture of Hyderabad. - Essay: Sidra Firdous

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں