اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے - مضمون از خان حسنین عاقب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-18

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے - مضمون از خان حسنین عاقب

iqbal-bhi-iqbal-se-aagah-nahi-hai

کیا اقبال ایک شاعر تھا؟
اگر وہ شاعر تھا تو وہ ایک عام شاعر تھا یا عظیم شاعر تھا؟
یا پھر وہ ایک مفکر تھا؟
یا پھر۔۔۔۔؟
سوچتے رہیے، سینکڑوں جوابات آیئں گے۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔
لیکن خود اقبال اپنے بارے میں ہر قسم کے اثبات و نفی سے بے نیاز تھا۔ اسی لیے اس نے یہ کہہ کردامن چھڑالیا کہ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔
کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے


اقبال اپنے اس فکر و نظر کا مبلٖغ اور داعی تھا جو اسے مومنانہ بصیرت اور فراست نے ودیعت کی تھی۔ اقبال سے قبل اسلام ایک ایسے مذہب کی شکل اختیار کر چکا تھا جسے بنیادی ارکان کی فرضیت کی تکمیل تک محدود کر دیا گیا تھا۔ اقبال اسلام کے اس روپ کا مجدد تھا جسے اس دین کے لانے والے پیمبر نے عربوں میں متعارف کروایا تھا اور جو فوراً اپنی حقانیت کی بنیاد پر عرب سے نکل کر سارے عالم کو مسخر کر چکا تھا۔ لیکن امتدادِ زمانہ نے اس روپ کو گہنا دیا تھا۔
کیا اقبال فلسفی تھا؟
شائد نہیں۔۔کیونکہ فلسفے کے متعلق اس کا ایقان تھا کہ:
فلسفہ رہ گیا ، تلقینِ غزالی نہ رہی۔
مگر اقبال کو فکرو فلسفہ کا شاعر کہا گیا اور تسلیم کیا گیا۔ اقبال صاحبِ نظر، صاحبِ بصیرت، صاحبِ شعور، صاحبِ ادراک، صاحبِ آگہی تھا۔ اس کی نظر افلاک کے اس پار تک جاتی تھی۔ مثل مشہور ہے۔
جو نہ دیکھے روی : وہ دیکھے کوی
یعنی جہاں تک روی ( سورج) کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اس سے آگے تک شاعر کا تخیل پہنچ جاتا ہے۔
اور اقبال تو اس سے تھی آگے کی چیز تھی۔
اس کی شاعری آوازِ جرس تھی ، جو پکارتی تھی کہ۔
معمارِ حرم ! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
اس کا آہنگ آفاقی تھا جب وہ کہتا تھا کہ:
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری


اس نے اپنی بصیرت کو اپنے مرشد مولانا جلال الدین رومی کی فکری نہج پر مرتکز کر رکھا تھا۔ یعنی بقولِ سعدی شیرازی۔
اے تماشہ گاہِ عالم ، روئے تو
تو کجا بہر ِ تماشہ می روی ؟
اسی بصیرت نے اقبال کو قلندرانہ مقام عطا کیا۔ اور اس امر کا اعتراف اس نے یہ کہہ کر کیا کہ:
خوش آگئی ہے جہاں دو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے؟ شاعری کیا ہے؟
یہ اس کی بے نیازی تھی خود کے تئیں۔ اور اس بے نیازی پر وہ خود حیراں ہوکر خود سے استفسار کرتا ہے کہ۔
کہاں سے تونے اے اقبال! سیکھی ہے یہ درویشی؟
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا۔
اس کی یہی بے نیازی اسے مسلسل محوِ جستجو رکھتی تھی کہ وہ اپنی ہستی ، اپنے وجود کی تہہ تک پہنچ سکے۔ یعنی۔
اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا۔
لیکن یہ وہ مقام تھا جہاں آکر اسے کچھ کچھ احساس اپنے وجود کا ہونے لگا تھا۔ اگرچہ یہ احساس نہ نظرِ غائر، ایک شاعرانہ تعلی سے زیادہ نہیں لگتا۔لیکن اس کے اس احساس میں تشکیک اور شبہ تھا۔
رازِ حرم سے شائد، اقبال با خبر ہے
ہیں اس کی گفتکو کے انداز محرمانہ۔
یہاں ـ ـ ـ شائد ـ.نے اسے یقین کی منزل سے دور رکھا اور پھر اقبال دہرانے لگا کہ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔
پھر اس کا تذبذب اسے ایک نئے موڑ پر لے آیا جس کا اظہار اس نے یوں کیا۔
مقامِ عقل سے آساں گزرگیا اقبال
مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فر زانہ
یہیں تک کر، ذرا ٹہر کر ، اس نے طنزیہ مطالبہ کیا کہ۔
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گری ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو۔


لیکن اس کا یہ طنزیہ مطالبہ سنجیدگی سے لیا گیا اور اس کے شوق کو رومی کی سالاری میں دے دیا گیا۔ یہاں اس نے خود کو مخاطب کرکے احساس دلایا۔
تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی۔
حالانکہ کچھ دیر پہلے ہی اقبال متذبذب تھا کہ قافلۂ حیات تو ایک عجیب معرکۂ گنجلک اور مجموعۂ اسرار ہے۔ جب وہ بولا کہ۔
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اِس دشت و در کو میں
لاؤں کہاں سے بندۂ صاحب نظر کو میں؟
حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں؟
لیکن اس کا جذبۂ شوق رومی کی سالاری کو تسلیم کر بیٹھا اور اس نے رومی کو اپنا مرشد قرار دے کر کہا۔
اے اماِمِ عاشقانِ دردمند
یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند


یہاں اس نے حرفِ بلند کو درسِ بلند کے معنی میں لیا ہے اور رومی کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہوئے اپنی فکر کے سوتوں کو رومی کی اس آبجو سے جا ملا یا جو کہہ رہی تھی کہ۔
جہد کن در بے خودی، خود را بیاب
زود تر واللہ اعلم با الصواب
حالانکہ اس کے سامنے متاعِ گفتار کے حامی کثیر تعداد میں موجود تھے۔
نایاب نہیں متاعِ گفتار
صد انوری و ہزار جامی
پتہ نہیں کیوں اس کی نظرِ انتخاب رومی پر جا ٹہری۔لیکن اپنی فکر کی سالاری کے لئے رومی کے انتخاب نے اس کے ذوق اور شوق کو تشنہ کام نہیں رہنے دیا۔ اس نے رومی سے اکتسابِ علم ِ روحانی کیا۔وہیں سے اس نے خدا کو سمجھا، خود کو جانا، خدائی کو پہچانا اور خودی سے متعارف ہوا۔خودی سے اس کے تعارف نے اس میں اس قدر اعتماد پیدا کردیا کہ اس نے ایک تصوراتی لیکن قریب القیاس واقعہ کے ذریعہ اپنی خود اعتمادی کا اظہار کردیا۔
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش


یہیں سے وہ لا شعوری طور پر خود آگاہی کی طرف ملتفت ہوتا رہا۔ لیکن اس کی یہ خود آگا ہی جنوں کا لبادہ اوڑھے رہی۔ وہ خود اپنی اس خود آگاہی کو جنوں سے تعبیر کرتا رہا۔
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں
وہ ہمیشہ اپنے جنوں کو عقل کی غلامی میں دینے سے بچتا رہا اور دوسروں کو بھی تلقین کرتا رہا کہ۔
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
اس کی خودی کو کبھی بھی پاسبانیء عقل کا احتیاج نہیں رہا۔اس کی نوا سنجی سے لالے کی آگ تیز ہوجایا کرتی تھی۔ اقبال کے دم سے جو ہما ہمی بنی ہوئی تھی، اس کے لئے اسے موردِ الزام ٹہرایا گیا اور فیصلہ کردیا گیا کہ۔
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
لیکن اقبال جیسا قلندر ایسے کسی فیصلے کو خاطر میں لانے والا کب تھا؟ اس کا جنوں تو ہنگامہ خیز تھا جس پر اسے ناز بھی تھا اور فخر بھی۔ اسی جنوں نے اس کی زباں سے دعوی کروایا کہ۔
محشر میں بھی خاموش نہ بیٹھے گا جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
پھر وہ اپنا رخ مندرجہ بالا فیصلے کی طرف موڑتے ہوئے فیصلہ کنندگان سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔
مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا
نسیمِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی
مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن
زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ہے ابھی


مرشدِ رومی نے اقبال کے اندر جو علمِ کیمیا بھر دیا تھا اس نے اقبال کے عجز و انکسار کو شعور و اعتبار میں تبدیل کردیا۔یہاں سے اس کا لہجہ بدلنے لگا۔ اب اس کے تشبہ نے اعتماد کی چادر اوڑھ لی تھی۔ اس نے اعتراف کیا۔
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگر چہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے با خبر ہےْ۔
لیکن اس جگہ وہ چوک گیا۔ وہ بھول گیا کہ فلسفے کے متعلق اس نے تو کہا تھا کہ۔
فلسفہ رہ گیا ، تلقینِ غزالی نہ رہی۔
پھر وہ سنبھل گیا کہ اس کی مراد موجودہ فلسفہ در معنیء رائج العام نہیں تھا۔ یہ کوئی ہیگل، برگساں، نطشے، گوئٹے یا مارکس کا فلسفہ نہیں تھا جس کی وہ بات کر رہا تھا۔ یہ تو اس کا اپنا، اس کے محبوب موضوع ، خودی کا فلسفہ تھا جس کا درس اس نے اپنے مرشد ِ رومی سے لیا تھا، جس کے بارے میں اس نے ایک دفعہ کہا تھا۔
گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک


اپنی خودی کے اس فلسفے کو وہ عام لوگوں کی نظروں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرتا رہا۔ اسے اندیشہ تھا کہ اس کے فلسفۂ خودی میں پوشیدہ پیام کو سطحی نظروں سے دیکھنے والے شائد سمجھ نہ پایئں۔ خود اس نے بھی دانستہ اس فلسفہ کی توسیع میں کچھ ابہام رکھ چھوڑے ہیں کہ آج تک اس کے فلسفۂ خودی کے شارحین نئے نئے پہلوؤ ں سے ا س کی تشریح کرتے رہے ہیں۔ جبکہ وہ خود کلامی کرتا ہے۔
اقبال ! یہاں نام نہ لے علم ِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
اس کا یہ سفر، خود فراموشی سے خود آگاہی کا سفر ، اسے اپنے ساتھ نہ جانے کتنی درس گاہوں ، خانقاہوں، مدرسوں، فلسفہ گاہوں، علم خانوں کی سیر کرواتا رہا، لیکن وہ ان سب کا شاکی رہا۔ اس نے بے با کی سے کہا:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ معرفت، نہ نگاہ
وہ مزید بولا۔
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا ، لا ا لہ الاللہ
یہ اس کی کوفت تھی جو اس کے تجربات و مشاہدات کو شعور و ادراک کے روزن میں داخل کر کے شعر بن کر جھانک رہی تھی۔ مگر وہ خود کو اسرارِ شعر کا محرم بتانے سے گریز کرتا رہا۔ اس نے کہا میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے ، تاریخِ امم جس کی ہے تفصیل
وہ شعر کہ پیغامِ حیاتِ ابدی ہے
یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگِ سرافیل

یہ سب اس کے شعور کی کارستانیاں تھیں جس نے اسے خود آگاہی سے آگے نکل کر خدا آگاہی تک پہنچنے کا حکم دے رکھا تھا۔ وہ خود کتنا عجیب تھا کہ جب جرمنی میں تھا تو پڑھائی تو فلسفہ کی کرتا تھا لیکن خلوتوں میں بھی اور جلوتوں میں بھی خودی کے جلووں میں گم ہوجاتا تھا۔ اس کی ساتھی عطیہ فیضی اسے جھنجوڑتی کہ اقبال! اٹھو، یہ یوروپ ہے۔ مادیت کے اس کارخانے میں تمہاری اس کیفیت کو یہاں کوئی نہیں سمجھے گا۔ وہ شانے جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوتا اور گنگنانے لگتا۔
صد کتاب و صد ورق در نار کن
سینہ را از عشق ِ او گلزار کن
پھر آسماں کی طرف دیکھ کر کہتا۔
کہہ جاتا ہوں میں زورِ جنوں میں ترے اسرار
مجھ کو بھی صلہ دے میری آشفتہ سری کا


بات پھر آجاتی ہے اس کے احساسِ آگاہی پر۔ وہ خدا مست و خود آگاہ تھا تو اس بات کا اقرار کیوں نہیں کرتا تھا اور۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔
کی رٹ کیوں لگائے ہو ئے تھا؟ شواہد ، اس کی شاعری ، اس کی خودی، سب مل کر اس کے احساسِ آگاہی کی غمازی کرتے تھے۔ مگر وہ خود اس قدر عجز سے کام کیوں لیتا تھا؟
شائد یہ اس کا اضطراب تھا۔ وہ مزید علم ، مزید آگاہی کا طلب گار تھا اور ربِ زدنی علما، کاوظیفہ پڑھتا رہتا تھا۔اور ما لا تعلم کا ورد کرتا رہتا تھا۔ کبھی وہ مظاہرِِ فطرت سے ہم کلام ہوکر کہتا کہ۔
اے بادِ بیابانی ! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی و سر مستی و رعنائی
ہاں ؒ! وہ یہی چاہتا تھا کہ اس کی آگاہی کا احساس اس کے دروں ہی میں پوشیدہ رہے اور وہ اپنی اس آگاہی کو خاموشی، دل سوزی ، سرمستی اور رعنائی کے نقاب میں چھپالیتا۔ اس لیے کہ اس کا ایقان صائب کے اس تصور پر بھی تھا کہ۔
ہماں بہتر کہ لیلی در بیاباں جلوہ گر باشد
ندارد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی
یعنی وہ خود اپنے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ۔
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب


مگر اس کی قلندری ، اس کی بے نیازی اور اس کے عجز سے زیادہ عرصہ تک تال میل نہیں بناسکی۔ اور پھر وہ قلندری ہی کیا جو فقر کی آغوش میں نہ پلی ہو! اور وہ فقر کون سا فقر تھا؟
کیا وہ فقر کا سۂ گدائی ہاتھ میں لیے گلی گلی گھومنے والا اور نانِ جویں کا سوال کرنے والا فقر تھا؟ نہیں۔ خود اس نے کہا کہ میرا فقر ، فقرِ گدایانہ نہیں ہے بلکہ فقرِ مومن ہے اور جب اس سے استفسار کیا گیا کہ فقرِ مومن کیا ہے؟ اس کا مفہوم واضح کرو ، تو اس نے جواب دیا۔
فقرِ مومن چیست ؟ تسخیرِ جہات
بندہ ا ز تا ثیرِ او ، مولا صفات
اس کا یہی وہ فقر تھا جس نے اس کی قلندری کی پرورش کی۔ اس کی یہ قلندری اسی کے بقول۔
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
اسے اس قلندری کا اس درجہ احساس تھا کہ اس نے اپنی آگاہی کے بہت سے شعبوں کو اسی سے معنون کیا اور کہا کہ۔
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تونگری سے نہیں
اس کی اس قلندری نے اسے تونگری سے دور دور ہی رکھا۔ یہاں تک کہ جب اس نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو صرف اتنا ہی کماتا جتنا اس کی اور اہلِ خانہ کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ جب لوگ ازراہِ عقیدت اپنے مقدمات اس کے پاس لاتے کہ آپ ہمارا مقدمہ چاہے جیتیں یا ہاریں، ہمیں کوئی غرض نہیں ، بس آپ ہمارا مقدمہ لیں۔ تو وہ صاف انکار کردیتا کہ میری ضروریات تو فی الوقت اسی سے پوری ہو جاتی ہیں۔ میں مزید مقدمات لے کر الجھن میں نہیں پڑنا چاہتا۔اور پھر وہ اپنا بقیہ وقت نہاں خانۂ لاہوت کی عقدہ کشائیوں کی نذر کردیتا۔ اس منزل پر پہنچ کر احتیاط کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتا کہ۔
میں بندۂ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلو ں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمر قند
وہ بھول جاتا کہ وہ تو ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔


پھر وہ اپنی آگہی کو علی الاعلان موضوعِ سخن کیوں بنارہا ہے؟ لیکن اس کی یہ آگہی مومنانہ آگہی تھی جس کا کبھی کبھی اعلان بالجہر بھی مستحسن و مفید مانا جاتا ہے۔ اس کے لیے مومن پر اس شرط کی تکمیل لازمی تھی کہ۔
تقدیر کے پا بند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الہی کا ہے پا بند
عمر میں اس سے اٹھارہ سال بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے جب پوچھا کہ اقبال ! تو جو مومن ، مومن کہتا رہتا ہے، مجھے بتا کہ مومن کی پہچان اور شناخت کیا ہے؟ تو وہ مسکرا کر بولا۔
نشانِ مردِ مومن با تو گو یم
چوں مرگ آید، تبسم بر لبِ اوست
اس کا مردِ مومن تب تک اس کی نظر میں مومن نہیں تھا جب تک وہ ایمان کے تین اجزاء یعنی قرآن، عشقِ محمد اور شریعت سے مکمل طور سے رجوع نہ ہوجائے۔ اس نے قر آنِ حکیم کو فکر و تدبر کا ما خذ مانا اور کہا۔
آں کتابِ زندہ ، قر آنِ حکیم
حکمتِ او ، لا یزال است و قدیم


اور اس نے قر آنِ حکیم کی صرف اتنی تعریف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر جہدِ حیات میں ایک مومن کے لیے اس کے لزوم کو یہ کہہ کر قطعیت دی کہ۔
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز نہ قر آں زیستن
اب اس نے قر آن کے بعد اس شئے کو لازمی قرار دیا جس کا اقرار خود اللہ نے کیا یعنی حبِ مصطفی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ حبِ مصطفی سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ قدرے بے نیاز ہوتا جارہا ہے۔ یعنی َ
عصرِ ما ، ما را، زِ ما ، بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفی بیگانہ کرد
اس لیے اس نے اسلاف کی روشِ مومنانہ کی بازیافتگی پر زور دیتے ہوئے کہا۔
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بو لہب
اور اپنے اندر اس عشق کی شعلگی کا احساس اس کو یوں تھا کہ۔
عشق در من ، آتشے افروخت است
فر صتش بادا کہ جانم سوخت است


اس کو محمدِ عربی سے اس درجہ عشق تھا کہ اس دنیا میں تو وہ جب جب ذکرِ احمد سنتا، اس کی آنکھوں سے اشکِ عقیدت رواں ہوجاتے۔ لیکن اس عشق کو اس کا تصور آخرت میں بھی ملحوظ رکھتا تھا۔ اس ایک دفعہ اللہ سے کہا۔
تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ محشر ، عذر ہائے من پذیر
تو اگر بینی حسابم نا گزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
اسے اتنا تو علم تھا کہ عشقِ محمد کے بغیر نہ زندگی میں کوئی لطف ہے نہ آخرت کا کوئی مزہ۔اور عشقِ محمد کا حصول راہِ محمد یعنی شریعت پر چلے بغیر ممکن نہیں۔اس لیے اس نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ اس کے شعروں اور اس کی شاعری کے توسطسے مسلمان شریعتِ محمدی کی اہمیت سمجھ لیں۔ اس نے بڑی متانت اور اخلاص کے ساتھ، یعنی پورے شرحِ صدر کے ساتھ کہا۔
با تو گو یم سرِ اسلام است شرع
شرع آغاز است و انجام است شرع


اس نے مسلمان کے قلبِ صمیم پر گویا ایک سرِ نہاں کو منکشف کردیا ہے۔ اس نے شریعت کے اتباع کو اسلام کا آغاز اور شریعت کے اتباع پر ہی ایک مومن کے لیے اسلام کا اختتام قرار دیا ہے۔ یہ اس کی آگہی نہیں تھی تو پھر کون سا امر تھا؟اس نے مزید آگے بڑھ کر شریعت کے اتباع
کی راہ پر چلنے کا طریقہ تھی بیان کردیا جب اس نے کہا کہ۔
چوں اسیرِ حلقۂ آئیں شود
آہوئے رم، خوئے او مشکیں شود
در شریعت، معنیء دیگر مجو
غیر ضو ، در باطن گوہر مجو


اس نے اہلِ ایمان عوام الناس کو اس رمز سے بھی آگاہ کردیا کہ شریعت کا اتباع کرتے وقت جس امر اور جس بات کا جو مفہوم نکلتا ہے اس سے وہی مراد لیا جائے۔اور شریعت میں غیر مطلوب قیل و قال سے مکمل پرہیز و اجتناب برتا جائے۔ جیسے کسی موتی کے باطن میں ہیرے کی روشنی ڈھونڈنی خلافِ عقل ہے ، اسی طرح شریعت میں کسی ایک مخصوص امر کے معنی وہی لئے جائیں جو اس شریعت کے وضع کنندہ کی منشاء کے مطابق ہوں اس کے نظر میں شریعت کا یہی مفہوم و مطلب تھا۔
یہاں سے اس کی آگہی کا سفر ایک ایسے مقام کی طرف رجوع ہوتا ہے جو باطنی شفافیت اور قلبی تطہیر سے آمیز ہوتا ہوا خواہشاتِ نفسانی کو زیر کرتا ہے اور ہوسِ انسانی کو اخلاص اور پاکیزگی کی چاشنی میں ڈبوکر اسے دنیا و ما فیہا سے بے نیاز کرکے صرف خالقِ حقیقی سے لو لگانے کی تحریک دیتا ہے۔ یعنی منزلِ آخرت !!!
یہاں بھی اس نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی اور خواہش ظاہر کی کہ۔
ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز
اپنے خالق سے دعا کرتے ہوئے وہ پہلے اسے اس کی رحمت کا حوالہ دے رہا ہے کہ اے میرے اللہ ! تیری رحمت تو سارے جہاں ، سارے عالم کو نوازنے والی ہے۔ اور میں بس اتنی آرزو رکھتا ہوں کہ اگر مجھے موت آئے تو سر زمینِ حجاز پر آئے۔ جہاں تیرا گھر ہے اور جہاں تیرا رسول محوِ آرام ہے۔تو میری اتنی آرزو پوری کردے۔ وہ مزید کہتا ہے۔
کو کبم را دیدۂ بیدار بخش
مرقدے در سایۂ دیوار بخش
تا بیاساید دلِ بے تابِ من
بستگی پیدا کند سیمابِ من


سر زمینِ حجاز پر موت آنے کی اس کی خواہش تو پوری نہ ہوئی لیکن اس کے خالق نے اس کے عوض اسے ایسی جگہ ، ایسا مقام اس دنیا میں عطا کردیا کہ اردو اور فارسی بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے تمام ممالک میں تقریباً ہر مسجد کے منبر ے، بلا تفریقِ مسلک و جماعت اس کے کلام ، اس کی شاعری اور اس کے نظریات کو بطور تفسیر و تشریح پیش کیا جاتا ہے۔کیا یہ کم بڑی بات ہے؟ پھر یہ احساس ِ آگہی کی کون سی منزل تھی
جہاں ایک خود آگاہ اور خدا آگاہ شاعر کہ رہا ہے کہ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
دراصل ، اس نے اپنی آگہی اور احساسِ آگہی کو اپنے اکتساب کردہ طرزِ حیات کے ما تحت کردیا تھا۔ اس کا ایقان بھی یہی تھا کہ کبریائی، علمِ جبروت اور ان سب کے دعوے، یہ سب خالق کو زیبا ہیں مخکو ق کو نہیں۔اس لیے وہ اپنے احساسِ آگہی سے نکلنے والی صدائے می دانم کو نمی دانم میں بدل دیتا تھا۔ جس کے کعد وہ پھر آواز لگاتا تھا کہ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔


ورنہ بچپن میں ایک مرتبہ جب وہ مدرسہ دیر سے پہنچا اور استاد نے اس سے اس تاخیر پر استفسار کیا، تو وہ یہ کیسے کہتا کہ اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔ اگر وہ آگہی کی برداشت و
تحمل کا مادہ نہ رکھتا تو ایک عظیم انسان اور ایک منفرد شاعر کیسے بنتا؟ اس کی آگہی اور اس آگہی کا ادراک و شعور، جیسا میں نے قبلاً عرض کیا ہے، قرآن، عشقِ نبی اور شریعت کی تفسیر تھا۔ اسی لیے وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ پایا اور اہلِ ایمان کو اسی زندگی کے رموز سے واقف کرواسکا۔ کہ۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
اسی خیال کو اس نے اردو سے فارسی میں منتقل کرکے کہا۔
زندگی جز لذتِ پرواز نیست
آشیاں با فطرتِ او ساز نیست
یعنی زندگی تحریک و حرارت سے عبارت ہے، قیام سے نہیں۔زندگی کی لذت پروازِ مسلسل میں ہے نہ کہ قیامِ آشیاں میں۔ اس سے قبل بھی وہ کہہ چکا تھا کہ۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اور اس نے زندگی کو سرِ نہاں مان کر اس پر یوں حجت تمام کی۔
زندگی جز قوتِ اعجاز نیست
ہر کسے دانندۂ ایں راز نیست
اس کا احساسِ آگہی اسے خموشی گفتگو ہے۔، بے زبانی ہے زباں میری ، کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ عوام الناس کی بہ نسبت بہت کچھ جانتے ہوئے بھی اعادہ کرتا رہتا تھا کہ
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے


میں نے اس کے احساسِ آگہی اور پھر اس کے اعلانِ عدم آگہی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے کلام کو ملحوظ رکھا ہے۔ ورنہ اگر میں صرف اردو کا کلام پیش کرتا تو شائد یہ جائزہ اتنا سیر حاصل اور اطمینان بخش نہ ہو پاتا جتنا اس کا تقاضہ ہے۔ میں اس جائزہ کو اقبال ہی کے اعترافِ گناہ پر ختم کرتا ہوں:
ترا گناہ ہے اقبال مجلس آرائی
اگرچہ تو ہے مثلِ زمانہ کم پیوند


***
خان حسنین عاقب
غلام نبی آزاد جونئر کالج آف ایجوکیشن، پوسد۔ مہاراشٹر
hasnainaaqib1[@]gmail.com

A review of Allama Iqbal's poetry. Essay: Hasnain Aaqib

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں