بجنوری تہذیب و ثقافت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-31

بجنوری تہذیب و ثقافت

bijnor-up

ضلع بجنور دریائے گنگاؔ کے بائیں جانب واقع ایک نہایت ہی سرسبز و شاداب اور قدرتی وسائل سے بارآور ضلع ہے۔ یہاں کی مٹّی نہایت ہی زرخیز (زراعت و شجرکاری/باغبانی، دونوں کے لحاظ سے) اور آب و ہوا بہت ہی نفیس ہے۔ ہر فصل میں کھیت جی بھر کر غلّہ دیتے ہیں۔ ہر چہار جانب پھلدار (بالخصوص آم اور امرود) باغات کا غیرمحدود سلسلہ آنکھوں کو فرحت بخشتا ہے۔ کچھ علاقوں میں خود رو قیمتی جڑی بوٹیاں بھی وافر مقدار میں اگتی ہیں حالانکہ اب چپّہ چپّہ پر کھیتی کیے جانے، اور کیمیاوی کھاد کے استعمال کی وجہ سے ان میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔


ضلع بجنور مختلف بستیوں کاایک ایسا سنگم ہے جو اردو زبان و ادب کا علمبردار رہا ہے۔ یہاں "کھڑی بولی" بولی جاتی ہے اور آزاد ہندوستان کے آئین میں جس زبان کو قومی زبان مانا گیا ہے وہ بھی اصل میں کھڑی بولی ہی ہے۔ "کھڑی بولی" نام اس کےکھراپن اور خوبصورتی کے پہلو کی نشاندہی کرتا ہے، یہ نام بھی اصل میں کھری بولی سے بگڑ کر "کھڑی بولی" ہو گیا ہے۔
بجنوری زبان کی جتنی صاف تصویر دیہات کی بولیوں میں دیکھی جا سکتی ہے کتابوں اور شہروں کی زبان میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ ضلع بجنور کےاندر تین ہزار پچپن گاؤں ہیں اور ان گاؤں میں تقریبا پینتالیس فیصدکسان ہیں اسلئے کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے ہی اس بولی کا خزانہ بنا ہے۔


یہاں کی بولیوں میں سنسکرت، پنجابی،انگریزی کےساتھ ساتھ عربی، فارسی وغیرہ کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں کی بولی میں الفاظ کو مشدد بولنےکی عادت دوسرے علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے مثلاً میں روٹّی کھاتّا، لوٹّا دیدّے، چاقّو دیدّے وغیرہ۔
ضروری الفاظ کےساتھ غیرضروری الفاظ کااستعمال بھی ضلع بجنور کی بولی میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جیسے: کھانا وانا، کھاٹ واٹ، لوٹا ووٹا، بالک والک، ساڑی واڑی وغیرہ یہاں کی عام زبان میں کافی حد تک شامل ہے۔ عام بول چال میں یہ بات نہ صرف راسخ و نمایاں ہوگئی ہےبلکہ اس حدتک پسندکی جاتی ہے کہ شہر کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس کو اپنائے ہوئے ہے۔


راقم ضلع بجنورکےایک چھوٹےسے گاؤں شاہ علی پور کوٹرہ عرف گانوڑی سےتعلق رکھتا ہے۔ یہ گاؤں بڑھا پور سے سے تقریباً سات کلومیٹر مسافت پر واقع ہے۔ اس گاؤں کےچہار جانب سرسبز و شاداب کھیت، باغات اور مختلف قسم کے بارآور درخت قطار در قطار شاہراہوں کےدونوں کناروں پر ایک الگ ہی فرحت کا سامان مہیا کراتے ہیں۔ ایک وقت تک یہاں کےلوگ اپنےکھیتوں میں خالص دیسی چیزوں کےذریعہ ہی خورد و نوش کی اشیاء اگاتے تھے۔ مگر اب جدید کیمیاوی دوائیاں استعمال کرنے لگے ہیں، جس کی بناء پر اس لذت سےمحروم ہو گئے جو خالص چیزوں کےذریعہ اگانے پر ملتی تھی۔


یوں تو بجنور اردو ادب کاعلمبردار رہاہے لیکن اردو کے اس دورِ انحطاط میں جب معاملہ یہاں تک آن پہنچا کہ اردو کے نام سے بنائی جانے والی تنظیم "ریختہ" پر اردو برائے نام باقی رہ گئی ہے، تنزلی کی اس سے بڑی کیا دلیل ہوگی کہ ریختہ کے پروگرام میں جہاں اردو کی کتابیں ہونی چاہئے تھیں وہاں اب انگلش کی کتابیں مزین ہیں، اور اردو کےنام پر ہونےوالے پروگراموں کے بینر بھی ہندی اور انگلش میں عام طور پر دکھائی دینے لگے ہیں، یہ حال تو اردو کی حفاظت کرنےوالوں کا ہے، سو ہمارے دیہات میں اردو کےترویج کیسے ہوگی؟
راقم نے سن شعور سے لے کر اب تک بہت سے اور عمدہ قلم کاروں کو تو دیکھا مگر باقاعدہ اردو ادب کا کورس کرنے والوں کو نہیں دیکھا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میرے علاقے کے لوگ اردو سےنابلد ہیں بلکہ اچھے اچھے اردو پڑھنے اور لکھنے والے موجود ہیں جو اپنے فن و ادب کے ماہر کہلاتے ہیں۔


***
محمد خضر بجنوری (بجنور)
www.khizar9720[@]gmail.com
The culture of Bijnor. - Essay: Khizar Irshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں