شہر مئو - تہذیب و ثقافت کی ایک جھلک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-31

شہر مئو - تہذیب و ثقافت کی ایک جھلک

mau-city

علم و فن کی سرزمین شہرِ مئو علمی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے کبھی یہ شہر سہیل و شبلی کے شہر اعظم گڈھ کا حصہ ہوا کرتا تھا آج بھی مئو شہر میں کثرت سے بزرگ اہل علم کا لقب اعظم گڈھ کی طرف نسبت کرکے اعظمی دیکھنے کو ملتا ہے فضا ابن فیضی نے کہا ہے
خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضا
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا


مدارس و مساجد کی کثرت اس شہر کی پہچان رہی ہے، ملک کے اکثر علاقوں سے طلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے اس شہر کا رخ کرتے ہیں اگر کہا جائے کہ ملک کے تمام بڑے مدارس جامعہ سلفیہ بنارس، ندوۃ العلماء لکھنؤ ، دیوبند، دارالسلام عمرہ آباد، جامعہ محمدیہ مالیگاوں وغیرہ کسی نہ کسی طور پر مئو کی علمی شخصیات سے فیض یاب رہے تو بےجا نہ ہوگا، شہری لوگوں میں ایک اچھی تعداد علماء و حفاظ کی ہے جو شہر کی مساجد پر (بغیر اجرت) امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں، رمضان میں تراویح کے لئے بھی مقامی حفاظ کی ہی خدمت لی جاتی ہے پھر بھی بہت سے حفاظ کو مسجد نہیں ملتی تو وہ دوسرے شہروں میں چلے جاتے ہیں۔


رمضان المبارک میں شہر کی رونقیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں دینی ماحول شہر کی فضا میں رچا بسا ہے، عورتیں پردے کا بہت اہتمام کرتی ہیں ان کی دینی و عصری تعلیم کے لئے بھی جگہ جگہ نسواں مدرسہ و اسکول قائم ہیں مئو میں شرح تعلیم 2011 کی مردُم شُماری کے مطابِق 75٫16 % ہے جو قومی شرحِ تعلیم سے زیادہ ہے۔ اِس میں مردوں کی شرح 84٫61% اور عورتوں کی شرحِ تعلیم 65٫59 %ہے۔ اس کو یہاں تک پہنچانے میں مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اب بہت سے انگلش میڈیم اسکول و کالج بھی قائم ہوچکے ہیں عصری علوم کے لئے طلبہ طالبات اس کا رخ کرتے ہیں، دینی تعلیمی و تربیت کے لئے شہر میں کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو مسابقہ، تربیتی کورس، علماء کے دروس، عورتوں کے لئے دینی پروگرام، کے ذریعہ دین کی نشر واشاعت کا کام کرتی ہیں۔


عام طور پر مدارس کی تعلیم اردو میں ہوتی ہے اس زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ شہر اردو تعیلم میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے، دینی و علمی فضا کے ساتھ ساتھ ادبی فضا بھی کافی خوشگوار ہے، ماضی میں ترقی پسند تحریک کے زیراثر کئ جلسے جلوس، کانفرنسیں اور مشاعرے بھی ہوئے اردوزبان کی بقا اور تحفظ کے لیے متعدد مقامی انجمنیں اپنی خدمات انجام دیں اور اب دے رہی ہیں” بقول مشہور افسانہ نگار رام لعل اور حیات اللہ انصاری مئو ناتھ بھنجن میں جتنے بڑے مجمع کے سامنے ہم نے افسانے پڑھے اور داد پائی وہ ہماری زندگی کا یادگار موقع تھا پھر زندگی میں اتنے کثیر مجمع کے سامنے افسانہ سنانے کا موقع کبھی نہیں ملا“ (مئو شہر ہنروراں) کل ہند اور علاقائی مشاعروں کا بھی پہلے کافی رواج رہا جو اب بالکل نہ کے برابر ہے بلکہ اس کی جگہ اب نششت کا چلن عام ہوچکا ہے، فضا ابن فیضی، اثر انصاری، ماہر عبد الحئی، عبدالحکیم مجاز آعظمی، اچانک مئوی وغیرہ مئو کے اہم شعراء اکرم میں سے ہیں۔


19 نومبر 1988 کو علاقائی ممبر آف پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر کلپناتھ رائے کی جدوجہد سے ایک الگ ضلع کے طور مئوشہر کا قیام عمل میں آیا ہے،شہر کی ترقی کے لئے تین اوور برج، کلکٹریٹ کمپلیکس، پولی ٹیکنیک، آئی ٹی آئی، ڈسٹرکٹ جیل، زرعی تحقیقاتی مرکز، دوردرشن مرکز، کیندریہ ودیالیہ، مئو ریلوے جنکشن ، درجنوں ٹیلی کمیونیکیشن مراکز، نصف درجن پاور سب اسٹیشن، وکاس بھون کی تعمیر یہ سب ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔


دریا ٹونس کے دکھن میں آباد مئو شہر کی آبادی کی تاریخ ملک قاسم، ملک طاہر بابا اور ان کے رفقاء کی تشریف آوری سے مانی جاتی ہے جو مشہور بزرگ سید سالار مسعود غازی کے شاگر تھے کہا جاتا ہے کہ یہاں شرکش نٹ رہا کرتے تھے جو دریا کے راستے پر سفر کرنے والوں کو پرشان کرتے ان کی سرکوبی کے لئے آئے تھے محاذ آرائی ہوئی، مارے گئے اس طرح سے شہر کا نام مئو نٹ بھنجن (چھاؤنی جہاں نٹ کا بھنجن یعنی ناش ہوا) پڑاجو آگے چل کر مئو ناتھ بھنجن ہو گیا، شہر کے وسط میں محلہ ملک طاہر پورہ، ملک قاسم پورہ کا ان کا روضہ، اس کی طرف نسبت کرکے روضہ بازار آج بھی واقع ہے ہر سال سید سالار مسعود غازی کی طرف نسبت کرکے کے غازی میاں کا میلہ شہر کے مختلف جگہوں پر لگتا ہے جس کو مقامی زبان میں” صحبت کا میلہ “بھی کہا جاتا ہے عام طور پر قریشی برادری کا میلہ مانا جاتا ہے لیکن ہر برادری کے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں خاص کر بچے جوش و خروش کے ساتھ جاتے ہیں، کھانے پینے کی چیزیں زیادہ خریدی جاتی ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مئو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چھاؤنی یا پڑاؤکے ہوتا ہے، شیرشاہ سوری اور اورنگ زیب جیسے نامور بادشاہوں نے اس شہر کو چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا، شیر شاہ سوری ذریعہ ٹونس ندی پر بنوایا گیا پل ، محلہ کیاری ٹولہ جہاں 1629 میں شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم کے ذریعہ شاہی کٹرہ کی جامع مسجد اور اس کے آس پاس سو فوجی کوٹھری کے نشانات اب بھی موجود ہیں اس کے قریب پاس زیادہ تر بار برادری (جو گھوڑے، خچر، گدھے سے سامان ڈھوتے ہیں) کے لوگ آباد ہیں جو فوجیوں کے ساتھ آئے تھے یہیں آباد ہوگئے بار برادری ان کا پیشہ ہے جس پر اب بھی سختی سے قائم ہیں تعمیرات وغیرہ میں اینٹ، مٹی بالو ڈھونے کا کام کرتے ہیں ان میں سے بعض نے دھوبی کا پیشہ اختیار کرلیا یہ لوگ بڑے سحر خیز ہوتے ہیں فجر سے پہلے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں آمدورفت تک کام کرتے ہیں کیونکہ آمد و رفت کی وجہ سے سامان ڈھونے میں دقت ہونے لگی ہے باقی وقت میں یہ لوگ دوسرے چھوٹے موٹے کام بھی کرتے ہیں جمعہ کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کی اس دن کام نہیں کرتے ان کے رسم و رواج، رہن سہن کے طریقہ مقامی لوگوں سے مختلف ہے زبان و لہجہ کا بھی بہت فرق ہے یہ لوگ اب شہر کے مختلف محلوں میں جاکر آباد ہور ہے ہیں۔


یہ شہر جہاں ایک طرف علم و دانش کا مرکز رہا وہیں دوسری طرف فن و ہنر میں بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے ہے پارچہ بافی (بنائی) کی صنعت پر ٹکا ہوا یہ شہر آپنے پڑوسی ضلعوں سے مختلف تہذیب و ثقافت کا مالک ہے، معاشی طور پر یہ شہر قریب پاس کے شہروں سے کافی مضبوط ہے،یہاں کی اکثریت محنت کش بنکر کی ہے بے جو ساڑھی کی بنائی یا اس کے متعلق کسی نہ کسی کام سے وابستہ ہے. لوم (ساڑھی بننے کی مشیں) تقریباً ہر گھر میں ہے مسلم محلوں میں جگہ جگہ جگہ غیر مسلم گھر بھی آباد ہیں غیر مسلم لوگ بھی ساڑھی میں بوٹی کاٹنے، ستارہ موتی لگانے یا جھالر وغیرہ باندھنے کا کام کرتے ہیں، لین دین کی وجہ غیر مسلموں تعلقات کافی مضبوط ہے تہوار، شادی بیاہ، دوسرے اہم مواقع پر پر آپسی میل ومحبت والا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔


مردوں کی طرح عورتیں بھی محنتی ہوتی ہیں، بُنائی میں ان کو بھی مہارت حاصل رہتی ہے، جس وجہ سے شادی بیاہ جو سماج کا ایک اہم حصہ ہے آپس میں ہی طے پاتا ہے، لیکن ادھر کئی سالوں سے شادی طے کرنے میں سرپرست حضرات کو بہت دقت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لڑکی والے اپنی لڑکی کو جس گھر میں لوم ہو اس میں دینے سے کتراتے ہیں، شادیاں دوسرے شہروں کے مقابلہ میں کافی سادہ ہوتی ہیں، بارات وغیرہ کا رواج اکا دکا دیکھنے میں آتا ہے جس کے گھر شادی ہوتی ہے اس کے پاس پڑوس میں کھانے، پینے کا انتظام کردیا جاتا ہے، کھانے میں نان، سالن والا بڑے گوشت، اور لمبا چاول بنایا جاتا ہے کھلانے، پیلانے کے فرائض اکثر دوست، رشتہ دار، محلہ کے لوگ ہی انجام دیتے ہیں لیکن اب کئی میرج حال شہر کی زینت بن چکے ہیں اور بہت سے فضول رسم و رواج اپنے پیر بسار چکے ہیں۔


علمی، تاریخی، تجارتی اور یکجہتی کئ صفات کے حامل اس شہر لوگ نہایت سادھ، ملنسار اور خوش مزاج ہیں، شہر اور گاؤں کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے لوگوں کا لباس عام طور پر لنگی شرٹ یا لنگی کرتا ہے جو ہر طبقہ کے لوگ پہنتے ہیں نوجوان میں پینٹ، شرٹ کا چلن زیادہ ہے تہواروں کے موقع کرتا، پےجامہ، اوپر سے صدری پہنی جاتی ہے عورتیں گھر میں شلوار، جمل زیادہ پہنتی ہیں، تیوہار یا شادی بیاہ کے موقع پر نیا کپڑا ریڈی میڈ یاخود سے تیار کیا ہوا، کُرتی، فراق یا لہنگا وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے
جہاں تک تعلق ہے کھانے پینے کا تو یہاں کے لوگوں کی پہلی پسند بڑے گوشت ہے، محنت کرنے وجہ سے گوشت کھانے کا زیادہ رواج ہے کم سے کم ہفتہ میں دو تین دن گوشت ضرور کھاتے ہیں تقریباً ہر محلہ میں گوشت کی دوکان ملتی ہے یہاں کی مشہور ڈش انگشتی ہے جو جاڑے میں بنائی جاتی ہے، گھر کی بہن، بیٹی کو بلایا جاتا ہے مل کر بناتے ہیں، سادہ قیمہ کو مسالہ، تیل ملا کر لوہے کی سیخ میں دال کر کوئلہ پر بھونا جاتا ہے، ساتھ میں آٹے کو بھی سیخ میں لپیٹ کر کوئلہ پر بناتے ہیں اس کو انگیٹھی کہا جاتا ہے پھر دونوں اوپر سے تیل (جس میں پیاز کو کاٹ خوب اچھی طرح کھولا دیا ہے) ڈال کر ایک ساتھ مل دیا جاتا ہے ، بعض جگہوں پر سوہا، دھنیا، مٹڑ بھی ڈالی جاتی ہے۔


دوسرے گاؤں بستی کی طرح مئو کی بھی جدگانہ مقامی بولی ہے لب و لہجہ کا انداز آس پاس سے کافی فرق ہے یہاں تک کہ جگہ جگہ آباد غیر مسلموں کے زبان و لہجہ سے بھی مقامی لب و لہجہ میل نہیں کھاتا آعظم گڈھ کے ایک شخص کا تبصرہ کچھ اس انداز سے رہا ہے کہ مئو کے لوگ بولتے ہیں تو ان کے لہجے میں ایک طرح کا میٹھاس ہوتا ہے “بولنے میں زیادہ تر اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں مقامی زبان میں، گوشت، کو گوش، مسجد، کو مجد، ز کا جگہ ج کا استعمال بھی کرتے ہیں جیسے بازار کو بجار بولتے ہیں، بہت سے گھروں میں اب مقامی زبان چھوڑ کر اردو بولنے کارواج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔
یہ لوم و علوم کے شہر کی تہذیب و ثقافت کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس کو مختصر الفاظ میں سمیٹنے کی چھوٹی سی کوشش کہی جا سکتی ہے۔

***
عبدالعزیز ابن سعد (مئو، اترپردیش)
ای-میل: abdulazizmau[@]gmail.com

Mau, a city of Uttar Pradesh state. Essay: Abdul Aziz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں