راہل گاندھی اور دخترِ سنجیو بھٹ کی مودی پر یلغار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-12

راہل گاندھی اور دخترِ سنجیو بھٹ کی مودی پر یلغار

برطانیہ سے راہل گاندھی اور امریکہ سےسنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ کی مودی پر یلغار !
اس بار بات سنجیو بھٹ کی بھی ہوگی اور راہل گاندھی کی بھی

راہل گاندھی کا ذکر اس لیے کہ انہوں نے برطانیہ میں مودی کی حکومت کے خلاف جو محاذ کھولا تھا وہ اِن دنوں ملک میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے ، اور لگ یہ رہا ہے کہ برطانیہ میں راہل گاندھی نے جو ' باتیں ' کی ہیں ، ان سے بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے !
اور سنجیو بھٹ کا ذکر اس لیے کہ ان کی بیٹی آکاشی بھٹ نے بھی بھارت سے دور امریکہ میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو نشانہ بنایا ہے ، وہ بھی زوردار نشانہ۔ یوں سمجھ لیں کہ آکاشی بھٹ نے جو باتیں کہی ہیں ، وہ تندی اور کاٹ میں ، راہل گاندھی کی باتوں سے کم نہیں۔


راہل گاندھی نے جو کچھ برطانیہ میں کہا ، اس کا ردعمل شدید ہے ، اس قدر شدید کہ راہل گاندھی کی دیش بھکتی نشانے پر آ گئی ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار شدید ردعمل کو ہی بی جے پی کی بوکھلاہٹ کہہ رہے ہیں۔ اور کانگریس اور غیر جانبدار میڈیا کا بھی یہی ماننا ہے۔ کانگریسی ترجمانوں کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کو راہل گاندھی کی ' سچ بیانی ' ہضم نہیں ہو پا رہی ہے ، اس لیے اس نے ، راہل گاندھی پر بےبنیاد الزامات تھوپنے شروع کر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ اِن دنوں بی جے پی کا سارا میڈیا سیل ، اور سارے وزراء و کارکنان راہل گاندھی کو پانی پی پی کر کوس رہے ہیں۔ کوسنے کی شروعات سابق مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کی تھی ، ان کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی نے برطانیہ میں اپنی باتوں سے بھارت کی توہین کی ہے ، ملک کو بدنام کیا ہے۔
حالیہ وزیر قانون کرن رجیجو نے تو راہل گاندھی کو اُن کے بیانات کی روشنی میں ' خطرناک ' قرار دے دیا ہے ، اور انہیں ' پپو ' کہتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ بیرون ہند کوئی یہ نہیں جانتا کہ راہل گاندھی ' پپو ' ہیں ، اس لیے ان کے بیانات کا استعمال بھارت کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے ،جو راجیہ سبھا کے چیرمین بھی ہیں ، غیرجانبدار رہنے کی بجائے راہل گاندھی کو نشانے پر لے لیا ہے۔ جگہ جگہ بی جے پی چیخ رہی ہے کہ راہل گاندھی نے بھارت کو بدنام ہی نہیں کیا ، انہوں نے امریکہ اور برطانیہ سے کہا ہے کہ وہ بھارت کے معاملات میں مداخلت کریں ، لیکن ' ہم کسی دوسرے ملک کی اپنے معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔'


یہ سارا ہنگامہ صرف دو باتوں کی وجہ سے ہے ، ایک تو اس لیے کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کی سرزمین پر آر ایس ایس کو ایک فاششت تنظیم کہہ دیا ، اور دوسرا اس لیے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ بھارت میں جمہوریت خطرے میں ہے ، اور مودی کی حکومت منظم ڈھنگ سے جمہوری و آئینی اداروں پر قبضے کر رہی ہے ، انہیں تباہ کر رہی ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور سارا یوروپ ' جمہوریت ' کے معاملہ میں بےحد حساس ہے ، اور راہل گاندھی جیسے ایک بڑے کانگریسی لیڈر کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات کہ 'مودی کی حکومت بھارت میں جمہوریت کے لیے خطرہ بن گئی ہے' ، امریکہ اور یوروپ کو سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کم از کم کچھ اور نہیں تو مودی حکومت کی جو ساکھ ہے اس پر بٹّا تو لگا ہی سکتی ہے۔ اور مودی سرکار یہی نہیں چاہتی کہ اس کی ساکھ بیرون ملک خراب ہو۔


ایک بات مزید سمجھ لیں ، راہل گاندھی کو برطانوی پارلیمنٹ اور کیمبرج جیسی دنیا کی انتہائی معتبر و موقر یونیورسٹی میں ،جس عزت و احترام سے خوش آمدید کہا گیا ، وہ بھی بی جے پی کے لیے کڑوی گولی کی مانند ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے حالیہ دنوں میں مودی حکومت اور بی جے پی کو ، یکے بعد دیگرے ، جس طرح سے گھیرا ہے ، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مودی اینڈ کمپنی کے لیے 2024 کا الیکشن اس قدر آسان نہیں ہوگا ، جس قدر آسان کہ اسے سمجھا جا رہا ہے۔ برطانیہ دورے سے قبل راہل گاندھی نے ' بھارت جوڑو یاترا ' کے ذریعے مودی سرکار کو گھیرا ، بلکہ بوکھلاہٹ میں مبتلا کیا ، پھر ' ہنڈن برگ ریسرچ ' نامی ایک امریکی شارٹ سیلرفرم کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد گوتم اڈانی اور نریندر مودی کے ' رشتے ' پر سوالیہ نشان لگایا۔ اور انہوں نے پارلیمنٹ میں جو سوالات رکھے تھے ، آج تک پی ایم مودی ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکے ہیں۔


اور اب انہوں نے برطانیہ میں مودی حکومت کو جمہوریت کے لیے خطرہ بتا کر بی جے پی کے سامنے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ گویا یہ کہ بھارت کے اندر بھی اور بھارت کے باہر بھی ، راہل گاندھی منظم انداز میں مودی حکومت اور بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اور آنے والے دنوں میں یہ جنگ بہت دلچسپ رخ اختیار کر سکتی ہے۔ دلچسپ اس معنی میں کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ای ڈی اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کا بےدریغ استعمال شروع کر دیا ہے ، اس قدر اندھا دھند استعمال کہ ساری اپوزیشن اس کے خلاف متحد ہو رہی ہے ، اور کانگریسی صدر کھڑگے کو کہنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ ' اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ '


راہل گاندھی کی باتوں میں رہ گئی کسر کو ، سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ کی باتوں نے پوری کر دیا ہے۔ گجرات کے فسادات پی ایم مودی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ مہینہ بھر پہلے گجرات کے فسادات پر بی بی سی کی ایک ڈاکیومینٹری آئی تھی ،جس پر مودی کی حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ لیکن وہ ڈاکیومینٹری دنیا بھر میں دیکھی گئی ہے ، بشمول ہندوستان۔
گزشتہ دنوں امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں ' امریکن مسلمس کاؤنسل ' نامی ایک تنظیم اور ' نیشنل پریس کلب ' کے اشتراک سے ایک تقریب میں وہ ڈاکیومینٹری دکھائی گئی اور گجرات کے 2002 کے فسادات کو یاد کیا گیا۔ سنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ اس تقریب میں موجود تھیں۔ آکاشی بھٹ نے بہت سی باتیں کہیں ، جن میں یہ بات بھی تھی کہ:
" امریکی صحافی بنا گرفتاری یا مارے جانے کے خوف کے، آزادی کے ساتھ مودی کے بارے میں بول سکتے ہیں۔ امریکی حکومت بھی ایسا ہی کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھلا کیوں مودی کا سرکاری اعزاز کے ساتھ یہاں استقبال کیا جاتا ہے ؟"
آکاشی بھٹ نے مزید کہا کہ:
" بی بی سی ڈاکیومینٹری تو بس ایک جھلک ہے۔ قتل کی یہ وارداتیں فوری نہیں منصوبہ بند تھیں۔ فسادات تین دن تک نہیں تین مہینے تک ہوتے رہے۔ جو جانیں گئیں ان پر پولیس کو کوئی افسوس نہیں تھا۔ پولیس نے نہ صرف یہ کہ اپنے فرائض سے روگردانی کی ، بلکہ فسادیوں کی ، مسلمانوں کو قتل کرنے اور ریپ کرنے میں مدد دی ، انہیں اکسایا۔ اور یہ سب صرف ایک شخص نریندر مودی کے سیاسی عزائم کی وجہ سے ہوا۔"


آکاشی نے اپنے والد سنجیو بھٹ کا ذکر کیا کہ:
" میرے والد ، گجرات کے قتلِ عام میں مودی کی ملی بھگت کے واحد زندہ گواہ ہیں۔ 2002 کے بعد ایک اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم فسادات میں مودی کے رول کی تفتیش کے لیے بنائی گئی تھی ، جنہیں بھی گواہی کے لیے بلایا گیا ، ان سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ صرف میرے والد نے ہمت سے سچ سامنے رکھا۔ میرے والد کے خلاف حکومت نے بدلے کی کئی کارروائیاں کیں ، انہیں صرف اپنی زبان بند کرنا تھی لیکن وہ لڑتے رہے۔ یہ ایک اکیلے شخص کی نا ختم ہونے والی جنگ ہے۔ ہزاروں مظلومین کو انصاف نہیں ملا ہے ، یہ جنگ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
عدلیہ مودی حکومت کے ہاتھوں ' بک ' گئی ہے۔


آکاشی کے والد سنجیو بھٹ کو کال کوٹھری میں ڈال رکھا گیا ہے۔ انہیں جام نگر کی سیشن کورٹ نے 2019 میں ایک معاملہ میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ کیا قصور ہے سنجیو بھٹ کا ؟ وہ کون سا سچ ہے جسے کہنے سے سنجیو بھٹ پیچھے نہیں ہٹے تھے ؟ جہاں تک قصور کی بات ہے ، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطرف آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو ان کی ' ایمانداری' اور ' فرض سناشی' کیلئے عدالت نےعمر قید کی 'سزا ' سنائی ہے ، اور عمر قید کی یہ سزا بھی ایک تیس سالہ پرانے حراستی موت کے معاملے میں دی گئی ہے۔ سنجیوبھٹ نے نریندرمودی پر اس وقت بھی انگلی اٹھانے کی جرأت کی جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور اس وقت بھی جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے اور آج بھی جبکہ وہ وزیراعظم ہیں ان کی انگلی ان کی جانب اٹھی کی اٹھی ہے ، جھکی نہیں ہے۔


گجرات 2002 کے فسادات میں مودی کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کو سادی دنیا کے سامنے پیش کرنا بھٹ کا سب سے بڑا ' جرم ' تھا۔ سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے ایک ' حلف نامہ' پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات 2002 کے فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔ 'حلف نامہ' میں بھٹ نے تحریر کیا تھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی، جن میں اعلیٰ پولس اہلکار بھی شامل تھے ، ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ ' حکم' دیا تھا کہ:
'ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے' یعنی انہیں تشدد اور ماردھاڑ سے نہ رو کا جائے۔
یہ ' حکم ' ایک طرح سے تمام پولس والوں کیلئے ایک طرح کا عندیہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں ، اقلیتی فرقے یعنی مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں اسے نکالنے دیں۔


سنجیو بھوٹ نے اپنے ' حلف نامہ' میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 فروری 2002 کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی۔ مذکورہ تاریخ کو ہی گجرات کے مسلم کش فسادات شروع ہوئے تھے۔ اس روزگودھرا میں ' سابرمتی ایکسپریس' کی بوگی نمبر 'ایس 6-' میں آتش زدگی کا المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس بوگی میں وہ کارسیوک سوار تھے جو ایودھیا سے ' رام مندر کی تعمیر' کی تحریک کیلئے منعقدہ تقریب سے واپس لوٹ رہے تھے۔ آگ ساری بوگی میں پھیلی تھی جس میں جل کر 59 کارسیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔
گودھرا کے المناک واقعہ کے بعد شاید سارا گجرات اس طرح نہ جلتا جیسے کہ جلا تھا اور شاید 12 سو سے زائد لوگ نہ مارے جاتے جیسے کہ مارے گئے تھے ، اگر مودی خود گودھرا نہ پہنچے ہوتے۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گودھرا میں مودی کی تقریر اشتعال انگیز تھی اور کارسیوکوں کی ارتھیوں کو جلوس کی شکل میں احمد آباد کی گلیوں سے گزارنے کا ان کا فیصلہ بھی اشتعال انگیز تھا، اس قدر اشتعال انگیز کہ لوگوں میں ایک فرقے کے خلاف شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے۔ ایسی نفرت کہ اسی روز احمد آباد سے فسادات شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فسادات سارے گجرات میں پھیل گئے۔
مودی کا اس سارےمعاملے میں جو کردار رہا وہ شک وشبہ سے بالاتر نہیں کہلا سکتا۔ گودھرا کا ان کا دورہ ، ارتھیوں کا جلوس اور پھر اپنی رہائش گاہ پر افسروں کی میٹنگ جس میں بقول سنجیو بھٹ سب پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کی بندش عائد کی گئی ، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیا اور تجزیہ کیا جائے تو ذہن یہ سوال خودبخود کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا فسادات کرانے کی پوری تیاری پہلے سے ہو چکی تھی؟


سنجیوبھٹ کے ' حلف نامے' میں جو بات تحریر ہے وہی بات گجرات کے مقتول وزیر داخلہ ہرین پنڈیا نے بھی کہی تھی۔ قتل سے قبل انہوں نے شہریوں کی ایک تنظیم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ طلب کرکے پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ' ہندوؤں کے غصے کی مخالفت نہ کریں'۔
پنڈیا نے کئی پولس اہلکاروں کے نام ظاہر کئے تھے جو وہاں موجود تھے۔ مگر ان میں سنجیوبھٹ کا نام نہیں تھا۔ ممکن ہے وہاں موجود اور دوسرے افسروں کے نام بھی انہوں نے نہ لئے ہوں مگر اس سچائی کی تصدیق ضرور پنڈیا کے بیان سے ہوتی ہے کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر میٹنگ لی تھی اور پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ فسادیوں کو انتقام لینے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔ یہ کہہ کر سنجیوبھٹ کی ' حق گوئی' اور ' حلف نامے' کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تو مودی کی بلائی گئی میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے۔ بی جے پی اور سارا سنگھ پریوار یہی پروپیگنڈہ کئے ہوئے ہے۔


سنجیوبھٹ نے فسادات کے تقریباً 9 سال کے بعد 14 اپریل 2011 کو سپریم کورٹ میں ' حلف نامہ ' داخل کیا۔ ' حلف نامے' کے مطابق ' مودی نے اعلیٰ پولس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنے دیا جائے۔' انہوں نے'حلف نامہ' میں یہ بھی واضح کیا کہ مذکورہ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کارسیوکوں کی لاشوں کو احمد آباد لاکر آخری رسومات ادا کی جائیں۔ اس فیصلے کی سنجیوبھٹ کے بقول انہوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس سے 'مذہبی تشدد کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔'
'حلف نامہ' میں یہ بھی تحریرہےکہ مودی کی اپنی سیاسی پارٹی پی جے پی اور ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کی اشتعال انگیزیاں شروع ہو گئی تھیں اور وی ایچ پی والے احمد آباد بند کرنے کا غیر قانونی اعلان کر چکے تھے۔ سنجیوبھٹ کے مطابق اس وقت کے پولس ڈائریکٹر جنرل کے چکرورتی اور اس وقت کے احمد آباد کے پولس کمشنر پی سی پانڈے نے کارسیوکوں کی لاشیں لانے کی مخالفت کی تھی۔
سنحیوبھٹ کے ' حلف نامہ' کے بعد انہیں معطل کردیا گیا تھا اور وہ آج تک معطل چلے آ رہے تھے۔ بلکہ اب تو عمر قید کے مجرم بن چکے ہیں !


ایک عرصے کے بعد سنجیو بھٹ کے نام کی پھر گونج ہے ، گجرات فسادات کا سایہ پھر پی ایم مودی کے سر پر منڈرانے لگا ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومینٹری پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ آکاشی بھٹ کی آواز یقیناً سنی گئی ہوگی ، اور اس آواز نے بھی ، راہل گاندھی کی آواز کی طرح ، پی ایم مودی اور ان کی کی حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا ہوگا۔ ضروری ہے کہ ان آوازوں میں آواز ملائی جائے۔


Rahul Gandhi attacks Modi, Sanjiv Bhatt's daughter urges US media to speak up.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں