ماہنامہ پیکر : ایک رجحان ساز جریدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-13

ماہنامہ پیکر : ایک رجحان ساز جریدہ

یہ ایک زندہ داستاں ہے ادبی افق کی، زمانہ ہے بیسویں صدی کا، دہائی ہے60ء کی ، منظر نامہ ہے ایک فلمی و ادبی کلچر کا، جب فلموں کے ساتھ ساتھ ادبی جریدے بھی علی الترتیب اپنے اپنے ناظرین و قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ صحیح معنوں میں مداحوں کی مدح سرائی کا رواج عام تھا۔ ایسے میں اردو دنیا، حیدرآباد سے شائع ہونے والے ایک ایسے ماہ نامے سے متعارف ہوئی جو اپنے جلو میں نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ ساتھ لایا تھا اور ایک مکمل ماہ نامے کا دعوٰی اس نے ایوان ادب میں نہایت خود اعتمادی سے کردیا تھا۔


یہ ماہنامہ تھا "پیکر" جس کے مدیر تھے اعظم راہی۔ صورت گری میں ساتھ دینے والے تھے بدر افسر، خان معین، ساجد اعظم، محمود انصاری، رؤف خلش، حسن فرخ، رفعت صدیقی، احمد جلیس، ہادیہ شبنم(جو بعد میں راہی کی رفیقۂ حیات بن گئیں!)، غیاث متین، مسعود عابد ، انور رشید، اور جگدیش بمل وغیرہ۔ بعد میں تنظیمی سطح پر اکمل حیدرآبادی بھی ان میں شامل ہوئے۔ پیکر نے اپنی زندگی کے کئی دور دیکھے۔ پہلا دور مارچ 1958ء سے شروع ہوا ، جبکہ پیکر کا پہلا شمارہ حیدرآباد سے شائع ہوا۔ دوسرا دور 1960ء میں شروع ہوا۔ یہ دور جدیدیت کے رجحان اور نئے لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی یلغار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ پیکر نے بت شکن کے قلم سے ہمارے اصنامِ ادب کے زیرعنوان تنقیدی جائزے کا ایک سلسلہ شروع کیا اور نئے لکھنے والوں کی طرف سے اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ بقول شخصے اس تنقیدی روّیئے میں نو مسلموں کا سا جوش نظر آتا ہے۔ لیکن بہرحال پرسکون فضا میں ہلچل پیدا ہوئی اور "ادبی دیوزادوں"نے محسوس کرلیا کہ ادب کے "جسمِ ناتواں"میں نئے خون کی شمولیت نہایت ضروری ہے۔ سچ کہا جائے تو پیکر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نہ صرف باصلاحیت تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی تخلیقات کو ردّی کی ٹوکریوں میں ڈالنے کے بجائے پیکر کے صفحات کی زینت بنایا۔ پیکر نکالنے والوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا کہ آنے والے ادبی افق پر یہی نئے لکھنے والے کہکشاں بننے والے ہیں۔


چنانچہ بیسیویں فنکار اس رجحان کے باعث اپنی ادبی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ گویا پیکر نے ادبی اجارہ داری کو ضرب لگائی۔ پیکر کا تیسرا دور1970ء میں شروع ہوا۔ تمام ادوار میں پیکر نے اپنی خصوصی پہچان برقرار رکھی۔ پیکر ، ہندوستان کے اہم شہروں کے علاوہ بیرون ہند بھی بھیجا جاتا تھا۔


جناب منظور الامین کے بقول ماہنامہ"شبِ خون" الہٰ آباد کی اشاعت کی تحریک جناب شمس الرحمٰن فاروقی کو "پیکر" دیکھ کر ہی پیدا ہوئی تھی۔ انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جب وہ( منظور الامین )لکھنؤ دوردرشن پر ڈپٹی ڈائرکٹر تھے تو اس وقت فاروقی وہیں سپرنٹنڈنٹ پوسٹل سرویس کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ1965ء کا زمانہ تھا۔ جناب فاروقی نے ایک ادبی اجلاس میں کہا تھا کہ حیدرآباد میں کچھ اینگری ینگ مین(برہم نوجوان)پیدا ہوئے ہیں اور وہ ادب کی اسٹابلشمنٹ کو بھرپور انداز میں چیلنج کررہے ہیں۔ سوال کرنے پر جناب فاروقی نے بتایاتھا کہ انھیں حیدرآباد کا ماہنامہ"پیکر" دیکھنے کا موقع ملا ہے جس کے مدیر اعظم راہی ہیں۔ جو اس رسالے کے ذریعہ نئی باتوں اور نئے رجحانات کی نشونما کررہے ہیں۔ ان باتوں کا انکشاف منظور الامین نے پچھلے دنوں بزمِ احباب ِ دکن کے زیر اہتمام "اعظم راہی کے ساتھ ایک شام" کے ادبی اجلاس میں کیا تھا۔


یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ جدیدیت کی پہلی کل ہند کانفرنس کے دو روزہ جشنِ پیکر کا حیدرآباد میں انعقاد اپریل 1971ء کے دوران عمل میں آیا تھا۔ جس میں ملک بھر کے جدید شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی تھی۔ کہنہ مشق اہل قلم میں سے قاضی سلیم، بشر نواز، عزیز قیسی، جوگندر پال، عصمت جاوید اور اندرا دھن راج گیر جی نے اپنی شرکت سے اس جشن کی اہمیت کو دوبالا کردیا تھا۔


جشن کی تیاری کمیٹی میں شامل راقم الحروف(رؤف خلش) نے چار ایسے موضوعات پر ماہرین سے انٹرویو لئے تھے جو بالکلیہ فنّی نوعیت کے حامل تھے اور اردو دنیا اس کی افادیت سے نا آشنا تھی۔ وہ خصوصی موضوعات اور ماہرین اس طرح تھے :
1۔ اردو الفاظ شماری (ڈاکٹر حسن الدین احمد، آئی ۔اے۔ایس۔)
2۔ اردو نستعلیق ٹائپ (عبدالقادر)
3۔ اردو خوشنویسی (غوث محمد)
4۔ اردو انگریزی لغت (یعقوب میراں مجتہدی)


یہاں اردو نستعلیق ٹائپ سے متعلق ایک وضاحت ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ نظام سابع (نواب میر عثمان علی خان)کی حکومت اپنے دور میں(1911ء تا1948ء) اردو کا لیتھو اور مونو ٹائپ ایجاد کرچکی تھی جو (500)جوڑ پر مشتمل تھااور جامعہ عثمانیہ کی بیشتر درسی اور غیر درسی کتابیں اس میں شائع ہو چکی تھیں لیکن عبدالقادر نے ہینڈ کمپوزنگ میں اردو نستعلیق کا ٹائپ(254)جوڑ میں تیار کرلیا تھا۔ تاہم پولیس ایکشن (ستمبر1948ء)کے بعد یہ مشینیں ضائع کردی گئیں اور اس سلسلہ کا سارا کام بھی ضائع ہو گیا جو اردو زبان کا ایک المیہ ہے۔
مذکورہ بالا موضوعات پر ماہریں سے لئے گئے یہ انٹرویو"پیکر"میں شائع ہوئے۔ پیکر کا یہ شمارہ پاکستان میں بھی پہنچا اور وہاں کے ادبی حلقے انگشت بدنداں رہ گئے کہ حیدرآباد دکن میں ایسے بھی فنّی موضوعات پر کام ہوئے ہیں۔

ماہنامہ پیکر حیدرآباد - جنوری 1963 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

اس سچائی سے کون انکار کرے گا کہ اردو شعر و ادب کو جتنا نقصان بالشتیوں، چھٹ بھیؤں اور گھس پیٹیوں نے پہنچایا ، اتنا نقصان اردو دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا۔ "پیکر" اپنے پورے ادبی سفر میں ان نام نہاد شہرت پسندوں کے خلاف ہوتا رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ باصلاحیت اور ذہین تخلیق کاروں کو متعارف کرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ وہ دور ارزانی کا دور تھا۔ زندگی اتنی گراں نہیں تھی۔ اس کے باوجود ادب پڑھنے والوں کی خاصی تعداد ترجیحاً رسالے اور جریدے خرید کر پڑھتی تھی۔ آج یہ دور ہے کہ باوجود کہ لوگوں میں" قوتِ خرید"موجود ہے لیکن وہ کتابیں اور پرچے خریدکر پڑھنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ الکٹرانک میڈیا کے اس عہد نے پریس میڈیا کو ضربتِ کاری لگائی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کل کا قاری آج کا ناظر یا سامع بن گیا ہے۔ وہ ادب کو راست کتاب کے ذریعہ پڑھنے کے بجائے اس کی "ویڈیوفلم" دیکھ لیتا ہے جو کسی افسانے یا ناول پر مبنی ہوتی ہے۔ شاعری کی قرأت مجموعہ کلام سے کرنے کے بجائے "آڈیو کیسیٹ" پر سن لیتا ہے۔
صورتِ حال جب اس قدر سنگین ہوگئی ہو تو اقبال کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے ؂
آخرِشب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا ؟

***
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش

A literary sketch of Abid Moiz. Essay: Raoof Khalish

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں