یہ مئو کی سرزمیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-29

یہ مئو کی سرزمیں

mau-uttar-pradesh-city

یہ میرا شہر دل آرا، یہ میرے شہر کے لوگ


ان کا انداز تو پیارا ہے جداگانہ سہی
یعنی مجھ سے نہ سہی اوروں سے یارانہ سہی

(فضا ابن فیضی)

مئو شہر 1988 سے پہلے اعظم گڑھ ضلع کا حصہ اور محمد آباد گوہنہ تحصیل سے جڑا ہوا تھا۔۔ لیکن بہت جدو جہد کے بعد 19 نومبر 1988 سے یہ نئے ضلع کا صدر مقام بنا۔ شہر کا نام مئو ناتھ بھنجن اور ضلع کا نام مئو ہے۔۔۔
مئو شہر کی تاریخ اب تک کی معلومات کی بناء پر ملک طاہر بابا کی تشریف آوری سے مانی جاتی ہے۔ اس کے متعلق متعدد خیالات قلمبند ہوئے جن کے مطابق صدیوں پہلے مشہور بزرگ سید سالار مسعود غازی کے حکم پر ان کے دو شاگرد ملک محمد طاہر اور ملک محمد قاسم ایک مہم کے طور پر ایک سر کش کی سرکوبی کیلئے اپنے شاگردوں کے ساتھ اس علاقے میں آئے جہاں تمسا ندی کے کنارے سرکش نٹ نے دریا کے راستے سفر کرنے والوں کو پریشان کر رکھا تھا ، محاذ آرائی ہوئی اور نٹ مارا گیا اور یہ علاقہ اسکی شر پسندی سے پاک ہوا وہاں کے لوگوں نے اپنے محسن کو یہاں آباد ہونے کی ترغیب دی چنانچہ یہاں کے دو محلے ملک طاہر پورہ اور قاسم پورہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اور اسی کی وجہ سے اس شہرہکا نام مئو نٹ بھنجن ہوا جو بعد میں بدل کر مئو ناتھ بھنجن ہو گیا۔


یہ پورا ضلع سرسبز و شاداب اور زرخیز زمین پر مشتمل ہے۔ ٹونس اہم ندی ہے۔۔ پورے ضلع کی زمین ہموار ہے۔ مئو شہر اور اسکے قصبات کی پہچان بنکروں کے تعلق سے زیادہ ہے۔۔ پارچہ بافی اہم صنعت ہے۔۔۔۔۔۔ بنکروں کے بعد بہت بڑی تعداد کاشتکاری اور کھیتی سے منسلک ہے۔ مئو شہر کی سرحد گورکھپور ، اعظم گڑھ اور بلیا ضلع سے ملتی ہے جنوب میں غازی پور اور مغرب میں اعظم گڑھ شہر دونوں یہاں سے 42 کلو میٹر پر واقع ہے۔
یہاں کے لوگ پاور لوم پر ساڑیاں اور لنگیاں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یوں تو دیگر شہروں میں بھی ساڑیاں بنانے کا کام ہوتا ہے لیکن وہ ساڑیاں مئو سے مختلف ہوتی ہیں کیونکہ مئو میں بننے والی ساڑیاں باریک دھاگوں سے بنتی ہیں اس لئے مئو کو اس صنعت میں سبقت حاصل ہے۔


تمسا ندی (ٹونس ندی) مئو شہر کے وسط سے ہوکر گزرتی ہے یہ فیض آباد سے نکل کر بلیا میں گنگا ندی سے مل جاتی ہے۔ ندی کے کنارے بسنے والے لوگ ندی میں نہانے کا شغل کرتے ہیں اور مچھلی کے شکار کے شوقین لوگ مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔ اس ندی کے کنارے شہر کے بختاور گنج، بھدیسرا، کھیدوپورہ، ڈومن پورہ، جمال پورہ، نوا پورہ، اورنگ آباد، بلی پورہ، پٹھان ٹولہ، ملک ٹولہ ملک طاہر پورہ اور بھیٹی جیسے محلے آباد ہیں۔
مئو میں گنگا جمنی تہذیب کی دلکش تصویر نظر آتی ہے کیونکہ یہاں ہر مذہب و ملت کے لوگ بنا کسی جھگڑے اور بنا کسی بھید بھاؤ کے آپس میں مل جل کر رہتے ہیں جہاں عید پر مسلمانوں کے گھر ہندو بھائی سیوئیوں کا ذائقہ چکھنے ضرور حاضر ہوتے ہیں تو وہیں مسلم بھائی بھی دیوالی کے موقع پر دیوالی کی مٹھائی کھانے سے گریز نہیں کرتے۔۔۔


مئو تعلیمی مرکز کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔۔ یہاں بڑے بڑے دانشور، شاعر اور نثر نگار پیدا ہوئے اور اپنے جوہر سے اردو ادب کی خدمت کی۔ معروف و مشہور اور عالمگیر شہرت کے حامل غزل اور نظم کے عظیم شاعر فضا ابن فیضی یکم جولائی 1923 کو مئو میں ہی پیدا ہوئے، جامعہ عالیہ عربیہ میں اور فیض عام میں تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شخصیت اور شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ شاعری کا آغاز طالب علمی کے ہی زمانے سے ہو گیا تھا۔ آپ کی شاعری بلند فکری کا اعلی نمونہ ہے سفینہ زر گل، شعلہ نیم سوز، پس دیوار حرف، دریچہ سیمِ سمن، سر شاخ طوبی وغیرہ آپکا مجموعہ کلام ہے۔۔
شہرِ مئو کے لئے لکھی ہوئی فضا ابن فیضی کی نظم کے چند ٹکڑے۔۔۔۔

یہ میرا شہر دل آرا، یہ میرے شہر کے لوگ
قابل دید میرے شہر کے نظارے ہیں
بے خبر مدرسے، ناواقف حالات علوم
صرف الفاظ و عبارت کی ہوا باندھتے ہیں
کوئی جزبہ بھی سزاوار ستائش کا نہیں
پاؤں میں لوگ بگولوں کی حنا باندھتے ہیں
یہ میرےشہر کے فنکار بھی غالب کی طرح
اپنے اشعار میں نالے کی رسا باندھتے ہیں

ان کے علاوہ عبدالحکیم مجاز کی شاعری اور تصانیف نے مئو کی علمی شان میں اضافہ کیا ہے صحافت کی دنیا میں بھی نام کمایا جریدہ "افکار عالیہ" کے سرپرست کی حیثیت سے اس کے خط و خال کو نمایاں کرنے میں مدد فرمائی۔


تعلیمی صورتحال

مئو ناتھ بھنجن تعلیمی لحاظ سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں ہے۔ یہاں درجنوں اہم مدارس تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے طلبا و طالبات دوسرے شہروں اور صوبوں سے آکر علم دین حاصل کرتے ہیں اور فراغت کے بعد وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنی اسلامی تعلیم کا نقش ضرور چھوڑتے ہیں۔۔۔

یہ مئو کی سرزمیں یہ علم و عرفاں کا دیار
چپہ چپہ گوشہ گوشہ ذرہ ذرہ مشک بار
یہ مدارس جابجا یہ کلیات و جامعات
فضل حق، لطف الہی ، رحمت پروردگار

لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں مئو نے بہت نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس سلسلے میں بہت سے تعلیمی ادارے صرف لڑکیوں کے لئے ہی مخصوص ہیں جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلامی تعلیم کے اداروں میں کلیہ فاطمۃ الزہراء، کلیہ امہات المومنین، مدرسہ عالیہ نسواں، خدیجۃ الکبری اور مدرسہ اسلامیہ للبنات سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ عصری تعلیم کے لئے اسکول اور کالجز بھی موجود ہیں جس میں ڈی اے وی بالیکا انٹر کالج، ڈی سی ایس کے پی جی کالج، عالیہ گرلس انٹر کالج، تعلیم الدین نسواں پی جی کالج وغیرہ ہیں۔۔۔


تہذیب و ثقافت

کسی بھی شہر کی تہذیب و ثقافت وہاں رہنے والوں کے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ ہر شہر اور قصبہ کی طرح مئو کی بھی ایک مقامی بولی ہے لیکن زیادہ تر لوگوں میں اردو زبان ہی رائج ہے مئو کی مقامی بولی کا اپنا ایک الگ انداز اور لہجہ ہے۔
ہر شہر، ہر گاؤں کی طرح مئو کے رسم رواج دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں مگر بہت ساری چیزیں مختلف ہوتی ہیں۔ نکاح اس شہر کی زندگی کا ایک لازمی جزء ہے۔ شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں یہاں کے لوگ سادگی کو اپناتے ہیں۔ اکثر شادیاں بغیر بارات کے ہی انجام پاتی ہیں، یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں ہونے والی شادی عموماً سادہ ہوتی ہے اور یہی سادگی یہاں کے رہنے والوں کے رہن سہن اور بول چال میں بھی نظر آتی ہے۔۔۔ لوگ تصنع اور بناوٹ سے مبرّا ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان، عید اور بقرعید، دیوالی دشہرہ کو یہاں کے لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔


دسہرہ کے میلے کے علاوہ مئی کے مہینے میں غازی میاں کا میلہ لگتا ہے۔ عاشورہ کے موقع پر تعزیہ چوک پر تعزیہ بھی رکھے جاتے ہیں۔ اور شب برات کے موقع پر اگربتی اور لوبان کی خوشبو بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ جنم اشٹمی، ناگ پنچمی، چھٹھ پوجا، اور رام نومی وغیرہ کے تیوہار بھی منائے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں اس شہر کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ لوگ پورے اہتمام سے روزے رکھتے ہیں یہاں تک کہ آٹھ دس سال کے لڑکے لڑکیاں بھی روزہ رکھنے کی ضد کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں۔ لوگ قرآن کی تلاوت اور نماز پابندی کے ساتھ ساتھ تراویح کی نماز بھی ادا کرتے ہیں۔


کسی بھی شہر کی تہذیب و ثقافت کو یوں چند سطروں میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ بلکہ اس کے لئے صفحے کے صفحے رنگین کئے جا سکتے ہیں۔
مئو شہر یونہی ترقی کی طرف گامزن رہے، صنعت و حرفت کو عروج حاصل ہوتا رہے، اور یہاں امن و امان کا بول بالا ہو، گھروں میں بچوں کی شوخیاں جاری رہیں، اور اس کے گلی کوچے یونہی آباد رہیں۔

قابل دید میرے شہر کے نظارے ہیں

***
زیبا شبیر احمد (مئو، اترپردیش)
ای-میل: raihanahmad9044[@]gmail.com

Mau, a city of Uttar Pradesh state. Essay: Zeba Shabbir Ahmad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں