جھارکھنڈ : ایک پوشیدہ جنت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-30

جھارکھنڈ : ایک پوشیدہ جنت

jharkhand

یوں تو میری رہائش لکھنؤ کی ہے لیکن پیدائشی اور خاندانی اعتبار سے جھارکھنڈ میرا وطن کہلانے کا حقدار ہے۔ سن 2000 ء میں ریاست بہار کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے جھارکھنڈ کا رقبہ 79 ہزار 714 مربع کلومیٹر ہے۔ جھارکھنڈ کی سرحدیں شمال میں بہار، مغرب میں اتر پردیش اور چھتیس گڑھ، جنوب میں اوڈیشہ اور مشرق میں مغربی بنگال سے ملتی ہیں۔ اس کا دارالحکومت رانچی ہے جبکہ دیگر اہم اضلاع میں جمشید پور، بوکارو، کوڈرما، ہزاری باغ، دھنباد، رام گڑھ، پلامو،گریڈیہہ اور گملا ہیں۔ جھارکھنڈ کی اصل قوم آدی واسی ہیں جو 32 قبیلوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں سنتھالی،منڈا،ہو، اوراؤں، گونڈ اور کولھ زیادہ اہم ہیں۔ زیر نظر مضمون میں، میں نے اپنی معلومات کے مطابق جھارکھنڈ کی تہذیب و ثقافت اور چند اہم سیاحتی مقامات کا تذکرہ کیا ہے۔ چونکہ میں صرف چھٹیاں گزارنے ہفتہ دس دن کے لئے وہاں جاتی ہوں لہذا جتنا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جانا ہے اس کا احوال پیش ہے۔


تہذیب و ثقافت

جھارکھنڈ کی تہذیب و ثقافت میں قبائلی اثرات نمایاں ہیں۔ عرصے تک یہ ایک uncivilized قوم تھے۔ عرصہ دراز تک جھارکھنڈ کو محض جھاڑیوں اور جنگلات کی سرزمین سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا لیکن اب ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ان میں کافی شعور آرہا ہے۔ جھارکھنڈ کی حکومت نے بھی اب اپنی تہذیب و ثقافت کو پورے اعتماد کے ساتھ دنیا سے متعارف کروانا شروع کردیا ہے۔


جھارکھنڈ کی ثقافت کا جائزہ لیں تو یہاں پر کئی مقامی تہوار، cuisine، اور ناچ گانے ہیں۔ چونکہ میں جھارکھنڈ کی مستقل رہائشی نہیں ہوں اس لئے مجھے ان کی مکمل تفصیل تو نہیں معلوم ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا یا جانا اس کا ذکر کرنا چاہوں گی۔


جھارکھنڈ میں منائے جانے والے مقامی تہواروں میں 'سرہول تہوار' سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس میں قبائلی لوگ فطرت کی پوجا کرتے ہیں اور اپنے دیوتا رام کی بیوی سیتا کو دھرتی ماتا کے طور پر پوجتے ہیں۔ اس تہوار میں سال درخت کی پوجا بھی کی جاتی ہے جسے سرنادیوی کا مسکن سمجھا جاتا ہے۔ سرنا دیوی ان کے بقول گاؤں کو آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھتی ہے۔


دوسرا اہم تہوار 'روہنی' ہے جسے جھارکھنڈ کا پہلا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تہوار میں کھیتوں میں بیج بوئے جاتے ہیں اور چند مزید رسومات ادا کی جاتی ہیں۔
تیسرا اہم تہوار 'بھگت پرو' ہے جو گرمی کی شروعات میں آتا ہے۔ اس میں مہاتما بدھ کی پوجا کی جاتی ہے۔ آدی واسی اپنی عجیب و غریب رسومات کے ساتھ یہ تہوار مناتے ہیں جس میں مختلف کھیل بھی شامل ہوتے ہیں۔


چوتھا اہم تہوار 'سہرئی' ہے جو پالتو جانوروں کی محبت میں منایا جاتا ہے۔ چونکہ جھارکھنڈ کی زیادہ تر آبادی زراعت سے وابستہ ہے لہذا گاؤں کے ہر گھر میں جانوروں کا ہونا تقریبا لازمی ہے۔ زراعت کے علاوہ بھی لوگ جانور پالنا پسند کرتے ہیں۔ یہ تہوار دیوالی کے بعد فورا منایا جاتا ہے۔ رات کو دئیے جلائے جاتے ہیں۔ اگلی صبح لوگ اپنے جانوروں کو نہلاتے ہیں۔ انہیں صاف ستھرا کرکے انہیں سجاتے ہیں۔ سندور لگاتے ہیں پھول چڑھاتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔


جھارکھنڈ کا ایک اور مقامی تہوار 'کرما' ہے جس میں کرم دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس تہوار کے لئے آدی واسی جنگلوں میں جاکر لکڑیاں پھول اور پھل جمع کرتے ہیں۔ اس دوران وہ ناچتے گاتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر جوان افراد اس میں حصہ لیتے ہیں اس لئے اسے ایک طرح کا یوتھ فیسٹول سمجھا جاتا ہے۔


اس کے علاوہ جھارکھنڈ میں عوامی طور پر چند تہوار بہت بڑے پیمانے پر منائے جاتے ہیں جن میں عید، بقرعید، بسنت پنچمی یا سرسوتی پوجا، درگا پوجا، نوراتری، رام نومی، مکر سنکرانتی، دیوالی اور دسہرہ قابل ذکر ہیں۔ خصوصا درگا پوجا تو جھارکھنڈ میں بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔


جھارکھنڈ میں مختلف آدی واسی قبیلوں میں کئی اقسام کے رقص بھی کئے جاتے ہیں۔ ان کے گانے قبائلی زبانوں میں ہوتے ہیں اور ڈھول کی تھاپ پر گائے جاتے ہیں۔ چند مشہور رقصوں میں جھومیر، ڈمکچ، پھرکل، مُندری اور سنتالی ہیں۔


لباس کے معاملے میں یہاں پر عورتیں ساڑی پہننا پسند کرتی ہیں۔ اب سے بیس برس قبل تو مسلم عورتوں میں بھی صرف ساڑی پہنی جاتی تھی لیکن اب ان میں ساڑی کا رجحان کم ہورہا ہے۔ مسلمان عورتیں شلوار جمپر پہننے لگی ہیں۔ آدیواسی مرد دھوتی پہنتے ہیں جبکہ عام مرد پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔ کرتا پاجامہ مدارس اور مذہبی افراد تک محدود ہے۔ اسی طرح مسلم خواتین میں برقعے کا رواج بہت کم ہے۔ اب نئی نسل کی عالمہ لڑکیاں برقعے کو رواج دے رہی ہیں۔ جھارکھنڈ کے عام مسلمانوں میں آدی واسیوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ہاں پڑھا لکھا طبقہ اب کلچرڈ ہونے لگا ہے۔


تعلیم کی بات کی جائے تو اب سے چالیس پچاس برس قبل مسلمانوں میں خواتین کی تعلیم کا کوئی رجحان نہیں تھا بلکہ اسے معیوب بات سمجھا جاتا تھا۔ ہماری والدہ اور خالہ کو جب نانا نے یوپی کے جامعتہ الصالحات میں پڑھنے بھیجا تب آس پاس کے گاؤں تک یہ بات پھیل گئی کہ مولوی بشیر الدین صاحب کی لڑکیاں پڑھنے کے لئے شہر گئی ہیں۔ اس زمانے میں مسلمانوں میں دینی و عصری تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ محض کھیتی باڑی اور کپڑا بننے کے کام میں زندگی گزار دیتے تھے۔ آہستہ آہستہ کچھ نوجوان دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ندوۃ العلما اور دیوبند کے ساتھ علی گڑھ اور دہلی کے جامعات میں گئے جہاں سے وہ کامیاب ہوکر لوٹے۔ ان میں ایک ہمارے والد صاحب بھی تھے جو مدینہ کے جامعہ سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ ان حضرات نے واپس آکر اپنے خاندان اور گاؤں میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کی۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں لڑکوم کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کا بھی رجحان پیدا ہونے لگا۔ لیکن جھارکھنڈ کے کئی گاؤں اب بھی بے حد پسماندہ ہیں جہاں پر تعلیم و تربیت کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے۔


عصری تعلیم کے لحاظ سے جھارکھنڈ کافی مضبوط ہے جہاں کئی انٹرنیشنل اسکول موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے بہترین کالج بھی یہاں ہیں۔ یہاں کا پاگل خانہ قدیم اور بہت مشہور ہے جہاں پر ذہنی امراض کا بہترین علاج ہوتا ہے۔ رانچی کا میڈیکل کالج rims اپنی نوعیت کا ایک کامیاب طبی ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی بہترین یونیورسٹیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ میڈیکل اور انجینئیرنگ کے لئے دیگر ریاستوں کے طلبا یہاں حصول تعلیم کے لئے آتے ہیں۔


سیاحتی مقامات

جھارکھنڈ قدرتی مقامات اور فطرت کے حسن سے لبریز ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے۔ جیسے جیسے جھارکھنڈ ڈویلپ ہورہا ہے مرکزی حکومت سیاحت کی طرف بھی توجہ دے رہی ہے۔ کئی مقامات کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر انہیں سنوار کر tourist place بنا دیا ہے۔ خوبصورت جھیلیں، اونچے پہاڑ، حسین آبشار اور گھنے جنگلات سے بھرا ہوا یہ خطہ آہستہ آہستہ سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے لگا ہے۔ گذشتہ برس میں جھارکھنڈ کے سفر پر ان مقامات کو ایکسپلور کرنے نکلی تو حیرت زدہ رہ گئی۔ بہترین شفاف چکنی سڑک، دلکش وادیوں اور رنگ برنگے کھانوں نے سفر کا لطف دوبالا کردیا تھا۔ اگر کبھی آپ جھارکھنڈ کا سفر کریں تو ان مقامات کی سیر ضرور کریں۔ کم خرچ میں بہترین لطف اندوزی آپ کو جھارکھنڈ میں باسانی مل جائے گی۔


پتراتو وادی patratu Valley
وادی کا راستہ گول گھماؤ دار جلیبی جیسا ہے۔ ہرے بھرے پیڑپودوں اور پھولوں سے سجا ہوا یہ راستہ آپ کو خوابوں کی وادی میں لے جاتا ہوا محسوس ہوگا۔ اونچائی پر پہنچ کر آپ پوری وادی کا مسحور کن نظارہ کرسکتے ہیں۔ اطراف میں ایستادہ پہاڑ اور ان کی گھاٹیوں میں بسے قصبے اور گاؤں آپ کو کسی کہانی کا منظر معلوم ہوتے ہیں۔ رانچی سے تقریبا چالیس کلومیٹر دوری پر واقع یہ وادی آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی۔


ہنڈرو آبشار hundru falls

hundru falls
رانچی سے 45 کلو میٹر دوری پر واقع سبرناریکھا ندی کے راستے سے گرتا ہوا یہ آبشار ریاست کا سب سے بلند آبشار ہے۔ یہ 322 فٹ اونچائی سے گرتا ہے اور دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا ہے۔ اس کے داخلی دروازے پر مقامی دستکاری کی خوبصورت چیزیں فروخت ہورہی تھیں۔ آبشار کی گہرائی میں جانے کے لئے ساڑھے سات سو سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑتا ہے۔ آبشار کا پانی بلندی سے نیچے گر کر چھوٹی چٹانوں اور پتھروں سے ٹکراتا ہوا جب آگے بڑھتا ہے تو سیاح اس کی خوبصورتی میں کھو جاتے ہیں۔ آبشار کے سامنے بکھرے چھوٹے بڑے پتھروں پر بیٹھ کر ٹھنڈے یخ پانی میں پیر ڈبو کر بیٹھنا اور پانی کی آواز سننا نہایت پرسکون اور رومانی احساس دلاتا ہے۔ یہاں پر بوٹنگ کی سہولت بھی ہے۔ قدرت کے حسن کا حسین نظارہ آپ ہنڈرو فالز میں کرسکتے ہیں۔
ہنڈرو فالز سے واپسی ایک بے حد دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔ جب ساڑھے سات سو سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے جسم کی طاقت جواب دے جاتی ہے۔ حالانکہ بیچ بیچ میں آرام کے لئے جگہ ہے اور مقامی افراد شربت، چائے، پکوڑی اور چپس کولڈڈرنک وغیرہ بیچتے رہتے ہیں۔ لیکن بزرگ اور بھاری بدن کے افراد کے لئے جانا خطرے سے خالی نہیں۔ حالانکہ حفظ ماتقدم کے طور پر ایک بوڑھی عورت بیس روپے کا ایک ڈنڈا بھی فروخت کرتی ہے جس کا سہارا لے کر آپ سیڑھیاں سر کرسکتے ہیں۔


جونہا فالز
ہنڈرو فالز سے کچھ ہی دوری پر واقع ایک اور خوبصورت جونہا فالز ہے۔ یہ 141 فٹ بلندی سے گرتا ہے۔ یہ آبشار hanging valley آبشار کی ایک خوبصورت تصویر ہے۔ آبشار کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے جس میں ایک بدھ آشرم بھی ہے۔ اس لئے اسے گوتم دھارا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چٹانوں سے ٹکراتا ہوا پرشور پانی کسی بھی سیاح کو اٹریکٹ کرنے کے لئے کافی ہے۔


دشم فالز
دشم فالز رانچی کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ کنچی ندی سے گرنے والے اس قدرتی آبشار کی بلندی 144 فٹ ہے۔ یہ نیشنل ہائیوے33 سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں پر پہنچتے ہی اس آبشار کا حسن آپ کو جکڑ لے گا۔ کیونکہ یہاں پر چھوٹے بڑے دس آبشار ایک ساتھ گرتے ہیں۔ اوپر نیچے تھوڑی تھوڑی دوری پر واقع یہ پانی کے دھارے جب جل تھل گرتے ہیں تو انسان بے اختیار خدا کی قدرت کا قائل ہوجاتا ہے۔ یہاں نوجوان افراد جھرنے کے تازہ پانی میں نہانا پسند کرتے ہیں۔ دشم فالز برسات کے موسم میں بند کردیا جاتا ہے کیونکہ پانی کا بہاؤ تیز ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پھسلنے اور ڈوبنے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔

jharkhand-tourism-1

ڈلما وائلدلائف سینکچری
جمشید پور سے دس کلو میٹر دوری پر واقع ڈلما وائلڈ لائف سینکچری جنگلات اور پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ خاص طور پر ہاتھیوں کی حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہاں سفاری بھی ہے نیز بھونکنے والے ہرن، سلوتھ بھالو اور سیہی porcupine وغیرہ کے لئے مشہور ہے۔ جنگلی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے ڈلما ایک بہتر انتخاب ہے۔


نیتر ہت
جب آپ لاتیہار ضلع میں واقع نیتر ہت ہل اسٹیشن جائیں گے تو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہاں پر اور بھی کئی خوبصورت مقامات ہیں جن میں مگنولیا پوائنٹ، گھگھری فالز، کوئل ویو پوائنٹ، لودھ فالز، اور سدنی فالز ہیں۔ چونکہ جھارکھنڈ اونچے نیچے پہاڑوں پر واقع ہے لہذا یہاں قدم قدم پر خوبصورت جھرنوں کی بہتات ہے۔


پتراتو ڈیم
رام گڑھ سے 30 کلومیٹر مغرب میں واقع پتراتو ڈیم بلاشبہ ہندوستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ دراصل یہ ڈیم پتراتو تھرمل پاور اسٹیشن کو پانی کی سپلائی دینے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ نلکرنی ندی اور اطراف میں گرتے آبشاروں کے پانی کو اس ڈیم میں جمع کیا جاتا ہے۔ ڈیم کی جھیل سے متصل ایک ریسورٹ بھی ہے جس میں تفریح کے لئے کئی چیزیں موجود ہیں۔ یہاں آپ تیزرفتار موٹر بوٹ کا مزہ بھی لے سکتے ہیں اور چپو والی کشتی کا بھی۔ ریسورٹ کے باغیچے میں بے شمار تتلیاں اڑتی رہتی ہیں اور کسی پری نگر کا سماں پیش کرتی ہیں۔ دور تک بکھرا نیلا شفاف چمکدار پانی اور بیچ بیچ میں جھانکتی چٹانیں جنت نظیر لگتی ہیں۔ یہاں پر سیاح سرفنگ اور پیراسیلنگ کے بھی مزے لیتے ہیں۔ بچوں کے لئے رنگ برنگے جھولے بھی ہیں۔ سیر و تفریح کے ساتھ آپ یہاں مزے دار چاٹ، گپ چپ، قلفی، کولڈ ڈرنک اور آلو ٹکی کے بھی مزے لے سکتے ہیں۔


بھگوان برسا بائیولوجیکل پارک
اسے عرف عام میں اورمانجھی زوو کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ اورمانجھی علاقے میں ہے۔ یہ پارک یا زوو دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا زولوجیکل سیکشن جو 83ہیکٹر کے وسیع رقبے میں پھیلا ہے۔
دوسرا حصہ بوٹینکل سیکشن ہے جو 21 ہیکٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ زو کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں بیٹری والی گاڑیاں موجود ہیں جن پر بیٹھ کر آپ بنا تھکے پورے پارک میں گھوم سکتے ہیں۔ وگرنہ اتنے بڑے رقبے میں گھومتے گھومتے تو تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے۔ ہم لوگوں نے گاڑی کرلی تھی اور مزے سے کھاتے پیتے موسم اور پارک کا لطف لے رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی کینٹین بھی تھی جہاں سے ہم نے کولڈ ڈرنک، گرم سموسے، چپس اور پاپ کارن خرید لئے تھے۔ زو کی صفائی ستھرائی قابل تعریف ہے۔ یہاں کے جانور بھی صحت مند اور قدرتی ماحول میں ہیں ورنہ عام طور سے چڑیا گھر کے جانور بے حد کمزور اور مسکین سے نظر آتے ہیں۔
ایک حصہ پرندوں پر مشتمل تھا۔ جہاں ہم نے کئی مختلف رنگ برنگی مقامی اور غیر مقامی چڑیاں دیکھیں۔ اس کے علاوہ پورا علاقہ اونچے اونچے گھنے درختوں، جھاڑیوں، پھول پودوں اور باغیچوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس بائیولوجیکل پارک کا نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی قابل دید ہے۔ اسی بائیولوجیکل پارک کے سامنے مچھلی گھر بھی ہے۔ مچھلی گھر میں کئی اقسام کی رنگ برنگی مچھلیاں ہیں جو بچوں کا دل لبھاتی ہیں۔ مچھلی گھر کے باہر کئی گپ چپ والے ریڑھی لے کر کھڑے رہتے ہیں۔


اس کے علاوہ جھارکھنڈ کا بیتلا نیشنل پارک بہت دلچسپ جگہ ہے جہاں آپ جیپ کے ساتھ ہاتھی کی سواری کا لطف بھی لے سکتے ہیں۔ اس میں ٹائیگر ریزرو بھی ہے۔


بائیو ڈائیورسٹی پارک
رانچی کے لال کھٹنگا میں ایک بائیو ڈائیورسٹی پارک بھی ہے جو ایک مشہور پکنک اسپاٹ ہے۔ اس پارک میں طبی پودے اور جڑی بوٹیاں کثرت سے ملیں گے۔ یہاں بچوں کے ساتھ بزرگوں کے لئے بھی کئی تفریحی چیزیں ہیں۔ جن میں کیکٹس ہاؤس، روز گارڈن، میڈیکل گارڈن، پام گارڈن، ایکویٹک گارڈن اور واٹر پلانٹ جیسی جگہیں شامل ہیں۔ قدرتی حسن کے شیدائی اس جگہ کو بے حد پسند کرتے ہیں اور اکثر چھٹیوں کے موقع پر فیملی کے ساتھ آتے ہیں۔
اس میں بنا ہوا راک گارڈن ویسٹ مٹیرئیل یعنی بیکار چیزوں سے بنایا گیا ہے۔ اس کی خاص بات ری سائیکل شدہ سیرامک سے بنے حیرت انگیز مجسمے ہیں۔ یہاں پہاڑی کے سامنے ایک خوبصورت جھیل بھی ہے جو کانکے ڈیم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ گرمی کے موسم میں چھٹیاں گزارنے کے لئے یہ ایک بہترین جگہ ہے۔


تفریحی مقامات کے علاوہ جھارکھنڈ میں کئی مشہور اور تاریخی مندر بھی ہیں جہاں سیاح اور مقامی افراد کثرت سے جاتے ہیں۔ ان میں پہاڑی مندر جہاں سے پورے رانچی کا breathtaking view نظر آتا ہے، جگن ناتھ مندر جو اٹھارویں صدی میں تعمیر ہوا تھا، ویدناتھ مندر، سن ٹیمپل، آنند مئی آشرم، سائی مندر، وشوناتھ ٹیمپل، ہری ہر دھام، نولکھا مندر وغیرہ اہم ہیں۔ ان کے علاوہ بھی جھارکھنڈ میں بے شمار مندر ہیں۔

jharkhand-tourism
ڈیمز Dams

جھارکھنڈ Dams کی ریاست ہے۔ یہاں تقریبا تیس سے زیادہ خوبصورت ڈیم ہیں جن سے متصل جھیلیں اور پارک سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ حکومت نے ان جگہوں پر باغیچے اور جھولے وغیرہ لگا کر انہیں تفریحی مقام بنا دیا ہے جس سے لوگوں کو سیر و تفریح کا موقع بھی ملتا ہے اور حکومت کی کمائی بھی ہوجاتی ہے۔ Getalsud ڈیم بھی ایک پرانا اور بڑا ڈیم ہے جو رانچی شہر کو پینے کا پانی اور بجلی فراہم کرتا ہے۔ یہ اورمانجھی میں واقع ہے اور مقامی افراد کو مچھلی کا کاروبار فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چند مشہور ڈیمز میں دھروا ڈیم، کانکے ڈیم، میتھن ڈیم، کونر ڈیم، تلیّا ڈیم،پنچیت ڈیم، تینوگھاٹ ڈیم، کھندولی ڈیم اور گرگا ڈیم اور کئی ڈیمز ہیں جو مختلف شہروں کو پینے کا پانی اور بجلی وغیرہ سپلائی کرنے کی نیت سے قائم کئے گئے ہیں۔


جھارکھنڈ ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ریاست ہے۔ یہاں کے شہر جدید ٹکنالوجی سے آراستہ اور سڑکیں بے حد صاف اور پختہ ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز اور برانڈز اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ نت نئے تفریحی مقامات سیاحوں کو اپنی جانب راغب کررہے ہیں۔ انٹرنیشنل اسٹیڈیم کے بننے کے بعد سے یہاں غیر ملکی سیاح بھی آنے لگے ہیں۔


لیکن گاؤں کی حالت اب بھی بہت بہتر نہیں ہے۔ مٹی اور کھپریل کے گھر ہوتے ہیں جن میں گوبر سے لپائی کی جاتی ہے۔ بجلی اور پانی کا مسئلہ کئی گاؤں میں اب بھی برقرار ہے۔ گاؤں کی عورتیں کھیتی باڑی کرتی ہیں۔ مرد کھیتی کے ساتھ جانور بھی چراتے ہیں۔ ہر گاؤں میں ہفتہ واری بازار لگتا ہے جہاں سے لوگ اپنی ضرورت کا سامن خریدتے ہیں۔


لذتِ کام و دہن

کھانا کسی بھی جگہ کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہ وہاں کے رہنے والوں کے ذوق، عادت اور ضرورت کی نمائندگی کرتا ہے۔ جھارکھنڈ میں بھی کئی مقامی کھانے ہیں جو بے حد منفرد ذائقوں کے حامل ہیں۔ یہاں کے کھانے میں چاول کی کثرت پائی جاتی ہے۔ گیہوں کی روٹی کا رواج یہاں کم ہے۔ میں خود بچپن میں جب نانی دادی کے گھر جاتی تھی تو ان مقامی کھانوں سے بے حد لطف اندوز ہوتی تھی۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ کھانے کم اشیاء سے بننے والے ہوتے ہیں اور ان کے لئے کسی مہنگی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔


'چھلکا روٹی' یہاں کی ایک خاص روٹی ہے جو ناشتے میں پسند کی جاتی ہے۔ یہ بھیگے چاولوں کو پیس کر بنائی جاتی ہے۔ بعض لوگ اس میں ارد کی دال بھی ملاتے ہیں۔ دراصل یہ ٹوٹے چاولوں کو استعمال کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ رات بھر چاولوں کو پانی میں بھگا کر رکھتے ہیں اور صبح سل پر پیس لیتے ہیں۔ اب تو لوگ گرائنڈر کا استعمال کرنے لگے ہیں لیکن اصل ذائقہ سل پر پیسنے کا ہوتا تھا۔ چھلکا روٹی ساؤتھ کے دوسہ سے مشابہت رکھتی ہے۔ اسے آلو کی سبزی، کلیجی کے سالن یا مرغی کے شوربے سے کھایا جاتا ہے۔ ہم لوگ صبح صبح ناشتے میں چھلکا روٹی اور آلو کی بھجیا کھانے کے لئے بے تاب رہتے۔


بھیگے چاولوں کے اسی مکسچر سے ایک اور اہم ڈش 'کھپرا روٹی' ہے جسے مقامی لوگ گورگرا کہتے ہیں۔ کھپرا روٹی بنانے کا برتن بھی آتا ہے۔ لیکن عام طور پر گاؤں کی عورتیں پرانے گھڑے کو بیچ سے توڑ کر اس میں یہ روٹی بنا لیتی ہیں۔ یہ پوری کے سائز کی پھولی سی روٹی ہوتی ہے جو بھاپ میں بنتی ہے۔ کھانے میں بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ اسے بھی سالن اور سبزی دونوں سے کھایا جاتا ہے۔


چاول سے ہی بننے والے ایک اور اہم کھانے کا نام ہے 'دھوسکا' ہے۔ یہ دراصل کھانا ہے لیکن اب بطور snack شام کے وقت بازاروں مئں کثرت سے ملنے لگا ہے۔ اس کے لئے چاول کے ساتھ چنے اور ارد کی دال مکس کر کے پیستے ہیں اور بڑے پکوڑوں کے سائز میں گول گول تلتے ہیں۔ مسلمان دھوسکا کو سیخ کباب کے ساتھ جبکہ دیگر لوگ سبزی اور چٹنی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ تلے ہوئے دھوسکے اور کباب کا ذائقہ اتنا منفرد ہوتا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا۔


'پیٹھا'peetha بھی جھارکھنڈ کا اہم کھانا ہے جو چاول کے آٹے سے تیار کیا جاتا ہے۔ یوپی میں اسے پھارا یا فارا کہا جاتا ہے۔ یہ گجیا کی شکل میں بھاپ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر چنے یا ارد دال کی مزے دار فلنگ ہوتی ہے۔ پیٹھا دراصل ماڈرن موموز کی قدیم شکل ہے۔ یہ تیکھے اور میٹھے دونوں بنتے ہیں۔ میٹھے پیٹھے میں گڑ کی فلنگ کی جاتی ہے۔ بعض لوگ بھاپ میں پکانے کے بعد انہیں ہلکا سا فرائی کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔


پیٹھا کی ایک قسم 'کھونگا' ہے۔ اس میں چاول،ارد اور چنے کی دال کا پیسٹ بنا کر اسے کٹہل کے پتوں کا کون بنا کر اس میں بھر دیتے ہیں۔ پھر ان کونز کو بھاپ میں پکایا جاتا ہے۔ پکنے کے بعد پتے کھول کر تیار شدہ کھونگے نکال لیے جاتے ہیں اور مرغ یا کلیجی کے سالن کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔


'لٹی چوکھا' بھی جھارکھنڈ کی ایک مقامی ڈش ہے۔ لٹی میں آٹے کے پیڑے میں مسالے دار ستو کی فلنگ کی جاتی ہے پھر اسے کوئلے کی دھیمی آنچ پر پکاتے ہیں اور گھی میں ڈبو کر سرو کرتے ہیں۔ اسے آلو اور بیگن کے بھرتے کے ساتھ کھاتے ہیں جسے 'چوکھا' کہا جاتا ہے۔


جھارکھنڈ کی ایک مشہور اور لذت آمیز ڈش 'مرگا جھور' ہے جو ہندو مسلم سبھی میں یکساں طور پر مقبول ہے۔یہ دراصل مرغ کا شوربہ ہے جو کچھ مختلف مسالوں کے ساتھ مقامی انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ جھارکھنڈی لوگ اسے چاولوں(بھات) کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں۔ اس میں پیاز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔


اس کے علاوہ جھارکھنڈ میں کئی اقسام کی ساگ سبزیوں کی ڈشز بنائی جاتی ہیں جن میں منغا ساگ، کوئنار کا ساگ، پُھٹکل کا ساگ، سنئی کے پھول کا ساگ، بانس کی سبزی، زمین قند کا اچار، کونہڑا(کدو) کی سبزی اور مشروم کی سبزی قابل ذکر ہے۔


ٹھیکوا یہاں کا ایک خاص بسکٹ ہے جسے گھروں میں تیار کیا جاتا ہے۔ گیہوں کے آٹے میں سوجی، گڑ اور ڈرائی فروٹس مکس کر کے گرم تیل میں تل لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس میں میدہ بھی ملاتے ہیں۔
ایک خاص میٹھی چیز 'پوا puwa' بھی ہے جو چاولوں کو پیس کر تیار کی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کی میٹھی پوری جیسی ڈش ہے جو بے حد لذیذ ہوتی ہے۔


جھارکھنڈ میں بہت چٹپٹے اور ذائقے دار اسنیکس بھی ملتے ہیں۔ جن میں 'آلو چوپ' سب سے لذیذ ہوتا ہے۔ یہ ممبئی کے بٹاٹا وڑا جیسا ہے۔ اس کے علاوہ 'گپ چپ' (پانی پوری) یہاں کی ایک مشہور ڈش ہے۔ جھارکھنڈ کے گپ چپ میں آلو ڈالا جاتا ہے۔ 'بھیل پوری' کی شکل میں یہاں 'جھال مڑی' ملتی ہے جس میں موری یعنی puffed rice کے ساتھ آلو کے کیوبز، پیاز، ابلے چنے، ہری مرچ، ٹماٹر، مونگ پھلی، تلی ہوئی چنے کی دال اور کھیرے کو ایک چمچ سرسوں کے تیل میں اچھی طرح سے مکس کرتے ہیں۔ کرکرے ذائقے والا یہ مسالے دار نمکین بہت لذیذ ہوتا ہے۔


اس کے علاوہ ارد کی دال سے تیار کردہ 'برّہ' جو بڑے چپٹے پکوڑوں کی شکل کے ہوتے ہیں ۔ چنے کی دال میں ڈھیر ساری پیاز اور ہری مرچ ڈال کر چپٹے پکوڑے جنہیں 'کچری' کہتے ہیں، بندگوبھی کے پکوڑے، مونگ دال کے پکوڑے، چناچوڑا، ستو کے پراٹھے،قیمے کے سموسے، اور چنگڑی مچھلی فرائی وغیرہ یہاں کے فیمس اسٹریٹ فوڈز ہیں۔ آلو کے سموسے جھارکھنڈ میں 'سنگھاڑا' کہلاتے ہیں جس میں مونگ پھلی کی آمیزش اس کا ذائقہ دوبالا کردیتی ہے۔


مٹھائیوں کی بات کریں تو رانچی کے 'رس گلے' سب سے زیادہ خاص اور مشہور ہیں۔ بے حد نرم ملائم سفید رسگلے جو منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتے ہیں۔ گڑ کے گلاب جامن جو صحت کے اعتبار سے نقصاندہ نہیں ہوتے ہیں۔ 'میٹھا کھاجا' جو بے حد خستہ کرکرا اور شیرے میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ چاول سے تیارکردہ تلی ہوئی میٹھی گولیاں جنہیں 'اندرسہ' کہتے ہیں ان پر تل لپٹا ہوا ہوتا ہے جو منفرد ذائقہ دیتا ہے۔
تل اور گڑ سے تیارکردہ 'تلکٹ' جنہیں کوٹ کوٹ کر بناتے ہیں اور بے حد لذیذ اور کھانے میں ہلکے ہوتے ہیں۔ مکر سنکرانتی کے موقعے پر بننے والی 'تل برفی' جس میں جھارکھنڈ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جھارکھنڈ کے آدیواسی مہوا کی شراب بھی بہت پیتے ہیں اور تاڑی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ جھارکھنڈ کا اپنا ایک cuisine ہے جو منفرد کھانوں اور ذائقوں پر مشتمل ہے۔


بہرحال اب سے بیس برس قبل کے جھارکھنڈ اور آج کے جھارکھنڈ میں بہت فرق آچکا ہے۔ جھارکھنڈ نے اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ علاقہ ویسے بھی معدنیات اور قدرتی وسائل سے لبریز ہے۔ اب جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے یہ اپنے شہروں کو ترقی دے رہا ہے۔ جھارکھنڈ اب ایک نیا IT ہب بن رہا ہے جہاں تمام کمپنیاں اپنی شاخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔ انڈسٹریلیسٹ اپنی صنعتیں قائم کررہے ہیں۔ لوگ تیزی سے جھارکھنڈ میں اپنا مستقبل مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہاں کا معتدل موسم اور ندیاں، پہاڑ اور جھرنے سیاحوں کے لئے ایک کمپلیٹ پیکیج ہیں۔ مشہور مقامات کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے کئی پوشیدہ خوبصورت پہاڑ اور جھیلیں ہیں جہاں آپ فطرت کے حسن کانظارہ کرسکتے ہیں۔ چونکہ ابھی جھارکھنڈ کو وہ توجہ نہیں ملی جس کا وہ حقدار ہے اس لئے ابھی یہاں کی سیاحت سستی ہے۔ اس سے پہلے کہ تمام مقامات تجارتی ہوجائیں پہلی فرصت میں جھارکھنڈ کے لئے رخت سفر باندھ لیجیے۔


***
حمیرا عالیہ (لکھنؤ)
humaira7.ha[@]gmail.com
Jharkhand, the hidden heaven. - Essay: Humaira Alia

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں