قصبہ گوپامئو کی تہذیب و ثقافت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-28

قصبہ گوپامئو کی تہذیب و ثقافت

gopamau-town-hardoi-district-up

ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہندوستان کے تمام صوبے، شہر اور اضلاع اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ چاہے وہ لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت ہو یا دہلی اور حیدرآباد کی تہذیب و تمدن کی بات یہ شہر برسہا برس سے اپنی خوبصورت ثقافتی وراثت کو نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ جس کا اثر ان شہروں کے اطراف موجود قصبوں پر بھی بخوبی نظر آتا ہے۔


ایسا ہی ایک قصبہ اتر پردیش کے ضلع ہردوئی میں واقع " گوپامئو" ہے۔ جو لکھنؤ سے تقریباً سو کلو میٹر کی دوری پر ہے جس کے اطراف مشرق ، مغرب ، شمال اور جنوب میں واقع ضلع سیتاپور ، شاہجہاں پور ، لکھیم پور ، قنوج وغیرہ ہیں۔ گوپامئو کی تاریخ کافی حد تک روایتی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گوپی اور سوپی دو بھائی پٹن سے گیا کی طرف جاتے ہوئے قنوج میں راجا جے چند سے ملے، راجا جے چند نے دونوں کو اپنے یہاں روکا خاطر و مدارات کی، اور انہیں الگ الگ جگہوں پر رہائش بنانے کا مشورہ دیا، سوپی نے راجا جے چند کے مشورے پر اپنی رہائش بھینسری میں بنائی اور گوپی گوپامئو میں جاکر رہائش پذیر ہوا‌۔ جس نے قصبہ گوپامئو کی بنیاد رکھی۔


دوسری روایت یہ بھی ہے کہ سالار مسعود گوپامئو آنے والا پہلا مسلمان تھا جبکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ گوپامئو آنے والا پہلا مسلمان عظمت شاہ تھا جو راجہ گوپی کے توسط سے گوپامئو میں پہلے ہی آباد ہو چکا تھا۔ سالار مسعود نے گوپی چند کو خوں ریزی سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے گوپامئو پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ جب وہ بہرائچ چلا گیا تو میر سید عزیز الدین کو گوپامئو کا گورنر مقرر کر گیا۔اس وقت گوپامئو کو پرگنہ کا درجہ حاصل تھا۔ میر سید عزیز الدین کو " لال پیر" کے نام سے جانا جاتا ہے‌۔ گوپامئو میں موجود لال پیر درگاہ یہاں کی سب سے قدیم ترین عمارت ہے۔ قنوج اور بلگرام پر ہونے والے حملوں کے سبب پرگنہ گوپامئو پر بھی کافی تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔


تقریباً بیس ہزار کی آبادی پر مشتمل اس قصبے میں مسلم و غیر مسلم کل ملاکر مختلف نسل و ذات کے لوگ موجود ہیں۔ غیر مسلموں کے مقابلے یہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جس میں سید، شیخ ، مرزا، پٹھان، انصاری ، صدیقی، فاروقی، قریشی،منصوری، رائین، وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں میں یہاں برہمن، کایستھ ، سنار، کمہار ، لوہار، شودر وغیرہ ذاتیں موجود ہیں۔ سیدوں کی تاریخ یہاں 1208ء سے ملتی ہے جن کے اجداد سید معین الدین قنوج سے یہاں آئے تھے۔ جن کے بیٹے اور پوتے ہمایوں کے دور میں گوپامئو پرگنہ کے قانون گو مقرر ہوئے تھے۔ پٹھانوں کی تعداد یہاں پر زیادہ ہے جن میں سے کچھ خود کو کابل بخارا سے ہجرت شدہ مانتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ ہندوؤں میں یہاں پہلی ذات کائستھوں کی ہے جو ہمایوں کے زمانے سے یہاں موجود تھے‌۔ بعد میں یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو گئی۔


گوپامئو کی ادبی فضا کافی زرخیز رہی ہے۔ یہاں پر ایسے بہت سے ادباء شعراء مقیم رہے ہیں جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ قاضی مبارک اولیاء ، ملا وجیہ الدین ، مفتی علیم اللہ، ملا قطب الدین ، قاضی مبارک ثالث ، شاہ صلاح الدین ، انوار الحق فاروقی، جیسے تقریباً پچاس عربی فارسی ادباء و شعراء کا ذکر پروفیسر صلاح الدین عمری کی کتاب " اعلام گوپامئو" میں ملتا ہے۔
اس کے علاوہ مولانا عرفان ندوی کی کتاب " سخنوران گوپامئو" میں بھی کچھ فارسی شعراء کی حالات زندگی اور نعتیہ کلام کا ذکر ہے۔ اردو کے مشہور شاعر ضیا فاروقی صاحب کے آباؤ اجداد بھی گوپامئو کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملا قطب الدین گوپامئوی اپنے وقت کے ریاضی کے ماہر استاد تھے۔ جن کا مزار آج بھی یہاں کھنڈرات کی شکل میں موجود ہے۔ ملا وجیہ الدین بھی یہاں کی معزز ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی پیدائش ایک ہزار پانچ ہجری مانی جاتی ہے۔ شاہجہاں کے دور میں شاہی لائیبریری کے انچارج کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ " فتویٰ عالمگیری" کتاب کے مصنف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ داراشکوہ کے اتالیق بھی مقرر ہوئے تھے۔ ملا وجیہ الدین کی تدفین بھی گوپامئو میں ہی ہے۔


ان تمام لوگوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ایک وقت میں یہاں کی ادبی فضا کافی زرخیز تھی لیکن حالیہ برسوں میں یہاں کی ادبی فضا پر اب دھول جم چکی ہے۔ ادبی محفلیں جن کا اہتمام بڑے زور شور سے ہوا کرتا تھا ختم ہوئے ایک صدی گزر چکی ہے۔ نوابوں کے قصبے کے نام سے مشہور گوپامئو اب محض ایک تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ پرانے قلعے عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں ، جس کا اثر یہاں کی تہذیب و ثقافت پر بھی پڑا ہے۔ اب یہاں محض نسلی تفاوت اور پیسے کمانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کو ذات پات اور معاشی سطح پر نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ گوپامئو کے اطراف میں موجود گاؤں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
معاشی بنیاد پر دیکھا جائے تو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی طرح یہاں کے مسلمان بھی کچھ جو پرانے زمیندار رہے ہیں آج بھی معاشی طور پر مضبوط ہیں۔ اور کچھ روزی روٹی کمانے کی خاطر دوسرے شہروں میں محنت و مزدوری کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں کی مٹی کافی زرخیز ہے۔ تمباکو ، دھنیا، سویا، سرسوں وغیرہ کی کھیتی یہاں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ دھنیا کی کھیتی عموماً اکتوبر سے جنوری تک ہی ہوتی ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں سے کاشتکار لوگ آس پاس کے علاقوں جیسے قنوج وغیرہ سے خریداری کرتے ہوئے تقریباً کئی سالوں سال یہ بزنس چلا رہے ہیں۔
چھوٹے موٹے بزنس کے طور پر یہاں ہاتھ سے بنی ہوئی فام کی ٹوپیوں اور چکن کاری کا کام ہوتا ہے چکن کڑھائی کے کرتے لکھنؤ تک اور ٹوپیاں حیدرآباد ، بنگلور، بنارس ، ممبئی تک سپلائی ہوتی ہیں۔ گوپامئو کے لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ گوشت یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ غذا ہے، بکرے اور گائے کے گوشت کی مختلف ڈشیز یہاں مرد حضرات بھی وقتاً فوقتاً بناتے رہتے ہیں۔


گوپامئو کی تہذیب و ثقافت پر قدیم لکھنؤ کے اثرات کافی حد تک نمایاں ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کا انداز ہو یا شادی بیاہ کی تقریبات، رنگا رنگ کھانے اور ناشتے دسترخوانوں پر سجے نظر آ جائیں گے۔ شادیوں میں دولہا اور دلہن کو سونے کے زیورات دینے کا رواج یہاں عام ہے۔ چاندی کے زیورات کا چلن بہت کم ہے یا نہ کے برابر ہے۔ غریب سے غریب شخص بھی زیادہ سے زیادہ زیورات لڑکیوں کو دینے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے یہاں دولہے کے متعلقین کو جیسے ماں باپ، بہنوں بھائی اور بھابھیوں کو شادی پر سونے چاندی کے زیورات دینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ جو مڈل کلاس فیملیز پر بھاری بھی پڑ رہا ہے۔
قدیم تہذیبی وراثت کی پہچان حقے اور پاندان البتہ گھروں سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن پرانے زمیندار گھرانوں میں تہذیبی وراثت کے روپ میں ابھی بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ گھوڑے پالنے کا شوق جو دادا پردادا کے زمانے سے چلا آ رہا تھا آج بھی اکا دکا گھروں میں باقی ہے۔


گوپامئو کے کھان پان اور پہناوے پر لکھنؤ کا رنگ نمایاں ہے لیکن زبان پر قنوجی بھاشا کا غلبہ ہے۔ لکھنے اور پڑھنے میں ہندی اور اردو زبانوں کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بولنے میں عموماً ہندی اور قنوجی کی ملی جلی زبان ہی استعمال کی جاتی ہے۔ آس پاس کے علاقوں میں بھی عام طور سے یہی زبان رائج ہے۔ یہاں کی عمارات میں " گھسا ہوا محل" کافی مشہور ہے جسے چھوٹی چھوٹی اینٹوں کو گھس کر اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس پر سیمنٹ کے پلاستر کی ضرورت نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اینٹوں کے درمیان سے چیونٹی جانے کی بھی جگہ نہیں ہے۔ اس کی تعمیر ایک ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ جو یہاں کے لالہ ( کایستھ ) کا محل ہوا کرتا تھا۔ دیواروں پر نقاشی کرکے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے طاقوں کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ ان میں روشنی کے لئے دیے جلاکر رکھے جاتے ہوں گے۔
اس کے علاوہ لال پیر کی درگاہ اور دادا میاں کا مزار یہاں کے قدیم ترین مزارات ہیں۔ لال پیر درگاہ پر ہر سال جون کے مہینے میں تین دن کا میلہ لگتا ہے جس میں بڑی تعداد میں عقیدت مند مزار پر حاضری دیتے ہیں اور چادر وغیرہ چڑھاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ قوالی اور لنگر وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔


مجموعی طور پر گوپامئو کی تہذیب و ثقافت تھوڑی سی رد و بدل کے ساتھ آج بھی باقی ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں کی ادبی فضا پر جمی ہوئی دھول حال فی الحال صاف ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔


معاون کتب :
اعلام گوپامئو ، از پروفیسر صلاح الدین عمری
سخنوران گوپامئو ، از مولانا عرفان ندوی
***
زیبا خان (گوپامئو ہردوئی، اترپردیش)
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونیورسٹی
ای-میل: kzeba1674[@]gmail.com

Gopamau, a town in Hardoi district of Uttar Pradesh state. Essay: Zeba Khan

1 تبصرہ: