دہشت گردی الزام اور پھانسی ملزمین کو بچانا ہے - جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-26

دہشت گردی الزام اور پھانسی ملزمین کو بچانا ہے - جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل

چھ سو نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام اور 75 کو پھانسی سے بچانا ہے
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی سے گفتگو


جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی سے جب بھی ملتا ہوں ، ایک نئے عزم اور حوصلے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہ کبھی مایوس لگے اور نہ ہی خوفزدہ۔ قمری لحاظ سے وہ عمر کی 91 ویں اور شمسی لحاظ سے 88 ویں منزل تک پہنچنے کے قریب ہیں ، لیکن اس بات پر کہ ' جلد ہی جابر اور ظالم اپنے انجام کو پہنچیں گے ' وہ نوجوانوں سے بھی کہیں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ کوئی ایک سال قبل 'ممبئی اردو نیوز' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ' پھانسی کے 65 ملزمین کو بری کرانا ہے ' ، اور اس سے ایک سال قبل کہا تھا کہ ' ہم نے کسی کو پھانسی پر چڑھنے نہیں دیا ہے ' اور یہ باتیں اب تک سچ ثابت ہوئی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئے ہیں ، فرقہ پرستی نے مزید شدت اختیار کی ہے اور گھر واپسی ، لو جہاد ، لینڈ جہاد ، تبدیلیٔ مذہب اور گئورکشھا کے نام پر تشدد کرنے والوں نے حجاب اور حلال گوشت کو بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا بہانہ بنالیا ہے۔ اس بیچ عدلیہ کے چند ایسے فیصلے اور تبصرے آئے ہیں جو حیرت میں بھی ڈالتے ہیں اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان بھی کھڑے کرتے ہیں۔ مثال حجاب کے مسئلے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی لے لیں ، جج نے کہا کہ ' اسلام میں حجاب لازمی نہیں ہے۔' اسی طرح ایک جج کا یہ تبصرہ لے لیں کہ ' مسکرا کر کوئی بات کہی جائے تو وہ جرم نہیں ہے۔' جمیعۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی چونکہ بہت ہی حساس قسم کے مقدمات لڑرہی ہے ، اس لیے عدلیہ کا رویہ باعث تشویش ہے۔ عدالتوں میں 75 ایسے افراد کے مقدمے ہیں جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے ، جی یہ تعداد اب بڑھ گئی ہے۔ عدلیہ کا رویہ بھلے بہت حوصلہ افزا نہ ہو لیکن گلزار اعظمی مطمئن ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ' جیت سچائی کی ہی ہو گی۔' ان سے کی گئی بات چیت کے اقتباسات ذیل میں پیش ہیں۔


سوال:
دو سالوں کے دوران حالات بڑی تیزی سے بدلے ہیں۔ فرقہ پرستی میں اضافہ ہوا ہے ، مساجد ، مقابر ، مدارس اب سب ہی نشانے پر ہیں ، اور وہ اشخاص اور ادارے بھی جو غیر جانبداری کے لیے معروف تھے ، اب رنگ بدلتے نظر آرہے ہیں ، مسلمانوں میں ایک طرح کا خوف یا تشویش پائی جاتی ہے۔ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ سے میری مراد مسلم جماعتوں ، تنظیموں بالخصوص جعیتہ علماء سے ہے۔
جواب:
مسلمانوں کو ہمت نہیں ہارنا چاہیے ، اور نہ ہی کسی طرح کے احساسِ کمتری کا شکار ہونا چاہیے ، بلکہ سینہ تان کر اِن حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حق کو دبانے کی کوشش ہمیشہ ہوتی ہے ، یہ کوشش عارضی طور پر کامیاب ہوتی ہے مگر مستقل کامیاب نہیں ہوتی۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اتحاد و اتفاق ہو۔ برسرِ اقتدار ٹولے نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ متحد ہو جائیں ، ورنہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جب سیاسی پارٹیاں متحد ہو سکتی ہیں تو ہم تو پھر بھی اقلیت میں ہیں کمزور ہیں ، ہم کیوں متحد نہیں ہو سکتے !


سوال:
حالات کیا لگ رہے ہیں ؟
جواب:
ملک کے حالات بہت تشویش ناک ہیں اور ہم مسلمانوں کو جہاں جہاں سے انصاف مل سکتا ہے ، ایسے تمام اداروں پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے ، اس لیے ہمیں اپنا حق حاصل کرنے میں دشواری تو ہو گی لیکن ان شا اللہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب اس ظلم و استبداد کا خاتمہ ہوگا۔


سوال:
جمعیتہ اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے ؟
جواب:
جمعیتہ کیا کر سکتی ہے ! ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہر شعبے میں مسلمانوں کی مدد کر سکیں اور یہ کام کرتے ہیں۔ جمعیتہ کے سامنے بڑا مسٔلہ تعلیمی اداروں کے قیام کا ہے۔ حضرت مولانا ارشد مدنی زور دے رہے ہیں کہ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں۔ مخلوط تعلیم سے جو نقصان مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے وہ بہت زیادہ تشویش ناک ہے۔ اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلمان لڑکی سے ملے تو قابلِ تعزیر نہیں ، لیکن اگر کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی سے رشتہ جوڑے تو قابلِ تعزیر ہے۔ ایسے میں اگر ہمیں اپنی بچیوں اور بچوں کو شرک و کفر سے بچانا ہے تو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے شولاپور میں 6ایکڑ کے ایک وسیع پلاٹ کا سودا طے کیا ہے ، ان شا اللہ مسلم بچیوں اور بچوں کے لیے ایک شاندار تعلیمی ادارہ قائم کریں گے ، جس میں دینی و دنیاوی تعلیم دی جائے گی۔ میں مسلم نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ اعلیٰ ترین ڈگریوں کے پیچھے نہ دوڑیں ، بہتر یہ ہے کہ ایسی ڈگری حاصل کریں جس سے فوری منافع بھی ہو اور ترقی بھی ، جیسے کہ وکالت ، انجنیرینگ ، فارمیسی اور ڈاکٹری وغیرہ۔ ہم اس کے لیے امداد بھی کرتے ہیں ، حالانکہ جنہیں وظائف دیے ہیں وہ اتنی تعداد میں نہیں ہیں کہ تذکرہ کیا جائے ، لیکن ہم نے وظائف دیے ہیں اور دینا چاہتے ہیں۔ جس طرح مسلمان مقدمات کی پیروی کے لیے مالی تعاون کر رہے ہیں ہم چاہیں گے کہ وہ اس جانب بھی توجہ دیں تاکہ ہم ایک اچھا شہری ، ڈاکٹر ، وکیل اور انجنیئر دے سکیں۔ برادران وطن سے اور حکومت سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ سکون سے اس ملک میں ہمیں زندہ رہنے دیں ، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو اچھی سے اچھی یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے دیئے اور مزید دے سکتے ہیں۔ ہم نے اچھے سے اچھے سرمایہ دار دیئے ہیں جنہوں نے اس ملک کا نام روشن کیا ہے۔


سوال:
آج کے حالات میں جو مقدمات آپ لڑرہے ہیں ، کیا ان کے لڑنے میں پہلے کے مقابلے دشواریاں بڑھی ہیں ؟
جواب:
جہاں تک مقدمات لڑنے اور وکلاء کا انتخاب کرنے کا سوال ہے اس میں کوئی دشواری نہیں آئی ہے ، لیکن جہاں تک حکومت اور سرکاری کارندوں کا سوال ہے ، ہماری مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ مثال
انڈین مجاہدین گجرات کیس کی لے لیں۔ ممبئی میں 93ء میں جو بم بلاسٹ ہوا تھا ، اس میں احمد آباد کے اس معاملے سے کہیں زیادہ لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے ، لیکن سزا میں اتنے زیادہ لوگوں کو پھانسی نہیں دی گئی تھی۔ اس کیس میں 78 لوگوں پر مقدمہ چلا ، ملزمین میں سے ایک ملزم وعدہ معاف گواہ بنا ، 28 لوگوں کو باعزت بری کیا گیا ، یا یوں کہہ دیں کہ ان پر الزام ثابت نہیں ہوسکا ، لیکن 38 لوگوں کو پھانسی اور 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ، یعنی جو 49 بچے تھے ، ان سب کے لیے موت ہی لکھی ہے۔ یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ لیکن ہم نے اس کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں اپیل داخل کر دی ہے جو سماعت کے لیے منظور ہوچکی ہے۔


سوال:
مطلب عدلیہ کا رویہ واقعی تبدیل ہوا ہے ؟
جواب:
جی ، عدلیہ کا رویہ بہت تبدیل ہوا ہے۔ یہ دیکھ لیں کہ سلّی ڈیل میں جہاں مسلم عورتوں کی نیلامی کی جاتی تھی اور پھر فخش کلمات کے ساتھ تشہیر ہوتی تھی ، اس کے ملزمین کو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ، اس لیے ضمانت دے دی جائے۔ دوسری طرف دلی ہی میں عمر خالد ، شرجیل امام وغیرہ کا معاملہ دیکھ لیں ، انہوں نے نہ ہی تو کسی کو ذلیل کیا ، نہ ہی پہلے کا ان کا کوئی فساد کاریکارڈ ہے لیکن عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا نہیں کرتیں۔


سوال:
عدلیہ کا رویہ تبدیل ہونے کی کیا وجہ ہے ؟
جواب:
ملک کی فضا کو برسراقتدار طبقہ نے اس قدر مسموم کردیا ہے کہ ہر شخص اس سے متاثر ہورہا ہے ، عدالت کی کرسی پر بیٹھنے والے بھی انسان ہیں ، وہ بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلے جو ہیں درست نہیں ہیں۔


سوال:
کیا سپریم کورٹ بھی متاثر ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ کیا اس پر بھی فرقہ وارانہ زہر کا اثر ہوا ہے ؟
جواب:
نچلی عدالتوں کے مقابلے میں ہم جب بھی اوپر گئے تو انصاف ملا۔ جیسے کہ کولکتہ کا 2002 کا امریکن قونصل خانہ پر حملے کا معاملہ دیکھ لیں جس میں 7 افراد کو نچلی عدالت نے پھانسی کی سزا دی تھی ، کولکتہ ہائی کورٹ کو 3 نے باعزت بری کیا۔ 2 کی پھانسی کی سزاؤں کو سات سال کی قید میں تبدیل کیا۔ پھر دو کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردیا۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ کسی کو پھانسی نہ ہونے دیں۔ کولکتہ کا یہ وہ پہلا مقدمہ تھا جو جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی نے کامیابی سے لڑا تھا۔ اعلیٰ عدالتوں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔


سوال:
گویا کہ سپریم کورٹ سے امید ہے ؟
جواب:
جی بالکل امید ہے ، اور امید رکھنا بھی چاہیئے۔ بتادوں کہ ہم انڈین مجاہدین ، احمدآباد کے 38 ملزمین کے علاوہ پورے ملک میں پھانسی کے 75 کیس لڑرہے ہیں ، 125 کیس عمر قید کے ہیں ، ان سب کی شنوائی ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ میں ہونا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہوگی کہ یہ پھانسی نہ چڑھیں۔ ان شا اللہ انصاف ملے گا ، جیت سچائی کی ہوگی۔


سوال:
اب تو مہاراشٹر میں بھی نفرت پھیلانے کی پوری کوشش ہے۔ ہندو جن آکروش مورچہ نکالے جا رہے ہیں ، راج ٹھاکرے نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی بات کی ہے ؟
جواب:
جی ، راج ٹھاکرے ہی نہیں بی جے پی رہنما بھی کہہ رہے ہیں کہ مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹادیئے جائیں ، جبکہ بمشکل اذان پر تین منٹ لگتا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہہ دیا ہے کہ رات دس بجے سے لے کر صبح ۶ بجے یک لاؤڈاسپیکر کا استعمال نہیں ہوگا ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ برادران وطن اپنے تہواروں میں اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مقصد آپسی بھائی چارہ کو ختم کرنا یا مسلمانوں کو دو نمبر کا شہری بنانا ہے ، تاکہ اس کے دستوری حقوق چھین سکیں۔


سوال:
کیا یہ ممکن ہے ؟
جواب:
ممکن نہیں ہے ، لیکن کوشش یہی ہے۔ حجاب کے طور پر ہم اپنی پسند کا کپڑا پہنیں بدن ڈھانپ کر چلیں ، دستور کی دفعات اس کی اجازت دیتی ہیں۔ کیا کھائیں ، کیا نہ کھائیں ، دستور حق دیتا ہے۔ پابندیوں کا مقصد یہ جتانا ہے کہ مسلمان دو نمبر کے شہری ہیں اور سارے حقوق اکثریت کے ہیں۔


سوال:
لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے کی کوشش اور تعلیمی وظائف ایک اچھی بات ہے ، کیا اس کے علاوہ جمعیۃ امداد دیتی ہے ؟
جواب:
جی ، جمعیۃ ریلیف کے کاموں پر بھی خرچ کرتی ہے۔ کوکن کے سیلاب زدگان میں کروڑوں کی ریلیف تقسیم کی گئی ، ساتھ ہی سانگلی ، کولہا پور کے سیلاب زدگان کے لئے بھی ہم نے مکانات بنوائے اور یہ سارے کام باوجود اس کے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں تھے جمعیۃ علماء نے جاری رکھے۔ ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں ، 600سے زائد نوجوانوں کو ہم قانونی امداد فراہم کر رہے ہیں ، اب تک 281 ملزمین کو دہشت گردی کے الزامات سے باعزت بری کرایا گیا ہے ، 112 کو ضمانت پر رہائی ملی ہے ، 95 مقدمات لڑے جا رہے ہیں ، ان پر اور احمد آباد کا جو فیصلہ آیا ہے اس پر کروڑوں روپئے کا تخمینہ ہے اور جب کساد بازاری میں جمعیۃ سے مخیر حضرات نے تعاون کیا تھا تو اب تو اللہ کا شکر ہے کہ حالات بہتر ہوگئے ہیں ، ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ درخواست ہے کہ لوگ دعا کریں کہ ان مظلوموں کو ، جن کی بے گناہی کی سزا یہ ہے کہ انہیں سزائے موت دی گئی ہے ، نجات ملے۔


سوال:
مسلمان کس سیاسی پارٹی کا ساتھ دیں ؟ بعض لوگ یہ کتے ہیں کہ کانگریس کو اب مسلمان چھوڑ دیں۔
جواب:
جہاں تک سیاسی بات ہے تو یہ صحیح ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں ، ایمانداری سے سیکولرزم پر عمل نہیں کر سکی ہیں۔ عام طور سے مسلمان یہ کہتا تھا کہ ' بی جے پی آئے گی تو کیا ہو جائے گا '۔ جب کہا جاتا تھا کہ سیکولر پارٹی کو ووٹ دو تو کہتے تھے کہ آنے دو بی جے پی کو کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن بی جے پی کے آنے سے جو ہوا اور جو ہو رہا ہے ، وہ سب کے خٓاص طور سے مسلمانوں کے سامنے ہے۔ اور اگر بی جے پی آئندہ آئی تو کیا ہوگا اس کا بھی اندازہ ہے۔ سیاسی طور پر ہمیں دو طرح سے کام کرنا ہوگا ، ایک تو یہ کوشش کرنی ہوگی کہ جو اچھے امیدوار ہوں ہم متحد ہو کر انہیں ووٹ دیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو سو ووٹ نہیں لے سکتے بلکہ اپنے گھر کے ووٹ نہیں لے سکتے مگر امیدوار بن کر ایک اچھے امیدوار کی شکست کا باعث بنتے ہیں۔ نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ فرقہ پرست پارٹیاں اقتدار سے باہر رہیں۔

***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

Interview of Gulzar Azmi, Gen. Secretary Jamiat Ulema Maharashtra. Interviewer: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں