راہل گاندھی کے لئے سنہری موقع - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-26

راہل گاندھی کے لئے سنہری موقع - کالم از معصوم مرادآبادی

golden-opportunity-for-rahul-gandhi

سورت کی ایک عدالت سے دوسال کی سزا سنائے جانے کے بعد راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت منسوخ کردی گئی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو لوک سبھا سکریٹریٹ نے جب اس کی اطلاع جاری کی تو ملک میں زبردست سیاسی ہلچل تھی۔ کانگریسی کارکنان سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے اور پارلیمنٹ کے احاطے میں اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے عجیب و غریب نظارے دیکھنے کو ملے۔ حالانکہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت اور سرکاری ایجنسیوں کی ظلم و زیادتی کے خلاف پہلے سے ہی سراپا احتجاج تھیں، لیکن راہل گاندھی کی رکنیت ختم کر دئیے جانے کے بعد ان میں ایک نئی توانائی نظر آ رہی ہے۔
اپوزیشن لیڈران کے خلاف اس وقت سی بی آئی اور ای ڈی کی جو یک طرفہ مہم چل رہی ہے، اس نے سبھی کو پریشان کر رکھا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حکومت اور اس کی مشنری اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کی راہ پر گامزن ہے، جبکہ اپنے چہیتوں کی بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے۔ اس سوال پر پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسرا حصہ مسلسل تعطل کا شکار ہے اور وہاں کوئی کارروائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ اس دوران راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت منسوخ کئے جانے کے بعد صورتحال نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔


حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی سیاستداں کو سزا سنائے جانے کے بعد کسی قانون ساز ادارے کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل لالو پرساد یادو اور اعظم خاں جیسوں کی رکنیت ان ہی الزامات میں جا چکی ہے۔ لیکن راہل گاندھی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس وقت حکومت کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اڈانی معاملے میں حکومت کو گھیر رکھا ہے اور باربار اڈانی سے وزیراعظم مودی کے رشتوں پر سوال پوچھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں انھوں نے پارلیمنٹ میں جو دھواں دھار تقریر کی تھی اسے ریکارڈ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوک سبھا سے ان کی رکنیت ختم کرنے کو انتقامی سیاست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔


علاوہ ازیں راہل گاندھی نے پچھلے دنوں لندن کے سفر کے دوران ہندوستانی جمہوریت کو لاحق خطرات سے متعلق جو بیان دیا تھا، اسے حکومت نے ملک دشمنی کا سب سے بڑا مقدمہ بناکر ان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے ان کا موازنہ 'میرجعفر' جیسے غدار وطن سے کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست میں زبان اور ذہن کی سطح کتنی پست ہو گئی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی زبان درازی کی سزا صرف اور صرف اپوزیشن لیڈروں کو مل رہی ہے جبکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اس سے محفوظ ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بوفورس توپ سودے کے زمانے میں ایک نعرہ ایجاد کیا گیا تھا:
"گلی گلی میں شور ہے، راجیو گاندھی چور ہے۔"
یہ نعرہ کسی ثبوت کے بغیر ایک بہتان ہی تھا،لیکن اس وقت اپوزیشن میں ایسے لوگ موجود تھے جو بڑے زور و شور سے یہ نعرہ لگارہے تھے۔ لیکن اس وقت کسی نے اس کی گرفت نہیں کی۔


راہل گاندھی کو ان کے جس بیان کے لیے سورت کی عدالت نے سزا کا مستحق قراردیا ہے، وہ دراصل 2019 کا معاملہ ہے۔ راہل گاندھی نے کولار کے جلسہ عام میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ:
"کیسے سبھی چوروں کا سرنیم مودی ہوتا ہے؟"
جس وقت سورت کی عدالت نے انھیں دو سال کی سزا سنائی تو وہ عدالت میں موجود تھے اور ان کے وکیل نے یہ دلیل دی تھی کہ یہ بیان ارداتاً نہیں دیا گیا تھا، لیکن عدالت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ استغاثہ کی دلیل تھی کہ ملزم ایک ممبر پارلیمنٹ ہے اور اگر اسے یونہی چھوڑ دیا گیا تو غلط پیغام جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں راہل براہ راست ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتے کیونکہ ان کو سزا ایک فوجداری کیس میں ہوئی ہے۔ البتہ کوئی تیسرا فریق ہائی کورٹ سے مداخلت کی اپیل کر سکتا ہے۔
ایک شکایت یہ بھی ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 202 کے تحت مناسب قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ ان کے وکیل نے یہ بھی دلیل دی کہ اس معاملے میں نریندرمودی کو خود شکایت کنندہ ہونا چاہئے تھا، کیونکہ شکایت کنندہ پرنیش مودی راہل کی تقریر کا نشانہ نہیں تھے۔ اب یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے کہ وکیل دفاع کی اس دلیل کے بعد بھی کیا راہل کے بیان کو غیر ارادتاً کہا جا سکتا ہے نہیں؟


سیاست میں تیکھے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں سیاسی مکالمہ کی سطح جتنی پست ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کے لیے کسی فرد واحد کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گزشتہ عرصہ میں ایسے بہت سے نعرے ایجاد کئے گئے ہیں جنھیں کسی بھی طور درست قرار نہیں کہا جا سکتا، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پر عدالت یا کسی اور نے توجہ نہیں دی۔
آج کی لچر سیاسی زبان کے لیے کسی خاص شخص کو موردالزام ٹھہرانا عجیب سا لگتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر ہی اپنا کام کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ بڑی عدالتوں میں راہل کو راحت ملے اور ان کی لوک سبھا رکنیت بحال ہو جائے۔ لالو پرساد اور اعظم خاں جیسوں کے معاملوں میں ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ یہ دونوں اسی قسم کے معاملوں میں قصوروار قرار دئیے گئے تھے، لیکن انھیں اعلیٰ عدالتوں سے راحت نہیں ملی۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے کیرل کی وائناڑ سیٹ کو خالی قرار دے دیا ہے جہاں سے راہل گاندھی 2019 میں لوک سبھا کا چناؤ جیتے تھے۔ الیکشن کمیشن اب اس سیٹ پر ضمنی الیکشن کا اعلان کر سکتا ہے۔
دہلی میں راہل گاندھی کو سرکاری بنگلہ بھی خالی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر راہل کی سزا کا فیصلہ اعلیٰ عدالت برقرار رکھتی ہے تو وہ اگلے آٹھ سال تک چناؤ بھی نہیں لڑ پائیں گے۔ دو سال کی سزا پوری کرنے کے بعد وہ اگلے چھ سال کے لیے نااہل رہیں گے۔


کانگریس نے سوال اٹھایا ہے کہ صدر جمہوریہ ہی الیکشن کمیشن کے ساتھ مشورہ کرکے کسی ممبر پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دے سکتے ہیں۔ کانگریس نے اس معاملے میں سیاسی سطح پر لڑنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ وہ اس کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ قانونی لڑائی بھی لڑی جائے گی۔ پارٹی بلاک کی سطح پر احتجاج کرے گی اور دہلی میں بڑی ریلی کی جائے گی۔ دراصل کانگریس کے لیے راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم ہونا ایک بڑے موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ اس معاملے میں جس طرح تمام ہی اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر راہل گاندھی کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہیں، وہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔
اس معاملے میں سبھی اپوزیشن جماعتوں کا ایک ہی رخ ہے۔ یہاں تک کہ عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتیں جو حالیہ عرصے میں کانگریس کو آنکھیں دکھا رہی تھیں، اب ایسا محسوس ہوتا ہے سب یکجا ہو گئی ہیں۔ سبھی نے راہل گاندھی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ یہ راہل گاندھی کے لیے ایک سنہری موقع ہے اور اگر سچ کہیں تو 'آپدا میں اوسر' ہی ہے۔


اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو ختم کرنے کی جو روش اختیار کی ہے، اس میں اسے کامیابی ملے گی؟
اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر حکومت کے اس منصوبے کوناکام بنادے۔


اطمینان بخش بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کے معاملے نے اپوزیشن کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے۔ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر عوام کے درمیان جانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے جمہوری نظام کو جو سنگین خطرات لاحق ہیں اور جس طرح مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے نجات حاصل کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ اپوزیشن ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہو اور غیردستوری، غیرجمہوری اور غیرانسانی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ اعلان جنگ کر دے۔
اگر اپوزیشن نے اس موقع کو گنوا دیا تو پھر اس کی نوبت نہیں آئے گی۔


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

A golden opportunity for Rahul Gandhi - Column: Masoom Moradabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں