اودھی زبان : تاریخ ، خصوصیات اور اس کی اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-27

اودھی زبان : تاریخ ، خصوصیات اور اس کی اہمیت

awadhi-language-history-features

اودھی زبان کہ جسے ابادھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ہند آریائی زبان ہے جو بنیادی طور پر ہندوستان کے شمالی حصے بالخصوص اتر پردیش کے اودھ خطہ میں بولی جاتی ہے۔ اگرچہ اودھی بولنے والے ہندوستان کی دیگر ریاستوں جیسے دہلی، بہار اور مدھیہ پردیش میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال میں بھی کثیر تعداد میں اس زبان کو بولنے والے موجود ہیں۔ اودھی ہندی زبانوں کے خاندان کا حصہ ہے اور ملک بھر میں اسے لاکھوں لوگ بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اودھی بولنے والے آسانی کے ساتھ ہندی بھی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ 2012 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق برصغیر ہند و پاک میں تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ اودھی زبان بولنے والے موجود ہیں۔
اودھی زبان کا ایک مکمل تاریخی پس منظر ہے جو 14 ویں صدی سے شروع ہوتا ہے کہ جس وقت یہ دہلی سلطنت کی زبان ہوا کرتی تھی۔ بعد میں مغلوں نے اسے درباری زبان کے طور پر اپنایا، اور اودھ کے بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ بات چیت کے لیے اودھی کا استعمال کرنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو اور ترقی ملی اور یہ خطے کے عام لوگوں کی زبان بن گئ جس کی وجہ سے اس زبان کو پورے شمالی ہندوستان میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ 16 ویں صدی میں اودھی، اودھ کے علاقے کی زبان کے طور پر سامنے آئی جو موجودہ ریاست اتر پردیش میں واقع ہے۔ اودھی زبان کا ہندی زبان سے گہرا تعلق ہے اور اس کے ساتھ بہت سی مماثلتیں ہیں۔


اودھی ادب بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اودھی کی ایک بھرپور ادبی روایت رہی ہے جو قرون وسطیٰ سے جا ملتی ہے۔ مہاکاوی رام چریت مانس کی تخلیق کرنے والے 16 صدی کے مشہور شاعر تلسی داس اودھی میں ہی لکھا کرتے تھے۔ دوسرے نامور ادیب جیسے ملک محمد جیاسی اور عبدالرحیم خان خانہ کی تخلیقات میں بھی اودھی زبان کا استعمال ہوا ہے۔ ہندو مذہب کے عقیدتی گیت بھجن کی تشکیل میں بھی اس زبان کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔
اودھی زبان کی منفرد صوتیات ہیں، جس میں کئی آوازیں شامل ہیں جو دوسری ہندوستانی زبانوں میں موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک پیچیدہ گرامر اور نحو ہے، جو ہندی زبان کی دیگر بولیوں کی طرح ہے۔ اودھی کے 12 سر اور 36 حرف ہیں، جن کی نمائندگی دیوناگری رسم الخط سے ہوتی ہے۔ اودھی زبان کے بہت سے الفاظ دوسری زبانوں(سنسکرت، فارسی، عربی، انگریزی) سے لئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اس زبان کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع اور متنوع ہے۔ مثال کےطور پر:


1۔ سنسکرت: اودھی نے سنسکرت سے بڑی تعداد میں الفاظ لیے ہیں، جو ایک قدیم ہندوستانی زبان ہے۔ جن میں "دھرم" (مذہب)، "مکتی" (آزادی)، "کرما" (عمل)، اور "برہما" (ہندو دیوتا) شامل ہیں۔
2۔ فارسی: اودھی نے فارسی سے بھی بہت سے الفاظ لیے ہیں جو مغل دربار کی زبان تھی۔ جن میں، حکم، صبح اور صاحب شامل ہیں۔
3۔ عربی: اودھی میں عربی کے الفاظ کی چندمثالیں: سلام، جنت اور مسجد۔
4۔ انگریزی: اودھی زبان میں انگریزی کے بھی الفاظ شامل ہیں مثال کے طور پر: ہوٹل، بس، ٹرین۔
البتہ غور طلب ہے کہ مستعار الفاظ کو اکثر وصول کرنے والی زبان کی صوتیات اور گرامر کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کچھ مستعار الفاظ کے ہجے یا تلفظ اودھی میں ان کی اصل زبانوں کے مقابلے میں قدرے مختلف ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اودھی کو 'جدید ہندی کا باپ' کے طور پر پہچان حاصل ہوئی ہے۔ اس کی دلچسپ وجہ یہ ہےکہ ہندیی کی ابتدا لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ درحقیقت امیر خسرو جیسے نامور لوگوں نے جوکہ جدید 'ہندی' کے بانی کے طور پر بڑے پیمانے پر مشہور تھے، دہلی اور اس کے مضافات سے ہجرت کے بعد اس کو مقبول بنایا۔ اور حقیقی طور پر اودھی نے ہندی زبان کی ترقی پر انمٹ اثر چھوڑا ہے۔ اگر چہ دور حاضر میں اودھی کو صرف ہندی کے ہی ایک مختلف لحجہ اور بولی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر اس وقت کہ جب ہندی کو ہندوستان میں معیاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہوا تھا، اودھی ہندوستان کی دوسری اہم ترین ادبی بولیوں میں سے ایک تھی۔


عصر حاضر میں ہندوستان کی دوسری ریاستیں جہاں اودھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے ان میں دوآب کا علاقہ شامل ہے جو اودھ کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ کانپور اور الہ آباد بھی اس خطے کے کچھ اہم شہر ہیں جہاں اودھی بولی جاتی ہے۔ مشرقی ہندوستان کے ہندی بولنے والے کچھ لوگ اسے "کوسالی" کہتے ہیں۔ اودھی زبان لکھیم پور کھیری، فیض آباد، بارہ بنکی، سیتا پور ضلع، ہردوئی، بہرائچ، گونڈا، سلطان پور، پرتاپ گڑھ، اناؤ میں کافی مشہور ہے۔
اودھی کی ہندوستان میں دو دیگر اہم بولیوں یعنی بھوجپوری اور بہاری سے مماثلت ہے۔ تاہم ان کی مماثلت کے باوجود ان میں سے ہر ایک نے اپنی نوعیت اور انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ ہندی میں بننے والی مختلف تجارتی فلموں اور ٹیلی ویژن سیریلز میں اس حقیقت کو متعدد بار اجاگر کیا گیا ہے۔
اودھی زبان اودھ خطے کی ثقافت کا ایک لازمی جز ہے۔ اس نے ادب، موسیقی اور شاعری میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تلسی داس اور کبیر جیسے بہت سے مشہور شاعروں اور ادیبوں نے اپنے کاموں میں اودھی زبان کا استعمال کیا۔ اس زبان نے بھوجپوری اور برج جیسی دیگر زبانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
اودھی زبان کی چند اعلیٰ ادبی شخصیات میں مندرجہ ذیل نام شامل ہیں:


1۔ ملک محمد جائسی، جو کہ اپنی مہا کاوی نظم "پدماوت" کے لئے مشہور ہیں، جسے اودھی ادب کا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔
2۔ گوسوامی تلسی داس، ہندی ادب کے سب سے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں اور اپنے عظیم نظم رام چرت مانس کے لیے مشہور ہیں، جو اودھی میں لکھا گیا تھا۔
3۔ عبدالحلیم شرر، اردو کے ممتاز ادیب اور مورخ تھے جنہوں نے اودھی میں بھی بڑے پیمانے پر لکھا۔ ان کی تصانیف میں "گزشتہ لکھنؤ"، "کربلا کا دردناک واقعہ"، اور "انقلابِ اودھ" شامل ہیں۔
4۔ بھکہاری ٹھاکر، بہار کے ایک مشہور ڈرامہ نگار اور ادا کار تھے جنہوں نے بھوج پوری اور اودھی بولیوں میں لکھا اور پرفارم کیا۔ ان کے ڈرامے مزاح اور سماجی تبصرے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
5۔ سبط حسن - اردو کے مشہور شاعر اور ادیب تھے جنہوں نے اودھی میں بھی لکھا۔ ان کی تصانیف میں "مرثیہ کربلا" اور "اودھ کی مشہور شاعری" شامل ہیں۔


اپنی بھرپور تاریخ اور ثقافتی اہمیت کے باوجود، اودھی زبان کو جدید دور میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں زبان کے استعمال میں کمی آئی ہے، اور اب اسے نسبتاً کم ہی تعداد میں لوگ بولتے ہیں۔ اس زوال کی بنیادی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:


1۔ ہندی زبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور خطے میں دوسری زبانوں کا اثر، جس کی وجہ سے زبان پر عبور رکھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
2۔ سرکاری شناخت کا فقدان: اودھی کو ہندوستانی حکومت نے سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کو دوسری زبانوں کی طرح حمایت حاصل نہیں ہے۔
3۔ جدید کاری: اودھی نے وقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھی، جس کی وجہ سے اس میں تکنیکی ترقی، سائنسی تصورات اور دیگر جدید ترقیوں کے لیے جدید الفاظ کی کمی پائی جاتی ہے۔
4۔ تعلیم: اودھی زبان میں رسمی تعلیم کا نہیں پائی جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسکولوں یا کالجوں میں بہت کم لوگ اسے سیکھ رہے ہیں۔ تعلیم کی یہ کمی زبان کی ادبی اور ثقافتی نشوونما کے فقدان کا باعث بنتی ہے۔
5۔ میڈیا: اودھی میں میڈیا اور جدید ادب کی بھی کمی ہے، جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کے لیے زبان پڑھنے، لکھنے اور بولنے کے مواقع بہت کم ہیں۔
6۔ ہجرت: دیہات سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کی وجہ سے اودھی کو اپنی بنیادی زبان کے طور پر بولنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، کیونکہ شہری علاقوں میں لوگوں کی زباں اکثر ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے۔


مجموعی طور پر، ان چیلنجوں نے اودھی زبان کے لیے جدید دنیا میں پنپنا اور زندہ رہنا مشکل بنا دیا ہے۔ اگر چہ ان تمام مشکلات کے باوجود اودھی زبان کے تحفظ اور اس کے استعمال کو فروغ دینے کی کوششیں جارہی ہیں۔ کئی تنظیمیں اور افراد زبان اور اس کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اودھی میں لکھے گئے ادب اور شاعری کو دستاویزی شکل دینے اور محفوظ کرنے کے لئے بھی قدم اٹھائے گئے ہیں۔
اودھی لینگویج اکیڈمی، اودھی بھاشا سنستھان اور اودھی ساہتیہ پریشد جیسے ادارے اودھی زبان کے بھرپور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے اور جدید دنیا میں اس کی ترقی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اودھی زبان اور اس کے ادب کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتے ہیں، اور اس شعبے میں تحقیق اور اسکالرشپ کے لیے تعاون بھی فراہم کرتے ہیں۔


***
شبیہ عباس خان۔ سافٹوئر انجینئر (بی۔ٹیک، انٹگرل یونیورسٹی، لکھنؤ)۔
shabihabbaskhan[@]gmail.com

Awadhi language: History, Features and its Importance. - Article by: Shabih Abbas Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں