کرشن چندر کی کہانی - خاکہ از رتن سنگھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-06

کرشن چندر کی کہانی - خاکہ از رتن سنگھ

ratan-singh-krishan-chander

کرشن چندر کی بات شروع کرنے سے پہلے ایک دلچسپ کہانی سن لیجئے۔ عشق و محبت کی انوکھی داستان ہے یہ۔


ایک لڑکی کی جب شادی ہونے لگی تو اس نے اپنے پریمی سے کہا:
"ہمارے ملنے کی اب ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ تم سادھو بن کر میری سسرال میں ڈیرا ڈال لو۔" پریمی نے ایسے ہی کیا اور اس طرح وہ پریمی اور پریمکا برسوں تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے۔ کچھ وقت گزر جانے پر لڑکی کے شوہر کو اپنی بیوی پر کچھ شک ہوگیا اور اس طرح اس نے ایک رات اس کا پیچھا کیااور موقع پا کر سادھو کا قتل کر دیا۔


بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ لڑکی ماں بنی ، پھر دادی اور نانی بھی بن گئی۔
ایک شام کو اس کا شوہر گائے کا دودھ دوہ رہا تھا ، اور پاس ہی عورت گنڈا سے سے چارہ کاٹ رہی تھی۔
"ذرا بھوسے والے کمرے سے رسی پکڑا دو۔"مرد نے کہا۔
"خود ہی اٹھ کر لے لو۔ مجھے اس کمرے کے اندھیرے سے ڈرلگتا ہے۔"
"اب کمرے کے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے تب رات کے اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا تھا؟"
"تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے یار کے قاتل تم ہو۔" یہ کہتے ہوئے بوڑھی عورت نے غصے سے بھر کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور ہاتھ کے گنڈاسے سے اس کا سر کاٹ کر رکھ دیا۔


یہ سچا واقعہ کسی نے مجھے بھی سنایا تھا۔ میں اس پر کہانی لکھنے کے لئے اپنے ذہن میں تانا بانا بن رہا تھا کہ کرشن چندر کی لکھی ہوئی یہ کہانی چھپ کر آگئی۔ کہانی پڑھ کر ذہن سے ایک بوجھ سا اتر گیا، اور اپنی اوقات بھی پتہ چل گئی۔
کرشن چندر نے اس کہانی کو لکھتے وقت جو پہلو ابھارے تھے ہ ومیرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے اس سچے واقعے میں کرشن چندر نے ایسے نقش و نگار بھردئیے تھے کہ صرف رومانی زندگی کی دلفریب تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی تھی بلکہ عورت کے ذہن اور عمل کو سمجھنے میں بھی بڑی مدد ملتی تھی۔ جھوٹے سماجی بندھنوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی طرف بھی بڑا خوبصورت اشارہ تھا۔ یہ کہانی میں نے آپ کو اس لئے سنائی کہ یہ کرشن چندر کی ان درجنوں کہانیوں میں سے ایک ہے ، جو انہوں نے یوں ہی رواداری میں لکھ دی ہیں۔ یہ کہانیاں محض اس لئے لکھی گئی ہیں کہ کرشن چندر سے کہانی مانگی گئی ہے، تار پہ تار آرہے ہیں ، اور کرشن چندر بقول سلمیٰ آپا دھلے ہوئے چٹے کپڑے پہن کر کچھ سوچتے ہوئے لکھنے کی میز پر جا بیٹھے ہیں۔


اس طرح کی کہانیاں کرشن چندر نے بھی بہت لکھی ہیں اور منٹو نے بھی۔ جس وقت یہ کہانیاں لکھی جارہی تھیں اس وقت عام قاری نے انہیں بڑی دلچسپی سے پڑھا۔ ہلکی پھلکی ہونے کی وجہ سے یہ کہانیاں عام قاری کو کرشن چندر یا منٹو کی بہت اچھی کہانیوں کی نسبت زیادہ پسند آئیں۔ ہاں کہانی کے نقادوں نے ان کہانیوں کو پڑھ کر ناک بھوں بھی چڑھائی یادبی زبان میں کہا کہ یہ کیا لکھاجارہا ہے۔ مگر اس بات کو وہ بھی مانتے تھے کہ یہ کہانیاں بھی اتنی ہی دلچسپ ہیں جتنی کرشن چندر کی دوسری شہرۂ آفاق کہانیاں۔


کرشن چندر سے پہلی ملاقات میرے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ کیونکہ اس میں ،میرے چہرے پر رضیہ سجاد ظہیر کا پیار بھی ثبت ہے اور کرشن چندر کی حوصلہ افزائی بھی۔ دہلی کی کسی کلب میں ہوئی تھی میری ان سے پہلی ملاقات۔ جب میں وہاں پہنچا تو کرشن چندر کے علاوہ سجاد ظہیر، رضیہ سجاد ظہیر، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری ، اوربہت سے لوگ چھوٹے سے کمرے میں جمع تھے۔ مجھے دیکھتے ہی رضیہ آپا نے مجھے گلے سے لگاکر چوم لیا اور پھر کرشن چندر سے تعارف کراتے ہوئے میرے نام کے ساتھ "نئے کہانی کار" کے لفظ جوڑدئیے۔
ہاتھ ملاتے ہوئے کرشن چندر نے کہا تھا: " آپا۔ انہیں آپ نیا کہانی کار کہتی ہیں۔ انہیں تو ہم پچھلے پندرہ سالوں سے پڑھتے چلے آرہے ہیں۔"
کرشن چندر کا یہ جملہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ مجھے پڑھتے ہیں یا کم از کم کہانی کار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔


اس رسمی تعارف کے بعد میں نے اپنا مجموعہ پیش کیا تو ورق پلٹے ہوئے کہنے لگے۔"ارے اس چھوٹے سے مجموعے میں اتنی ساری کہانیاں پھر ایک پل کے لئے رکے اور کہا۔' کہانی کا چھوٹا ہونا بھی ایک خوبی ہے اور اس طرح اختصارسے کام لینا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں۔ اس سلسلے میں اتنا محتاط ضرور رہناکر کہانی اتنی چھوٹی نہ ہوجائے کہ پڑھنے والے کوو باقی خود سوچنی پڑے۔


میں نے کرشن چندر سے ان کی کہانی تائی ایسری کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا یہ بھی کوئی اصلی کردار ہے۔
"اصلی کردار کبھی نہیں ہوتا، یا ہوتا بھی ہے تو شاذونادر ہی۔ عام زندگی میں کہانی کار کو جو کردار ملتے ہیں، اگر کوئی ہو بہو انہیں ویسا ہی پیش کردے تو اس میں کہانی کار کا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو جب ہے کہ زندگی سے ملے اسلی کردار کو کچھ ایسے نین نقش عطا کئے جائیں، اس کے عمل میں کچھ ایسا نیا پن شامل کیاجائے کہ سب کی توجہ اس کی طرف کھنچ جائے اور پھر پڑھنے والے اس کردار کو حقیقی سمجھ کر ارد گرد ڈھونڈنا شروع کردیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ تائی ایسری کی کہانی جس نے بھی پڑھی ہے، اسے تائی ایسری کو ڈھونڈنے ک لئے پنجاب جانے کی ضررورت نہیں۔ ہر ایک بچے کو چاہے وہ بچہ بڑا ہو، خود باپ کیوں نہ بن گیا ہو، اس سے مامتا کے جذبے سے پیار کرنے والی تائی ایسری آپ کو ہندوستان کے ہر خاندان ، ہر گلی ، ہر شہر میں مل جائے گی۔ آپ کے سر پر اپنا پیارانڈیلتی ہوئی، جب وہ آپ کے ماتھے کو پوپلے منہ سے چومتی ہے ، یا کانپتے ہوئے ج ھریوں بھرے ہاتھ سے آپ کی ہتھیلی پر ایک چونی رکھ دیتی ہے ، تو دولت مند سے دولت مند شخس بھی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے دنیا جہاں کی دولت مل گئی ہے۔ ہر ایک کو اپنا پیار بانٹتی ہوئی تائی ایسری دنیا بھر کی عورتوں کی ممتا کا ایسا نادر نمونہ ہے جسے کرشن چندر سا سلجھا ہوا کہانی کار ہی تخلیق کرسکتا تھا۔


اب کہانوں کی بات چلی ہے تو میں کرشن چندر کی شہرۂ آفاق کہانیوں مہالکشمی کا پل، کالو بھنگی۔۔۔ ان داتا، زندگی کے موڑ پر یا اس طرح کی دوسری کہانیوں کا ذکر نہ کرکے کرشند چندر کی اس خوبی کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جس کی طرف ابھی اتنا دھیان نہیں دیا گیا، جتنا دیاجانا چاہئے تھا۔
میں سمجھتا ہوں کرشن چندر کے ہاں پہلی خوبی ان کے ہاں موضوع کی وسعت ہے، ہندوستان کا کون سا ایسا مسئلہ ہوگا جس پر کرشن چندر نے قلم نہیں اٹھایا۔ سیاست، تعلیم، سائنس، دھرم، تاریخ، جنگ، شہری زندگی، گاؤں کی زندگی اور بھی بہت کچھ ملے گا آپ کو کرشن چندر کے ہاں۔ آپ کو اونچے سے اونچے طبقے کے کردار بھی ملیں گے اور نچلے سے نچلے طبقے کے بھی، کہیں کالو بھنگی آہنی زندگی کے تمام اندھیروں میں بھٹکتا دکھائی دے گا تو کہیں کسی باٹلی والا کو یہ ہی پتہ نہیں کہ اتنی ڈھیر سی دولت کا وہ کیا کرے۔ ایک طرف بمبئی کے کسی عالیشان ہوٹل کے پچھواڑے ننھے ننھے بچے کھچی جوٹھن کو ایرانی پلاؤ کا نام دے کر کھارہہے ہیں اور دوسری جگہ شراب کے نشے میں چور زندگی ناچ رہی ہے، تھرک رہی ہے۔


عام طور پر لوگ کرشن چندر کو شاعرانہ ہی نہیں رومانی مزاج کا کہانی کار سمجھتے ہیں ، کسی اہم شاعر نے یہ کہا بھی تھا کہ"اچھا ہوا کرشن چندر کہانیاں ہی لکھ رہے ہیں، اگر یہ شاعری شروع کردیتا تو ہم لوگوں کا نہ جانے کیا حشر ہوتا۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں کرشن چندر کے پاس ایک درد مند دل تھا۔ جب اس کا دل کسی انسانی حادثے پر خون کے آنسو بہاتا تھا تو اس کے اندر کا کہانی کار کرشن چندر کے ہاتھ میں قلم دے کر کہتا تھا۔ "اس درد بھری داستان میں خون جگر ملاکر لکھ، اس داستان کو وقت کے سینے پر بکھیر دے، تاکہ کوئی من چلا اٹھ کر وقت کے دھاروں کو موڑنے کی بات سوچے۔ لکھ اس خوں چکا کہانی کو لکھ تاکہ کوئی اس کا اثر قبول کرکے روتی ہوئی انسانیت کے آنسو پونچھ دے۔ انہی تاثرات کو ذہن میں رکھ کر کرشن چندر نے زندگی کے اجالوں اور اندھیروں کے درمیان جو فاصلہ ہے اس کو اپنی کہانیوں میں جگہ جگہ نقش کیا ہے۔


اس کی سب سے اچھی مثال"دو فرلانگ لمبی سڑک ہے" جس میں ایک مجبور، اپاہج، بیمار، نڈھال عورت ہاتھ میں روپے لئے حلوائی کی دکان کی طرف گھسٹ رہی ہے تاکہ اپنے لئے زندگی خرید سکے۔ ایسے میں باقی ساری لوکاٹی ایک تماش بین کی طرح اسے دیکھ رہی ہے، شرطیں لگا رہی ہے کہ یہ وہاں تک پہنچ سکے گی یا راستے میں ہی دم توڑ دے گی۔ اس عورت کی زندگی کا درد دوسروں کے لئے لطف کا سبب بن گیا ہے۔
کوئی یہ نہیں کرتا کہ اسے اٹھا کر حلوائی کی دکان تک پہنچادے، تاکہ وہ پیٹ کی آگ کو بجھا سکے۔ روتی بلکتی ،بھوکی ننگی زخمی انسانیت کی یہ پر اثر تصویر کرشن چندر سا درد مند کہانی کار ہی لکھ سکتا تھا۔


کرشن چندر کے بارے میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ وہ ایک عوامی کہانی کار تھا۔ اپنے دیش کے عوام اور تمام انسانیت کا دردان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ اسی لئے کرشن چندر کو تلنگانہ میں جب زندگی نئی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوئی تو انہوں نے ناول لکھ ڈالا"جب کھیت جاگے" جب چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تو کرشن چندر کا ایک جیب کترا کہتا ہے۔
"ارے کیا پوچھتے ہو؟ اپنا دھندہ بہت مندا ہے آج کل۔ جو پاکٹ مارو اس میں نیشنل ڈیفنس بانڈ نکلتا ہے۔" شامو گرہ کٹ نے بڑی ناامیدی سے تین بٹوے کھول کر بھولو ڈبل روٹی والے کے سامنے پھینچ دیئے، اور بولا۔"یقین نہ آئے تو خود دیکھ لو۔"


بہار ریلیف فنڈ کے لئے میں نے خود کرشن چندر کو 'ساحر' سجاد ظہیر اور سردار جعفری کے ساتھ پنجاب کے شہروں میں بھٹکتے دیکھا ہے۔
خوبصورت شاعرانہ زبان کے بعد کرشن چندر کی سب سے اہم خوبی ہے کہانی کے فن پر عبور اور سماجی سیاسی برائیوں یا خامیوں پر طنز۔ کرشن چندر کی ایک گدھے کی سر گزشت سیاسی ڈھانچے کی تمام خامیوں کو اپنے احاطے میں لیتی ہوئی ایسی طنزیہ داستان ہے کہ شاید ساری مخالف پارٹیاں مجموعی طور پر بھی حکومت پر وہ طنز نہ کرسکی ہوں گی جو اکیلے اس کتاب نے کیا ہے۔
سچائی کو بیان کرنے کے لئے ادیب کے اندر کیا حوصلہ ہونا چاہئے ، اس کا اندازہ بھی اس کتاب کو پڑھ کر ہوسکتا ہے۔


اسی سلسلے میں ایک اور کہانی سنانے کی اجازت دیجئے۔ یہ بھی اتفاق سے کرشن چندر کی رواروی میں لکھی ہوئی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کہانی کا فن اس میں بھی بلندیوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ایک صاحب بھوکے مرتے ہوئے بمبئی میں روزی روٹی کی تلاش میں بھٹکتے، سٹہ بازار کی بھیڑ میں پھنس گئے وہاں انہیں بڑے زور کا پیشاب آنے لگا لیکن بازار کی بھیڑ سے نکلنا دشوار ہورہا تھا ۔ ایسے میں کوئی سیٹھ اسے غلطی سے دوسرے بڑے سیٹھ کا منیم سمجھ لیتا ہے اور اسے کہا ہے"بول مال لیا۔"
"ہاں لیا۔" بے بسی میں اس نے جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا۔
وہ ابھی وہیں پھنسا ہوا تھا کہ بیچے ہوئے مال کے بھاؤ اچانک بہت اونچے چلے گئے۔ اور بھی اونچے جانے کی امید تھی، اس سیٹھ نے جلدی سے اسے روکا۔"بول مال دیا؟"
"ہاں دیا۔" اس نے پھر جان چھڑانے کے لئے کہا۔
سیٹھ نے فوراً منافع کے پانچ لاکھ روپے اسے دے دئیے۔
یہ شخص وہاں سے نکلا تو ٹیکسی سے جاتا ہوا جہاں کھلی جگہ دیکھ کر پیشاب کرنے کے لئے اترتا ہے ، وہاں اس پلاٹ کو بیچنے والا ایجنٹ اسے آگے نہیں بڑھنے دے رہا، کہتا ہے سیٹھ یہ پلاٹ خرید لو، بہت بڑھیا سودا ہے۔
وہ آدمی پلاٹ کا ایڈوانس دے کر پیشاب کرتے ہوئے سوچ رہا ہے ، یہ اس نے زندگی میں سب سے مہنگا پیشاب کیا ہے۔ ابھی وہ پیشاب کرہی رہا ہوتا ہے کہ پلاٹ کا مالک ایجنٹ سے آکر پوچھتا ہے۔"ابھی پلاٹ بکا تو نہیں۔۔۔ غرض یہ کہ اس سودے میں بھی اسے اسی وقت پانچ لاکھ اور مل جاتے ہیں۔


یہاں پہنچ کر کرشن چندر اصلی کہانی کا چھوڑ کر کہتے ہیں ، بچپن میں کشمیر کی پہاڑیوں سے ہم مٹھی میں برف کے گولے بناکر جب نیچے گھاٹی میں لڑھکاتے تھے تو یہ بہت بڑا تودا بن جاتا تھا۔ اس سیٹھ نے بھی بمبئی کی شاندار مل سے اس صنعت میں ملے دس لاکھ کو جو لڑھکایا تو اب یہ دس کروڑ کروڑ کا آدمی بن چکا ہے۔


کرشن چندر لکھتے ہیں ، آج میں نے اس سیٹھ کو دیکھا۔ یہ ایک اسکول میں چیرمین کی حیثیت سے بچوں کو بھاشن دے رہے تھے کہ بچو زندگی میں کامیابی چاہتے ہو تو محنت کرو۔ محنت کے بغیر دنیا میں کچھ نہیں ملتا۔
دیکھا آپ نے اس کہانی میں چھپا ہوا طنز۔ اس پھر کس خوبی سے مٹھی بھر برف کے گولے کو برف کے تودے میں بدل، کہانی کو ایک ہی جست میں کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ کرشن چندر کے فن کی یہی وہ خوبیاں ہیں جو انہیں ہندوستان کا ہی نہیں ایشیا کا اہم کہانی کار بناتی ہیں۔ ایشیا کا ہی کیوں۔ آج دنیا کی اہم ترین چھپن زبانوں میں کرشن چندر کی کہانیوں اور کتابوں کے ترجمے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر وہ مقبولیت حاصل ہے جو غالباً ابھی تک ہندوستان کے کسی اور ادیب کے حصے میں نہیں آئی ، ادب کی دنیا میں یہ مقام حاصل کرنے کے لئے کرشن چندر نے اپنی ذات پر کس قدر کرب جھیلے ہیں اس کا اندازہ ان کی شریک حیات سلمی آپا کے اس تجربے سے ہوسکتا ہے۔


سلمی آپا نے بتایا کہ کرشن چندر کو لکھتے وقت ہمیشہ تخیلے کی ضرورت ہوتی تھی، کسی کو اجازت نہیں تھی کہ لکھے وقت کوئی ان کے کمرے میں داخل ہو ، ایسے میں ایک مرتبہ کسی ضروری کام سے ایک دن آپا نے کرشن چندر کی طرف دروازے کی اوٹ سے جھانکا تو وہ کیا دیکھتی ہیں کہ کرشن چندر کا چہرہ بڑا بھیانک لگ رہا تھا۔ انہیں لگا جیسے لکھنے کی میز پر کرشن چندر نہیں کوئی اور ہی شخص بیٹھا ہے سلمی آپا کہتی ہیں کہ وہ گھبراکر پیچھے ہٹ گئیں۔


کرشن چندر نے اس دن اپنی کہانی آدھے گھنٹے کا خدا لکھی تھی اور اس کہانی کا سارا کرب جیسے ان کے چہرے پرامڈ آیا تھا۔
بقول سلمی آپا اور بھی بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جن میں کرشن چندر کسی نہ کسی شکل میں کہانیوں میں خود موجود ہیں ، جیسے پانچ لوفر، مٹی کے صنم، یادوں کے چنار۔
کہانی کار کی میز سے اٹھتے ہی کرشن چندر پھر سے عام انسان ہوجاتے تھے۔ گھر کے سب افراد یہاں تک کہ نوکروں سے بڑی محبت اور برابری کی سطح پر اتر کر بات چیت کرتے تھے۔


دراصل کرشن چندر کے وجود میں محبت کا ایک دریا ہمیشہ موجزن رہتا تھا۔ زندگی میں جس سے ملے ، بانہیں پھیلاکر بڑی گرم جوشی سے ملے۔ محبت کے یہی ریلے کرشن چندر کی کہانیوں میں کچھ اس طرح درآتے تھے کہ قاری کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب کرشن چندر کے الفاظ کے دھارے میں بہتے بہتے اپنے وجود ، اپنی دنی اسے ناتہ توڑ کر کرشن چندر کی کہانی کی عجیب و غریب دنیا میں پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ کہانی کے اختتام پر پہنچ کر بھی کرشن چندر کی طلسمی دنیا قاری کو بہت دیر تک اپنے وجود میں جکڑے رکھتی ہے اور قاری دھیرے دھیرے اپنی دنیا میں یوں لوٹتا ہے ، جیسے خواب کی دنیا سے انسان آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے۔


سلمی آپا نے بتایا کہ زندگی کے آخری لمحوں میں کرشن چندر محلے کے ایک موچی ، اور پان والے کو بہت یاد کررہے تھے، کہنے لگے: "سلمی مجھے ایک بار ان کے پاس لے چلو۔"
آخری وقت میں عام طور پر لوگ خدا کو یاد کیا کرتے ہیں لیکن کرشن چندر عالم نزع میں بھی زندگی کے ان حقیقی کرداروں کو پکاررہے تھے ، جن کے بارے میں شاید ان کا ذہن کہانی کا تانا بانا بن رہا تھا۔ زندگی کے اسی پیار اور لگاؤ کا کہانیوں میں اظہار کرشن چندر کو کہانی کا خدا بنا دیتا ہے۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ بیسویں صدی نئی دہلی۔ شمارہ: ہند و پاک ادب نمبر 1989ء

The story of Krishan Chander. by: Ratan Singh.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں