ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں - وشو ہندو پریشد کے صدر سے مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-05

ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں - وشو ہندو پریشد کے صدر سے مکالمہ

dialogue-with-vishva-hindu-parishad-vhp-president-alok-kumar

ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں
وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار سے خصوصی انٹرویو

سوال:
آپ کو ہندوستانی مسلمانوں سے نفرت کیوں ہے؟
آلوک کمار:
ایسی بہت سی مسلم تنظیمیں ہوں گی (تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جمعیت علماء وغیرہ) جو مسلمانوں کو اچھا مسلمان بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔ محض اس وجہ سے انہیں ہندو دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اور مسلمانوں کیلئے کام کرتی ہیں۔ اسی طرح وشوہندو پریشد بھی ہندؤں کیلئے کام کرتی ہے "ہندؤں کو متحد کرتی ہے" ہندؤں کو ہندو زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے، لہذا اس وجہ سے یہ کہنا کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے درست نہیں ہے۔ نفرت کرنا نہ ہماری سوچ میں ہے اور نہ ہمارے رویہ میں ہے۔۔۔


سوال: تو پھر وہ کیا ہے جو وقتاً فوقتاً بہت سے ہندو لیڈر دھرم سنسدوں میں مرنے مارنے جیسے منافرت انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں؟
جواب: آپ نے اپنے سوال کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔۔ آپ نے وشو ہندو پریشد کے علاوہ بھی ہندو لیڈروں اور تنظیموں کا ذکر کیا ہے۔ ممبئی میں تاج ہوٹل پر حملہ ہوا تو اگلے دن بہت سے اخباروں نے اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے ایک طرف جہاں ذمہ داروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا وہیں یہ بھی کہا کہ اس حملہ کیلئے پوری ایک کمیونٹی کو قصوروار نہیں قرار دیا جانا چاہئے۔ یہ بات درست تھی۔ بنگلور کے کسی شراب خانہ میں کسی غیر معروف سی ہندو تنظیم کے دو لڑکے بدسلوکی کرتے ہیں تو وہ سارے ہندؤں پر تھوپ دیا جاتا ہے۔یہ درست نہیں ہے۔۔۔


سوال: کیا دھرم سنسدوں میں دئے گئے دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز بیانات آپ تک نہیں پہنچے؟
جواب: میں ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وشو ہندو پریشد نے جو دھرم سنسد بلائی تھی، اس میں جو بیانات دئے گئے تھے اور اس کے علاوہ بھی ہم جو بیانات دیتے ہیں ان میں ہم بہت احتیاط برتتے ہیں۔ ہم اپنی دھرم سنسدوں اور بیانات میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا کوئی احساس تک نہیں آنے دیتے۔ ہمارے دلوں میں ان کیلئے نفرت ہے ہی نہیں۔ میں دوسروں کے تئیں ذمہ دار نہیں ہوں۔ کچھ مسلمان یہ چیلنج دیتے پھرتے ہیں کہ 15منٹ کیلئے فوج اور پولیس کو ہٹالو۔ میں اس بیان کو تمام مسلمانوں کے سر نہیں منڈھتا۔ اگر کچھ ہندو لیڈر غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں تو اسے وشوہندو پریشد کے سر نہیں منڈھنا چاہئے۔۔۔


سوال: لیکن ہندؤں کی ایک بڑی تنظیم ہونے کے ناطے کیا آپ کو ان کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہئے؟
جواب: میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ اور میں پہل کرتا ہوں کہ "ہیٹ اسپیچ" جو کوئی بھی دیتا ہے اس کا دھرم پوچھ کر اس کی مذمت نہیں ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں کے خلاف ہم قانونی کارروائی کی تائید کریں گے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسا ہوا نہیں ہے۔ جو لوگ ہیٹ اسپیچ کے خلاف سپریم کورٹ گئے انہوں نے صرف ہندؤں کی ہیٹ اسپیچ کا ذکر کیا۔ کیا مسلمان لیڈر ہیٹ اسپیچ نہیں دیتے؟ایک ایسا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ محض ہندو ہی ہیٹ اسپیچ دیتے ہیں۔اس امتیازی رویہ کو چھوڑ کر ہمیں بھی پہل کرنی چاہئے کہ ہیٹ اسپیچ کوئی بھی دے وہ ناقابل قبول ہے۔۔۔


سوال: پچھلے دنوں دھرم سنسدوں میں جو مار کاٹ کی بات کی گئی کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہئے؟
جواب: میں نے کتنی بے باکی سے آپ سے کہا کہ جو کوئی بھی مارکاٹ کی بات کرتا ہے وہ آئین اور قانون کی حدود کو پھلانگتا ہے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ ہم اس کی توقع کرتے ہیں کہ حکومت ایسے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ہم ہیٹ اسپیچ دینے والوں کی حمایت نہیں کرتے۔۔۔


سوال: آپ کہتے ہیں کہ آپ کو مسلمانوں سے نفرت نہیں ہے تو کیا ان سے کوئی شکایت ہے؟
جواب: ہاں، ہمیں شکایت ہے ان سے۔ ہماری اور آپ کی دوستی اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم برابر کی سطح پر ایک دوسرے کا احترام کریں۔ آپ مجھے دشمن نہ مانیں میں آپ کو دشمن نہ مانوں۔ میں آپ کے مذہب کا احترام کروں آپ میرے دھرم کا آدر کریں۔ میں تو آپ کو دوست مانوں اور آپ مجھے کافر مانیں تو دوستی کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔
جب میں دہلی کا (آر ایس ایس کا) سہ پرانت سنگھ چالک تھا میں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسلام کا ایک چہرہ بھائی چارے اور امن کا چہرہ ہے۔ جس میں دوسروں کی مدد کرنے کی بڑی اہمیت ہے۔ خود حضرت محمد صاحب (ﷺ) کے بارے میں، میں نے پڑھا کہ ایک عورت روزانہ اپنی چھت سے ان کی بے احترامی کرتی تھی، ایک دن نہیں کی، تو خود اوپر گئے، معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے تو اس کے علاج کا انتظام کیا۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ وہ ایک بستی (طائف) میں گئے اور بستی کے لوگوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ دیودوت (فرشتہ) نے پوچھا کہ میں انہیں تباہ کردوں تو پیغمبر نے کہا نہیں۔ یہ آج نہیں تو کل سمجھیں گے۔۔۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا میں آج اسلام کا یہ چہرہ نیچے دب گیا ہے۔ آج جہاد کا چہرہ ابھر رہا ہے۔ لیکن میں نے یہ بھی کہا تھاکہ اگر کبھی امن کا، شانتی کا، بھائی چارے اور دوستی کا چہرہ دوبارہ اسلام میں ظہور پزیر ہوگا تو وہ بھارت سے ہوگا کیونکہ بھارت کی مٹی اس کیلئے سازگار اور عین موافق ہے۔۔۔


سوال: آپ جہاد کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
جواب: اپنے نفس اور باطن کے ساتھ جہاد سے میں متفق ہوں۔ وہ جہاد تو ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے ان لوگوں سے شکایت ہے جو جہاد کو خارجی عمل مانتے ہیں۔ مجھے اسلام کے اس چہرہ سے شکایت ہے کہ میں دارالحرب کو دارالاسلام بنانے کیلئے حملہ کروں، لوٹ مار مچاؤں، قتل کروں اور لوٹی ہوئی خواتین کو میں خدا کی نعمت تصور کروں، اس چہرہ سے مجھے شکایت ہے، پوری دنیا کو شکایت ہے۔۔۔
ہمارے دلوں میں یہ کسک ہے کہ جو لوگ اسلام کے پیغام امن کے داعی ہیں وہ کبھی تو سامنے آکر تشدد والے چہرہ کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھائیں۔ بہت سارے مسلمان خونی چہرہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن وہ بولنے کی ہمت نہیں کرتے۔ افغانستان میں طالبان کے ذریعہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے کیا ہندوستانی مسلمان متفق ہیں؟ کیا مسلمان باہم (مسلکی طور پر) متصادم نہیں ہیں؟آخر اسلام اپنے تضادات سے کیسے باہر آئے گا، کب دنیا کیلئے ایک مثبت قوت بنے گا؟ آپ ناراض نہ ہوں، آج اسلام کی جو شکل غلبہ حاصل کرچکی ہے وہ دنیا کے امن کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔


سوال: آپ کے مطابق اسلام کے دوسرے چہرہ کے پیروکار کیا ہندوستان میں بھی موجود ہیں؟
جواب: جی ہاں وہ بھی یہاں بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ دنیا بھر میں اس چہرہ کو پھیلانے کی فیکٹری بھی بھارت میں ہے۔۔۔


سوال: کہاں؟
جواب: میں نے سنا ہے کہ دیوبند (دارالعلوم) سے جس نظریہ کی تشہیر وتبلیغ ہوتی ہے اس میں اسلام کے اس چہرہ کی تشہیر و تبلیغ زیادہ ہوتی ہے۔۔


سوال: آپ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر رائے قائم کئے بیٹھے ہیں۔ آپ نے لفظ کافر کی شکایت کی۔ میں مذہب اور مذہبی پیشواؤں کا ترجمان نہیں ہوں لیکن کافر کوئی گالی نہیں ہے، یہ لفظ مومن کی ضد ہے، جس کے معنی ایک خدا کا انکار کرنے والے کے ہیں۔ آخر اس لفظ سے ہندؤں کو کیا نقصان اور کیسی شکایت؟
جواب: میں آپ کی طرح عالم نہیں ہوں۔ تاریخی پس منظر میں لفظ کافر کا کوئی بھی معنی رہا ہو آج تو اس لفظ کا مطلب بدل گیا ہے۔ آج کافر کا مطلب ہے کہ جو مسلمان نہیں ہے، اس کے ساتھ جو سلوک ہونا چاہئے وہ کیا جانا چاہئے۔ آپ ذاکر نایک اور انہی کی قبیل کے لوگوں کے خطابات پڑھئے اور سنئے۔ وہ ایسے ہی ہیں جیسا میں نے آپ سے کہا۔۔
میں مانتا ہوں کہ اصل جہاد اور جہاد اکبر وہی ہے جو اپنے نفس سے کیا جائے۔اگر صرف ایسا ہی ہو تو کتنا اچھا ہو۔ اگر یہ دب جائے اور جہاد کی دوسری شکل غالب آجائے تو اسے کیا کہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانا ہندوؤں کا کام نہیں ہے۔ یہ کام خود مسلمانوں کو ہی کرنا چاہئے مجھے بعض اوقات پیغمبر اسلام کے واقعات (اور سیرت) پڑھ کر خوشگوار احساس ہوتا ہے۔۔۔
آپ کی بیویوں نے شکایت کی کہ کام زیادہ ہے، کچھ غلام دیدیجئے۔ آپ نے کام بڑھادیا مگر غلام نہیں دئے اور کہا کہ جو کچھ ہے وہ سب دین کا ہے،میرا نہیں ہے۔آج سوال یہ ہے کہ کون سا اسلام غالب آگیا ہے۔یہ سوچنا تو مسلمانوں کا ہی کام ہے۔۔


سوال: آپ نے دیوبند کو انتہاپسندی پھیلانے کی سب سے بڑی فیکٹری کہہ دیا، کیا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ آپ دیوبند والوں سے بات کرتے کہ آپ کے یہاں جہاد پڑھایا جارہا ہے، یااگر دیوبند والے آپ کو بلائیں اور دکھانا چاہیں کہ وہ کیا پڑھاتے ہیں تو کیا آپ وہاں جائیں گے؟
جواب: اگر دیوبند والے یہ کہیں کہ وہ "وہابی" افکار کی تشہیر نہیں کرتے تو میں ضرور سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ میں کسی ایک تنظیم یا ادارہ کے تعلق سے اپنے خیالات کا اسیر رہنے کا عادی نہیں ہوں۔ اگر وہ مجھے یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایسے افکار کی تبلیغ نہیں کرتے تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔۔


سوال: دیوبند، بریلی اور دوسرے مقامات کے بڑے مدارس اورعلماء کئی بڑے اجلاس منعقد کرکے دہشت گردی کے خلاف فتاوی جاری کرچکے ہیں، وقتاً فوقتاً کرتے بھی رہتے ہیں، کیا شدت پسند ہندو تنظیموں اور ان کے لیڈروں کے خلاف وشو ہندو پریشد نے بھی کوئی "دھرم آدیش" جاری کیا؟
جواب: جو پیغام ہم ملک کے مسلمانوں کو دیتے ہیں وہی ہم ملک کے ہندؤں کو بھی دیتے ہیں۔ یہ ملک ہم سب کاہے۔ ہم امن قائم رکھنے کیلئے آئین پر عمل کریں گے۔۔


سوال: کیا واقعی آپ ہندوستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں؟
جواب: مجھے فخر ہوتا ہے کہ جب تقسیم عمل میں آئی اور پاکستان نے خود کو اسلامی اسٹیٹ ڈکلیر کیا تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے ہندوستان کو سیکولر ملک ڈکلیر کیا۔ہم نہ صرف آئین میں بلکہ ملک کے سیکولرزم میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ بول رہا ہوں وہ بہت سے ہندو گروپوں کو پسند نہیں آئے گا۔ میں یہ بات اسٹیج سے بھی بولتا ہوں۔ محمد صاحب کے کنبہ سے تعلق رکھنے والی کچھ اعلی ذاتوں کے مسلمانوں کو چھوڑ کر 85 فیصد پسماندہ مسلمانوں اور ہمارا ڈی این اے تو فی الواقع ایک ہے۔
ہمارے آباواجداد ایک تھے تو کیا ہمیں ملنے جلنے کیلئے کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ڈھونڈنی چاہئے۔ مساوات ایک بنیاد ہوسکتی ہے۔ ہمیں آپ گالی کے معنی والا کافر نہ مانیں۔آپ کا دین آپ کیلئے اور ہمارا دین ہمارے لئے۔ کیا یہ میرا فرض نہیں ہے کہ میں مذہب اسلام کو پڑھوں؟ اگر مجھے کچھ اشکالات ہوں تو مجھے ان کا اطمینان بخش جواب ملنا چاہئے۔جو دفاعی اقدامات محمد صاحب کے دور میں ضروری تھے کیا آج اکیسویں صدی میں ان کی ضرورت ہے۔۔


سوال: لیکن توہین رسالت کرنے والوں کو آپ کیا کہیں گے؟
جواب: میں ایسے تمام بیانات کی مذمت کرتا ہوں لیکن یہ یکطرفہ کیوں؟ ہمارے بھی دیوی دیوتاؤں کی توہین کی جاتی ہے۔ کیا مسلم سماج ان کے خلاف بولتا ہے؟ نوپور شرما سے پہلے ہمارے دیوتاؤں کی بھی توہین کی گئی۔ کیا مسلمانوں نے اس کی مذمت کی؟ سرتن سے جدا کی دھمکیاں دی گئیں، کیا اس پر مسلمان کچھ بولے۔
کتنا اچھا ہو کہ ہندؤں اور مسلمانوں میں باہمی رابطہ بڑھے۔وہی رابطہ جو انگریزوں سے پہلے موجود تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام کرتے تھے۔ ایک نئی رابطہ کی زبان بھی فروغ پارہی تھی۔ دونوں سلام اور نمسکار یا پرنام کی جگہ آداب کہتے تھے۔ انگریزوں کے آنے کے بعد یہ رابطہ ٹوٹ گیا۔ ہمارے دلوں میں جو خدشات اور سوالات ہیں انہیں چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں۔اگر کوئی ہمارے ان خدشات اور سوالات کا جواب دینے کو تیار ہو تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔


سوال: کیا خدشات ہیں؟
جواب: کوئی مسلم لیڈر آئین سے باہر جاکر بولتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر مسلمان اس خیال کی تائید کریں تو ہم ملک کی فضا بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اس کے بھی حق میں ہیں کہ اگر کوئی ہندو لیڈر بھی آئین کی حدود کے باہر جاکر بولتا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔۔


سوال: بابری مسجد کے خلاف سب سے زیادہ پرتشدد مہم وشو ہندو پریشد نے ہی چلائی تھی، سپریم کورٹ کے ذریعہ وہ جگہ ہندؤں کو مل چکی ہے، عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے، اگر آپ کو امن وامان مقصود ہے تو آپ ایودھیا پر ہی کیوں نہیں رک جاتے؟ کیوں اب آپ کاشی اور متھرا کو اٹھارہے ہیں؟
جواب: ایک وقت تھا جب ہندو لیڈروں نے کہا تھا کہ تین دیدو ہم باقی پر اپنا دعوی اٹھالیتے ہیں۔ وہ بات مانی نہیں گئی۔ وشو ہندو پریشد آنے والے سو سال کیلئے ہندو سماج کی ضمانت نہیں لے سکتا۔ اس بات کے ثبوت ہیں کہ اورنگزیب کے حکم پر کرشن جنم استھان کا مندر توڑ دیا گیا۔ وہاں عیدگاہ بنادی گئی۔وہاں کی مورتیوں کو آگرہ کی بلند یا شاہی مسجد کے باہر کی سیڑھیوں پرلگادیا گیا تاکہ لوگ وہاں سے ان کی بے احترامی کرتے ہوئے گزریں۔۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا مسلمان کہیں گے کہ یہ تو مسجد کے باہر کی جگہ ہے، ہم ان مورتیوں کو احترام کے ساتھ ہندؤں کو واپس دیدیتے ہیں۔ کیا مسلمان اس کیلئے تیار ہوں گے۔ اعتماد سازی کیلئے کچھ اقدامات ہونے چاہئیں یا نہیں؟


سوال: آپ سینکڑوں سال سے قائم مسجدوں کو لینے پر کیوں آمادہ ہیں؟
جواب: یہ مسجدیں دین اسلام کی اہمیت ثابت کرنے کیلئے تعمیر نہیں کی گئی تھیں۔یہ مسجدیں اس لئے بنائی گئی تھیں تاکہ ہندو سماج کو اپنی شکست مسلسل یاد آتی رہے۔میں متھرا اور کاشی کو مذہبی عمارتیں نہیں مانتا، یہ عمارتیں استعماریت کی علامت ہیں۔ مجھے بڑا اطمینان ہوا جب میں نے مدنی جی کا انٹر ویو پڑھا۔ میں بھول گیا کہ وہ کون سے مدنی تھے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ سلجھانے کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ بات چیت کا ہے۔دوسرا عدالت کا ہے۔یہ مجھے اچھا لگا۔
ہم (وی ایچ پی) آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ عدالت جو کہے گی ہم وہ مان لیں گے۔مسلمان بھی یہی کہتے آرہے ہیں۔ہم نے ان دونوں مقامات کیلئے سڑک پر "آندولن" نہیں کیا۔آپ نے جس "ورشپ ایکٹ" کی بات کی وہ بھی زیر بحث ہے۔ ہم آئین سے باہر نہیں جائیں گے۔ہم امن کی راہ پر قائم رہیں گے۔۔


سوال: ٹویٹر پر کئی مسلم نام آپ کو فالو کرتے ہیں، کیا کچھ مسلمان آپ سے اپنے کام کیلئے یا اس لئے ملنے آتے ہیں کہ آئیے نفرت کے اس ماحول کو مل بیٹھ کرختم کریں؟
جواب: اگر آپ اس کیبن کے شیشے سے پیچھے مڑکر دیکھیں تو ابھی بھی بہت سے لوگ (مسلمان) بیٹھے ہیں جو آپ کے جانے کے بعد مجھ سے ملیں گے۔ اور یہ صرف دہلی سے ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی آتے ہیں۔ البتہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی اعلی قیادت سے میرا رابطہ نہیں ہے۔ یہ رابطہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم دونوں کو کھل کر اپنی اپنی بات کہنے کی چھوٹ ہوگی۔ فی الحال وہ چھوٹ یکطرفہ ہے۔۔


سوال: اگر اعلی مسلم قیادت اور ان کے ادارے آپ کو گفتگو کی دعوت دیں، اور آپ کے سوالوں کے جواب دینے کو تیار ہوں تو کیا آپ اس دعوت کو قبول کریں گے؟
جواب: سوال جواب ہوں یا نہ ہوں محض ساتھ مل کر بیٹھنا بھی بہت سے مسئلوں کو حل کردیتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو قائل کرنے کیلئے بات نہ کریں بلکہ ہم دونوں اپنی اپنی بات کرنے کیلئے ملیں۔ اس سے بھی معاملات حل کی طرف بڑھتے ہیں۔ بیچ کی یہ دیوار تو ہٹنی چاہئے۔۔۔۔

***
(بشکریہ: مکالمہ / انٹرویو / روزنامہ انقلاب / 5 فروری 2023ء)
ایم ودود ساجد
Email : wadoodsajid[@]inquilab.com
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

A dialogue with Vishva Hindu Parishad (VHP) President Alok Kumar. - Interview by: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں