خوشبو کا کام ہے مہکنا اور مہکانا۔ ہوا کے جھونکوں پرسوار ہو کر خوشبو ماحول کو مہکا جاتی ہے۔
انسان کے اچھےاعمال بھی خوشبو کی طرح ہی معاشرہ کی فضاء کو معطرکرجاتے ہیں۔ دوسروں کی بھلائی کے لئے جینے والوں کا تذکرہ تو خوشبو سے بھی بلا تر ہے۔ ان لوگوں کے کارنامے ہوا کی مخا لف سمت پرواز کر نے کی قوت رکھتے ہیں۔غرض یہ کے نیک کاموں کا تذکرہ زماں ومکان کی سرحدوں کے پارجاکر، رہتی دنیا تک اوروں کو ترغیب دیتا رہتا ہے۔
آئیے ہم ہندوستان کی تاریخ کی ایسی ہی ایک عظیم شخصیت سے روبرو ہوتے ہیں۔ ملک وقوم کی خاطرکی گئی جن کی خدمات آج بھی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہم انہیں بڑے احترام کے ساتھ سرحدی گاندھی کے سےنام سےجانتے ہیں۔
مہاتما گاندھی کو ہندوستان لوٹے ابھی چند سال ہی بیتے تھے۔ ان کے ذریعہ چلائے جا رہے عدم تشدد پر مبنی ستیہ گرہ کا چرچہ ہر طرف ہونے لگا تھا۔ مہاتما گاندھی کی شرکت سے تحریک آذادی میں ایک نئی جان سی آگئی تھی۔ بڑی تعداد میں نوجوان قومی و سماجی خدمت کے جذبے کے ساتھ تحریک آذادی سے جڑ نے لگے تھے۔
ادھرسینکڑوں میل دور افغانستان کی سرحدی صوبہ میں پشتون پٹھان قبیلہ کا ایک خوبرونوجوان اپنی قوم میں بیداری لانے کے لیے کوشاں تھا۔ مقامی لوگ پیار سے اسے باچا خان یا بادشاہ خان بلایا کرتے۔ ویسےاس نوجوان کا پورا نام تھا 'خان عبدالغفار خان'۔
ابتدائی تعلیم
خان عبدالغفار خان کا جنم 6 فروری 1890 کو صوبہ سرحد (موجودہ پاکستان) میں ہوا تھا۔ اس نوجوان کا تعلق پشتون پٹھان قبیلے سے تھا۔ والد بہرام خان نے بچپن میں انہیں ایک مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ بنیادی تعلیم کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لائے۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اونچی قد کاٹھی والے بادشاہ خان فوج میں ایک افسر بننا چاہتے تھے۔ لیکن انھوں نے یہ ارادہ بہت جلد ترک کردیا، وجہ صاف تھی۔
ایک دفعہ انھوں نے ایک ہندوستانی فوجی افسر کو کسی انگریز افسرکے ہاتھوں کھلے عام بےعزت ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد انہیں اپنی عزت نفس کھو کر برطانوی فوج کی نوکری کرنا کسی صورت بھی قبول نہ تھا۔ اسی وقت انھون نے فوج کی نوکری کا خیال ہمیشہ کے لیے اپنے دل سے نکال دیا۔
صوبہ سرحد کے سماجی حالات
پشتون پٹھان اپنی روایتی طرز زندگی جینے کے عادی ہو چلے تھے۔ معاشرہ میں جدید علم اورسماجی اقدارکا فقدان تھا۔ لوگ روایتی طرز زندگی اپنائے ہوئے تھے۔ ان میں خودغرضی، جہالت اورمعمولی با توں پرتشددعام تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پرخاندان آپس میں دشمن بن جا یا کرتے۔ غرض یہ کہ معاشرہ لگاتار تنزلی کی طرف گامزن تھا۔ یہاں تک کہ ان کے دلوں سےغلامی کا احساس تک جاتا رہا تھا۔
بادشاہ خان اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اجتماعی کوشش اور تعلیم کی بنیاد پرمعاشره کی فکرمیں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اسی غرض سے سب پہلے انھوں نے 1910 میں لڑکیوں کے لئے ایک سکول کھولا اس کے بعد افغان رفارم سوسائٹی نام کی ایک تنظیم بنائی۔
مہاتما گاندھی اور عدم تشدد
صداقت وعدم تشدد پرمبنی گاندھی جی کے فلسفہ نے بادشاہ خان کو بے حد متاثرکیا تھا۔ عدم تشدد کا یہ طریقہ کار انہیں ایسا بھا یا کہ اس کے بعد تا عمروہ اسی فلسفہ پر قائم رہے۔ پشتون پٹھان کے ایثاروقربانی کے جذبہ کو دیکھ کرہی ہندوستانی عوام نے انہیں سرحدی گاندھی کے خطاب سےنوازا۔
سیاسی و سماجی کام کی شروعات
بادشاہ خان اپنی قوم میں بیداری لانا چاہتے تھے۔ مشنری اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے انکے خدمت کےجذبہ کوآپ نے بہت قریب سےدیکھا تھا۔ اسی سے متاثر ہوکر بادشاہ خان نے'افغان رفارم سوسائٹی' کا قیام کیا۔اس کے تحت لوگوں میں خدمت خلق کا جذبہ بیدارکیا۔ اسی دوران وہ خلافت مومنٹ سے بھی جڑے۔ آگے چل کر انھوں نے 1929 میں اپنی ایک تنظیم بنائی جس کا نام رکھا گیا خدائی خدمت گار۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد تھا لوگوں کوسماجی خدمت کی طرف راغب کرنا اور ساتھ ہی ملک کو آزاد کرانا۔ ویسے تو خدائی خدمت گارکا مطلب ہوا خدا کی خدمت کرنا۔ بھلا خدا بندے کی خدمت کا محتاج تونہیں ہے۔ اسی لئے تنظیم کا مقصد بندوں کی خدمت کے ذریعے خدا کی خدمت طے پایا۔
خدائی خدمت گاربننے کی لازمی شرائط
ہرصورت میں عدم تشدد کی راہ پر چلنا اور تشدد سے دور رہنا۔
امیرہو یا غریب ہرشخص کولازمی تھا کہ وہ دن میں دو گھنٹےمحنت و مشقت کرے ۔
اپنی زندگی میں سچائی اور سادگی پرعمل کرنا۔
آپس میں اتفاق رکھنا
اپنی منفرد پہچان کطورپرسرخ کرتا پہننا۔
عوام سے خطاب
بادشاہ خان جتھے بنا کر گاؤں گاؤں گھومتے۔ وہ لوگوں کو اکٹھا کرتے۔ اپنی تقریرمیں اکثروہ کہا کرتے دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہے جس قوم میں کچھ ایسے لوگ جنم لیتے ہیں جو اپنے سکھ چین آرام کو اوروں کے لئےقربان کر دیتے ہیں۔ جوانسان خود کی ترقی کے لئے جیتا ہےاس میں اور جانورمیں بھلا کیا فرق ؟ حیوان خود غرضی کی زندگی بسر کرتا ہے لیکن انسان کا شمار تواشرف المخلوقات میں ہوتا ہے۔ اس کی زندگی بھلاجانورکی طرح کیونکرگزرے۔ ذاتی ترقی کی بجائے اسے پوری قوم کی خاطر جینا چاہیے۔ قوم کی ترقی میں ہی اسکی اپنی ترقی پنہاں ہے۔
انگریز سرکار اور سرحدی گاندھی
آگے چل کر کانگریس اور خدائی خدمت گارایک معاہدہ کے تحت ایک ساتھ آگئے۔ اس کے باوجود خدائی خدمت گاروں کی اپنی علیحدہ شناخت بھی بنی رہی۔ وردھا کانفرنس کے دوران انہیں کانگریس کی صدارت کی پیشکش بھی دی گئی۔ لیکن وہ اس اعزاز سے یہ کہتے ہوئے دوررہے کہ "میں ایک سپاہی ہوں اور سپاہی ہی بنے رہنا چاہتا ہوں"۔
بادشاہ خان کی قیادت میں
بڑی تعداد میں پشتون پٹھان پرامن طریقے سے انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔حالانکہ خدائی خدمت گار پوری طرح عدم تشدد پر عمل کرتے اس کے باوجود انگریز حکومت خدائی خدمت گاروں کے پیچھے پڑ گئی تنظیم کوکچلنے کے لیے بار بار بادشاہ خان اورانکےساتھیوں کوقید کرلیا جاتا۔ پھر بھی ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ خدائی خدمت گار آخر تک عدم تشدد کی راہ پر ثابت قدم رہے۔ ہرمورچہ پربادشاہ خان خود آگے رہتے۔ اپنی گرفتاری دیتے۔
اونچی قد کاٹھی والے بادشاہ خان جب بھی کسی جیل پہنچتے۔ یہاں کبھی انہیں اپنے ناپ کے کپڑے دستیاب نہ ہوئے۔ تنگ کپڑوں میں ہی انہیں اپنی سزا کاٹنی پڑتی۔ ٹھنڈ میں انہیں فرش پر سلایا جاتا۔ بادشاہ خان ایک مجاہد کی طرح جیل کی صعوبتیں سہتے رہے۔انگریزوں کے دور حکومت میں انہیں 15 سال تک جیل میں رکھا گیا۔
اس پر قسمت کی ستم ظریفی تو دیکھیے۔۔۔۔۔۔
آزادی کے بعد پاکستانی حکومت نے بھی انہیں مزید پندرہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا۔ اس طرح بادشاہ خان کی عمر کے 30 سال تک جیل کی صعوبتیں سہتے ہوئے گزری۔
بادشاہ خان اور عدم تشدد کا راستہ
ایک مرتبہ گاندھی جی سے گفتگو کرتے ہوئے بادشاہ خان نے پوچھا "عدم تشدد کے راستے کو اپنائے ہوئے ہمیں تو کچھ ہی سال بیتے ہیں، لیکن آپ تو یہاں لوگوں کو یہ درس بہت پہلے سے دیتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ 1942 میں ملک کے اس حصہ میں کئی مقامات پر پر تشدد پھوٹ پڑا، جبکہ اس کے برعکس خیبر پختون کے پٹھان انگریزوں کی لاٹھیاں گولیاں یا اپنے سینے پر سہتے رہے لیکن کسی خدائی خدمتگارنےتشدد کی راہ کو نہیں چنا۔ جبکہ بڑی آسانی سے انہیں ہتھیار بھی دستیاب ہو جاتے۔
یہ بات سن کر گاندھی جی مسکرائے اور بولے۔۔۔۔ " بادشاہ خان عدم تشدد کی راہ پرچلنا بہادروں کا کام ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے پٹھان ایک بہادر قوم ہے"۔
تقسیم ملک اور بادشاہ خان
بادشاہ خان مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کے حق میں نہیں تھے۔ ادھر مسلم لیگ لگاتار اپنا دباؤ بنائے جا رہی تھی۔ بلا آخر مسلم لیگ اور کانگریس نے ملک کی تقسیم قبول کر ہی لیا۔ گاندھی جی کی طرح ہی بادشاہ خان بھی اس فیصلے سے بے حد غمزدہ ہوئے۔
بڑی مایوسی کے ساتھ انہوں نے کہا تھا کہ تقسیم ملک کے دوران کانگریس نے ہم پٹھانوں کی رائے کو توجہ نہیں دی۔ اور ہمیں خدا کے بھروسے چھوڑ دیا گیا ہے۔
آزادی کے بعد بھی جدوجہد جاری رہی
پاکستان بننے کے بعد بادشاہ خان لگاتار پشتون پٹھانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ پاکستانی حکومت انہیں تنگ کرتی رہی۔ یہاں تک کہ انہیں بھارت کا ایجنٹ تک قراردیا گیا۔ لگاتارانہیں پندرہ سال تک جیل میں قید رکھا۔جیل کی زندگی نے انکی صحت پربرا اثرڈالا۔ اب وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں وہ افغانستان میں بھی رہے۔
ہندوستانی حکومت نے 1987 میں انہیں بھارت رتن کے خطاب سے نوازا۔ انہیں بہترعلاج کے لئے ممبئی بھی لایا گیا تھا۔ اسی کے ایک سال بعد 20 جنوری 1988کو 98 برس کی عمر میں بادشاہ خان کا انتقال ہوگیا۔
ہندو مسلم اتحاد کے سچے پیروکار امن وآشتی کے پیمبر بادشاہ خان عرف سرحدی گاندھی کی قربانیوں کوآج بھلا سا دیا گیا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار بادشاہ خان جیسےمجاہد آذادی کو یاد رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔
مختار خان (ممبئی)
موبائل: 9867210054 ، ایمیل: mukhtarmumbai[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں