انجم لکھنویؔ کی کتاب : شکوہ جواب شکوہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-03

انجم لکھنویؔ کی کتاب : شکوہ جواب شکوہ

shikwa-jawabe-shikwa-anjum-lucknowi

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی انجم لکھنویؔ (Anjum Lucknowi) کی کتاب "شکوہ جواب شکوہ" (Shikwa and Jawab e Shikwa Second) آج کل ادبی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب کو ناقدین کی توجہ حاصل ہو کر رہے گی اور آنے والے دنوں میں یہ کتاب فکر اقبال کی توسیع کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ شکوہ اور جواب شکوہ شکوہ میں کل 26 / بند ہیں۔ جب کہ جواب شکوہ 27/ پر مشتمل ہے۔ بند 6 مصرعوں والے ہیں۔ اس لحاظ سے کل 159ر بند پدر اشعار ہوئے۔


شکوہ کا پہلا بند یہ ہے:
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدہ پر نم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھونڈھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈھے
خلد آدم کو کبھی خلد کو آدم ڈھونڈھے


شکوۂ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اُٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا


اور جواب شکوہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
دیدہ یاس ترا کیا مرا جلوہ دیکھے
چشم ایماں میری رفعت کا تجلّا دیکھے
کن فیکن نہ کبھی وعدہ فردا دیکھے
کوئی غش کھائے کوئی طور کو جلتا دیکھے


تو مری شان کا اندازہ نہ کر پائے گا
تو اگر جلوہ مرا دیکھے گا جل جائے گا


مذکورہ کتاب "شکوہ جواب شکوہ میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا رنگ و آہنگ پوری طرح موجود ہے۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اقبال ہی کے شکوہ جواب شکوہ سے اپنی روح و قلب کی انگیٹھیاد ہکا رہے ہیں۔ جب کہ یہاں سوائے وزن اور بحر کے اقبال کا کچھ بھی نہیں ہے۔ الفاظ و تراکیب، تشبیہات و استعارات اور کنائے سب انجم لکھنوی کے ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر سو سال کے بعد ایک مجدد پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کی وفات پر تو نہیں البتہ اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کی تخلیق پر سو سال کی مدت بیت چکی ہے۔ علامہ اقبال اور انجم لکھنوی میں ایک اور بات قدر مشترک ہے۔ وہ یہ کہ جو مسائل اقبال کے دور میں تھے وہ آج بھی بدستور اپنی جگہ قائم ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان مسائل میں کمی آنے کی بجائے کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ دنیا کی کوئی میتھ میٹکس اسے رد بھی نہیں کر سکتی ۔ اقبال نے کہا تھا:
سات سوسال سے ہیں ہند کے میخانے بند


اقبال کی وفات پر اسی سال گزرجانے کے بعد اس مدت (PERIOD) میں مزید اسی سال جوڑے تو جاسکتے ہیں، نکالے نہیں جاسکتے ۔ یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جو انجم لکھنوی کو دوبارہ شکوہ جواب شکوہ “ لکھنے کا جواز بھی فراہم کرتی ہے اور اس ڈگر پر چلنے کا حوصلہ بھی جو شاعر مشرق علامہ اقبال کی مخصوص ڈگر تھی۔ ایک ایسی ڈگر جسے ” پنگھٹ کی ڈگر“ کہنا کسی طور غلط نہ ہو گا۔ انجم لکھنوی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے وقت کے ادبی و فکری چیلنج کو قبول کرنے میں نفع و ضرر کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔
وہ حیلہ گر ہیں جو مجبوریاں شمار کریں
چراغ اس نے جلائے ہوا کے ہوتے ہوئے


انجم لکھنوی آسمان ادب کا ایک ایسا تابندہ ستارہ ہے جو بلا مبالغہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ملک کے معتبر رسائل و جرائد میں چھپنے والا ان کاکلام، درجنوں گلوکاروں کی مترنم آواز پانے والی ان کی غزلیں، گیت اور نظمیں سینکڑوں مشاعروں میں داد تحسین حاصل کرنے والی ان کی شاعری اور ان کا Anchoring ( فن نظامت کا مخصوص انداز باذوق) قارئین و سامعین کے ذہنوں میں یہ چیزیں کچھ اس طرح رچ بس گئی ہیں جس طرح پھول میں خوشبو اور چراغ میں روشنی ۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ انجم لکھنوی جیسے مشاق سخنور پر قلم اٹھانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات ہے یا یہ کہ ان کا فکر وفن کسی تعارف کا محتاج ہے۔ تاہم یہ بات جس پس منظر میں کہی جارہی ہے اسے سمجھنا بھی از حد ضروری ہے۔
آج کا اردو ادب ایک ایسے دوراہے پر گھڑا ہے جہاں ایک طرف سطحی شاعری کو فروغ دینے والے نااہل شعرا کی بھیڑ سی ہے۔ جو اپنی سحر آگہی آواز یا جذباتی اشعار اور شاعری سے زیادہ اداکاری کے ذریعہ عوامی جذبات کا استحصال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ (اب مشاعروں کے ذریعہ بھی خوب آمدنی ہورہی ہے۔ کاغذ اور پریس کی سہولتوں کے سبب کچھ نام نہاد شعراء آئے دن کتابیں شائع کر کے قارئین کی حبیب پر بوجھ بھی ڈال رہے ہیں ) ۔ اور دوسری طرف پیشہ ور نقادوں کی بھی ایک اچھی خاصی فصل اگ آئی ہے۔ جس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ادب میں اخلاقیات کا کوئی پیمانہ مقرر کرنا وقت کا سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ آج ہر شاعر اور ادیب کتاب چھپوا کر صاحب دیوان بننے اور فاضل نقادوں سے تبصرے لکھوانے کو بیچین نظر آتا ہے۔ آج ایسی تحریروں کو بھی ( شعر ہو یا نثر ) نقادوں کی سند مل جاتی ہے جو ادب کے کسی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اب کسی تخلیق پر تبصرہ یا تجزیہ کی وہ اہمیت بھی نہ رہی جو احتشام حسین، نیاز فتحپوری، مجنون گورکھپوری ، آل احمد سرور اور کلیم الدین احمد جیسے ناقدین کے عہد میں تھی۔ میں پھر بھی خارزار میں اترا تو اس کی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی۔ پہلی وجہ تو ڈاکٹر اقبال کے فکر وفن سے انجم لکھنوی کی گہری وابستگی ہے اور دوسری چیز لکھنوی آہنگ اور لکھنوی طرز فکر کی نمائندگی ہے۔ جو خود لکھنو میں سسکیاں لیتی دکھائی دیتی ہے۔ ان دو وجوہ نے مجھے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے پر آمادہ کیا۔ یوں میں اردو دنیا کو ایک شاہ کار تخلیق دینے والے ایک عظیم شاعر پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ لیکن نوک خامہ صرف شکوہ جواب شکوہ تک محدود رہے گی۔ کہ یہ اپنے آپ میں بذات خود ایک بحر نا پیدا کنار ہے۔ اور ساتھ میں ایک بڑی نسبت بھی ہے۔ اقبال کی نسبت۔


بساط اپنی یہیں تک تھی اب آگے آپ کی مرضی نظام الدین کے قدموں میں خسرو کا قصیدہ ہے سچ پوچھئے تو مجھے اس کتاب کا پچھلے 10/ برسوں سے انتظار تھا۔ انجم صاحب سے میری پہلی ملاقات سن 2007ء میں شیخ مصری درگاہ (انشاپ ہل) کے ایک مشاعرہ میں ہوئی تھی۔ جہاں مجھے ان کی نظامت میں اپنا کلام پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ تب میں دہلی میں رہتا تھا۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جب زیادہ تر لوگ چلے گئے، انھوں نے اپنی زیر تکمیل کتاب شکوہ جواب شکوہ کے کچھ اشعار سنائے تھے اور میں اسی وقت ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا معرتف ہو گیا تھا۔ لیکن جیسا کہ کسی مفکر نے کہا ہے عظیم شخصیات اور عظیم کتابوں کو سمجھنے میں ذرا دیر لگتی ہے۔
انا کا طوق سے بھاری پہن نہیں سکتے
یہ مسندوں کے پجاری پہن نہیں سکتے


اس کتاب میں کل 53 / بند ہیں 26 رشکوہ میں اور 27 / جواب شکوہ میں کل ملاکر 159 / اشعار کمیت (Quantity) کے اعتبار سے یہ کتاب بھاری بھر کم دکھائی نہیں دیتی ۔ لیکن کیفیت اور معیار (Quality) کے اعتبار سیت یہ مختصر سی کتاب بعض بھاری بھر کم کتابوں پر بھی بھاری پڑسکتی ہے۔ کوئی بھی پتھر کا ٹکڑا کوہ نور نہیں ہوسکتا۔ جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوہ نور بھی پتھر کا ایک ٹکڑا ہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دریا کو کوزہ میں بند کرنے والی کہاوت اس کتاب پر سوفی صد صادق آتی ہے۔ اگر اس کتاب کی فنی خصوصیات پر بحث کی جائے تو الگ سے ایک کتاب تیار ہو جائے۔ اور انشاء اللہ وہ دن بھی آئے گا کہ اس کی شرحیں لکھی جائیں گی۔ دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ یہ تاریخی کارنامہ انجام دینے کی توفیق کے ملتی ہے۔ میں تو کتاب کے ایک مخصوص پہلو کی طرف قارئین کو توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اس کتاب کے اندر جو شاعری لہریں لیتی دکھائی دیتی ہے وہ ”گل و بلبل ، شمع ، پروانہ “ اور ”زلف و رخسار کی شاعری سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے اندر قوم وملت کا درد اس قدرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ کتاب کے اوپر اگر شاعر ( انجم لکھنوی) کا نام نہ لکھا ہوتا تو لوگ اسے علامہ اقبال کا کلام سمجھ بیٹھتے ۔ مثال کے طور پر شکوہ سے ایک بند اور ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
جب مٹانا ہی تھا کیوں مجھ کو بنایا تو نے
کیوں فرشتوں سے مراسجدہ کرایا تو نے


کیوں بلندی پہ بٹھا کر یوں گرایا تو نے
کیسا احسان ترا جو کہ جتا یا تو نے


اے خدا! تو ہی بتا کیا یہ تری مرضی ہے
یہ جو مرضی ہے تری اس میں بھی خود غرضی ہے


اور اب اسی صبر و سکون کے ساتھ جواب شکوہ" سے بھی ایک بند اور ایک شعر ملاحظہ فرمائیے
میں نے کونین بنائی تو بنائے ہیں اصول
مجھ سے اے آدم خا کی ترے شکوے ہیں فضول
یاد کر میرا کرم امت موسیٰ کو بھول
میری مرضی سے ہوا تھا من وسلویٰ کا نزول


کون سمجھے گا کسے رزق میں کیا دیتا ہوں
کوہ میں رکھ کے بھی کیڑے کو غذا دیتا ہوں


لکھنوی آہنگ نے کتاب کے لطف کو دوبالا کر دیا ہے۔ کتاب شروع کرتے ہی تخشنگی کی شدت اور آگے بڑھنے کی عجلت بڑھتی جاتی ہے۔ اور کتاب ختم کئے بغیر نہ تو تشنگی بجھتی ہے اور نہ ہی کتاب بند کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس سے ایک ہوش مند قاری کے لئے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں رہ جاتا کہ مذکورہ شعری تخلیق کسی اعلیٰ پائے کی تخلیق ہے۔ ایک بات میں بالخصوص تحقیق کا ذوق رکھنے والے طلباء سے کہنا چاہتا ہوں اور ان کے اساتذہ و سر پرستوں سے بھی۔ وہ یہ کہ آپ اس کتاب (شکوہ جواب شکوہ) کو یک سوئی سے اور کھلے ذہن کے ساتھ کم از کم ایک بار ضرور پڑھیں۔
پلٹ کر دیکھ لینا جب صدا کوئی سنائی دے
مری آواز میں شاید مرا چہرہ دکھائی دے


انجم لکھنوی تو "شکوہ جواب شکوہ" لکھ کر اپنے لئے ادب میں زندہ رہنے کا جواز پیدا کر چکے ہیں۔ ان پر قلم اٹھانے والے لوگ بھی انشاء اللہ زندہ جاوید ہو جائیں گے۔ اقبال کے بارے میں بہت پہلے یہ کہا جا چکا ہے۔
تیرے شہ پاروں کی قسمیں کھائیں گے اہل ادب
تو نے سیارے تراشے ہیں چراغ شام سے


اس مقام پر یہ نہ کہنا انجم لکھنوی کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ وہ علامہ اقبال سے بہت متاثر ہیں اور علامہ اقبال کی طرح الجمل لکھنوی کا دل بھی حمیت قومی کے جذبے سے سرشار ہے۔ ان کے کلام میں جو تاثیر اور تڑپ اور لہجے میں جو سوز گداز ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ قوم مسلم کی زبوں حالی، فرقہ بندی، اغیار کی سازشیں، مخالف افکار و نظریات کی یلغار، ملت فروش احباب کی کرم فرمائیاں ، اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیاں، عالم اسلام پر خطرات کے بادل، عالم گیر مسلم امہ کی ہر چہار جانب سے گھیرا بندی اور اس پر خود مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی اور اجتماعی بے حسی کے اس دور میں ایک شاعر اگر اپنے ذاتی مسائل سے جو جھنے اور اپنی معاشی ترقی کے دروازے ڈھونڈنے کی بجائے اگر ان عالمی مسائل پر نہ صرف غور و فکر کرتا ہے بلکہ ان مسائل کے حل کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور قلم کو تلوار بنا کر میدان عمل میں کود پڑتا ہے تو اسے ہم اصلی مجاہد اور قوم وملت کا سچا خادم کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ کہ اقبال نے خود کہا تھا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند


سچ پوچھئے تو انجم لکھنوی نے اقبال کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سنگلاخ وادی میں پاؤں رکھا ہے جس میں اقبال سے پہلے کوئی اور پاؤں رکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں کہا گیا، موجودہ اردو شاعری میں سطحیت اس قدر رواج پاچکی ہے کہ اب سنجیدہ و مہذب سماعتیں اور سماعتوں کی اقدار و روایات تک داؤ پر لگ چکی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ کتا بیں زیادہ تر اس لئے چھپ رہی ہیں کہ سیاست دانوں سے تعلقات بڑھا کر اردو اکیڈمیوں کے انعامات ہڑپ کئے جائیں اور اردو مشاعرے جو اردو تہذیب کی نمائندگی کرتے تھے، اب سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معیاری ادبی اشعار کی چتر مالا گوندھنے والے بہت سے فن کار حالات کی سنگینی اور دنیائے شعر و سخن کی سرد مہری سے تنگ آکر اپنے اپنے حجروں میں معتکف ہو چکے ہیں۔ ایسے ہوش ربا ماحول میں ڈاکٹر انجم لکھنوی نے نہ صرف یہ کہ شائستگی و نظافت کے دامن پر ہلکا سا دھبہ تک نہ آنے دیا بلکہ وہ اسی آن بان کے ساتھ دوشیزہ ادب کے گیسو سنوارتے رہے جو کسی زمانے میں آتش و ناسخ کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ بلکہ انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس پر ہول ریگزار میں قدم رکھ دیا جس میں یا تو ہونٹوں پر پیڑیاں جما دینے والی پیاس ہے یا تلوؤں کو لہولہان کر دینے والے ببول کے کانٹے اور شیخ کی تیلیوں کو شرما دینے والی ریگستان کی تپتی ریت۔ یہ وہ میدان ہے جس میں اب سے پہلے شاعر مشرق علامہ اقبال کے علاوہ کوئی اور قدم رکھنے کی ہمت نہیں دکھا سکا تھا۔
اف ! یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے


انجم لکھنوی کو جو اقبال ثانی کا ایوارڈ ملا وہ یوں ہی نہیں ملا۔ بات یہ نہیں کہ ان کا اصل نام محمد اقبال ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ انھوں نے وہ حوصلہ کر دکھایا جواب تک ورثہ اقبال کی میں اس امت مسلمہ نے علامہ اقبال کے علاوہ کسی اور میں نہیں دیکھا تھا۔ صدیوں کی شکست وریخت کا تجربہ اور قدم قدم پر رسوائیوں کا سامنا کرنے والی اس قوم کا موجودہ علمی و فکری کولاز اور پچھلے اسی سالہ جدو جہد کے شواہد کا یہ وسیع کینو اس انجم لکھنوی کی کاوشوں کو کتنی جگہ دے گا اور کہاں جگہ دے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم میں اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ اب امت مسلمہ کے پاس نہ آنسو بہانے کا بہانہ رہ گیا اور نہ یہ کہنے کا جواز کہ اب وہ دل درد آشنا نہیں رہا جو بھی اپنی قوم کے دردو غم میں تڑپا کرتا تھا۔ یہیں سے اقبال کا وہ اندیشہ بھی کا فور ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کا اظہار انھوں نے مثنوی پس چہ باید کرد، میں کچھ اس طرح کیا تھا۔
سر و درفتہ باز آید کہ ناید نسیم از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارے اس فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید


قابل مبارک باد ہیں سلطانپور (یوپی) کے وہ لوگ جنھوں نے اس کتاب کی رسم اجراء کا اہتمام کیا اور وہ قرض اتارنے کا بیڑہ اٹھایا جو فکر اقبال کے حوالے سے پوری امت کے کاندھوں پر تھا۔ یہ مبارک اقدام یاس کے ماحول میں آس کا دیپ جلائے آنے والی نسلوں کے لئے اردو تہذیب کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ جب جب اور جہاں جہاں اس کتاب کا ذکر ہوگا سلطانپور کا، مستقیم انٹر کالج (گیانی پور ) کا، اس کے اساتذہ وطلباء بالخلوص مذکورہ کالج کے لیکچرر عالم جاہ سلطانپوری کا ذکر ناگزیر ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں ، انجم لکھنوی کو اقبال ثانی کا جو خطاب ملا ہے وہ مناسب موقعے پر کیا جانے والا ایک مناسب ترین فیصلہ ہے۔ مستقیم انٹر کالج کا عملہ آج یقینا ان کیفیات کا خوش گوار تجربہ کر رہا ہوگا جوان دوشعروں میں مخفی ہے۔


مری کتاب میں جب نام تیرا آئے گا
تو پڑھنے والا تجھے میرے پاس پائے گا


قلم اٹھاؤ کہ کچھ لکھ دوں زندگی کے لئے
زمانہ مجھ کو مرے بعد بھول جائے گا


آخر میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس مختصر سی کتاب میں دور حاضر کے مسلمانوں کے تمام مسائل کاحل موجود ہے۔ یہ کتاب انجم لکھنوی کی ادبی حیثیت کو مستحکم بنانے کے ساتھ قوم وملت کے تئیں ان کی فکر مندی اور جذبۂ اخلاص کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ کتاب مسلم قوم کو ایمان ویقین اور ایثار و وفا کا وہ چراغ بھی فراہم کرتی ہے جو صرف دلوں کی دنیا میں جلا کرتا ہے۔ جو چراغ انجم لکھنوی کے دوون خانہ میں جھلملا رہا تھا اسے انھوں نے تمام امت کی امانت سمجھ کر اس کے اجالے صفحہ قرطاس پر انڈیل وئے ہیں۔ امت مسلمہ کا ہر فرد بلا تفریق مذہب وملت اس سے مستیز ہو سکتا ہے۔ اقبال نے بہت پہلے "شکوہ" کے تمام اشکالات کا جواب ”جواب شکوہ کے آخری شعر میں یہ کہہ کر دیا تھا کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


انجم لکھنوی نے بھی اسی بات کو آگے بڑھتے ہوئے ، اقبال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت مسلمہ کے تمام مسئلوں کا حل بالکل سادہ سے انداز میں ” جواب شکوہ" کے آخری شعر میں اس طرح پیش کیا ہے کہ:
امتی ہو تو محمد کے پرستار رہو
قصر جنت ہیں تمہارے تمہیں حقدار رہو


اس لئے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ یہ کتاب آج کی تاریخ میں فکر اقبال کی امین واحد کتاب ہے۔ بلاشبہ یہ اس قابل ہے کہ اسے گھر کا ہر فرد اپنے مطالعہ میں رکھے اور اسے لائبریری کی زینت بنایا جائے۔

***
تبصرہ نگار : شفیق الایمان ہاشمی (عزمی لکھنوی)
طیبہ ویلفیئر پالی کلینک، نزد میمن مسجد ، ولی پیر روڈ ، کلیان (ویسٹ)، مہاراشٹر۔

Shikwa jawab-e-Shikwa by Anjum Lucknowi. Review by: Azmi Lucknowi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں