کیلیں - افسانہ از قیسی رامپوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-04

کیلیں - افسانہ از قیسی رامپوری

keelein-short-story-by-qaisi-rampuri

کیلیں ہی کیلیں تھیں ہر طرف، ہر پگڈنڈی پر، ہر راستہ پر، سڑک پر اور ہر شاہراہ پر۔ موٹی موٹی، مضبوط مضبوط بڑی نوکیلی۔
ان کیلوں کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔ جغادری ورکشاپ ان کے لئے ہر ملک سے آہن وفولاد آتا تھا لاکھوں ٹن اتنا ہی کوئلہ اور صدہا مشینیں جن پر بڑے بڑے کاریگر رات دن کام کرتے تھے۔ ان کے پاس ہیبت ناک سائینس کی ڈگریاں تھیں، خرد سوزددارالتجارب ، ان کیلوں کے ڈیزائینر بھی بڑے قابل لوگ تھے جو کاغذ پر ڈیزائن نہیں بناتے تھے بلکہ دماغوں میں بناتے تھے۔ دماغ کی ایک ایک رگ میں ایک ایک شریان میں۔


ڈیزائن کا فن حاصل کرنے کے لئے ولایت جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ یہ خاکے ان کی رات دن کی زندگی میں بھرے ہوئے تھے۔ گھر کی زندگی میں۔ گھر کے باہر کی زندگی میں۔ مجلس کی زندگی میں، جماعت کی زندگی میں ، ذات پات کی زندگی میں، مذہب کی زندگی میں اور سیاست کی زندگی میں، انہی زندگیوں میں سے ڈیزائن اٹھتے تھے۔ احساسات کی جراحت مشاعر کی توڑ مروڑ، عقائد کا پیچ و تاب بہترین ڈیزائن پیش کرتا تھا۔ پھر اس پر ملکی و قومی اغراض و نفع جوئی نے ان کیلوں کو ایسی نوکیں بخش دی تھیں کہ ان پر پڑ کر نگاہ بھی زخمی ہوجاتی تھی۔


ان کیلوں کے کارخانے پہلے تو زیادہ تعداد میں نہیں تھے مگر جیسے جیسے افراد میں تہذیب اور علم و فضل پھیلتے گئے کارخانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور جب افراد یعنی ہم اور آپ بہت ہی مہذب، شائستہ عالم و ہمہ دان بن گئے تو ان کارخانوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص کا سینہ ایک مکمل کارخانہ بن گیا تھا اور یہ تنہا کارخانہ لاکھوں کی تعداد میں کیلیں بنانے لگا۔ اب کوئلے کی ضرورت نہ رہی اس کی جگہ کینہ و تعصب کے بخار کو دل کے تہ خانوں میں جمع کرلیا گیا۔ عزم کا آہن جسم کی رگ رگ میں پیدا ہوچکا تھا ، چنانچہ چند سیکنڈ میں سینے کی بھٹی میں سے صدہا کیلیں بن بن کر نکلنے لگیں۔ اور ہر طرف اس قدر کثرت سے بکھر گئیں کہ راہ چلنا دوبھر ہوگیا۔
راہیں بند ہوگئیں لوگ گھبرا اٹھے اور کیل سازوں کو بددعائیں دینے لگے مگر شاید وہ بھول گئے تھے کہ کیل سازی میں ہر شخص کا حصہ رہا ہے اب جدید راستہ چلنا مشکل ہوگیا ہے تو اس نادانستہ برائی کے ذمہ دار وہ خود بھی ہیں۔


خوف انتفاعی ، انانیت ، تعصب، اغراض بینی، اپنی بالا دستی وغیرہ کی یہ بھیانک کیلیں جب ہر شخص کے پیروں کو زخمی کرنے لگیں۔ تو لوگ چیخ اٹھے۔ ادھر اُدھر دوڑے مگر جس قدر انہوں نے دوڑ لگائی اسی قدر ان کے تلوے زخمی ہوئے۔ آخر گرانڈ کانفرنسوں کا خیال آیا، بڑی بڑی سبھائیں بلانے کی سوجھی اور خوب سوجھی ، ان سبھاؤ کے پردھان وہی لوگ بنے جنہوں نے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کی تھی اور سب سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ انہوں نے تمام دنیا کی تکلیف کا بھی خیال کیا کیونکہ پیراور دنیا والوں کو بھی ملے تھے اور کیلوں سے بھری ہوئی ان تمام راہوں پر ان کو بھی چلنا پڑتا تھا، اس لئے ان پردھانوں نے بڑی ہمدردی و محبت سے اعلان کیا کہ ہم اپنی مجالس میں ایسی تدابیر۔۔ عملی تدابیر اختیار کررہے ہیں کہ اس چوطرف پھیلے ہوئے"کیل زار" کاخاتمہ ہوجائے گا۔ ہم جڑ سے چن چن کر ایک ایک کیل اکھاڑ پھینکیں گے تاکہ تمام دنیا والے پھر آسانی سے جس راہ پر چلنا چاہیں بغیر تلوے زخمی کئے چل سکیں۔


یہ پردھان مہا پرش بھی تھے ، ان کے دل کی آنکھیں ظاہری آنکھوں سے زیادہ کھلی ہوئی تھیں اور دماغ۔۔۔ دماغ تو ان کو ایسا ملا تھا کہ ان کی ذکاوت کو دیکھ کر اقبال بھی جنت میں بیٹھے ہوئے اپنے شعر
کہ از مغزِ دو صد ۔۔۔۔ الخ


بہرنوع ان قابل و مقصد لوگوں نے کیلیں اکھاڑنے کا مبارک کام شروع کردیا۔ مگر ان کے تعجب کی انتہا نہ تھی وہ حیران رہ گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کیل کو اکھاڑتے ہیں تو اس کے نیچے سے دوسری اس سے بھی تیز نکل آتی ہے۔ اس پر ہتوڑا مارتے ہیں تو تیسری۔


درخت کے کٹے ہوئے تنوں پر کئی بارشیں گزرنے کے بعد کہیں جان پڑتی ہے۔ مگر یہ کمبخت کیلیں تو اس قدر"زود خیز" تھیں کہ ان پر انسان کے لہو کی ایک بوند گری یا پسینہ ہی ٹپکا کہ زن سے پیدا ہوگئیں، ابھر آئیں ، تعجب کی بات کیا تھی، کہاں قدرت کے کڑوڑوںصدی کے فرسودہ قوانین کی مسلسل بارش ہو تو کہیں جاکر زمین پر روئیدگی جمے اور کہاں سائنس کا "خدا برطرف کن" جدید عمل کہ بغیر کن یا مکن کہے عالم کے عالم تباہ کرکے رکھ دئیے۔


ان پردھانوں نے کیلوں کی بغاوت کو دیکھ کر آپس میں مشورہ کیا کہ لعنت بھیجو ان پر۔ جب ہم نے ان کو بویا ہے تو ا کے پھل بھی ہم کو کاٹنے پڑیں گے۔ چنانچہ انہوں نے تمام لوگوں سے گھاس پھوس لاکر اس کا ذخیرہ کیا اور اس کی دبیز دبیز پولیاں بناکر تمام کیلوں پر پھیلادیں اس کے بعد نہایت مسرت سے زمانہ کو یہ خوشخبری سنادی کہ لو بھئی کیلوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے، تمہاری روزانہ کی زندگی کا دروازہ کھولدیا گیا ہے۔ سب راستے صاف ہوگئے ہیں خوب چلو پھرو۔ اب پیروں کے زخمی ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے۔


لوگ کیلوں سے تنگ آکر عرصہ سے باہر نکلنا ترک کئے بیٹھے تھے۔ معیشت ڈوب چکی تھی اور زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ اس مژدہ حیات بخش کو سنتے ہی لوگ مسرت کی چیخیں مارتے ہوئے اور قلانچیں بھرتے ہوئے بھیانک کیلوں سے بھرے ہوئے زندگی کے راستوں پر دوڑ لگانے لگے اور ان کو کس قدر اطمینان و سکون محسوس ہوا جب اس خوشی کی کود پھاند میں ان کے تلووں میں ایک کیل بھی نہ چبھی۔ واہ رے پردھانوں کمال کردیا۔ راستے کیسے صاف کردئے ہیں کہ اب نہ تو کسی خلش کا خوب رہا نہ چبھن کا ڈر۔


اسی لئے تو کندہ ناتراش عوام کا گزرا بغیر پردھان کے ناممکن ہے۔ ہم اپنے اپنے طور پر سینکروں باتیں سوچتے ہیں مگر اپج اور ایجاد کا مادہ ہمارے اندر نام کو نہیں ہے، مخترع دماغ ہی نہیں پایا ہے ہم نے ہاں ایک دل کمبخت تو ایسا ہے کہ کسی کے میٹھے بول سنے نہیں کہ حریر کی طرح فوراً ملائم پڑ جاتے ہیں۔ مگر اس سوجھ بوجھ کی دنیا میں اب دل کی ضرورت نہیں اگر ہے تو صرف اس قدر کہ فرہاد کی قبر پر چڑھاچڑھانے کے کام آئے ، اب تو سائنٹیفک دماغ کی ضرورت ہے جوتڑپتی ہوئی حیات اور خون کے آنسو روتی ہوئی زندگی کی خاطر رحم و مروت کے ہاتھوں نہ بک جائے بلکہ ہر پکار کو تدبر و سیاست کے کانوں سے سنے اور سائنٹیفک طریقے سے دیکھے۔


پھر یہ غریب، یہ مزدور، یہ مفلس، یہ نادار تو ہمیشہ سے انسانیت کی پیشانی پر ایک داغ رہے ہیں۔ بھلے آدمی کوئی چیز ایجاد کرنا جانتے ہی نہیں اگر جانتے ہیں تو صرف اپنی فاقہ مستی کے عالم میں غیر سائنٹیفک طریقے سے کثیر تعداد میں "ننگ سائینس" بچے پیدا کرنا۔ خیر شکر ہے کہ دانایان عالم ان پر دہانوں نے اب آدمیت کی اس مسخ جماعت کو بھی سنبھال لیا ہے بلکہ اس کو حکومت دینے کی حماقت کا تہہ بھی کرلیا ہے ، خدا خوش رکھے کیسے اچھے ہیں ہمارے مربی!


آخر کوئی بات تھی کہ ان عظیم المرتبت پردھانوں کے ہوتے ہوئے کیلیں باقی رہ جاتیں ، وہ مٹیں اور ایسی مٹیں کہ گھاس پھوس کو چھید کر سر ابھارنے کے قابل نہ رہیں۔ اب ان پولیوں کے نیچے پڑی ہوئی تو پڑی رہین۔ آپ زنگ چاٹ کر گل سڑ جائیں گی۔ اس وقت تو ان کے خاتمہ پر ایک جشن عام بنانا چاہئے۔ خوب خوشیاں منانی چاہئیں۔


چنانچہ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے سب سے پہلے مسجدوں اور مندروں میں جشن کا پروگرام پورا کیا کیونکہ یہی دو ایسے مقامات ہیں جہاں سے کیلیں زیادہ ابھرتی ہیں۔نہیں بلکہ بنتی ہیں۔ عوام مساجد اور مندروں میں کھنچ آئے خدا کی تو روز ہی پوجا یہاں ہوتی رہتی ہے آج محسن پردھانوں کا حکم بلند ہونا ضروری تھا۔ لہذا انسانیت کے ان محسنین کے ذکر خیر سے چند ہی منٹ میں تمام عبادت گاہوں کو ٹاؤن ہال کی رونق دی گئی اور وہاں وہ کر بتایا جو وقت کا عین اقتضا تھا۔


ایک قابل سپاس گزار صاحب نے کیلوں کے ملیامیٹ ہونے پر عقیدت میں ڈوبی ہوئی بڑی جاندار تقریر کی۔ تہنیت کی نظمیں پڑھیں گئیں اور پھر وزنی وزنی تقریریں ہوئیں۔ کیلوں کے خاتمین کے ان بہترین ترجمان جب تقریر ختم کی تو فتح و کامرانی سے ان کا چہرہ گلنار ہوگیا اور ان کے اس وقت کے اظہار اطمینان سے لاکھوں انسانوں نے یہ اندازہ لگایا کہ ان صاحب کے کبھی کوئی کیل نہیں چبھی تھی اور مجمع بھی پچھلی ڈراؤنی تاریکی کو بھول کر اس وقت ایسا ہی محسوس کررہا تھا کہ وہ بھی ہمیشہ کیلوں سے محفوظ رہا ہے۔
اختتام تقریر کے بعد ایک بے وقوف سا انسان اٹھ کر مقرر صاحب کے پاس ڈرتا ڈرتا گیا اور ان سے بولا:
"صاحب یہ تو سب کچھ ہوگیا۔ پر معانی چاہوں ہو، آپ نے یہ نئی بتایا کہ یہ کنٹرول کب کھتم ہوگا۔"


"کنٹرول!" مقرر صاحب نے ابرو پر پل ڈال کر کہا۔ "احمق یہ تو تمہارے ہی فائدہ کی چیز ہے۔" انہوں نے پھر فرمایا۔


"اچھا!" بیچارے بے وقوف انسان نے اپنے سوال پر نادم ہوکر کہا۔مقرر صاحب نے کنٹرول کے خیروبرکات کے باب میں جو فرمایا تھا وہ اسکو مان لینا پڑا۔ حالانکہ اس کا اور اس جیسے لاکھوں انسانوں کو تجربہ یہ تھا کہ والدین سے زیادہ شفیق حکومت اور خوش وقت تاجروں نے کنٹرول کو وہ نہیں بننے دیا جو وہ بننا چاہتا تھا۔


اس بیچارے بے وقوف نے اور اس کے ساتھ والے لاکھوں آدمیوں نے کنٹرول سے بڑی شدید تکالیف اٹھائی تھیں یہ بھی ایک بڑی موٹی کیل تھی لیکن اس وقت مقرر صاحب کے فرمانے سے وہ اپنے تجربات مصائب کے باوجود مان گیا کہ کنٹرول نعمت ہے کیلیں ختم ہوگئی ہیں اور جو اس وقت اظہار مسرت نہیں کرتا وہ کفران نعمت کررہا ہے۔


اوہ اسے کون دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ ہمیشہ لڑنے والی معیشتیں اور دائمی ٹکرانے والی انسان کی جماعتی غرضیں، وہ قومی مفاد کی آندھیاں اور سب کچھ میرے لئے کی رگڑیں ، یہ نہ کبھی رکی ہیں اور نہ رکیں گی۔ ہوئے جائیں ٹکریں، چلی جائیں رگڑیں۔۔۔۔۔مگر دیکھنا کیلوں پر گھاس پھول بچھی ہوئی ہے۔ ہرچند دبیز تہ ہے اس کی۔ لیکن یہ ٹکروں اور رگڑوں کے شرارے اس کے نیچے گھاس پھوس اور اس کے نیچے پھر وہی کمبخت کیلیں۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ چمنستان دہلی۔ شمارہ: افسانہ نمبر، جون 1945ء

Keelein. Short Story by: Qaisi Rampuri.

1 تبصرہ:

  1. قیسی رامپوری کے افسانے اور ناول سوچ کے نئے زاوئیے دیتے ہیں، ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہے کسی بھی موضوع پر لکھنا ان کے لئے کبھی مسئلہ نہیں رہا، ان کی تحریریں شائع کرتے رہیں آپ کا بہت شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں