اقبالِ جرم - افسانہ از بانو قدسیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-02

اقبالِ جرم - افسانہ از بانو قدسیہ

iqbal-e-jurm-short-story-by-banu-qudsia

مجھے اب بھی یقین ہے کہ جس مصلحت کے پیش نظر اس نے اقبال جرم کیا تھا، وہ اس کے اعتراف سے بہت مختلف تھی۔


جس وقت نذیر کو سزا کا حکم ہوا میں کورٹ میں موجود نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے اس میں دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ مجھے میری دلچسپی کورٹ سے باہر لے گئی۔ میں نے اپنی سائیکل کو وہیں باہر سائیکل سٹینڈ پر چھوڑا اور قریبی ریستوران میں جاکر چائے پینے لگا۔


اس سہ پہر کو مجھے ساری دنیا اداس اور بھیانک نظر آئی۔ باوجودیکہ ریستوران میں چاروں طرف رنگین کاغذ کی کترنیں اور رنگ برنگے بلب روشن تھے لیکن اآنے والی 25/دسمبر کی خوشی میں چھت سے لٹکنے والی رنگین لالٹینیں اور غبارے مجھے بے حد بے ہودہ نظر آرہے تھے اور لٹکی ہوئی کترنوں پر مجھے سلیب کا دھوکہ ہوتا تھا۔ ہر ایک صلیب پر نذیر آوزیاں تھا۔ اس کی ہتھیلیوں سے لہوبہہ رہا تھا۔ پاؤں زخمی تھے اکڑی ہوئی گردن کی نسیں پھولی ہوئی تھیں لیکن اس کا چہرہ عجب سکون سے لبریز، ہایت مطمئن تھا۔


میں نے آدھی پیالی پی کر چہرہ پرے کرلیا۔


کوئی طاقت بار بار مجھے کورٹ روم کی طرف بلارہی تھی لیکن میں صلیبی کترنوں سے منہ پھیر کر پیالی پر نظریں جمائے سوچنے لگا اگر نذیر کی جگہ میں ہوتا؟اگر نذیر کی جگہ رفیق ہوتا؟ اگر۔۔۔۔۔؟


جس روز عذرا کا قتل ہوا ، اس روز صبح صبح میں اور نذیر موٹر سائیکل پر چڑھ کر اس کی گلی میں سے نکلے تھے۔ میری نئی موٹر سائیکل کے ہینڈل کو مضبوطی سے پکڑ کر نذیر نے کہا تھا:


"یار! ذرا محبوب کی گلی میں سے گزرتے ہیں۔ ایسی باتوں کا ان لڑکیوں پر بڑا رعب پڑجاتا ہے۔"


جس وقت ہم موٹر سائیکل پر دندناتیے اس کی کوٹھی کے سامنے سے گزرے وہہ لوہے کی سلاخوں والے پھاٹک کے پاس کھڑی سویٹر بننے میں مشغول تھی۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے لوہے کے پھاٹک پر پیر جمائے جنگلے کی سلاخوں کو پکڑے جھول رہے تھے اور ان تینوں سے کچھ فاصلے پر مالی فوارے کے ساتھ پھولوں کو پانی دے رہا تھا۔


ان کی کوٹھی سے تھوڑی دیر پہلے نذیر نے موٹر سائیکل کی رفتار ہلکی کردی تھی۔ اس کا سرخ مفلر ہوا میں پھر پھڑانے لگا تھا اور اس کی گردن بالشت بھرلمبی ہوکر پیلی کوٹھی کی طرف مڑ گئی تھی۔ ان کی کوٹھی سے دس قدم آگے عین بس سٹاپ کے پاس نذیر نے موٹر سائیکل روک کر میرے سپرد کی تھی اور پھر بغیر کچھ کہے سنے پیلی کوٹھی کی طرف چل دیا تھا۔


جب نذیر واپس آیا تو اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور اآنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے۔موٹر سائیکل کو سٹارٹ کرنے سے پہلے اس نے مجھے کہا تھا:
"بخدا۔۔۔۔! میں اس کو مزہ چکھادوں گا۔ یونہی کسی کے دل سے کھیلنا آسان نہیں ہوتا۔ تم دیکھ لینا اس نے مجھ پر رفیق کو ترجیح دی ہے لیکن اسے رفیق تک پہنچنا نصیب نہ ہوگا۔"


جب کورٹ نے میری گواہی طلب کرتے ہوئے ان الفاظ کی تصدیق چاہی تھی تو اثبات میں سر ہلانے کے باوجود مجھے پورا یقین تھا کہ ان الفاظ کا نذیر کے عزم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ الفاظ نذیر نے جوش اور غصے میں کہے تھے۔ ان کی صداقت کی تصدیق چاہنا ہی فضول تھا۔


مجھے تو وہ رات بھی خوب یاد ہے جب میں اور نذیر رات گئے تک سڑکوں پر ٹہلتے رہے تھے۔ میری ٹانگیں شل ہوگئی تھیں لیکن نذیر کا قصہ ختم نہ ہوتا۔


میں اس کے اور عذرا کے تمام حالات سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے مجھے ایک ایک دن ، ایک ایک ملاقات کی روداد یوں سنائی تھی جیسے کوئی فلمی کہانی سنا رہا ہو۔۔۔ ہر ایک واقعے کو بیان کرنے کے بعد وہ مجھ سے پوچھتا:
" اور اب تم ہی انصاف کرو کہ اسے مجھے چننا چاہئے تھا کہ رفیق کو؟"


اور جب میں اس کے حق میں ووٹ دے کر خاموش ہوجاتا تو پھر وہ نئے سرے سے اپنی داستانِ خونچکاں سنانے بیٹھ جاتا۔


مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ لارنس باغ کے وسط میں پہنچ کر اس نے مجھ سے کہا تھا:
"آخری بار مجھے عذرا کو دیکھنا ہے۔ آخری بار۔"
اور یہ کہہ کر وہ مجھے وہیں چھوڑ کر چل دیا تھا۔
یوں گھنٹے کے بعد جب ہم سڑکوں پر گھومتے گھامتے گھر پہنچے تو باہر کی بتی کے نیچے گھر کے تمام افراد جمع تھے۔ امی کے سر پر دوپٹہ نہ تھا۔بہنوں کے پیروں میں سلیپر تک نہ تھے۔ نذیر کو دیکھتے ہی یکبارگی سب خاموش ہوگئے اور پھر ننھی یاسمین نے امی اور خالدہ کے درمیان میں سے سر نکال کر کہا:
"نجو بھائی!۔۔۔۔ آپا عذرا کو کسی نے قتل کردیا ہے۔"


نذیر یکدم دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
میرے سارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
نذیر نے جیسے آسمان سے پوچھا:"کب؟کب؟۔۔۔۔"
میں آپ سے بھی کہتا ہوں اور کورٹ میں بھی میں نے فاضل جج سے یہی کہا تھا کہ نذیر نے عذرا کو قتل کیا ہوتا تو وہ اس کرب سے گھر والوں سے نہ پوچھتا کہ عذرا کو کب کسی نے قتل کردیا؟
میں جانتا ہوںوہ مجھ سے آدھ گھنٹہ علیحدہ ہوکر عذرا کے گھر گیاتھا۔ کورٹ میں وہ بھی یہی کہتا رہا کہ اسی آدھ گھنٹے میں اس نے عذرا کے سینے میں چھری گھونپی تھی۔ عذرا کے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی ہوئی خوبصورت جرمن چھری سے اس کا سینہ چاک کیا تھا لیکن مجھے کبھی یقین نہیں آئے گا کہ عذرا کا قاتل نذیر ہے !


ہوٹل میں لٹکی ہوئی رنگین صلیبی کترنوں پر نذیر آویزاں تھا۔ اس کی ہتھیلیوں سے لہو رواں تھا۔ پاؤں زخمی تھے لیکن چہرے پر نجات اور سکون کا غازہ لگا ہوا تھا۔ میں چائے پیے بغیر عدالت میں واپس چلا گیا۔
لیکن تب تک نذیر جاچکا تھا۔ امی اور ابا رخصت ہوچکے تھے اور کورٹ روم کے باہر بیٹھا ہوا چپراسی کہہ رہا تھا:
"بابو جی! مجھے یقین نہیں آتا کہ نذیر میاں نے قتل کیا ہے۔ قاتلوں کے چہرے ایسے نہیں ہوتے۔۔ کہیں جویہ اپنے منہ سے نہ مانتے تو کاہے کو سزا ہوتی!"
میں نے سائیکل سٹینڈ پر کھڑی ہوئی موٹر سائیکل نکالی اور جیسے اپنے آپ سے کہا:
"مجھے تو اب بھی یقین نہیں آتا کہ نذیر نے عذا کا قتل کیا تھا۔ ہاں جس مصلحت کے پیش نظر اس نے اقبال جرم کیا تھا وہ کچھ اور تھی!"


بھلا عذرا کے بغیر زندہ رہ کر نذیر کرتا بھی کیا! شاید وہ خود کشی کرلیتا!!
شاید کسی روز پچھلی رات کا سرد چاند اس کی چار پائی پر جھانکتا اور اسے نہ پاکر بادلوں میں چھپ جاتا!
پھر آپ ہی بتائیے اگر نذیر نے اپنے ہاتھوں ایسی موت چن لی تو آپ اور میں اس پر کیونکر الزام دھرسکتے ہیں!!

***
ماخوذ از کتاب: آتش زیرِ پا۔ افسانوں کا مجموعہ از: بانو قدسیہ۔ سن اشاعت: 2001ء

Iqbal-e-jurm. Short Story by: Banu Qudsia.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں