پینزی کے پھول - بچوں کی کہانی از کرشن چندر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-13

پینزی کے پھول - بچوں کی کہانی از کرشن چندر

pensy-flower-short-story-krishan-chander

ایک دن میں اور تاراں گھاٹی پر کھیلتے کھیلتے نیچے پھول والے چشمے پر پہنچ گئے ، یہ اس لئے پھول والا چشمہ کہلاتا تھا کہ یہاں اس چشمے کے کناریے اور اوپر ٹیلے پر سردی کے سوا ہر موسم میں پھول ہوتے تھے۔ اور جس ٹیلے کے نیچے یہ چشمہ نکلتا تھا اس پر اودیے انگور کی بیلوں کے جھاڑ تھے۔ جو کاؤ کے ایک جھنڈ پر چڑھے ہوئے تھے۔ کاؤ کے جھنڈ کے درمیان شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ تھا، اور انگور کی بیلوں کے بڑے بڑے سبز پتوںکے جھومروں کے اندر سے شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی گونج ایسے سنائی دیتی تھی۔ جیسے ان بیلوں کے اندر بھی کوئی دوسرا پھول والا چشمہ گنگنارہا ہو۔ یہاں عجب سناٹا اور خاموشی تھی ، چھوٹے چھوٹے نیلے پتھروں کے ارد گرد بھورے پروں والی آبی تتلیاں سطح آب پر تیرتی پھرتی تھیں۔ کئی مینڈک کنارے پر دھوپ سینک رہے تھے۔ اور ہمیں دیکھتے ہی پھدک کر پانی میں چلے گئے۔ چشمہ میں انگور کے کئی سبز پتے تیر رہے تھے۔ اور ان پر پانی کے قطرے یوں چمک رہے تھے۔ جیسے کسی کی کھلی ہتھیلی پر جواہرات چمک رہے ہوں۔


تاراں نے چشمے کے کنارے پھولوں میں سے چند پھول چن لئے اور انہیں توڑ کر ان کا گچھا بناکر اپنے بالوں میں اڑس لیا۔
پھر تاراں نے مجھے بتایا۔
"یہ تتلی تار پھول ہیں۔"
"نہیں یہ پنیزی(Pensy) ہیں۔ میرے پتا جی نے مجھے بتایا تھا۔"
"نہیں یہ تتلی تار ہیں۔"


گہرے اودے رنگ کے مخملیں پتوں والے پھول تھے جن کے مرکز میں اکیلا پیلا دھبہ تھا۔ اور دور سے دیکھنے سے واقعی یہ معلوم ہوتا تھا گویا ہرے پتوں پر اودی اودی خوش رنگ تتلیاں بیٹھی ہیں۔
میں نے کہا " ان پھولوں کی ایک کہانی ہے۔"
"کیا کہانی ہے ؟"
"نہیں سناتے۔" میں نے اٹھلاکر کہا۔
"نہیں سناؤ گے۔" تاراں نے میری پیٹھ پر ایک مکّا مار کر کہا۔
"نہیں۔"
"اب بھی نہیں؟" تاراں نے میری پیٹھ پر دوسرا مکا جڑ دیا۔اپنے جسم کی پوری طاقت سے۔"
"ہرگز نہیں!" میں نے مکے کھاتے ہوئے بھی ہنس کر کہا۔
تاراں روہانسی ہوکر بولی۔"پھر کیسے سناؤ گے۔"
"ہماری ایک شرط ہے۔"
"کیا؟"
"تم ہمیں بنفشیے کے پھولوں کا ایک ہار بناکر دو۔ ہم تمہیں پنیزی کے پھولوں کی کہانی سنائیں گے۔
"اچھا" کہہ کر تاراں بڑی بے دلی سے اٹھی کیوں کہ بنفشے کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کا ہار بنانے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑا وقت صرف ہوتا ہے۔
تاراں نے ٹیلے پر اگی ہوئی گھاس کے خاکستری تریوں والے اونچے اونچے خوشیے توڑ لئے۔ باریک سیدھے لانبے تاگیے کی طرح صاف ستھرے خوشے اور پھر بنفشے کے پھول توڑ کر انہیں ان خوشوں میں پرونے لگی۔ جب دونوں پرودئیے جائیں گے۔ تو تاراں انہیںڈنٹھل پر گانٹھ لگا کر جوڑ دے گی بس ہار تیار ہوجائے گا۔
"اچھا اب کہانی سناؤ۔" تاراں بنفشے کے پھول پروتے پروتے بولی۔


میں نے کہا: "ایک لڑکا تھا۔"
تاراں بولی۔" تیرے جیسا۔"
"ہاں میرے ایسا"
"پھر؟"
اور ایک لڑکی تھی۔
"میری ایسی؟"
"نہیں تجھ سے اچھی۔" میں نے جواب دیا۔
"ہشت!" تاراں نے غصے سے پھول پھینک دئیے۔
"اچھا! اچھا بالکل تیرے ایسی لڑکی تھی وہ۔ مگر وہ دونوں بھائی بہن تھے۔ اور انہیں تتلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا وہ پھولوں پر اڑنے والی چوڑے چوڑیے پروں والی تتلیاں پکڑتے اور پانی پر تیرنے والی، چھوٹے چھوٹے شفاف پروں والی تتلیاں پکڑتے اور انہیں پکڑ کر ان کے نازک جسم میں ایک تیز پن چبھوکر انہیں ماردیتے اور اسے بلاٹنگ پیپر پر خشک کرکے اپنی البم میں سجالیتے۔"


"بلاٹنگ پیپر کیا ہوتا ہے ؟" تاراں نے پوچھا۔
"ایک طرح کا کاغذ ہوتا ہے، موٹا اور کھردرا۔ وہ سیاہی کو چوس لیتا ہے ، اور پانی کو جذب کرلیتا ہے۔ میرے گھر میں بہت سے بلاٹنگ پیپر ہیں، تمہیں دکھاؤں گا۔"
"ایک مجھے دینا۔"
"اچھا دے دوں گا۔"
"اچھا تو آگے چلو، پھر کیا ہوا!"


"پھر یہ ہوا کہ ان دونوں بھائی بہنوں کے ماں باپ انہیں تتلیاں مارنے سے بہت منع کرتے تھے، مگر وہ دونوں ہماری طرح شیطان بچے تھے، باز نہ آتے تھے۔"
"میں تو شیطان نہیں ہوں، تو ہوگا۔"
"تو ہوگی۔"
"ہار توڑ ڈالوں گی۔ اگر تونے مجھے پھر شیطان کہا۔" تاراں نے دھمکی دیی اور میں ڈر گیا۔ جلدی جلدی سے آگیے کہانی سنانے لگا۔


"ایک دن کیا ہوا کہ ان بچوں کے باغ میں دو خوبصورت تتلیاں آئیں۔ ایک کا رنگ بسنتی لال اوراودا تھا۔ دوسری تتلی سبز گلابی پروں والی تھی۔ ایسی خوبصورت تتلیاں ان کے باغ میں اس سے پہلے کبھی نہ آئی تھیں۔ دونوں بھائی بہن انہیں پکڑنے کے لئے دوڑے تتلیاں پھولوں سے اڑتی اڑتی باغ سے باہر نکل گئیں۔ دونوں بھائی بہنوں نے ان کا پیچھا کیا۔ باغ سے ڈھلان، ڈھلان سے ندی، ندی پارکرکے ایک پہاڑ آتا تھا دونوں بھائی بہن تتلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ پہاڑ پر ایک جنگل تھا۔
"بہت گھنا؟"
"بے حد گھنا؟"
"اور ڈراؤنا۔"
"اور ڈراؤنا؟"
"وہاں ایک شیر رہتا تھا۔" تاراں نے پوچھا۔


"کہانی تو سناتی ہے یا ہیں؟"
"اچھا اچھا آگے سناؤ۔"
"اس جنگل میں جاکر ایک تتلی ایک طرف کو بھاگی اور دوسری تتلی دوسری طرف۔ دونوں بھائی بہن جدا ہوگئے۔ بھائی نے بسنتی، لال اودی تتلی کا پیچھا کیا۔ بہن نیلی ، سبز اور گلابی تتلی کے پیچھے بھاگی، جنگل گھنا ہوتا گیا ، گہرا ہوتا گیا۔ کالا ہوتا گیا۔ دن میں رات نظر آنے لگی۔ آخر بھائی نے خوشی کی ایک چیخ مار کر بسنتی، لال اور ہری تتلی کو پکڑ لیا اور چلا کر کہا ، میں نے پکڑلی، بہن میں نے تتلی پکڑ لی لیکن مڑ کر جو دیکھا تو بہن غائب تھی!"
"پھر کیا ہوا؟" تاراں کا سانس رکنے لگا۔ اس کی آنکھین حیرت سے کھلتی چلی گئیں۔ پھر ننھا بھائی ننھی بہن کو جنگل میں ڈھونڈنے کے لئے نکلا۔ پیروں سے ٹکراتا ، شاخوں سے الجھتا، کانٹے دار جھاڑیوں سے گزرتا اس پھڑ پھڑاتی ہوئی تتلی کو ہاتھ میں لئے اپنی بہن کو آواز دیتا ہوا اسے ڈھونڈنے لگا۔ اسی طرح کئی گھنٹے گزر گئے۔ مگر اس کی بہن اسے نہ ملی۔"
"پھر بہن کہاں گئی؟"
"بہن دوسری تتلی کے پیچھے تھی نا۔ وہ نیلی سبز گلابی رنگ والی تتلی کے پیچھے پیچھے بھاگتی جارہی تھی۔ تتلی آگے آگیے اڑتی جارہی تھی۔ جنگل گھنا ہوتا گیا۔ تتلی جنگل کے اندر ہی اندر اڑتی گئی۔ بہن پیچھے بھاگتی گئی۔ تتلی کو دیکھتے دیکھتے اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ وہ کدھر جارہی ہے۔ آگے ایک چھوٹی سی ڈھلوان تھی، تتلی اس پر سے اڑ گئی۔ بہن نے بھی چھلانگ لگائی۔ نیچے جنگل میں گہرے پانی کا ایک چشمہ تھا، بہن اس میں ڈوب گئی۔"
"ہائے!" تاراں کے مونہہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔"پھر کیا ہوا؟" اس نے ا پنے آنسو پیتے ہوئے کہا۔


"جب دوپہر ڈھل گئی اور شام ہونے کو آئی اور بھائی کو اس کی بہن نہ ملی تو وہ تھک کر ایک گرے ہوئے پیڑ کے تنے پر بیٹھ گیا ، اور رونے لگا۔ اتنے میں اس کے کانوں میں آواز آئی۔
" اگر تجھے تیری بہن ڈھونڈ دوں تو مجھے کیا دے گا۔" بچے نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ آواز کدھر سے آئی تھی۔ اتنے میں اس کے کانوں میں پھر وہی آواز آئی۔
"بھیا کو بہن سے ملادوں تو مجھے کیا دوگے۔"
"یہ اس کے ہاتھوں میں پھڑ پھڑانے والی تتلی تھی۔ لال بسنتی اور ہری تتلی جو دراصل ایک پری تھی۔
"ہاں جبھی وہ بولتی تھی۔" تاراں کے چہرے پر امید اور خوشی کی ایک ہلکی سی لہر دوڑنے لگی۔


بھائی بولا۔" اگر تو میری بہن مجھ سے ملادے تو میں تجھے آزاد کردوں گا۔"
"پہلے مجھے آزاد کر۔"
"لے!" بھائی نے تتلی ہوا میں چھوڑ دی۔ تتلی نے اپنے رنگین پرپھڑپھڑائے اور ہوا میں اڑتے ہوئے بولی۔
"اب میرے پیچھے پیچھے آجا۔"


"تتلی اسے چٹانوں، پہاڑیوں، ٹیلوں ، تنگ اور کٹھن راستوں پر سے لے جاتی ہوئی اس گھاٹی پر لے گئی، جس کے نیچے وہی گہرا چشمہ بہہ رہا تھا۔جہاں اسکی بہن ڈوبی تھی۔ اور جس کنارے پر وہ ڈوبی تھی وہاں ا سکے قریب کی گھا س پر گرے اودے مخملیں پتیوں والا تتلی نما ایک پھول کھلا ہوا تھا۔ جس کا ایک گچھا اس وقت تمہارے بالوں میں ہے۔
"یہاں ہے تمہاری بہن!"تتلی نے کہا۔
"کہاں؟"
"وہ اس چشمے میں ڈوب کر مر گئی ہے۔"تتلی نے افسوسناک لہجے میں کہا۔
"بھائی اپنی بہن کے لئے رونے لگا اور بسنتی ، لال ہری تتلی کو جھوٹاور دھوکے باز کہنے لگا، تو تتلی نے مسکراکر کہا۔۔۔ "میں تیری بہن کو پھر سے زندہ کرسکتی ہو، اگر تو ایک وعدہ کرے۔"


"وعدہ کر کے آئندہ کبھی معصوم تتلیوں کو مارا نہیں کرے گا۔"
"میں وعدہ کرتا ہوں !"بھائی نے صدق دلی سے کہا۔
"تب تتلی اس سے بولی۔اچھا اب ایسا کرا س ڈھلوان سے نیچے چشمے کے کنارے چلا جا اور جہاں اودے رنگ کا پھول کھلا ہے، اوراس پھول کو توڑ لے۔"
"پھو ل کو توڑنے سے کیا ہوگا؟"
"جیسا میں کہتی ہوں ویسا کر!"


تب بھائی اس کٹھن ڈھلوان سے پھسلتا پھسلتا بڑی مشکل سے اس چشمے کے کنارے پہنچا جہاں وہ اودے رنگ کا پھول کھلا ہوا تھا ، جوں ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس پھول کو توڑ اپھو ل اس کے ہاتھ سے غائب ہوگیا۔ اور جہاں سے اس نے پھول توڑا تھا، وہاں پر اس کی بہن پانی میں بھیگی ہوئی کھڑی تھی۔"
"ارے!!!"‘ تاراں خوشی سے چلائی۔
"تب بھائی بہن دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے اور خوشی سے رونے لگے۔ اس وقت گہری شام ہوچکی تھی اور جنگل سے واپس جانے کا راستہ نہ ملتا تھا۔ مگر ان دونوں تتلیوں نے پھر ان بچوں پر مہربانی کی۔ انہوں نے ان دونوں بچوں کو اپنے پروں پر بٹھالیا کیونکہ وہ پریاں تھیں اور اب ان کے پر بہت بڑے بڑے اور روشن ہوگئے تھے۔ اور رات کے اندھیرے میں ایسے چمکتے تھے جیسے جگنو چمکتے ہیں۔ وہ دونوں پریاں ان دونوں بچوں کو اپنے پروں پر بٹھا کر انہیں جنگل کے اوپر اڑا کر لے گئیں ، اور آنکھ جھپکتے ہی انہیں ان کے ماں باپ کے باغ میں پہنچا دیا۔ جہاں وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔"
"بہت اچھی کہانی ہے۔" تاراں نے خوش ہوکر بنفشے کے پھولوں کا ہار میرے گلے میں دال دیا۔


میں نے کہا تب سے باغوں اور چشموں کے کنارے یہ پنیزی کے پھول کھلتے ہیں ، تاکہ بچے ان سے اپنا دل بہلائیں اور معصوم تتلیوں کی جان نہ لیں۔

***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ کھلونا نئی دہلی۔ شمارہ: نومبر 1961ء

Pensy Flower, Kids short-story by: Krishan Chander.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں