کرشن چندر : آدمی ہی آدمی - از مجتبیٰ حسین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-15

کرشن چندر : آدمی ہی آدمی - از مجتبیٰ حسین

krishan-chander

کرشن چندر کے بغیر اردو ادب پر سے پورا ایک سال بیت گیا۔ وقت بھلا کبھی رکتا ہے ، کرشن جی کی وہ معصوم مسکراہٹ جو ان کی کہانیوں کی طرح انہی کا حصہ تھی پچھلے سال کہیں نہیں دکھائی دی۔ ان کی پہلی برسی پر کتنی ہی یادیں ذہن میں تازہ ہورہی ہیں۔وہ اتنے بڑے ادیب تھے لیکن عملی زندگی میں کسر نفسی اور انکساری کا پیکر تھے۔ ان کی انکساری میں ایک عجیب سا شرمیلا پن تھا۔ ہر کام کرنے سے پہلے شرماتے تھے۔ کوئی ان کی تعریف کرتا تو شرماتے تھے۔ چھوٹوں سے ملتے تو شرماتے تھے، بڑوں سے ملتے تو تب بھی شرماتے تھے۔


ان کے ایک ہاتھ پر انگریزی میں ان کا نام بڑے حروف میں گدا ہوا تھا "KRISHAN CHANDER" میں نے ایک بار مذاق میں ان سے کہا تھا:
"کرشن بھائی! یہ آپ نے اپنے ہاتھ کو وزیٹنگ کارڈ کیوں بنارکھا ہے۔ اور پھر یہ بتائیے کہ جب آپ کا ایک ہاتھ مطبوعہ ہے تو دوسرے ہاتھ کو کیوں غیر مطبوعہ رکھا ہے ؟ اس پر بھی کچھ لکھئے بلکہ اردو میں لکھئے کیونکہ آپ تو اردو کے ادیب ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر اردو کا س کا جائز مقام ملنا چاہئے۔"
میری بات کو سن کر پہلے تو زور دار قہقہ لگایا، پھر گمبھیر ہوکر بولے:
"ہاتھ پر انگریزی میں نام لکھاہو تو کیا ہوتاہے، میراہاتھ تو اردو لکھتا ہے۔"
اردو کے معاملہ میں وہ فوراً گمبھیر ہو جایا کرتے تھے۔


ان کے اس "دستی وزیٹنگ کارڈ" کی وجہ سے ایک زور دار لطیفہ بھی ہوا تھا۔ وہ جب دہلی آتے تو نظام الدین کے ہوٹل راج ووت میں ٹھہرتے۔ ایک رات میں اور کرشن جی ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ نئی نسل کے کچھ نوجوان کاؤنٹر پر کھڑے شراب نوشی میں مصروف ہیں، نوجوان نشے میں دھت تھے کرشن جی کاؤنٹر پر پہنچے تو ایک نوجوان نے قدرے جھک کر ان کے ہاتھ پر گدا ہوا نام پڑھا اور پھر اپنے دو ساتھیوں سے سرگوشی کے انداز میں بولا:"دوستو!ایک کرشن چندر تو وہ ہے جس نے گدھے کی آتم کتھا(سرگزشت)لکی ہے اور ہمارے درمیان اس وقت ایک ایسا کرشن چندر آیا ہے جو اس "آتم کتھا" کا ہیرو ہے۔"نشہ میں سر گوشی بھی کافی بلند ہوجاتی ہے۔ کرشن جی نے جیسے ہی یہ جملہ سنا بے ساختہ قہقہہ لگایا۔ پیارسے اس نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ نوجوان کے اس جملے سے میرے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔ جی میں آئی کہ اس نوجوان کو اس کی بد تمیزی کا احساس دلایاجائے ، مگر جب کرشن جی نے ہی اپنا دوسرا گال بھی ظالم کے آگے پیش کردیا تو بھلا میں کیا کرسکتا تھا۔ تاہم میں نے نوجوان سے کہا:
"برخوردار !تمہیں جس کرشن چندر کا انتظار ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔ فی الحال تمہارے سامنے وہی کرشن چندر ہیں جنہوں نے گدھے کی آتم کتھا لکھی ہے۔"
نوجوان نشے میں تو تھا ہی یہ سنتے ہی احساس ندامت کے مارے کرشن جی کے قدموں میں جھک گیا۔ یہ دیکھ کر اس کے دوسرے ساتھی بھی کرشن جی کے قدم چھونے لگے۔ ان کے منع کرنے کے باوجود یہ نوجوان نہ صرف ان کے پیر چھونے میں مصروف تھے۔ اتنے میں ایک غیر متعلق شرابی وہاں سے گزرا تو وہ بھی بلا سوچے سمجھے کرشن جی کے قدموں میں جھک گیا۔ جب چرن چھو چکا تو ایک ہچکی لے کر بولا:
" آخر معاملہ کیا ہے؟ ان کے چرن کیووں چھوئے جارہے ہیں؟ کیا یہ کوئی مہاتما ہیں؟"


اس پر وہ پھر ایک بار کرشن جی کے چرنوں میں جھک گیا اور کرشن جی ان شرابیوں کی حرکتوں پر مسکراتے رہے۔ وہ غصہ کرنا جانتے ہی نہ تھے، نہ جانے ان کے پاس یپار کی اتنی ساری دولت کہاں سے آگئی تھی۔ ہر ایک کی جھولی اپنے پیار سے بھردیتے تھے۔
کھانے کے وہ بڑے شوقین تھے ، چپٹی چیزیں تو بہت شوق سے کھاتے تھے۔1968ء کی بات ہے ان کے قلب پر پہلے حملے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں مصالحہ دار اور چکنی چیزیں کھانے سے منع کردیا تھا۔ سلمہ آپا( سلمی صدیقی)ان پر کڑی نگرانی رکھتی تھیں کہ یہ کہیں کچھ کھانہ لی ں ، ان دنوں دوکھار کے"گردنواس" والے مکان میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر نے انہیں چہل قدمی کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ میں ان سے ملنے پہنچا تو سلمی آپا سے اجازت لے کر میرے ساتھ چہل قدمی کے ارادے سے سڑک پر نکلے۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ ایک آدھ فرلانگ کی چہل قدمی کے بعد واپس آئیں گے۔ اپنے گھر کے سامنے کی ساری سڑک عبور کی، دوسری سڑک پر مڑ کر دور کچھ دیکھا، اپنی جیب میں کچھ تلاش کیا ، پھر مجھ سے بولے"تمہارے پاس ایک روپیہ ہے ؟" میں نے کہا کرشن جی! بھلا ایک روپیہ کی کیا بات ہے۔" یہ سنتے ہی اپنی چہل قدمی کو تیز کرکے سڑک پر کھڑے ہوئے ایک ٹھیلے کے پاس پہنچے جہاں گرم گرم پکوڑے تل کر بیچے جارہے تھے اور انہوں نے مشین کی سی تیزی کے ساتھ پکوڑے کھانا شروع کردئیے۔ اس وقت ان کے چہرے پر عجیب و غریب معصومیت کھیل رہی تھی۔ میں نے ایسی معصومیت کسی بڑے ادیب کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھی۔ جب کھاچکے تو مجھ سے کہا"تم بھی کھانا چاہو تو کھالینا، بہت اچھے بنے ہیں۔"مجھے ان کی سادگی پر ہنسی آگئی۔ واپسی پر بولے:
"خبردار ! سلمیٰ کو نہیں بتانا۔ یہ عورتیں تو یونہی پریشان رہتی ہیں ، اور ہاں بمبئی میں کتنے دن ٹھہرو گے ؟ جب تک رہو شام میں چہل قدمی کے لئے یہاں چلے آنا۔"


مہمان نوازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ کوئی ملنے جاتا تو اس کے سامنے پھلوں کی پلیٹ رکھ کر خود پھلوں کو کاٹنے میں مصروف ہوجاتے تھے۔ سیب ایسی نفاست سے کاٹتے تھے کہ ایک جگہ چاقو لگادیتے تو سارے چھلکے کو بیک جنبش قلم" اتار دیتے تھے۔ ان کو سیب کاٹتے دیکھنا بھی ایک انوکھی مسرت تھی۔ وہ ایک سیب کاٹ لیتے تو جی کہنے کو چاہتا تھا۔"سبحان اللہ! مرحبا ! مکرر ارشاد ہو! کیا فصاحت ہے ! کیا بلاغت ہے!"


طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے کرشن جی کا رتبہ بہت بلند تھا، اس لئے زندگی میں کہیں بھی کوئی مزاحیہ صورت حال دکھائی دیتی تو وہ اس میں بڑی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ 1966ء میں جب وہ مزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس کی صدارت کرنے کے لئے حیدرآباد آئے تو ہم لوگوں نے عملی مذاق کے طور پر سوچا کہ انہیں حیدرآباد کے مشہور مزاح کار حمایت اللہ کی "مزاحیہ موٹر" میں بٹھایاجائے۔ اس پچاس سال پرانی مزاحیہ موٹر کی خوبی یہ تھی کہ اس کی کوئی چھت نہیں تھی ، پہیے البتہ تھے، سیٹیں بھی کہیں تھیں اور کہیں نہیں تھیں۔ اس موٹر کوبیک وقت تین چار ڈرائیور مل کر چلاتے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں بریک ہوتا، دوسرے کے ہاتھ میں اسٹیرنگ وہیل، تیسرے کے پاؤں میں ایکسلریٹر اور چوتھے کے ہاتھ میں ہارن۔ میں نے کرشن جی سے کہا:
"کرشن جی! ہم ایشیا کے عظیم افسانہ نگار کو ایشیا کی سب سے گھٹیا موٹر میں بٹھا کر جلسہ گاہ میں پہچانا چاہتے ہیں۔" ہنس کر بولے۔اس موٹر کے وسیلے سے اگر تم لوگ مجھے ایشیا کا عظیم افسانہ نگار ماننا چاہتے ہو تو چلو یہ خطرہ بھی مول لیتے ہیں۔"
کرشن جی، سلمی صدیقی اور یوسف ناظم اس موٹر میں بیٹھ گئے۔ باقی جتنے لوگ تھے وہ سب کے سب ڈرائیور بن گئے ، کوئی ڈپٹی ڈرائیور تھا ، کوئی اسسٹنٹ ڈرائیور تھا ، اور ایک تو "مہا چالک" بھی تھا۔کرشن جی اس موٹر میں بیٹھ کر اتنے خوش ہوئے کہ کتنی دیر تک ان کے چہرے پر یہ خوشی دمکتی رہی۔


کرشن جی آخری زمانہ میں دہلی آنے سے بہت گھبرانے لگے تھے۔ کہتے تھے ایک بار آیا تو بھانجہ ایک حادثہ میں چل بسا، دوسری بار آیا تو مہندر ناتھ گزر گئے۔ تیسری بار آیا تو سرلادیوی چلی گئیں۔ آکری مرتبہ وہ جولائی 1976ء میں ایک ہفتہ کے لے دہلی آئے تھے۔ یوں تو روز ہی ملتے تھے لیکن 6/جولائی کو دوپہر میں مجھ سے کہا"میں چاہتا ہوں کہ آج تم میری طر ف سے اپنے دوستوں کو"راج دوت" پر رات کے کھانے پر بلاؤ۔" وقت بہت کم تھا۔ میں فکر تونسوی اور ڈاکٹر گوپی چندر نارنگ ان کے پاس پہنچے ، ان کے چھوٹے بھائی اوم بھی تھے۔ بس یہی ان سے آخری ملاقات تھی۔ قلب پر دو شدید حملوں کے باوجود وہ زندگی سے سرشار تھے۔ ان کا ارادہ ایک انگریزی رسالہ نکالنے کا تھا۔ کہتے تھے میں تم لوگوں کی چیزیں انگریزی میں چھاپوں گا۔


مارچ 1977ء میں جب ان کے قلب پر چوتھا حملہ ہوا اس سے ایک ہفتہ پہلے ان کا ایک خط ملا تھا۔ قلب پر پے بہ پے حملوں کے باوجود وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔ ان میں جینے کا کتنا حوصلہ تھا۔ ہم نے ایسے ادیب بھی دیکھے ہیں جنہیں چھینک بھی آتی ہے تو وصیت نامے لکھنے کو دوڑتے ہیں۔ احباب کو جمع کرتے ہیں ، بیویوں کی چوڑیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خود اپنے تعزیتی جلسوں کا خاکہ تیار کرواتے ہیں۔ کرشن جی نے آخری سانس تک پرانے دوستوں سے کبھی موت کی بات نہیں کی۔ انہیں اپنی موت کی بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ کرشن جی نے اپنے قلم کے ذریعہ سدا زندہ رہنے کا اہتمام کرلیا تھا۔ وہ کرشن جی جو ہمارا شعور ہے۔ ہمارا ذہن ہے اور کرشن چندر کا وہ بانکپن جو ہندوستانی ادب کا حصہ بن چکا ہے بھلا کہیں مرسکتا ہے۔


کرشن جی نہ صرف آنے والے برسوں میں بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی زندہ رہیں گے ، وہ اب ہمارے ادب کے افق پر ایک قوسِ قزح کی طرح تن گئے ہیں اور اس قوسِ قزح کے نیچے سے ادب کے کاررواں گزرتے رہیں گے۔

***
ماخوذ از کتاب: "آدمی نامہ (خاکے)" (اشاعت: 1981ء از: حسامی بکڈپو، حیدرآباد)

Krishan Chander, a literary sketch by: Mujtaba Hussain.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں