امجد اسلام امجد ۔۔۔ اردو ادب کا ایک ایسا ستارہ جس نے برسوں تک ٹوٹتی بکھرتی شاعری اور ادبی محفلوں کو راستہ دکھانے کا کام کیا،آج اسے زمین نگل گئی اور وہ قبر کی تاریکیوں میں کھو گیا۔
جس کی پوری زندگی اردو ادب کی خدمت میں گزری اور یہ خدمت کسی اسکیم کے تحت نہیں تھی۔نہ تو اسکا مطلب اپنی روداد اور بکھری ہوئی یادوں کو شاعری یا افسانہ کی شکل میں مرتب کرنا تھا نہ ہی اسے کوئی ہدف پورا کرنا تھا بلکہ اس نے جو کچھ لکھا وہ پریشان ٹکڑے حقائق ہیں اس کے جسے ہم سماج کہتے ہیں،اور انکا ادب، انکی شاعری بڑے ہی فکری بصیرت اور گیرائی کے بعد لکھے گئے اسی لیے اس میں اسلوب اور بیان کی سطح آپ کو ہمیشہ قائم ملے گی۔
امجد اسلام امجد جدید شعراء میں میرے بہت ہی محبوب شاعروں میں سے ایک تھے جنہیں میں نے سنا اور پڑھا پھر مسلسل سنتا اور پڑھتا چلا گیا۔
میں نے بہت کم شعراء اور ادیب کو دیکھا کہ جنہیں اپنی زندگی میں اتنی پذیرائی ملی ہو یا جسے عوام اور خواص دونوں کے درمیاں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہو مگر امجد اسلام امجد ان خوش نصیب لوگوں کی فہرست میں آتے ہیں جنہیں وقت کے معتبر اور مستند شعراء اور ادیبوں نے بھی ہمیشہ سند کا درجہ دیا بقول احمد ندیم قاسمی امجد ان چند شعرا میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی آزاد نظموں کو بھی اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے ساتھ نہایت حسن اور سلیقے سے وابستہ رکھا ہے۔ وہ نوجوان نسل کے سبھی حساس اور ذہین شعرا کی طرح باغی ہے مگر ان شعرا کے برعکس اپنی بغاوت کی باگیں اس کے اپنے شعور اپنی قوت فیصلہ اور اپنی دیانت کی گرفت میں ہیں۔ چنانچہ اس کی بغاوت، اس کی نظموں کے پیکر میں کم مگر نظموں کے معنی و مفہوم میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔
جن شاعروں کے پاس اعتراف کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ان کی شاعری میں پو کبھی پھوٹتی ہی نہیں کیونکہ اگر محبت کی روشنی میسر نہ ہو تو آسمانوں پر بھی سیاہ سورج طلوع ہونے لگتے ہیں۔ امجد پوری طرح مسلح ہے۔ وہ ان تمام خوفوں سے خلاصی حاصل کر چکا ہے جو یا تو عصر رواں کی سیاست اور دانش نے پیدا کیے ہیں یا بعض اہل فن نے خود ہی پیدا کر لئے ہیں۔امجد ادب کو جس شاعرانہ بصیرت کے ساتھ برت رہا ہے وہ واضح طور پر آج کی شاعری کا مستقبل معین کر رہی ہے۔ امجد کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے جدید شاعری کو ان لوگوں کے چنگل سے نکال لیا جو آزاد نظم میں الفاظ کی اندرونی موسیقی سے چونک اور گھبرا کر الفاظ کی جگہ پتھر لڑھکانے لگتے ہیں یا جو اپنے ہاں جذبہ و خیال کی کمی کو اپنے شاعرانہ "کرافٹ" سے پورا کرتے ہیں اور غیر مانوس لفظوں اور اصطلاحوں کے ردے پر ردا رکھ کر اپنے فن کے گردا گرد ایک فصیل کھڑی کر لیتے ہیں۔ امجد کی نظموں نے ان سب مداریوں کے طلسم توڑ دیئے ہیں۔
بقول مشتاق احمد یوسفی:
امجد اسلام امجد نے ہر صنف میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ بہت لکھا ہے اور بہت اچھا لکھا ہے۔ ان کا ہر نقش، پچھلے نقش سے بہتر ہوتا ہے۔
اسی طرح جون ایلیا ،شہزاد احمد ،پروین شاکر ،گلزار اور درجنوں شعراء اور ادیبوں نے ایک سے بڑھ کر ایک باتیں کہیں ہیں انکے بارے میں جس پر ایک ضخیم مقالہ تیار کیا جا سکتا ہے۔
دھول جیسے قدم سے ملتی ہے
زندگی روز ہم سے ملتی ہے
آج دنیا میں ایسے کتنے ہیں
جن کو شہرت قلم سے ملتی ہے
امجد اسلام امجد کے یہاں شاعری سنانے ،اپنی باتیں رکھنے کا نہایت ہی سادہ مگر دلکش انداز تھا یہی وجہ ہے انہوں نے بہت معمولی وقت میں پورے سماج اور ادبی محفل کو متاثر کیا اور سبھی کو یکساں اپنا قائل کیا۔
کونسی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
جنانچہ یہ سلیقہ آپ کو بحسن وخوبی آتا تھا
یہی وجہ ہے کہ آپ نے جس چیز کو دیکھا بڑی گہری نظر سے دیکھا۔ انکی نظر اسکی جڑوں تک پہونچی اس کے باوجود اگر انکے مشاہدے اور شاعری میں سطحیت جھلکتی محسوس ہو تو یہ اپنا اپنا احساس ہے۔
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
بیان کی سادگی اور طرز تحریر کا جو انداز آپ کو حاصل تھا اس سے آپ بڑی بڑی باتوں کو بہت آسانی سے کہہ جاتے جایا تھے۔
حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
آرزو کا پورا نہ ہونا ہی زندگی کا اصلی مزہ ہے،اسی سوز میں جلنا اور جلتے رہنا انسان کی شان ہے۔
یہاں مسرت سے چمکتی ہوئی آنکھوں کی کوئی تعریف نہیں کرتا۔
یہاں آنسو بہانے والی آنکھیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔
امجد اسلام امجد زندگی سے بہت مطمئن تھے،انہیں کے مطابق کہ اللہ نے انہیں کبھی بہت بڑی آزمائش میں نہیں ڈالا،ساری تمنائیں ایک ایک کرکے پوری ہوئیں،اپنی زندگی اور سماج سے انہیں ایک تکلیف ضرور تھی کہ انہوں نے جس سماج کی تبدیلی کے لیے اتنا زور لگایا،فکر وفن کی نئی نئی جہتوں اور زاویوں سے لوگوں کو روشناس کرایا،اپنے کلام سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا اسکا اثر انہیں سماج پر کبھی دکھا ہی نہیں بلکہ سماج مجموعی طور پر مسلسل زوال پذیر ہے۔
گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ
یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں
امجد اسلام امجد ایک آئینے کا نام تھا اور اس دور میں آئینہ ہوکر پتھروں سے بچ نکلنا معمولی بات نہیں تھی مگر انہیں بچ نکلنے کا جوہر معلوم تھا اسی لیے انکو اپنی شخصیت کو منوانے میں بہت وقت نہیں لگا کیوں کہ ان کے دل میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت ان کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
جب آپ نے زبان کھولی تو ایک لکچرار تھے پھر قلم اٹھایا تو ایک معتبر شاعر،ڈرامہ نگار،مکالمہ نویس،بہترین نقاد تھے جب آپ نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھا تو وہ ایک بے باک کالم نگار بھی تھے، تمام میدانوں میں ان کے جوہر بہت چمکے لیکن انکی موت نے ادبی دنیا کو حیرت اور سکتے میں ڈال دیا امجد اسلام امجد شاید اپنے وقت کے ان چند شعراء میں سے ہیں جنہیں زندگی میں ہی انکے جوہروں کی تابناکی نے بجلی کی چمک حاصل کرا دیا تھا۔ دنیا نے انہیں انکی زندگی میں وہ بلندی عطا کی جس کی لوگ تمنا کرتے کرتے مر جاتے ہیں مگر سوائے چند کے یہ رتبہ سبھی کو نہیں مل پاتا۔
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
امجد اسلام امجد کو بہت پڑھا گیا،ان پر بے بہت سی کتابیں لکھی گئیں،انہیں درس میں پڑھایا جانے لگا۔ اسکے با وجود زندگی نے آج اپنا سفر مکمل کر لیا اور وہ دنیا سے کوچ کر گئے۔ادبی دنیا اس روشن ستارے کی جدائی میں سوگوار ہے، وہ ہماری محفل چھوڑ گئے لیکن انکا قلم انکی وراثت ہے کوئی نہ کوئی بے باک ادیب وشاعر اس کو اٹھا لےگا اور انکی روایت آگے بڑھ جائیگی۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
پھر اس کے بعد عطا ہو گئی مجھے تاثیر
میں رو پڑا تھا کسی کو غزل سناتے ہوئے
میں کچھ پل کے لیے سوچتا ہوں کہ موت کے لیے آخر انکی عمر ہو چلی تھی ،موت کی اکثر یہی عمر تو ہوتی ہے مگر پھر خیال آتا ہے کہ ادیب کی عمر کا پیمانہ ماہ وسال نہیں بلکہ اس کا قلم ہوتا ہے۔
ہم کو معلوم ہے مرنے کے لیے آئے ہیں
پھول ہیں اور بکھرنے کے لیے آئے ہیں
ہم کو کس کام میں الجھائے ہوئے ہے یہ دنیا
ہم تو کچھ اور ہی کرنے کے لیے آئے ہیں
ادب کے ایوان میں امجد اسلام امجد کی آواز اتنی معتبر ثابت ہوئی کہ ابتدا سے ہی بڑے اعتماد اور پروقار انداز میں گونجتی رہی اور لاکھوں سننے والوں کو اپنا ہم خیال بنا کر ہمیشہ کے لیے چپ ہو گئی۔ لیکن کیوں؟
اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ ادب کی نمائندگی کرتے کرتے چپکے سے خاک میں سو جانے والے ادیب کو کیا اس بات کا پتہ ہے کہ پہلے سے زیادہ اب ادبی سماج کو انکی ضرورت ہے۔
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
جہاں تک میں نے امجد اسلام امجد کو پڑھا یا سنا ہے اس لحاظ سے انہوں نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ گفتگو محبت اور وقت پر کیا ہے۔ امجد اسلام امجد کی محبت کی گفتگو کو انکی شاعری سے اگر تھوڑا تھوڑا بھی اکٹھا کیا جائے تو ایک مکمل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔!!
محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ، لہو میں جگمگاتی ہو
ہزاروں طرح کے دلکش ، حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ’’مجھ سے محبت ہے
کہو "مجھ سے محبت ہے"
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری، ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ، ہواؤں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں ، وفا کے استعار ے ہیں ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہر ا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے ، زمانہ ساتھ چلتا ہے
کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمینوں میں
کہ جو اہل محبت کی سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارا کہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے
گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے ، وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تمہیں مجھ سے محبت ہے
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
’’یہ سچ ہے نا
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
اسی تسلسل میں اسے بھی دہراتے چلیں اور اندازہ لگائیں کہ امجد اسلام امجد ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک کائنات کا نام تھا جو اپنے فکر وفن کے لحاظ سے کسی سمندر سے کم نہیں تھا۔۔۔۔!!
زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جا سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں!
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں، بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجانا تھا
بات اس دیئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے، بات رت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو ؟
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
ہوسکے تو سن جاؤ ایک دن اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
جب جب شاعری اور ادب کا احتساب ہوگا اور اسکے نمایا کرداروں پر ذکر جلی چھڑے گا تو امجد اسلام امجد کا نام بھی اس میں شامل ہوگا اور وہ مر کر بھی ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رہے گا لفظوں کی شکل میں،کتابوں کی شکل میں،اپنی شاعری،محبت اور خوبصورت یادوں کی شکل میں۔۔۔۔!!
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں
خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
محمد خان مصباح الدین (مدینہ منورہ، سعودی عرب)
ایمیل: khanmdkhan8[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں